https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Friday 19 July 2024

بیع عینہ

بیع العینہ: سودی خریدو فروخت کی ایک شکل بیع العینہ (Buy Back) ہے جس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ فروخت کنندہ ایک چیز ادھار بیچ کر دوباہ کم قیمت پر نقد خریدلیتا ہے یا نقد خریدکر دوبارہ اسی شخص کوادھارزائد قیمت پر بیچ دیتا ہے۔

 آج کل اس کی جو صورت رائج ہے کہ کسی کو قرض کی ضرورت ہو اور وہ قرض لینے آئے اور اسے قرض کی جگہ کوئی اور چیز دی جائے اور پھر وہی چیز اس سے دوبارہ خرید لی جائے، یا وہ تیسرے فرد کو بیچے اور تیسرا فرد پھر پہلے فرد کو بیچ دے، یا خریدار سے یہ کہا جائے کہ اس چیز کو فروخت کر کے اپنی ضرورت پوری کر لو اور مقصود وہ چیزخریدنا نہ ہو، بلکہ اضافے کے بدلے قرض کا لین دین مقصود ہو تو اسے شریعت کی اصطلاح میں ’’بیعِ عینہ‘‘ کہتے ہیں جو کہ ناجائز ہے اور سود خوری کا ہی ایک راستہ ہے، اور رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قسم کے عقد کو رسوائی اور ذلت کا سبب قرار دیا ہے، جیسا کہ ’’سنن ابی داؤد‘‘ میں بروایت حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان منقول ہے کہ جب تک تم بیع عینہ کرتے رہوگے اور جانوروں کی دیکھ بھال میں لگے رہوگے اور زراعت میں گم ہوجاؤ گے اور جہاد چھوڑ دوگے تو اللہ تم پر ذلت و رسوائی مسلط کردے گا، یہاں تک کہ تم دوبارہ دین کی طرف نہ لوٹ آؤ۔

"عن ابن عمر رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلي الله عليه وسلم: إذا تبايعتهم العينة، و أخذتم أذناب البقر، و رضيتم بالزرع، و تركتم الجهاد، سلط الله عليكم الذلة، لاينزعه حتي ترجعوا إلی دينكم."

(سنن أبي داود، كتاب البيوع،باب في النهي عن العينة، رقم الحديث:3462)

رد المحتار میں ہے:

"(قوله: في بيع العينة) اختلف المشايخ في تفسير العينة التي ورد النهي عنها. قال بعضهم: تفسيرها أن يأتي الرجل المحتاج إلى آخر ويستقرضه عشرة دراهم ولا يرغب المقرض في الإقراض طمعا في فضل لا يناله بالقرض فيقول لا أقرضك، ولكن أبيعك هذا الثوب إن شئت باثني عشر درهما وقيمته في السوق عشرة ليبيعه في السوق بعشرة فيرضى به المستقرض فيبيعه كذلك، فيحصل لرب الثوب درهما وللمشتري قرض عشرة. وقال بعضهم: هي أن يدخلا بينهما ثالثا فيبيع المقرض ثوبه من المستقرض باثني عشر درهما ويسلمه إليه ثم يبيعه المستقرض من الثالث بعشرة ويسلمه إليه ثم يبيعه الثالث من صاحبه وهو المقرض بعشرة ويسلمه إليه، ويأخذ منه العشرة ويدفعها للمستقرض فيحصل للمستقرض عشرة ولصاحب الثوب عليه اثنا عشر درهما، كذا في المحيط، وعن أبي يوسف: العينة جائزة مأجور من عمل بها، كذا في مختار الفتاوى هندية. وقال محمد: هذا البيع في قلبي كأمثال الجبال ذميم اخترعه أكلة الربا. وقال - عليه الصلاة والسلام - «إذا تبايعتم بالعينة واتبعتم أذناب البقر ذللتم وظهر عليكم عدوكم»."

