https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Sunday 30 June 2024

بینک میں بطور ضمانت رکھے ہوۓ زیور پر زکوۃ

 سودی معاملہ اور سودی لین دین پر قرآن وحدیث میں سخت وعیدیں آئی ہیں ،اور سودی لین دین قرآن وحدیث کی رو سے حرام ہے،نیز اسلام میں جس طرح سود لینا حرام وناجائز ہے، اسی طرح سود دینا بھی حرام وناجائز ہے اور احادیثِ  مبارکہ میں دونوں پر وعیدیں وارد ہوئی ہیں؛ اس لیے سودی معاہدہ کرنااور سود کی بنیاد پر قرضہ لینا جائز نہیں ہے، تاہم اگر کوئی شخص بینک سے قرض لیتا ہے تو نفسِ قرض کی رقم  حرام نہیں کہلائے گی ، البتہ اس کامعاہدہ اور سود دینے کا عمل  ناجائز وحرام ہوگا۔

ضمانت پر رکھی ہوئی چیز کو شریعت کی اصطلاح میں رہن کہا جاتا ہے اور اس پر زکات کا حکم یہ ہے  گروی (رہن) رکھے ہوئے اشیاء کی زکات   نہ تو راہن کے ذمہ واجب ہوتی ہے اور نہ ہی مرتہن کے ذمہ پر، کیوں کہ زکات   کے وجوب کے لیے مالِ زکات   کی ملکیت اور اس مال پر قبضہ دونوں  شرط ہے، جب کہ راہن (گروی رکھوانے والے) کو  گروی رکھے ہوئے اشیاء  پر قبضہ اور تصرف کا اختیار حاصل نہیں ہوتا،  جب کہ مرتہن (جس کے پاس  گروی رکھاہو) کو گروی کے اشیاء  کی ملکیت حاصل نہیں ہوتی۔

لہذا میں بینک میں قرض کے بدلہ بطور ِ ضمانت رکھے گئے زیورات پر زکات لازم نہیں ہوگی ۔

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"ومنها الملك التام وهو ما اجتمع فيه الملك واليد وأما إذا وجد الملك دون اليد كالصداق قبل القبض أو وجد اليد دون الملك كملك المكاتب والمديون لا تجب فيه الزكاة كذا في السراج الوهاج۔۔۔۔۔۔ولا على الراهن إذا كان الرهن في يد المرتهن هكذا في البحر الرائق".

(کتاب الزکات،ج:1،ص:172،دارالفکر)

No comments:

Post a Comment