https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Saturday 6 July 2024

ادھار سونے کی خریدوفروخت

 واضح رہے کہ سونے کے زیورات  سونے یانقدرقم کے بدلے میں بیچنابیع صرف کہلاتی ہے،اور بیع صرف کےجائز ہونے کے لیے شرط یہ ہےکہ دونوں طرف سے معاملہ نقد ہو،یعنی ایک ہاتھ سے سونے کے زیورات دے جائیں اور دوسرے ہاتھ سے سونا یا نقدرقم لی جائے، کسی بھی جانب  سے ادھار، رباکے دائرے میں آنےکی وجہ سے ناجائزوحرام ہے  ۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل کاگھروالوں کو سوناادھار بیچنااور قسط وار خریدناناجائزوحرام ہے۔

جائز صور ت یہ ہوسکتی ہے کہ سونا گھر والوں کو قرض دے دیا جائے پھر سونے  کے بدلے ان سے  نقدی میں اپنا قرض وصول کرلیا جائے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(هو) لغة الزيادة. وشرعا (بيع الثمن بالثمن) أي ما خلق للثمنية ومنه المصوغ (جنسا بجنس أو بغير جنس) كذهب بفضة (ويشترط) عدم التأجيل والخيار و (التماثل) ۔"

(کتاب البیوع ،باب الصرف، 257/5، ط، دار الفکر)

تعلیمی اداروں میں چھٹیوں کی فیس لینا

 تعلیمی ادارے میں چھٹیوں کے ایام ،تعلیمی ایام کے تابع ہوتے ہیں ؛لہذا صورت ِ مسئولہ میں اسکولز میں دوماہ کی چھٹیوں کی فیس لینا  شرعاً جائز ہے ،اس لیے کہ یہ ایام، تعلیمی ایام کے تابع ہیں  اور اسکول میں بچوں کو داخل کراتے وقت دونوں فریق کو اس کا علم بھی ہوتا ہے اس لیےعرف کی بناء پر بھی  اسکول والوں کا تعطیلات کے ایــام کی فیس لینا جائز ہے۔

فتاوی شامی میں ہے :

"مطلب في استحقاق القاضي والمدرس الوظيفة في يوم ‌البطالة

(قوله: وينبغي إلحاقه ببطالة القاضي إلخ) قال في الأشباه وقد اختلفوا في أخذ القاضي ما رتب له في بيت المال في يوم بطالته، فقال في المحيط: إنه يأخذ لأنه يستريح لليوم الثاني وقيل لا. اهـ. وفي المنية القاضي يستحق الكفاية من بيت المال في يوم ‌البطالة في الأصح، وفي الوهبانية أنه أظهر فينبغي أن يكون كذلك في المدرس؛ لأن يوم ‌البطالة للاستراحة، وفي الحقيقة تكون للمطالعة والتحرير عند ذوي الهمة، ولكن تعارف الفقهاء في زماننا بطالة طويلة أدت إلى أن صار الغالب ‌البطالة، وأيام التدريس قليلة اهـ ورده البيري بما في القنية إن كان الواقف قدر للدرس لكل يوم مبلغا فلم يدرس يوم الجمعة أو الثلاثاء لا يحل له أن يأخذ ويصرف أجر هذين اليومين إلى مصارف المدرسة من المرمة وغيرها بخلاف ما إذا لم يقدر لكل يوم مبلغا، فإنه يحل له الأخذ وإن لم يدرس فيهما للعرف، بخلاف غيرهما من أيام الأسبوع حيث لا يحل له أخذ الأجر عن يوم لم يدرس فيه مطلقا سواء قدر له أجر كل يوم أو لا. اهـ. ط قلت: هذا ظاهر فيما إذا قدر لكل يوم درس فيه مبلغا أما لو قال يعطى المدرس كل يوم كذا فينبغي أن يعطى ليوم ‌البطالة المتعارفة بقرينة ما ذكره في مقابله من البناء على العرف، فحيث كانت ‌البطالة معروفة في يوم الثلاثاء والجمعة وفي رمضان والعيدين يحل الأخذ، وكذا لو بطل في يوم غير معتاد لتحرير درس إلا إذا نص الواقف على تقييد الدفع باليوم الذي يدرس فيه كما قلنا. وفي الفصل الثامن عشر من التتارخانية قال الفقيه أبو الليث ومن يأخذ الأجر من طلبة العلم في يوم لا درس فيه أرجو أن يكون جائزا وفي الحاوي إذا كان مشتغلا بالكتابة والتدريس. اهـ. (قوله: وسيجيء) أي عن نظم الوهبانية بعد قوله مات المؤذن والإمام."