(رد المحتار علی الدر المختار،كتاب البيوع، باب الصرف، 273/5، ط:سعید)

رقم منتقلی پر اجرت وصول

 پیسہ منتقل کرنے کے بدلے جو  رقم وصول کی جاتی ہے وہ سروس چارجز ہونے کی بناء پر سود کے زمرے میں نہیں آتی،البتہ  سروس چارجز کی جو  رقم لی جاتی ہے وہ اصل ر قم سے علیحدہ کر کے دی جائے۔

المبسوط للسرخسی میں ہے:

"ولو استأجر رجلا ينقد له الدراهم كل ألف بكذا أو استأجره على كل شهر بكذا ينقد له فهو جائز؛ لأن في الفصل الأول استأجره على عمل معلوم ببدل معلوم والاستئجار على ذلك متعارف بين الناس، وهو الأصل في عقد الإجارة، وفي الفصل الثاني عقد على منافع في مدة معلومة ببدل معلوم ليقيم بتلك المنافع عملا مقصودا"

(کتاب الشروط، ج:30، ص:204، ط:دارالفکر بیروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: للطحان) أي لمسألة قفيز الطحان، وهي كما في البزازية أن يستأجر رجلا ليحمل له طعاما أو يطحنه بقفيز منه فالإجارة فاسدة، ويجب أجر المثل لا يتجاوز به المسمى"

(کتاب البیوع، باب الصرف، مطلب مسائل فی المقاصۃ، ج:5، ص:280، ط:ایچ ایم سعید کمپنی)

صف یاچٹائی پاک کرنے کاطریقہ

 نجاست سے کسی چیز کو پاک کرنے میں اصل نجاست کا ازالہ (زائل کرنا) ہے، اور مختلف اشیاء میں نجاست کے ازالے کے مختلف طریقے فقہاءِ کرام نے لکھے ہیں، نیز جس طرح نجاست کی پاکی پانی سے ہوتی ہے اسی طرح دیگر مائع اشیاء سے بھی اگر نجاست زائل ہوجائے تو اس چیز کی پاکی کا حکم لگایا جاتاہے۔

بصورتِ مسئولہ جو چیزیں نچوڑنےکےقابل نہیں ہیں یانچوڑنےسےخراب ہوجاتی ہیں، جیسےصف، چٹائی، قالین وغیرہ تو انہیں پاک کرنےکا طریقہ  یہ ہے کہ ان کے  ناپاک حصہ پر تین مرتبہ خوب پانی بہایا جائے،  اور ہر مرتبہ دھوکر اتنی دیر چھوڑ دیا جائے کہ پانی کے قطرے گرنا بند ہوجائیں،  نیز پانی بہانےکےبعد پوری طرح سکھانا ضروری نہیں ہے، تین مرتبہ ایسا کرنےسےپاک ہوجائےگا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

وما لا ينعصر يطهر بالغسل ثلاث مرات والتجفيف في كل مرة؛ لأن للتجفيف أثرا في استخراج النجاسة وحد التجفيف أن يخليه حتى ينقطع التقاطر ولا يشترط فيه اليبس. هكذا في التبيين.

(الفصل الاول،ج:1،ص:42،ط:مکتبہ رشیدیہ)

پلاسٹک کی شیٹس پاک کرنے کاطریقہ

 پلاسٹک کی شیٹیں جو فرش پر بچھائی جاتی ہیں وہ چوں کہ اپنے اندر نجاست کو جذب نہیں کرتی ہیں اور کھردری بھی نہی ہوتیں کہ نجاست کے اجزاء ان میں باقی رہ جائیں؛ اس لیے ناپاک ہونے کی صورت میں ان کو پانی سے دھونا شرط نہیں ہے، پلاسٹک کی شیٹ پر لگنے والی ناپاکی اگر ٹھوس ہو اور لگنے کے بعد خشک ہو چکی ہو تو اسے پاک کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اسے کھرچ کر گیلے کپڑے سے پونچھ لیا جائے جس سے نجاست کے اثرات ختم ہوجائیں، اور اگر نجاست مائع (بہنے والی) ہو، مثلاً پیشاب وغیرہ  اور لگنے کے بعد خشک ہو چکی ہو تو اسے صرف گیلے کپڑے سے پونچھ لینا کافی ہے، اور اگر نجاست  خشک نہ ہوئی ہو بلکہ تر ہو  (چاہے ٹھوس ہو یا مائع ہو) تو اسے کپڑے  سے پونچ لینا (جس سے نجاست کا اثر ختم ہوجائے) کافی ہے، چاہے کپڑا گیلا ہو یا خشک ہو۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 310):

’’( و) يطهر (صقيل) لا مسام له (كمرآة) وظفر وعظم وزجاج وآنية مدهونة أو خراطي وصفائح فضة غير منقوشة بمسح يزول به أثرها مطلقاً، به يفتى.

