https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Saturday 6 July 2024

اوکٹا یااولیمپ پےٹریڈ کاحکم

 octafx اور  olymp  وغیرہ کے ذریعے آن لائن ٹریڈنگ کی جاتی ہے، ان میں ٹریڈنگ کے لیے  اکاؤنٹ میں پیسے جمع کر کے اسے آن لائن کرنسی یا الیکٹرانک منی میں تبدیل کر کے کرنسی کی خرید و فروخت کرتے ہیں، اس کے ذریعے پیسے کمانا درج ذیل وجوہات کی بنا پر ناجائز ہے:

(1)  کرنسی کی بیع شرعاً "بیعِ صرف" ہے، جس  میں بدلین پر مجلس میں قبضہ ضروری ہے جب کہ دونوں جانب سے یا کسی ایک جانب سے ادھار ناجائز ہے،لہذا اسپاٹ ٹریڈ ہو یا فیوچر ٹریڈ، ایسے تمام سودے ناجائز ہیں  جن میں کرنسی کی خریدوفروخت ادھار ہوتی ہے، یا نقد ہوتی ہے مگر عقد کے دونوں فریق  یا کوئی ایک فریق اپنے حق پر قبضہ نہیں کرتا۔ حاصل یہ ہے کہ  تقابض نہ پائےجانے کی وجہ سے ایسے سودے فاسد ہوں گے اور نفع حلال نہ ہوگا۔

(2) مسلمہ (طے شدہ) اصول ہے کہ بیع شرطِ فاسد  سے فاسد ہو جاتی ہے،ان پلیٹ فارم کے ذریعے بڑے پیمانے پر فاریکس ٹریڈنگ ہوتی ہے "فاریکس" کے کاروبار میں شروطِ فاسدہ بھی لگائی جاتی ہیں، مثلاً swaps( بیع بشرط الاقالہ) میں یہ شرط لگانا کہ ایک مقررہ مدت کے بعد بیع کو  ختم کیا جائے گا، حال آں کہ بیع تام ہو جانے بعد لازم ہوجاتی ہے اور جانبین کا اختیار ختم ہو جاتا ہے۔ 

(3) نیز Options میں خریدار کو یہ حق دینا کہ وہ اپنی بیع کو  سامنے والے فریق کی رضا مندی کے بغیر بھی "اقالہ" کرسکتا ہے۔ یہ بھی شرطِ فاسد ہے، کیوں کہ "اقالہ" میں جانبین کی رضامندی شرط  ہوتی ہے۔

(4) اس میں فیوچر سیل بھی ناجائز ہے؛ کیوں کہ  بیع  کا فوری ہوناضروری ہے،مستقبل کی تاریخ پر خریدوفروخت ناجائز ہے۔

(5) اس  طریقہ کاروبار میں ایک قباحت "بیع قبل القبض" کی بھی ہے؛ کیوں کہ ستر ،اسی فیصد لوگ اس مارکیٹ میں خریداری محض کرنسی ریٹ کےاتارچڑہاؤ کے ذریعہ نفع حاصل کرنے کےلیے کرتے ہیں، ان کا مقصد کرنسی حاصل کرنا نہیں ہوتا؛ لہذا اکثر خریدارکرنسی کا قبضہ حاصل نہیں کرتے اور آگے بیچ دیتے ہیں۔

امتحان سے بچی ہوئی رقم کالوٹانا

 طلبہ سے امتحاني فيس کے نام سے جو رقم لی جاتی ہے،وہ امتحان کے متعلق کاموں میں استعمال کرنا ضروری ہے،اگر امتحان کے بعد  کچھ رقم بچ جائے،تو علی الحساب هر طالب علم كو  رقم واپس  لوٹانا ضروری ہے، تاہم ا گر امتحانی فیس  کے نام سے رقم لیتے وقت اگر طلبہ سے اجازت لے لی جائے کہ بچ جانے والی رقم ادارہ اپنی صواب دید پر مدرسہ کی دیگر  ضروریات اور مصارف میں خرچ کرے گا،تو یہ اجازت معتبر ہوگی،اس کے بعد بچ جانے والی رقم کو مدرسہ کی دیگر  ضروریات میں خرچ کرنا جائز ہوگا، تاہم  نابالغ طالب علم  کی فیس اگر اس کے مال سے دی جاتی ہو تو  اس  میں سے بچی ہوئی رقم واپس کرنا ضروری  ہوگا؛ کیوں کہ  نابالغ ہبہ کرنا کا اہل نہیں ہوتا،اگر چہ ولی اس کی اجازت دے۔