(کتاب الوقف،ج:4،ص:373،سعید)

دوا کمپنی سے اپنی دوکان میں کام کرانا

 اگر میڈیسن کمپنیوں کے نمائندے اپنی ادویات متعارف کروانے کے لیے ڈاکٹر حضرات سے ملتے ہیں اور بغیر کسی شرط کے محض وقت دینے پر ان کا شکریہ ادا کرنے کے لیے کوئی تحفہ دیتے ہیں تو ڈاکٹر حضرات کے لیے مندرجہ ذیل شرائط کا لحاظ رکھتے ہوئے کمپنیوں کی طرف سے ملنے والے تحائف یا کمیشن کا استعمال جائز ہے :

1۔  دوا تجویز کرتے وقت مریض کی مصلحت اور خیر خواہی کو مدنظر رکھا جائے۔

2۔  محض کمیشن، تحائف اور مراعات و سہولیات حاصل کرنے کی خاطر غیر معیاری و غیر ضروری ادویات تجویز نہ کی جائیں۔

3 ۔  کسی دوسری کمپنی کی دوا مریض کے لیے زیادہ مفید ہونے کے باوجود خاص اسی کمپنی ہی کی دوائی تجویز نہ کی جائے۔

4 ۔  دوا ساز کمپنیاں ڈاکٹر کو دیے جانے والے کمیشن، تحفہ اور مراعات کا خرچہ دوائیاں مہنگی کرکے مریض سے وصول نہ کریں، یا خرچہ وصول کرنے کے لیے دوائیوں کے معیار میں کمی نہ کریں۔

اگر ان شرائط کا لحاظ رکھا جائے تو تحائف کا لین دین کمپنی اور ڈاکٹرز کے لیے جائز ہے،لیکن اگر اِن شرائط کا لحاظ نہیں رکھاجاتا ہےاور یہ تحائف، نقد رقم یا دیگر سہولیات اس شرط کے ساتھ دی جاتی ہیں کہ مریضوں کو اسی مخصوص کمپنی کی ادویات تجویز کی جائیں گی اگر چہ اُن کے لیے کسی اور کمپنی کی ادویات زیادہ مفیدہوں،یا محض کمیشن اور تحائف کے خاطر مریضوں کے لیے  غیر معیاری و غیر ضروری ادویات تجویز کی جاتی ہیں تو ایسی صورت میں یہ  رشوت اور خیانت  کا معاملہ ہے جو کہ ناجائز اور حرام ہے۔

 چونکہ کمپنی والوں نے  دکان میں رنگ  وغیرہ کرانے کے بدلےدوائی مہنگی کرنے کی شرط   لگائی ہے ،اور کلینک کا خرچہ اس طرح مریضوں سے وصول کیا جائے گا اس لیے اس شرط پر ڈاکٹر کا کمپنی سے   مذکورہ معاملہ جائز نہیں ہے ۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"رجل اشترى أنزال كرم بشرط أن يبني البائع حيطانه فسد البيع."

(فتاوی ہندیہ، ج:3 ، ص:136،ط: دارالفکر )

فتاوی شامی  میں ہے:

"ولا بیع  بشرط لا یقتضیه العقد ولایلائمه  وفیہ نفع لاحدھما اوالمبیع."

(شامی باب البیع الفاسد،  ج:5،  ص: 84، ط:سعید)

البحر الرائق میں ہے:

"وفي المصباح الرشوة بكسر الراء ما يعطيه الشخص للحاكم وغيره ‌ليحكم ‌له أو يحمله على ما يريد."