 (قوله: صقيل) احترز به عن نحو الحديد إذا كان عليه صدأ أو منقوشاً، وبقوله: " لا مسام له " عن الثوب الثقيل، فإن له مساماً، ح عن البحر. (قوله: وآنية مدهونة) أي: كالزبدية الصينية، حلية. (قوله: أو خراطي) بفتح الخاء المعجمة والراء المشددة بعدها ألف وكسر الطاء المهملة آخره ياء مشددة نسبة إلى الخراط، وهو خشب يخرطه الخراط فيصير صقيلاً كالمرآة ح (قوله: بمسح) متعلق بيطهر، وإنما اكتفى بالمسح؛ لأن أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم كانوا يقتلون الكفار بسيوفهم ثم يمسحونها ويصلون معها؛ ولأنه لا تتداخله النجاسة، وما على ظهره يزول بالمسح بحر. (قوله: مطلقاً) أي: سواء أصابه نجس له جرم أو لا، رطباً كان أو يابساً على المختار للفتوى، شرنبلالية عن البرهان.

قال في الحلية: والذي يظهر أنها لو يابسة ذات جرم تطهر بالحت والمسح بما فيه بلل ظاهر من خرقة أو غيرها حتى يذهب أثرها مع عينها، ولو يابسة ليست بذات جرم كالبول والخمر فبالمسح بما ذكرناه لا غير، ولو رطبة ذات جرم أو لا فبالمسح بخرقة مبتلة أو لا‘

بچوں کے کھلونے والے نوٹ کی خریدوفروخت

  جو دکان دار اپنی دکان میں  بچوں کے کھیلنے کے نقلی نوٹ  بیچتے ہیں ان کی حیثیت کرنسی کی نہیں ہوتی بلکہ ان کی حیثیت کھلونے کی ہوتی ہےلہذا ان نوٹوں کی خرید و فروخت اس اعتبارسے جائز ہے تاہم ان نوٹوں  پر  جاندار کی تصویر ہوتی ہے،تصویر کی وجہ سے اگرچہ  ان نوٹوں کی خریدوفروخت ناجائز نہیں ہے کیونکہ تصویر مقصود نہیں ہوتی تاہم اس میں تصویر کی اشاعت ضرور ہے اس لیے بنانے والے اور بیچنے والوں اورخریدنے والوں سب ہی اس کی حوصلہ شکنی کرناچاہیے۔

الأشباه والنظائر لابن نجيم میں ہے:

"القاعدة الثانية: الأمور بمقاصدها  كما علمت في التروك. وذكر قاضي خان في فتاواه: إن بيع العصير ممن يتخذه خمراً إن قصد به التجارة فلايحرم، وإن قصد به لأجل التخمير حرم، وكذا غرس الكرم على هذا (انتهى) . وعلى هذا عصير العنب بقصد الخلية أو الخمرية."

(القاعدہ الثانیہ ص:۲۳،ط : دار الکتب العلمیۃ بیروت )

بیع تولیہ کی تعریف

 کسی  چیز کو اس  کی قیمتِ  خرید  پر  نفع کے بغیر فروخت کرنا اصطلاحِ  فقہ میں "بیعِ تولیہ"  کہلاتا ہے۔

التعریفات للجرجانی میں ہے:

"التولية: هي بيع المشتري بثمنه بلا فضل."

( باب التاء، ص: ٧١، ط: دار الكتب العلمية)

ڈالرکے بدلے روپے لینے کا حکم

 امریکہ سے ڈالر بھیج کر اس کے بدلے میں  روپے وصول کرنے کا معاملہ اس شرط کے ساتھ جائز ہے کہ حوالہ کرنے والا  اپنی اجرت الگ سے مقرر کرے ،کسٹمرز کی دی ہوئی رقم میں سے اجرت کی کٹوتی نہ کرے، نیز مارکیٹ ریٹ کے مطابق ہی وہ ریٹ دے،  مارکیٹ ریٹ سے کم یا زیادہ  طے کر کے لین دین کرنا جائز نہیں ہے۔

تنقیح الفتاوی الحامدیہ میں ہے:

"الدیون تقضیٰ بأمثالها".

