https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Saturday 6 July 2024

امتحان سے بچی ہوئی رقم کالوٹانا

 طلبہ سے امتحاني فيس کے نام سے جو رقم لی جاتی ہے،وہ امتحان کے متعلق کاموں میں استعمال کرنا ضروری ہے،اگر امتحان کے بعد  کچھ رقم بچ جائے،تو علی الحساب هر طالب علم كو  رقم واپس  لوٹانا ضروری ہے، تاہم ا گر امتحانی فیس  کے نام سے رقم لیتے وقت اگر طلبہ سے اجازت لے لی جائے کہ بچ جانے والی رقم ادارہ اپنی صواب دید پر مدرسہ کی دیگر  ضروریات اور مصارف میں خرچ کرے گا،تو یہ اجازت معتبر ہوگی،اس کے بعد بچ جانے والی رقم کو مدرسہ کی دیگر  ضروریات میں خرچ کرنا جائز ہوگا، تاہم  نابالغ طالب علم  کی فیس اگر اس کے مال سے دی جاتی ہو تو  اس  میں سے بچی ہوئی رقم واپس کرنا ضروری  ہوگا؛ کیوں کہ  نابالغ ہبہ کرنا کا اہل نہیں ہوتا،اگر چہ ولی اس کی اجازت دے۔

مشکوٰۃ المصابیح میں ہے:

"وعن أبي حرة الرقاشي عن عمه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «‌ألا لا ‌تظلموا ‌ألا ‌لا يحل مال امرئ ‌إلا بطيب نفس منه. رواه البيهقي في شعب الإيمان والدارقطني في المجتبى."

(289/2، ط :المكتب الإسلامي - بيروت

فتاوی شامی میں ہے:

"(وتصرف الصبي والمعتوه) الذي يعقل البيع والشراء (إن كان نافعا) محضا (كالإسلام والاتهاب صح بلا إذن وإن ضارا كالطلاق والعتاق) والصدقة والقرض (لا).

(قوله والاتهاب) أي قبول الهبة وقبضها وكذا الصدقة قهستاني (قوله وإن ضارا) أي من كل وجه أي ضررا دنيويا، وإن كان فيه نفع أخروي كالصدقة والقرض (قوله كالطلاق والعتاق) ولو على مال فإنهما وضعا لإزالة الملك وهي ضرر محض، ولا يضر سقوط النفقة بالأول وحصول الثواب بالثاني، وغير ذلك مما لم يوضعا له إذ الاعتبار للوضع وكذا الهبة والصدقة وغيرهما قهستاني (قوله: لا وإن أذن به وليهما) لاشتراط الأهلية الكاملة، وكذا لو أجازه بعد بلوغه إلا إذا كانت بلفظ يصلح لابتداء العقد كأوقعت الطلاق أو العتاق، وكذا لا تصح من غيره كأبيه ووصيه والقاضي للضرر."

(‌‌كتاب المأذون، 173/6، ط: سعید)

No comments:

Post a Comment