(كتاب القضاء، أخذ القضاء بالرشوة، 285/6، ط: دار الكتاب الإسلامي

Friday 5 July 2024

رقم کی منتقلی پر اجرت لینا جائز ہے کہ نہیں

 پیسہ منتقل کرنے کے بدلے جو  رقم وصول کی جاتی ہے وہ سروس چارجز ہونے کی بناء پر سود کے زمرے میں نہیں آتی،لہذااجرت لینا جائز ہے،البتہ  سروس چارجز کی جو  رقم لی جاتی ہے وہ اصل ر قم سے علیحدہ کر کے دی جائے۔

المبسوط للسرخسی میں ہے:

"ولو استأجر رجلا ينقد له الدراهم كل ألف بكذا أو استأجره على كل شهر بكذا ينقد له فهو جائز؛ لأن في الفصل الأول استأجره على عمل معلوم ببدل معلوم والاستئجار على ذلك متعارف بين الناس، وهو الأصل في عقد الإجارة، وفي الفصل الثاني عقد على منافع في مدة معلومة ببدل معلوم ليقيم بتلك المنافع عملا مقصودا"

(کتاب الشروط، ج:30، ص:204، ط:دارالفکر بیروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: للطحان) أي لمسألة قفيز الطحان، وهي كما في البزازية أن يستأجر رجلا ليحمل له طعاما أو يطحنه بقفيز منه فالإجارة فاسدة، ويجب أجر المثل لا يتجاوز به المسمى"

(کتاب البیوع، باب الصرف، مطلب مسائل فی المقاصۃ، ج:5، ص:280، ط:ایچ ایم سعید کمپنی

ایکسپائر اشیاء کی خریدوفروخت

 ایکسپائر  اشیاء کاخوردنوش میں استعمال ہونا بسا اوقات جان لیوا ثابت ہوتا ہے،ایسی چیزوں کی خرید و فروخت قانوناً جرم بھی ہے اور ایکسپائر ہونے کی وجہ سے اگر وہ چیز مضر بن گئی ہو تو ایکسپائر (مدت استعمال سے زائد) ہونے والی ایسی چیز کو فروخت کرنا بھی جائز نہیں ،البتہ  خوردنوش والی چیز کی مدت استعمال ختم ہونے کی باوجود اگر واقعۃً وہ چیز مضر نہیں بنی تو اس کے باوجود خریدار کو اس کے ایکسپائر ہونے سے مطلع کئے بغیر فروخت کرنا جائز نہیں ۔

صحیح مسلم میں ہے:

"عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم مر على صبرة طعام فأدخل يده فيها، فنالت أصابعه بللا فقال:ما هذا يا صاحب الطعام؟ قال أصابته السماء يا رسول الله، قال:أفلا جعلته فوق الطعام كي يراه الناس، من غش فليس مني."

(كتاب الإيمان، ج:١، ص:٩٩، ط:دار إحياء التراث العربي)

ترجمہ:حضرت ابوہریرہ یہ فرماتے ہیں کہ ایک بار حضور اقدس ﷺ ایک اناج (غلہ ) کی ڈھیری کے پاس سے گزرے۔ آپ ﷺ نے اس ڈھیر کے اندر اپنا ہاتھ ڈالا تو آپ ﷺ کو انگلیوں میں تری محسوس ہوئی۔ آپ نے فرمایا: یہ کیا ہے اے اس غلہ کے مالک؟ اس نے کہا اس پر پانی پڑ گیا تھا ( بارش کی وجہ سے ) یار سول اللہ ! آپ ﷺ نے فرمایا: تو تم نے اس گیلے غلہ کو اوپر کیوں نہیں کیا تا کہ لوگ اسے دیکھ سکتے، جس نے دھو کہ دیا وہ مجھ سے نہیں۔ “ ( میرا اس سے کوئی تعلق نہیں)۔

(تفہیم المسلم،ج:1، ص:301،ط: دارالاشاعت کراچی)

قرآن مجید ودیگر کتب دینیہ کی تجارت

 قرآنی نسخوں و دیگر کتبِ دینیہ کی خرید و فروخت جائز ہے، شرعا ممانعت نہیں،   اور یہ  کلام اللہ کو فروخت کرنے کے زمرے  میں داخل نہیں، بلکہ قرآنی   نسخوں و کتب دینیہ   کی خرید و فروخت درحقیقت  ان صفحات کی خرید و فروخت ہے، جس پر کلمات قرآنی و علومِ  دینیہ کی طباعت کی گئی ہے،  یہ تابعین و ائمہ مجتهدين  امام ابو حنیفہ،  امام مالک اور امام شافعی رحمہ اللہ کا مسلک ہے، نیز حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں قرآنی نسخوں کی خرید و فروخت  کا اثر ملتا ہے، جس پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جانب سے اعتراض منقول نہیں۔