(کتاب البیوع، باب القرض، 1/ 500، ط: قديمي)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"و في الأشباه: کل قرض جر نفعاً حرام".

(کتاب البیوع، فصل فی القرض،  5/ 166، ط: سعید)

شراب کے گودام میں باربر داری کی نوکری کرنا

 شرعا گناہ کی طرح گناہ کے کسی کام میں تعاون کرنا اور اس کو ذریعہ  آمدنی بنانا حرام ہے۔لہذا شراب کی خرید و فروخت کی طرح شراب کے گودام میں کام کرنا بھی گناہ کے کام میں تعاون کرنے کی وجہ سے حرام ہے۔

سنن أبي داود ميں ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لعن الله الخمر، وشاربها، وساقيها، وبايعها، ومبتاعها، وعاصرها، ومعتصرها، وحاملها، والمحمولة إليه."

(کتاب الأشربۃ، باب العصیر للخمر، ج:3، ص:366، المطبعۃ الأنصاریۃ دہلی ہند)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"إذا استأجر رجلا ليحمل له ‌خمرا فله الأجر في قول أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - وقال أبو يوسف ومحمد - رحمهما الله تعالى - لا أجر له."

(کتاب الإجارۃ، الباب السادس في مسائل الشیوع في الإجارۃ، ج:6 ،ص: 449، دارالفکر بیروت)

المبسوط  للسرخسی میں ہے:

"كذلك لو أن ذميا استأجر مسلما يحمل له خمرا فهو على هذا عند أبي يوسف ومحمد رحمهم الله لا يجوزان العقد؛ لأن الخمر يحمل للشرب وهو معصية والاستئجار على المعصية لا تجوز والأصل فيه قوله صلى الله عليه وسلم «لعن الله في الخمر عشرا» وذكر في الجملة حاملها والمحمولة إليه وأبو حنيفة رحمه الله يقول يجوز الاستئجار وهو قول الشافعي رحمه الله؛ لأنه لا يتعين عليه حمل الخمر فلو كلفه بأن يحمل عليه مثل ذلك فلا يستوجب الأجر، ولأن حمل الخمر قد يكون للإراقة وللصب في الخل ليتخلل فهو نظير ما لو استأجره ليحمل ميتة، وذلك صحيح فهذا مثله إلا أنهما يفرقان فيقولان الميتة تحمل عادة للطرح وإماطة الأذى. فأما الخمر يحمل عادة للشرب والمعصية."

(کتاب الإجارات، باب الإجارۃالفاسدۃ، 16 /37، دارالمعرفة بیروت)

وکیل بالشراء کامؤکل سے اضافی رقم لینا

 جب    کوئی شخص  مذکورہ شخص سے کوئی چیز منگواتا ہے تو اس صورت میں مذکورہ شخص کی حیثیت وکیل بالشراء(خریداری کے وکیل) کی ہوگی اور وکیل  امین کے حکم میں ہوتا ہے ،لہذا اس صورت میں کم قیمت پر ایگزاسٹ فین  خرید کر مؤکل سے زیادہ قیمت لینا جائز نہیں ہوگا،ہاں اگر پہلے سے طے کرے کہ میں سامان منگوانے کی اتنی اجرت لوں گا اور دینے والا اس پر راضی ہو تو سامان لانے  کی اجرت لے سکتاہے،یا الیکٹریشن پہلے یہ کہے کہ میں لاؤں گا لیکن اکیس سو روپے قیمت لوں گا تو درست ہو گا۔

شرح المجلۃ میں ہے: 

"(المال الذي قبضه الوكيل بالبيع والشراء وإيفاء الدين واستيفائه وقبض العين من جهة الوكالة في حكم الوديعة في يده فإذا تلف بلا تعد ولا تقصير لا يلزم الضمان. والمال الذي في يد الرسول من جهة الرسالة أيضا في حكم الوديعة) . ضابط: الوكيل أمين على المال الذي في يده كالمستودع."