مشکوٰۃ المصابیح میں ہے:

"وعن أبي حرة الرقاشي عن عمه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «‌ألا لا ‌تظلموا ‌ألا ‌لا يحل مال امرئ ‌إلا بطيب نفس منه. رواه البيهقي في شعب الإيمان والدارقطني في المجتبى."

(289/2، ط :المكتب الإسلامي - بيروت

فتاوی شامی میں ہے:

"(وتصرف الصبي والمعتوه) الذي يعقل البيع والشراء (إن كان نافعا) محضا (كالإسلام والاتهاب صح بلا إذن وإن ضارا كالطلاق والعتاق) والصدقة والقرض (لا).

(قوله والاتهاب) أي قبول الهبة وقبضها وكذا الصدقة قهستاني (قوله وإن ضارا) أي من كل وجه أي ضررا دنيويا، وإن كان فيه نفع أخروي كالصدقة والقرض (قوله كالطلاق والعتاق) ولو على مال فإنهما وضعا لإزالة الملك وهي ضرر محض، ولا يضر سقوط النفقة بالأول وحصول الثواب بالثاني، وغير ذلك مما لم يوضعا له إذ الاعتبار للوضع وكذا الهبة والصدقة وغيرهما قهستاني (قوله: لا وإن أذن به وليهما) لاشتراط الأهلية الكاملة، وكذا لو أجازه بعد بلوغه إلا إذا كانت بلفظ يصلح لابتداء العقد كأوقعت الطلاق أو العتاق، وكذا لا تصح من غيره كأبيه ووصيه والقاضي للضرر."

(‌‌كتاب المأذون، 173/6، ط: سعید)

سوشل میڈیا پرمخصوص فالوورزکی مقداپررقم کاملنا

 انسٹاگرام یا کسی بھی سوشل میڈیا(یوٹیوب، فیسبوک وغیرہ) کی آمدنی ناجائز ہے؛ کیوں کہ انسٹاگرام یا کسی بھی سوشل میڈیا(یوٹیوب، فیسبوک وغیرہ) کے استعمال کرنے میں بہت ساری غیر شرعی چیزوں کا ارتکاب کیا جاتاہے، مثلاً   جان د ار  کی تصویر یا جاندار کی ویڈیو ،یامیوزک وموسیقی والی ویڈیو اپ لوڈ کی جاتی ہےاورغیر شرعی  اشتہار کا شیئر کیا جاتاہے، نیز اگر صرف تاریخی مساجد کی تصاویر   اور اسلامی معلومات شیئر کی جاتی ہوں  تب  بھی، انسٹاگرام ، یوٹیوب وغیرہ کی طرف سے لگائے جانے والے  اشتہار میں مذکورہ خرابیاں پائی جاتی ہیں۔

لہٰذا سوشل میڈیا  پر چینل/پیج بنا کر اسے کمائی کا ذریعہ بنانا جائز نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"‌وظاهر ‌كلام ‌النووي في شرح مسلم الإجماع على تحريم تصوير الحيوان، وقال: وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره، فصنعته حرام بكل حال لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى، وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم وإناء وحائط وغيرها اهـ فينبغي أن يكون حراما لا مكروها إن ثبت الإجماع أو قطعية الدليل بتواتره اهـ كلام البحر ملخصا."