كتاب المصاحف لابن أبي داودمیں ہے:

"حدثنا عبد الله حدثنا عبد الله بن سعيد، حدثنا ابن فضل، عن داود قال: سألت أبا العالية عن شراء المصاحف، فقال: " لو لم يوجد من يشتريها لم يوجد من يبيعها. قال وسألت عامرا، فقال: «إنما يبيعون الكتاب والأوراق، ولا يبيعون كتاب الله»"

( بيع المصاحف وشراؤها، ص: ٣٨٥، ط: الفاروق الحديثة - مصر / القاهرة)

خواتین کا ڈاکٹری کا پیشہ اختیار کرنا

 اگر خاتون ڈاکٹر کے لئے ممکن ہو کہ وہ اپنے گھر میں ہی کلینک کرلے اور خواتین اس سے علاج کراسکیں تو اس کی شرعاً اجازت ہے اور اگر ایسا کرنا ممکن نہ ہو تو خاتون ڈاکٹر باپردہ ہو کر کسی محرم کے ساتھ اپنی آمد و رفت کرکے ڈاکٹری کے شعبہ سے منسلک ہوسكتی ہے ، مقصود خواتین کا علاج کرنا ہو(ضرورت واحتیاج حالات و زمانہ  کے لحاظ سے خواتین ڈاکٹر مردوں کا علاج بھی کرسکتی ہیں عام حالات میں صرف خواتین کاعلاج کریں۔) نوکری کے مقام پر باپردہ رہے تو اس کی  گنجائش ہے۔

قال الشيخ محمد بن صالح العثيمين – رحمه الله - : " ولا شك أن تعلم الطب من فروض الكفايات كما قاله أهل العلم ؛ لأن هذا لا تقوم مصالح الناس إلا به ، وما لا تقوم مصالح المسلمين العامة إلا به : كان من فروض الكفايات وإن لم يكن أصله من العبادات ، ولهذا قال العلماء في قواعدهم المقررة العامة : " إن المصالح العامة التي يحتاج الناس إليها تكون فرض كفاية " كالصناعة والنجارة والحدادة وغيرها فإنه إذا لم يقم بها أحد كافٍ صارت فرض كفاية على المسلمين .
فعليه نقول : يجب على أبناء المسلمين في بلاد الإسلام أن يتعلموا مهنة الطب وأن يمارسوها حتى يُستغنى بهم عن غيرهم من النصارى أو غيرهم " انتهى من " فتاوى نور على الدرب " ( شريط 9 ) .
والأصل أن تحرص الطالبة لعلم الطب على بيئة دراسية غير مختلطة ، وتحرص على اختيار بيئة علمية جادة ، وعلى الطالبة المسلمة الالتزام بأحكام الشرع فيما يتعلق بدراستها من حيث النظر إلى العورات ولمسها ، ولا يجوز لها فعل ذلك إلا في حدود الدراسة والتعلم ، ولمس العورة ومشاهدتها ، وإن كانا محرَّمين عليها في الأصل ، إلا أنه لا يتم الآن تعلم الطب إلا من خلال دروس نظرية وأخرى عملية ، فمن أجل تحقيق تلك المصلحة الشرعية بوجود طبيبات مسلمات ، فإنه يجوز للطالبة مشاهدة عورات الرجال والنساء ولمسها لغرض التعلم ، ويستوي في هذا الحكم الطلاب الذكور والطالبات الإناث .
سئل علماء اللجنة الدائمة :
يدرس بكلية الطب أمراض النساء والولادة ، ويوجد حالات عملية يحتم على الطالب مشاهدتها ، وهذا يستلزم النجاح في هذه المادة لكي ينتقل إلى المرحلة التالية ، فهذا يسبب مشاكل لنا ، فنرجو من سماحتكم فتوى في الموضوع .
فأجابوا : " الأصل وجوب ستر العورة من الرجال والنساء ، وعورة الرجل من السرة إلى الركبة ، والحرة كلها عورة إلا وجهها وكفيها في الصلاة والإحرام ، وإذا كانت ترى الرجال الأجانب ويرونها وجب عليها ستر وجهها وبدنها ، سواء كانت في الصلاة أو في إحرام حج أو عمرة ، ويجوز كشف العورة إذا دعت الحاجة إلى ذلك ، ويجوز الاطلاع عليها إذا اقتضت المصلحة الشرعية ذلك ، ومن ذلك اطلاع الطالبات والطلاب على النساء في أثناء إجراء عمليات تتعلق بأمراض النساء والولادة ، وذلك من أجل حصولهم على درجات النجاح في هذه المادة ، من أجل الانتقال إلى المرحلة التالية ، وهكذا حتى يتخرج الطالب والطالبة ، والمصلحة الشرعية المترتبة على القول بجواز ذلك هي توفير عدد كاف من الأطباء والطبيبات من المسلمين ، وإذا منع ذلك في المسلمين نشأ عنه الاحتياج إلى الأطباء والطبيبات من غير المسلمين ، وهذا فيه من المفاسد الشيء الكثير ، وقد جاءت الشريعة الإسلامية بجلب المصالح ودرء المفاسد .
الشيخ عبد العزيز بن باز ، الشيخ عبد الرزاق عفيفي ، الشيخ عبد الله بن غديان .
انتهى من " فتاوى اللجنة الدائمة " ( 24 / 411 ، 412 ) .