(كتاب الوكالة،الباب الثالث في بيان احكام الوكالة ، المادة 1463، ج:3، ص:561، ط:دارالجيل)

كباڑے کا کاروبار

 ہر وہ مال (چیز) جو  متقوَّم یعنی اس کی اپنی مالی حیثیت ہو اور شرعاًقابل ِ انتفاع ہو اور جائز ہو،اس کی خرید وفروخت کرنا  جائز ہے،لہذا  سکریپ یعنی کباڑ کا  کاروبارجائز ہے، بشرطیکہ اس میں چوری کے مال کی خریدوفروخت نہ ہو  اور خیانت ودھوکہ سے صاف ہو ،اور کسی قسم کی غیر شرعی چیز کا کاروبار نہ ہو ،مثلاًٹی وی ،آلات ِمعصیت یعنی گانے باجے کے آلات وغیرہ کا کام نہ کیا جائے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وشرعا: (مبادلة شيء مرغوب فيه بمثله) خرج غير المرغوب كتراب وميتة ودم.

(قوله: مرغوب فيه) أي ما من شأنه أن ترغب إليه النفس وهو المال؛ ولذا احترز به الشارح عن التراب والميتة والدم فإنها ليست بمال، فرجع إلى قول الكنز والملتقى: مبادلة المال بالمال؛ ولذا فسر الشارح كلام الملتقى في شرحه بقوله: أي تمليك شيء مرغوب فيه بشيء مرغوب فيه، فقد تساوى التعريفان فافهم، نعم زاد في الكنز بالتراضي."

(کتاب البیوع، ج:4،ص:502،ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"فإن المتقوم هو المال المباح الانتفاع به شرعا."

(کتاب البیوع،باب البیع الفاسد،مطلب فی تعریف المال،ج:5،ص:50،ط:سعید)

کنز العمال میں ہے:

"من اشترى سرقة وهو يعلم أنها سرقة فقد شرك في عارها وإثمها."

(کتاب البیوع،من قسم الاقوال،الباب الاول:فی الکسب،الفصل الاول:فی فضائل الکسب الحلال،ج:4،ص:13،رقم الحدیث:9258،ط:مؤسسۃ الرسالۃ)

فتاوی شامی میں ہے:

"لا يجوز التصرف في مال غيره بلا إذنه ولا ولايته."

(کتاب الغصب،ج:6،ص:200،ط:سعید)

اسرائیلی کمپنیوں کے ساتھ کاروبارکرنا

 اسلام نے عام حالات میں اگرچہ غیر مسلموں کے ساتھ کاروباری لین دین معاملات کی اجازت دی ہے اور خود آپﷺ نے بھی غیرمسلموں(اہل یہود) سے کاروبار کیاہے، تاہم ایسے غیرمسلم جو مسلمانوں سے کمائے ہوئے پیسوں سے مسلمانوں ہی پر حملہ آور ہوتے ہیں  یا مسلمانوں کا پیسہ مسلمانوں کے خلاف استعمال کرکے ان کی  بیخ کنی کا اردہ کرکے سازش کرتے  ہیں،اور اپنی  اقتصاد کو مضبوط کرکے مسلمانوں کےخلاف اپنی شان شوکت کا اظہار  کرتے ہیں، تو  ازروئے شرع ایسے غیرمسلموں سے کاروبار کرنایا کوئی معاملہ کرنا یا ان کی کمپنی سےکسی بھی قسم کا تعلق رکھنا جائز نہیں ہے،تاکہ اس سازش کے ذریعے مسلمانوں کی  بیخ کنی میں ان کے معاون نہ بن جائے۔

صحيح مسلم   میں ہے:

"عن ابن عمر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم عامل أهل خيبر بشطر ما يخرج منها من ثمر أو زرع."

(باب المساقاة والمزارعة، ج:3، ص:1186، ط: دارإحياء التراث العربى)

المبسوط للسرخسي میں ہے؛

"ولا يمنع التجار من حمل التجارات إليهم إلا الكراع والسلاح والحديد لأنهم أهل حرب وإن كانوا موادعين ألا ترى أنهم بعد مضي المدة يعودون حربا للمسلمين ولا يمنع التجار من دخول دار الحرب بالتجارات ما خلا الكراع والسلاح فإنهم يتقوون بذلك على قتال المسلمين فيمنعون من حمله إليهم وكذلك الحديد فإنه أصل السلاح قال الله تعالى {وَأَنْزَلْنَا الْحَدِيدَ فِيهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ} [الحديد: 25]."