[كتاب الصلاة، باب مايفسد الصلاة، ج:1، ص:647، ط:سعيد]

مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر:

" لايجوز أخذ الأجرة على المعاصي (كالغناء، والنوح، والملاهي)؛ لأن المعصية لايتصور استحقاقها بالعقد فلايجب عليه الأجر، وإن أعطاه الأجر وقبضه لايحل له ويجب عليه رده على صاحبه. وفي المحيط: إذا أخذ المال من غير شرط يباح له؛ لأنه عن طوع من غير عقد. وفي شرح الكافي: لايجوز الإجارة على شيء من الغناء والنوح، والمزامير، والطبل أو شيء من اللهو ولا على قراءة الشعر ولا أجر في ذلك. وفي الولوالجي: رجل استأجر رجلاً ليضرب له الطبل إن كان للهو لايجوز، وإن كان للغزو أو القافلة أو العرس يجوز؛ لأنه مباح فيها."

[كتاب الإجارة، باب الإجارة الفاسدة،ج:2، ص:364، ط:دار إحياء التراث العربي]

فتاوی رحیمیہ میں ہے:

"ذی روح اور غیر ذ ی روح اشیاء میں وہ چیز جس کی پرستش کی جاتی ہو(جیسا کہ صلیب) اس کی تصویر بنانی جائز نہیں۔"

(کتاب الحظر والاباحہ، ج:۱۰، ص:۱۴۶، ط:دار الاشاعت

ادھار سونے کی خریدوفروخت

 واضح رہے کہ سونے کے زیورات  سونے یانقدرقم کے بدلے میں بیچنابیع صرف کہلاتی ہے،اور بیع صرف کےجائز ہونے کے لیے شرط یہ ہےکہ دونوں طرف سے معاملہ نقد ہو،یعنی ایک ہاتھ سے سونے کے زیورات دے جائیں اور دوسرے ہاتھ سے سونا یا نقدرقم لی جائے، کسی بھی جانب  سے ادھار، رباکے دائرے میں آنےکی وجہ سے ناجائزوحرام ہے  ۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل کاگھروالوں کو سوناادھار بیچنااور قسط وار خریدناناجائزوحرام ہے۔

جائز صور ت یہ ہوسکتی ہے کہ سونا گھر والوں کو قرض دے دیا جائے پھر سونے  کے بدلے ان سے  نقدی میں اپنا قرض وصول کرلیا جائے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(هو) لغة الزيادة. وشرعا (بيع الثمن بالثمن) أي ما خلق للثمنية ومنه المصوغ (جنسا بجنس أو بغير جنس) كذهب بفضة (ويشترط) عدم التأجيل والخيار و (التماثل) ۔"

(کتاب البیوع ،باب الصرف، 257/5، ط، دار الفکر)

تعلیمی اداروں میں چھٹیوں کی فیس لینا

 تعلیمی ادارے میں چھٹیوں کے ایام ،تعلیمی ایام کے تابع ہوتے ہیں ؛لہذا صورت ِ مسئولہ میں اسکولز میں دوماہ کی چھٹیوں کی فیس لینا  شرعاً جائز ہے ،اس لیے کہ یہ ایام، تعلیمی ایام کے تابع ہیں  اور اسکول میں بچوں کو داخل کراتے وقت دونوں فریق کو اس کا علم بھی ہوتا ہے اس لیےعرف کی بناء پر بھی  اسکول والوں کا تعطیلات کے ایــام کی فیس لینا جائز ہے۔

فتاوی شامی میں ہے :