بیل کے مادۂ منویہ کی تجارت

 جانوروں کے  مادہ منویہ (اسپرم)  کی خریدوفروخت اور اس کا کاروبار جائز نہیں ہے،تاہم جانوروں کی افزائشِ نسل کے لیے ان کے مادہ منویہ کی تلقیح(مادہ جانور  کو اس کے ذریعہ حاملہ کرانا) جائز ہے۔

صحيح بخاری میں ہے:

"عن نافع، عن ابن عمر رضي الله عنهما، قال: نهى النبي صلى الله عليه وسلم عن عسب الفحل".

(کتاب الاجارۃ،باب: عسب الفحل،ج:2،ص:797،رقم:2164،ط:دار ابن كثير)

شرح مختصر الطحاوي للجصاص میں ہے:

"قال: (ولايجوز بيع عسب الفحل).
قال أحمد: يعني ما يلقح، وذلك لأنه من الملاقيح، وقد نهى عنه رسول الله صلى الله عليه وسلم. وروى ابن عمر أن النبي صلى الله عليه وسلم "نهى عن عسب الفحل". وقال جابر: "نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيع ضرب الفحل."

(ج:3، ص:97، ط:دار البشائر)

گانجہ کا پیپر بیچنا

 گانجے کا پیپرجو  نشہ کے لیے استعمال ہو تا ہےتواگر صرف نشے کے لیے استعمال ہوتا ہے یاخریدار کے متعلق غالب گمان ہے کہ وہ نشے کے لیے استعمال کرے گا تو اس کا بیچنا شرعًا  درست نہیں ہے۔

قرآن کریم میں ہے:

"وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلا تَعَاوَنُوا عَلَى الإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ (المائدة:2)

فتاوی شامی میں ہے:

"‌وما ‌كان ‌سببا ‌لمحظور فهو محظور اهـ."

(كتاب الحظر والإباحة، ج: 6، ص: 350، ط: سعيد

Thursday 4 July 2024

مکان نہ دلوایا تو طلاق کہنا

 شوہر نے بیوی سے مکان دلوانے کا مطالبہ کرکے اس  مطالبے پر طلاق کو معلق کیاہے ، لیکن مکان کے حصول کے لیے کوئی وقت متعین نہیں کیا؛ لہذا  آخرِ عمر  تک انتظار کیاجائے گا،اگر اس وقت تک عورت مکان نہیں دلواسکی تو زوجین میں سے کسی ایک کی بھی موت کے وقت طلاق واقع ہوجائے گی۔"البحرالرائق" میں ہے:

'' (قوله : ليأتينه فلم يأته حتى مات حنث في آخر حياته )؛ لأن البر قبل ذلك موجود ولا خصوصية للإتيان بل كل فعل حلف أنه يفعله في المستقبل وأطلقه ولم يقيده بوقت لم يحنث حتى يقع الإياس عن البر مثل ليضربن زيدا أو ليعطين فلانة أو ليطلقن زوجته وتحقق اليأس عن البر يكون بفوت أحدهما فلذا قال في غاية البيان وأصل هذا أن الحالف في اليمين المطلقة لا يحنث ما دام الحالف والمحلوف عليه قائمين لتصور البر فإذا فات أحدهما فإنه يحنث ا هـ ''۔