(باب صلح الملوك والمودعة، ج:10، ص:151، ط:دارالفكر للنشروالتوزيع)

کتوں کی تجارت

 کتے سے متعلق شریعتِ مطہرہ کا حکم یہ ہے کہ جس کتے کو پالنا جائز ہو اس کی خرید و فروخت بھی جائز ہے اور جس کو پالنا جائز نہیں اس کی خرید و فروخت بھی جائز نہیں، اور کتے کو پالنے کی اجازت شکار کے لیے ہے یا گھر اور کھیتی کی حفاظت کے لیے ہے؛ لہذا جو کتا مذکورہ امور کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہو اس کی خرید و فروخت جائز ہے ورنہ نہیں۔

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"‌بيع ‌الكلب المعلم عندنا جائز وكذلك بيع السنور وسباع الوحش والطير جائز عندنا معلما كان أو لم يكن كذا في فتاوى قاضي خان.وبيع الكلب غير المعلم يجوز إذا كان قابلا للتعليم وإلا فلا، وهو الصحيح كذا في جواهر الأخلاطي."

(کتاب البیوع،الباب التاسع فیما یجوز بیعہ ومالا یجوز بیعہ،ج:3،ص:114،دارالفکر)

قسطوں پر مکان یا پلاٹ خریدنا

 قسطوں پر اشیاء کی خرید و فروخت  کے صحیح ہونے کے لیے درج ذیل شرائط کا لحاظ اور رعایت کرنا ضروری ہے :

قسط کی رقم متعین ہو، مدت متعین ہو، معاملہ متعین ہو کہ نقد کا معاملہ کیا جارہا ہے یا ادھار، اور ایک شرط یہ بھی ہے کہ کسی قسط کی ادائیگی میں تاخیر کی صورت میں کسی بھی عنوان سے اس میں اضافہ وصول نہ کیا جائے ، اگر بوقتِ عقد یہ شرط ہوگی تو پورا معاملہ ہی فاسد ہوجائے گا۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر قسطوں پر پلاٹ ، فلیٹ ، مکان یا دیگر اشیاء کی خریدو فروخت میں  مذکورہ شرائط کا لحاظ رکھا جائے تو یہ بیع درست ہو گی ،اور اگر ان شرائط کی رعایت نہ رکھی جائے، تو  اس طرح خرید وفروخت  کرنا درست نہیں ہو گا۔

"مجمع الأنهر شرح ملتقي الأبهر "میں ہے :

"ویصح البیع بثمن مال مؤجل لإطلاق قوله تعالیٰ: ﴿وَاَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا﴾."

(كتاب البيوع ،ج:3 ،ص:13، ط:دار الکتب العلمیة بیروت)

مجلۃ  الأحكام العدليه ميں هے :

"البیع مع تأجیل الثمن وتقسیطه صحیح…… یلزم أن تکون المدة معلومة في البیع بالتأجیل والتقسیط."

(كتاب البيوع،ج:1،ص:127، رقم المادة: ۲۴۵، ط: مکتبة الإتحاد دیوبند)

مبسوط للسرخسی میں ہے :

"وإذا عقد العقد علی أنہ إلی أجل کذا بکذا، وبالنقدکذا، أو قال إلی شھر بکذا أو إلی شھرین بکذا فہو فاسدٌ … وہٰذا إذا افترقا علی ہٰذا، فإن کان یتراضیان بینہما ولم یتفرّقا حتّٰی قاطعہ علیٰ ثمن معلوم وأتما العقد علیہ فہو جائز الخ."

(كتاب البيوع،۱۳:۷، ۸، ط: دار المعرفة بیروت)

بدائع الصنائع میں ہے :

"أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - «نهى عن بيعين في بيع» وكذا إذا قال: بعتك هذا العبد بألف درهم إلى سنة أو بألف وخمسمائة إلى سنتين؛ لأن الثمن مجهول،.....وجهالة الثمن تمنع صحة البيع فإذا علم ورضي به جاز البيع؛ لأن المانع من الجواز هو الجهالة عند العقد وقد ‌زالت في المجلس وله حكم حالة العقد فصار كأنه كان معلوما عند العقد وإن لم يعلم به حتى إذا افترقا تقرر الفساد."

(كتاب البيوع ،باب شرائط الصحة في البيوع ،ج:5 ،ص:158 ،ط:رشيدية)