"مطلب في استحقاق القاضي والمدرس الوظيفة في يوم ‌البطالة

(قوله: وينبغي إلحاقه ببطالة القاضي إلخ) قال في الأشباه وقد اختلفوا في أخذ القاضي ما رتب له في بيت المال في يوم بطالته، فقال في المحيط: إنه يأخذ لأنه يستريح لليوم الثاني وقيل لا. اهـ. وفي المنية القاضي يستحق الكفاية من بيت المال في يوم ‌البطالة في الأصح، وفي الوهبانية أنه أظهر فينبغي أن يكون كذلك في المدرس؛ لأن يوم ‌البطالة للاستراحة، وفي الحقيقة تكون للمطالعة والتحرير عند ذوي الهمة، ولكن تعارف الفقهاء في زماننا بطالة طويلة أدت إلى أن صار الغالب ‌البطالة، وأيام التدريس قليلة اهـ ورده البيري بما في القنية إن كان الواقف قدر للدرس لكل يوم مبلغا فلم يدرس يوم الجمعة أو الثلاثاء لا يحل له أن يأخذ ويصرف أجر هذين اليومين إلى مصارف المدرسة من المرمة وغيرها بخلاف ما إذا لم يقدر لكل يوم مبلغا، فإنه يحل له الأخذ وإن لم يدرس فيهما للعرف، بخلاف غيرهما من أيام الأسبوع حيث لا يحل له أخذ الأجر عن يوم لم يدرس فيه مطلقا سواء قدر له أجر كل يوم أو لا. اهـ. ط قلت: هذا ظاهر فيما إذا قدر لكل يوم درس فيه مبلغا أما لو قال يعطى المدرس كل يوم كذا فينبغي أن يعطى ليوم ‌البطالة المتعارفة بقرينة ما ذكره في مقابله من البناء على العرف، فحيث كانت ‌البطالة معروفة في يوم الثلاثاء والجمعة وفي رمضان والعيدين يحل الأخذ، وكذا لو بطل في يوم غير معتاد لتحرير درس إلا إذا نص الواقف على تقييد الدفع باليوم الذي يدرس فيه كما قلنا. وفي الفصل الثامن عشر من التتارخانية قال الفقيه أبو الليث ومن يأخذ الأجر من طلبة العلم في يوم لا درس فيه أرجو أن يكون جائزا وفي الحاوي إذا كان مشتغلا بالكتابة والتدريس. اهـ. (قوله: وسيجيء) أي عن نظم الوهبانية بعد قوله مات المؤذن والإمام."

(کتاب الوقف،ج:4،ص:373،سعید)

دوا کمپنی سے اپنی دوکان میں کام کرانا

 اگر میڈیسن کمپنیوں کے نمائندے اپنی ادویات متعارف کروانے کے لیے ڈاکٹر حضرات سے ملتے ہیں اور بغیر کسی شرط کے محض وقت دینے پر ان کا شکریہ ادا کرنے کے لیے کوئی تحفہ دیتے ہیں تو ڈاکٹر حضرات کے لیے مندرجہ ذیل شرائط کا لحاظ رکھتے ہوئے کمپنیوں کی طرف سے ملنے والے تحائف یا کمیشن کا استعمال جائز ہے :

1۔  دوا تجویز کرتے وقت مریض کی مصلحت اور خیر خواہی کو مدنظر رکھا جائے۔

2۔  محض کمیشن، تحائف اور مراعات و سہولیات حاصل کرنے کی خاطر غیر معیاری و غیر ضروری ادویات تجویز نہ کی جائیں۔

3 ۔  کسی دوسری کمپنی کی دوا مریض کے لیے زیادہ مفید ہونے کے باوجود خاص اسی کمپنی ہی کی دوائی تجویز نہ کی جائے۔

4 ۔  دوا ساز کمپنیاں ڈاکٹر کو دیے جانے والے کمیشن، تحفہ اور مراعات کا خرچہ دوائیاں مہنگی کرکے مریض سے وصول نہ کریں، یا خرچہ وصول کرنے کے لیے دوائیوں کے معیار میں کمی نہ کریں۔

اگر ان شرائط کا لحاظ رکھا جائے تو تحائف کا لین دین کمپنی اور ڈاکٹرز کے لیے جائز ہے،لیکن اگر اِن شرائط کا لحاظ نہیں رکھاجاتا ہےاور یہ تحائف، نقد رقم یا دیگر سہولیات اس شرط کے ساتھ دی جاتی ہیں کہ مریضوں کو اسی مخصوص کمپنی کی ادویات تجویز کی جائیں گی اگر چہ اُن کے لیے کسی اور کمپنی کی ادویات زیادہ مفیدہوں،یا محض کمیشن اور تحائف کے خاطر مریضوں کے لیے  غیر معیاری و غیر ضروری ادویات تجویز کی جاتی ہیں تو ایسی صورت میں یہ  رشوت اور خیانت  کا معاملہ ہے جو کہ ناجائز اور حرام ہے۔