"فتاوی شامی" میں ہے:
''مطلب: حلف ليفعلنه بر بمرة ( قوله: لأن النكرة في الإثبات تخص ) أراد بالنكرة المصدر الذي تضمنه الفعل وهذا مبني على التعليل السابق وقد علمت ما فيه .
وفي الفتح لأن الملتزم فعل واحد غير عين إذ المقام للإثبات فيبر بأي فعل ، سواء كان مكرها فيه أو ناسيا أصيلا أو وكيلا عن غيره ، وإذا لم يفعل لا يحكم بوقوع الحنث حتى يقع اليأس عن الفعل ، وذلك بموت الحالف قبل الفعل فيجب عليه أن يوصي بالكفارة أو بفوت محل الفعل كما لو حلف ليضربن زيدا أو ليأكلن هذا الرغيف فمات زيد أو أكل الرغيف قبل أكله وهذا إذا كانت اليمين مطلقة .
''(14/463)فقط واللہ اعلم


تعلیق طلاق کی ایک قسم

  شوہر  نے بیوی کو کہا کہ    "اگر آئندہ تونے میرے کپڑے دھوئے تو       تجھے تین طلاق "        اور اس کے بعد بیوی نے  جان بوجھ کردھوئے یا  غلطی سے   کپڑے دھوئے  تو اس صورت میں تین طلاقیں واقع ہو چکی ہیں ،  اور  حرمت  مغلظہ کے ساتھ  حرام ہو چکی ہے ،لہذا مذکورہ عورت کو چاہیے کہ اپنی مکمل عدت تین ماہواریاں (ـ اگر حمل نہ ہو اگر حمل ہو تو  بچہ کی پیدائش تک ) گزار کر  دوسری جگہ نکاح کر نے میں آزاد ہو گی ۔

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"وإذا أضافه إلى الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقا مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق."

(کتاب الطلاق،الباب الرابع فی الطلاق بالشرط،420/1،دارالفکر)

بینک سے ملنے والی رقم کا مصرف

 

  1. بینک میں ملازمت کرنا نا جائز ہے اور اس سے ملنے والی رقم  وصول کرنا  اور اس کو استعمال کرنا  سب   نا جائز ہے،  لہذا  آپ کو جو رقم بینک سے ملی ہے وہ آپ کے لیے حلال نہیں ہے، اور مالِ حرام پر زکاۃ نہیں ہوتی، بلکہ اس کا حکم یہ ہے کہ اسے ثواب کی نیت کے بغیر کسی غریب کو دینا ضروری ہے۔ لہٰذا  آپ بینک سے ملی ہوئی تمام رقم ثواب کی نیت کے بغیر کسی غریب کو صدقہ کر دیں۔ اگر یک مشت تمام رقم صدقہ نہیں کرسکتے تو  بینک سے حاصل شدہ رقم کا حساب رکھیں اور جتنا جلد ہوسکے حلال ذریعہ آمدن تلاش کرکے مذکورہ تمام رقم بلانیتِ ثواب صدقہ کریں، اس دوران استغفار بھی جاری رکھیں۔'والسبيل في الكسب الخبيث التصدق'۔ (المبسوط للسرخسی، کتاب البیوع، السلم في المسابق والفرا (12/172) ط: دار المعرفۃ ۔ 

Wednesday 3 July 2024

مغرب سے پہلے دورکعت کی تحقیق

 مذکورہ مسئلہ کے دو پہلو ہیں:

1۔۔ مغرب کی اذان اور نماز کے درمیان وقفہ کی مقدار :

