اگر میڈیسن کمپنیوں کے نمائندے اپنی ادویات متعارف کروانے کے لیے ڈاکٹر حضرات سے ملتے ہیں اور بغیر کسی شرط کے محض وقت دینے پر ان کا شکریہ ادا کرنے کے لیے کوئی تحفہ دیتے ہیں تو ڈاکٹر حضرات کے لیے مندرجہ ذیل شرائط کا لحاظ رکھتے ہوئے کمپنیوں کی طرف سے ملنے والے تحائف یا کمیشن کا استعمال جائز ہے :
1۔ دوا تجویز کرتے وقت مریض کی مصلحت اور خیر خواہی کو مدنظر رکھا جائے۔
2۔ محض کمیشن، تحائف اور مراعات و سہولیات حاصل کرنے کی خاطر غیر معیاری و غیر ضروری ادویات تجویز نہ کی جائیں۔
3 ۔ کسی دوسری کمپنی کی دوا مریض کے لیے زیادہ مفید ہونے کے باوجود خاص اسی کمپنی ہی کی دوائی تجویز نہ کی جائے۔
4 ۔ دوا ساز کمپنیاں ڈاکٹر کو دیے جانے والے کمیشن، تحفہ اور مراعات کا خرچہ دوائیاں مہنگی کرکے مریض سے وصول نہ کریں، یا خرچہ وصول کرنے کے لیے دوائیوں کے معیار میں کمی نہ کریں۔
اگر ان شرائط کا لحاظ رکھا جائے تو تحائف کا لین دین کمپنی اور ڈاکٹرز کے لیے جائز ہے،لیکن اگر اِن شرائط کا لحاظ نہیں رکھاجاتا ہےاور یہ تحائف، نقد رقم یا دیگر سہولیات اس شرط کے ساتھ دی جاتی ہیں کہ مریضوں کو اسی مخصوص کمپنی کی ادویات تجویز کی جائیں گی اگر چہ اُن کے لیے کسی اور کمپنی کی ادویات زیادہ مفیدہوں،یا محض کمیشن اور تحائف کے خاطر مریضوں کے لیے غیر معیاری و غیر ضروری ادویات تجویز کی جاتی ہیں تو ایسی صورت میں یہ رشوت اور خیانت کا معاملہ ہے جو کہ ناجائز اور حرام ہے۔
چونکہ کمپنی والوں نے دکان میں رنگ وغیرہ کرانے کے بدلےدوائی مہنگی کرنے کی شرط لگائی ہے ،اور کلینک کا خرچہ اس طرح مریضوں سے وصول کیا جائے گا اس لیے اس شرط پر ڈاکٹر کا کمپنی سے مذکورہ معاملہ جائز نہیں ہے ۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"رجل اشترى أنزال كرم بشرط أن يبني البائع حيطانه فسد البيع."
(فتاوی ہندیہ، ج:3 ، ص:136،ط: دارالفکر )
فتاوی شامی میں ہے:
"ولا بیع بشرط لا یقتضیه العقد ولایلائمه وفیہ نفع لاحدھما اوالمبیع."
(شامی باب البیع الفاسد، ج:5، ص: 84، ط:سعید)
البحر الرائق میں ہے:
"وفي المصباح الرشوة بكسر الراء ما يعطيه الشخص للحاكم وغيره ليحكم له أو يحمله على ما يريد."
(كتاب القضاء، أخذ القضاء بالرشوة، 285/6، ط: دار الكتاب الإسلامي
No comments:
Post a Comment