 چونکہ کمپنی والوں نے  دکان میں رنگ  وغیرہ کرانے کے بدلےدوائی مہنگی کرنے کی شرط   لگائی ہے ،اور کلینک کا خرچہ اس طرح مریضوں سے وصول کیا جائے گا اس لیے اس شرط پر ڈاکٹر کا کمپنی سے   مذکورہ معاملہ جائز نہیں ہے ۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"رجل اشترى أنزال كرم بشرط أن يبني البائع حيطانه فسد البيع."

(فتاوی ہندیہ، ج:3 ، ص:136،ط: دارالفکر )

فتاوی شامی  میں ہے:

"ولا بیع  بشرط لا یقتضیه العقد ولایلائمه  وفیہ نفع لاحدھما اوالمبیع."

(شامی باب البیع الفاسد،  ج:5،  ص: 84، ط:سعید)

البحر الرائق میں ہے:

"وفي المصباح الرشوة بكسر الراء ما يعطيه الشخص للحاكم وغيره ‌ليحكم ‌له أو يحمله على ما يريد."

(كتاب القضاء، أخذ القضاء بالرشوة، 285/6، ط: دار الكتاب الإسلامي

Friday 5 July 2024

رقم کی منتقلی پر اجرت لینا جائز ہے کہ نہیں

 پیسہ منتقل کرنے کے بدلے جو  رقم وصول کی جاتی ہے وہ سروس چارجز ہونے کی بناء پر سود کے زمرے میں نہیں آتی،لہذااجرت لینا جائز ہے،البتہ  سروس چارجز کی جو  رقم لی جاتی ہے وہ اصل ر قم سے علیحدہ کر کے دی جائے۔

المبسوط للسرخسی میں ہے:

"ولو استأجر رجلا ينقد له الدراهم كل ألف بكذا أو استأجره على كل شهر بكذا ينقد له فهو جائز؛ لأن في الفصل الأول استأجره على عمل معلوم ببدل معلوم والاستئجار على ذلك متعارف بين الناس، وهو الأصل في عقد الإجارة، وفي الفصل الثاني عقد على منافع في مدة معلومة ببدل معلوم ليقيم بتلك المنافع عملا مقصودا"

(کتاب الشروط، ج:30، ص:204، ط:دارالفکر بیروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: للطحان) أي لمسألة قفيز الطحان، وهي كما في البزازية أن يستأجر رجلا ليحمل له طعاما أو يطحنه بقفيز منه فالإجارة فاسدة، ويجب أجر المثل لا يتجاوز به المسمى"

(کتاب البیوع، باب الصرف، مطلب مسائل فی المقاصۃ، ج:5، ص:280، ط:ایچ ایم سعید کمپنی

ایکسپائر اشیاء کی خریدوفروخت

 ایکسپائر  اشیاء کاخوردنوش میں استعمال ہونا بسا اوقات جان لیوا ثابت ہوتا ہے،ایسی چیزوں کی خرید و فروخت قانوناً جرم بھی ہے اور ایکسپائر ہونے کی وجہ سے اگر وہ چیز مضر بن گئی ہو تو ایکسپائر (مدت استعمال سے زائد) ہونے والی ایسی چیز کو فروخت کرنا بھی جائز نہیں ،البتہ  خوردنوش والی چیز کی مدت استعمال ختم ہونے کی باوجود اگر واقعۃً وہ چیز مضر نہیں بنی تو اس کے باوجود خریدار کو اس کے ایکسپائر ہونے سے مطلع کئے بغیر فروخت کرنا جائز نہیں ۔

صحیح مسلم میں ہے:

"عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم مر على صبرة طعام فأدخل يده فيها، فنالت أصابعه بللا فقال:ما هذا يا صاحب الطعام؟ قال أصابته السماء يا رسول الله، قال:أفلا جعلته فوق الطعام كي يراه الناس، من غش فليس مني."