اس میں یہ تفصیل ہے کہ عام نمازوں میں اتنے وقفہ کا حکم ہے کہ کھانے والا اپنے کھانے سے، پینے  والا اپنے پینے سے، اور قضائے حاجت کرنے والا قضائے حاجت کرکے فارغ ہوجائے۔مغرب کی نماز میں چوں کہ تعجیل کا حکم ہے؛ اس لیے اس میں اتنا وقفہ کرنا درست نہیں ہے، لیکن بالکل وصل بھی مکروہ ہے، اس لیے اذان اور اقامت کے درمیان کچھ فصل ہونا ضروری ہے، مغرب کی نماز میں اس فصل کی تحدید   میں امام صاحب کا یہ قول ہے کہ ایک سکتہ کے بقدر وقفہ کرے، اور موذن بیٹھے نہیں ، اور ایک سکتہ کی مقدار ان کے ہاں ایک بڑی آیت یا تین چھوٹی آیات کے بقدر ہے، اور ایک روایت کے مطابق تین  خطوات (قدم)چلنے کے بقدر،اور صاحبین رحمہما اللہ  کے نزدیک دو خطبوں کے درمیان جلسہ کے بقدر  وقفہ کرنا کافی ہے، یعنی ان کے بقول مؤذن اتنی مقدار بیٹھے گا کہ زمین  پر تمکن حاصل ہوجائے اور اس میں طوالت  نہ ہو، اور خود امام ابو حنیفہ کا عمل بھی یہی تھا کہ مغرب کی اذان اور نماز  کے درمیان وہ   بیٹھتے نہیں تھے۔

امام صاحب اور صاحبین کا یہ اختلاف  افضلیت میں ہے، اس لیے مغرب کی اذان اور اقامت کے درمیان  بیٹھنا امام صاحب کے نزدیک بھی جائز ہے  اور نہ بیٹھنا اور تین آیتوں کے بقدرکھڑے کھڑے فصل کرنا  صاحبین کے نزدیک بھی جائز ہے۔

حاصل یہ ہے کہ عام حالت میں مغرب کی نماز میں تعجیل افضل ہے، مغرب کی  نماز اور اذان میں صرف ایک بڑی آیت یا تین مختصر آیات کی تلاوت کے بقدر  وقفہ کرکے نماز پڑھ لینی چاہیے،  اور جتنی دیر میں دورکعت ادا کی جاتی ہیں  (یعنی 2 منٹ ) یا اس سے   زیادہ  تاخیر کرنا مکروہِ تنزیہی ہے،اس کا معمول بنانا درست نہیں ہے، اور  بغیر عذر کے اتنی تاخیر کرنا کہ ستارے چمک جائیں  مکروہِ تحریمی ہے۔ (فتاویٰ جامعہ)


  البتہ عذر کی وجہ سے تاخیر مکروہ نہیں ہے،جیساکہ مرض وسفر کی بنا پر  مغرب کو آخر وقت تک مؤخر کرنا اور عشاء کو اول وقت میں پڑھنا درست ہے۔

(مبسوط سرخسی، بدائع، محیط برہانی، تبیین الحقائق،  بنایہ، درر الحکام،  فتح القدیر،  بحر)

2۔۔  دوسرا پہلو یہ ہے کہ  غروب آفتاب کے بعد دو رکعت  نماز پڑھنا، تو احناف کے نزدیک یہ دو رکعت مستحب نہیں ہے،  بلکہ بعض نے مکروہ لکھاہے۔(تحفہ الفقہاء،  بدائع، بنایہ)

ابراہیم نخعی ؒ فرماتے ہیں: یہ بدعت ہے۔ ابوبکر ابن عربی رحمہ فرماتے  ہیں : یہ ابتدائی اسلام میں  تھا؛ تاکہ لوگ منھی عنہ وقت کا نکلنا پہچان لیں، بعد میں تعجیل مغرب کا حکم ہوگیا۔ (بنایہ، اللباب،تبیین)

اور ابن ہمام  رحمہ اللہ کی تحقیق یہ ہے کہ احناف کے نزدیک مستحب تو نہیں ہے، اور دلائل سے زیادہ سے زیادہ استحباب کی نفی ہوتی ہے، ان دو رکعتوں کا مکروہ ہونا واضح نہیں ہوتا،اور جہاں تک اس سے تاخیرِ مغرب ہوگی تو  قنیہ میں ہے قلیل تاخیر جائز ہے،  اور دو رکعت جلدی جلدی پڑھی جائیں تو  اس میں زیادہ تاخیر نہیں ہوتی۔ (فتح القدیر، دررالحکام، در المختار، نھر الفائق)