(كتاب الإيمان، ج:١، ص:٩٩، ط:دار إحياء التراث العربي)

ترجمہ:حضرت ابوہریرہ یہ فرماتے ہیں کہ ایک بار حضور اقدس ﷺ ایک اناج (غلہ ) کی ڈھیری کے پاس سے گزرے۔ آپ ﷺ نے اس ڈھیر کے اندر اپنا ہاتھ ڈالا تو آپ ﷺ کو انگلیوں میں تری محسوس ہوئی۔ آپ نے فرمایا: یہ کیا ہے اے اس غلہ کے مالک؟ اس نے کہا اس پر پانی پڑ گیا تھا ( بارش کی وجہ سے ) یار سول اللہ ! آپ ﷺ نے فرمایا: تو تم نے اس گیلے غلہ کو اوپر کیوں نہیں کیا تا کہ لوگ اسے دیکھ سکتے، جس نے دھو کہ دیا وہ مجھ سے نہیں۔ “ ( میرا اس سے کوئی تعلق نہیں)۔

(تفہیم المسلم،ج:1، ص:301،ط: دارالاشاعت کراچی)

قرآن مجید ودیگر کتب دینیہ کی تجارت

 قرآنی نسخوں و دیگر کتبِ دینیہ کی خرید و فروخت جائز ہے، شرعا ممانعت نہیں،   اور یہ  کلام اللہ کو فروخت کرنے کے زمرے  میں داخل نہیں، بلکہ قرآنی   نسخوں و کتب دینیہ   کی خرید و فروخت درحقیقت  ان صفحات کی خرید و فروخت ہے، جس پر کلمات قرآنی و علومِ  دینیہ کی طباعت کی گئی ہے،  یہ تابعین و ائمہ مجتهدين  امام ابو حنیفہ،  امام مالک اور امام شافعی رحمہ اللہ کا مسلک ہے، نیز حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں قرآنی نسخوں کی خرید و فروخت  کا اثر ملتا ہے، جس پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جانب سے اعتراض منقول نہیں۔

كتاب المصاحف لابن أبي داودمیں ہے:

"حدثنا عبد الله حدثنا عبد الله بن سعيد، حدثنا ابن فضل، عن داود قال: سألت أبا العالية عن شراء المصاحف، فقال: " لو لم يوجد من يشتريها لم يوجد من يبيعها. قال وسألت عامرا، فقال: «إنما يبيعون الكتاب والأوراق، ولا يبيعون كتاب الله»"

( بيع المصاحف وشراؤها، ص: ٣٨٥، ط: الفاروق الحديثة - مصر / القاهرة)

خواتین کا ڈاکٹری کا پیشہ اختیار کرنا

 اگر خاتون ڈاکٹر کے لئے ممکن ہو کہ وہ اپنے گھر میں ہی کلینک کرلے اور خواتین اس سے علاج کراسکیں تو اس کی شرعاً اجازت ہے اور اگر ایسا کرنا ممکن نہ ہو تو خاتون ڈاکٹر باپردہ ہو کر کسی محرم کے ساتھ اپنی آمد و رفت کرکے ڈاکٹری کے شعبہ سے منسلک ہوسكتی ہے ، مقصود خواتین کا علاج کرنا ہو(ضرورت واحتیاج حالات و زمانہ  کے لحاظ سے خواتین ڈاکٹر مردوں کا علاج بھی کرسکتی ہیں عام حالات میں صرف خواتین کاعلاج کریں۔) نوکری کے مقام پر باپردہ رہے تو اس کی  گنجائش ہے۔

قال الشيخ محمد بن صالح العثيمين – رحمه الله - : " ولا شك أن تعلم الطب من فروض الكفايات كما قاله أهل العلم ؛ لأن هذا لا تقوم مصالح الناس إلا به ، وما لا تقوم مصالح المسلمين العامة إلا به : كان من فروض الكفايات وإن لم يكن أصله من العبادات ، ولهذا قال العلماء في قواعدهم المقررة العامة : " إن المصالح العامة التي يحتاج الناس إليها تكون فرض كفاية " كالصناعة والنجارة والحدادة وغيرها فإنه إذا لم يقم بها أحد كافٍ صارت فرض كفاية على المسلمين .
فعليه نقول : يجب على أبناء المسلمين في بلاد الإسلام أن يتعلموا مهنة الطب وأن يمارسوها حتى يُستغنى بهم عن غيرهم من النصارى أو غيرهم " انتهى من " فتاوى نور على الدرب " ( شريط 9 ) .
والأصل أن تحرص الطالبة لعلم الطب على بيئة دراسية غير مختلطة ، وتحرص على اختيار بيئة علمية جادة ، وعلى الطالبة المسلمة الالتزام بأحكام الشرع فيما يتعلق بدراستها من حيث النظر إلى العورات ولمسها ، ولا يجوز لها فعل ذلك إلا في حدود الدراسة والتعلم ، ولمس العورة ومشاهدتها ، وإن كانا محرَّمين عليها في الأصل ، إلا أنه لا يتم الآن تعلم الطب إلا من خلال دروس نظرية وأخرى عملية ، فمن أجل تحقيق تلك المصلحة الشرعية بوجود طبيبات مسلمات ، فإنه يجوز للطالبة مشاهدة عورات الرجال والنساء ولمسها لغرض التعلم ، ويستوي في هذا الحكم الطلاب الذكور والطالبات الإناث .
سئل علماء اللجنة الدائمة :
يدرس بكلية الطب أمراض النساء والولادة ، ويوجد حالات عملية يحتم على الطالب مشاهدتها ، وهذا يستلزم النجاح في هذه المادة لكي ينتقل إلى المرحلة التالية ، فهذا يسبب مشاكل لنا ، فنرجو من سماحتكم فتوى في الموضوع .
فأجابوا : " الأصل وجوب ستر العورة من الرجال والنساء ، وعورة الرجل من السرة إلى الركبة ، والحرة كلها عورة إلا وجهها وكفيها في الصلاة والإحرام ، وإذا كانت ترى الرجال الأجانب ويرونها وجب عليها ستر وجهها وبدنها ، سواء كانت في الصلاة أو في إحرام حج أو عمرة ، ويجوز كشف العورة إذا دعت الحاجة إلى ذلك ، ويجوز الاطلاع عليها إذا اقتضت المصلحة الشرعية ذلك ، ومن ذلك اطلاع الطالبات والطلاب على النساء في أثناء إجراء عمليات تتعلق بأمراض النساء والولادة ، وذلك من أجل حصولهم على درجات النجاح في هذه المادة ، من أجل الانتقال إلى المرحلة التالية ، وهكذا حتى يتخرج الطالب والطالبة ، والمصلحة الشرعية المترتبة على القول بجواز ذلك هي توفير عدد كاف من الأطباء والطبيبات من المسلمين ، وإذا منع ذلك في المسلمين نشأ عنه الاحتياج إلى الأطباء والطبيبات من غير المسلمين ، وهذا فيه من المفاسد الشيء الكثير ، وقد جاءت الشريعة الإسلامية بجلب المصالح ودرء المفاسد .
الشيخ عبد العزيز بن باز ، الشيخ عبد الرزاق عفيفي ، الشيخ عبد الله بن غديان .
انتهى من " فتاوى اللجنة الدائمة " ( 24 / 411 ، 412 ) .