لیکن  چوں کہ مغرب کی نماز میں تعجیل کا حکم ہے، اور ان دو رکعات کا مستقل معمول تاخیرِ مغرب کا سبب بنے گا  اور فقہاء احناف میں سے بعض نے ان دو رکعت کو مکروہ بھی قراردیا ہے، اور اس میں آگے چل کر یہ اندیشہ بھی ہے کہ کہیں اس کا مستقل معمول نہ بنالیا جائے اور عوام اسے سنت سمجھ کر پڑھنا شروع  نہ کردیں  نیز عام طور پر عوام روانی سے نماز اد انہیں کرسکتے، جس سے مغرب کی نماز میں تاخیر  شروع ہوجائے گی، اس لیے اس کا معمول بنانا درست نہیں ہے، اور اگر پڑھ لی تو ناجائز بھی نہیں ہے، باقی حرم وغیرہ میں اگر کسی نے غروب سے پہلے طواف کیا ہو اور مکروہ وقت کی وجہ سے دوگانہ طواف ادا نہ کرسکا ہو تو وہ وقفہ ملنے کی صورت میں وہ دوگانہ طواف ادا کرسکتا ہے۔

فتح القدير للكمال ابن الهمام (1/ 445):

"ثم الثابت بعد هذا هو نفي المندوبية، أما ثبوت الكراهة فلا إلا أن يدل دليل آخر، وما ذكر من استلزام تأخير المغرب فقد قدمنا من القنية استثناء القليل والركعتان لاتزيد على القليل إذا تجوز فيهما".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 14):

" وحرر إباحة ركعتين خفيفتين قبل المغرب؛ وأقره في البحر والمصنف.

 (قوله: وحرر إباحة ركعتين إلخ) فإنه ذكر أنه ذهبت طائفة إلى ندب فعلهما، وأنه أنكره كثير من السلف وأصحابنا ومالك. واستدل لذلك بما حقه أن يكتب بسواد الأحداق؛ ثم قال: والثابت بعد هذا هو نفي المندوبية، أما ثبوت الكراهة فلا إلا أن يدل دليل آخر، وما ذكر من استلزام تأخير المغرب فقد قدمنا عن القنية استثناء القليل، والركعتان لايزيد على القليل إذا تجوز فيهما اهـ وقدمنا في مواقيت الصلاة بعض الكلام على ذلك".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 376):

"(قوله: وقبل صلاة المغرب) عليه أكثر أهل العلم، منهم أصحابنا ومالك، وأحد الوجهين عن الشافعي، لما ثبت في الصحيحين وغيرهما مما يفيد «أنه صلى الله عليه وسلم كان يواظب على صلاة المغرب بأصحابه عقب الغروب» ، «ولقول ابن عمر - رضي الله عنهما - ما رأيت أحداً على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم يصليهما» رواه أبوداود وسكت عنه والمنذري في مختصره وإسناده حسن. وروى محمد عن أبي حنيفة عن حماد أنه سأل إبراهيم النخعي عن الصلاة قبل المغرب، قال: فنهى عنها، وقال: إن رسول الله  صلى الله عليه وسلم وأبا بكر وعمر لم يكونوا يصلونها. وقال القاضي أبو بكر بن العربي: اختلف الصحابة في ذلك ولم يفعله أحد بعدهم، فهذا يعارض ما روي من فعل الصحابة ومن أمره صلى الله عليه وسلم بصلاتهما؛ لأنه إذا اتفق الناس على ترك العمل بالحديث المرفوع لا يجوز العمل به؛ لأنه دليل ضعفه على ما عرف في موضعه ولو كان ذلك مشتهرا بين الصحابة لما خفي على ابن عمر، أو يحمل ذلك على أنه كان قبل الأمر بتعجيل المغرب، وتمامه في شرحي المنية وغيرهما.

(قوله: لكراهة تأخيره) الأولى تأخيرها أي الصلاة، وقوله إلا يسيرا أفاد أنه ما دون صلاة ركعتين بقدر جلسة، وقدمنا أن الزائد عليه مكروه تنزيها ما لم تشتبك النجوم، وأفاد في الفتح وأقره في الحلية والبحر أن صلاة ركعتين إذا تجوز فيها لا تزيد على اليسير فيباح فعلهما، وقد أطال في تحقيق ذلك في الفتح في باب الوتر والنوافل".

فيض الباري على صحيح البخاري (2/ 227):