بیل کے مادۂ منویہ کی تجارت

 جانوروں کے  مادہ منویہ (اسپرم)  کی خریدوفروخت اور اس کا کاروبار جائز نہیں ہے،تاہم جانوروں کی افزائشِ نسل کے لیے ان کے مادہ منویہ کی تلقیح(مادہ جانور  کو اس کے ذریعہ حاملہ کرانا) جائز ہے۔

صحيح بخاری میں ہے:

"عن نافع، عن ابن عمر رضي الله عنهما، قال: نهى النبي صلى الله عليه وسلم عن عسب الفحل".

(کتاب الاجارۃ،باب: عسب الفحل،ج:2،ص:797،رقم:2164،ط:دار ابن كثير)

شرح مختصر الطحاوي للجصاص میں ہے:

"قال: (ولايجوز بيع عسب الفحل).
قال أحمد: يعني ما يلقح، وذلك لأنه من الملاقيح، وقد نهى عنه رسول الله صلى الله عليه وسلم. وروى ابن عمر أن النبي صلى الله عليه وسلم "نهى عن عسب الفحل". وقال جابر: "نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيع ضرب الفحل."

(ج:3، ص:97، ط:دار البشائر)

گانجہ کا پیپر بیچنا

 گانجے کا پیپرجو  نشہ کے لیے استعمال ہو تا ہےتواگر صرف نشے کے لیے استعمال ہوتا ہے یاخریدار کے متعلق غالب گمان ہے کہ وہ نشے کے لیے استعمال کرے گا تو اس کا بیچنا شرعًا  درست نہیں ہے۔

قرآن کریم میں ہے:

"وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلا تَعَاوَنُوا عَلَى الإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ (المائدة:2)

فتاوی شامی میں ہے:

"‌وما ‌كان ‌سببا ‌لمحظور فهو محظور اهـ."

(كتاب الحظر والإباحة، ج: 6، ص: 350، ط: سعيد

Thursday 4 July 2024

مکان نہ دلوایا تو طلاق کہنا

 شوہر نے بیوی سے مکان دلوانے کا مطالبہ کرکے اس  مطالبے پر طلاق کو معلق کیاہے ، لیکن مکان کے حصول کے لیے کوئی وقت متعین نہیں کیا؛ لہذا  آخرِ عمر  تک انتظار کیاجائے گا،اگر اس وقت تک عورت مکان نہیں دلواسکی تو زوجین میں سے کسی ایک کی بھی موت کے وقت طلاق واقع ہوجائے گی۔"البحرالرائق" میں ہے:

'' (قوله : ليأتينه فلم يأته حتى مات حنث في آخر حياته )؛ لأن البر قبل ذلك موجود ولا خصوصية للإتيان بل كل فعل حلف أنه يفعله في المستقبل وأطلقه ولم يقيده بوقت لم يحنث حتى يقع الإياس عن البر مثل ليضربن زيدا أو ليعطين فلانة أو ليطلقن زوجته وتحقق اليأس عن البر يكون بفوت أحدهما فلذا قال في غاية البيان وأصل هذا أن الحالف في اليمين المطلقة لا يحنث ما دام الحالف والمحلوف عليه قائمين لتصور البر فإذا فات أحدهما فإنه يحنث ا هـ ''۔

"فتاوی شامی" میں ہے:
''مطلب: حلف ليفعلنه بر بمرة ( قوله: لأن النكرة في الإثبات تخص ) أراد بالنكرة المصدر الذي تضمنه الفعل وهذا مبني على التعليل السابق وقد علمت ما فيه .
وفي الفتح لأن الملتزم فعل واحد غير عين إذ المقام للإثبات فيبر بأي فعل ، سواء كان مكرها فيه أو ناسيا أصيلا أو وكيلا عن غيره ، وإذا لم يفعل لا يحكم بوقوع الحنث حتى يقع اليأس عن الفعل ، وذلك بموت الحالف قبل الفعل فيجب عليه أن يوصي بالكفارة أو بفوت محل الفعل كما لو حلف ليضربن زيدا أو ليأكلن هذا الرغيف فمات زيد أو أكل الرغيف قبل أكله وهذا إذا كانت اليمين مطلقة .
''(14/463)فقط واللہ اعلم