https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Tuesday 30 July 2024

کسی کے مسلمان ہونے میں شک کرنا

 بغیر کسی ثبوت کے خواہ مخواہ   اس کسی کے مسلمان ہونے  میں شک کرنادرست نہیں ہے۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"عن أسامة بن زيد قال: بعثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى أناس من جهينة فأتيت على رجل منهم فذهبت أطعنه فقال: لا إله إلا الله فطعنته فقتلته فجئت إلى النبي صلى الله عليه وسلم فأخبرته فقال: «أقتلته وقد شهد أن لا إله إلا الله؟» قلت: يا رسول الله إنما فعل ذلك تعوذا قال: «فهلا شققت عن قلبه."

(‌‌كتاب القصاص،‌‌‌‌ الفصل الأول، 1028/2، الرقم :3450، ط:المكتب الإسلامي بيروت)

ترجمہ : ’’حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم قبیلہ جہینہ سے لڑنے گئے۔ چنانچہ میں ان میں سے ایک شخص کے پاس آیا اور میں نے اسے نیزہ مارنے کا ارادہ کیا تو اس نے لا الہ الا اللہ کہا۔ میں نے اس کے باوجود اسے نیزہ مار کر قتل کر ڈالا ۔ پھر میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس کی خبر دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اسامہ! کیا تم نے اسے قتل کر دیا ؟ حالانکہ وہ الہ الا اللہ کہنے والا تھا۔ میں نے عرض کیا اس نے اپنے آپ کو قتل سے بچانے کے لئے ایسا کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کیا تم نے اس کے دل کو چیرا ؟ ( کہ جس سے معلوم ہو گیا کہ اس نے ڈر کی وجہ سے پڑھا ہے ) ۔‘‘(مظاہر حق)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

عودلگانا

 عود ایک خوشبو ہے اور  خوشبو لگانا پسندیدہ عمل اور سنت ہے،   البتہ کسی جگہ ایسی خوشبو لگا کر جانا کہ جس سے لوگوں کو تکلیف ہوتو ایسی خوشبو لگانے سے گریز کیا جائے۔

لہٰذا دیسی ساختہ یا پاک اجزا پر مشتمل کوئی بھی عمدہ عطر  استعمال کرنا چاہیے، البتہ رسول اللہ ﷺ سے جن عطور کا استعمال ثابت ہے، اسے اتباع کی نیت سے اختیار کرنے میں ثواب زیادہ ہوگا۔

صحیح بخاری میں ہے:

"عن ‌عائشة قالت: (كنت ‌أطيب النبي صلى الله عليه وسلم بأطيب ما يجد حتى أجد وبيص الطيب في رأسه ولحيته)."

(‌‌كتاب اللباس، ‌‌باب الطيب في الرأس واللحية، ج:7، ص:164، ط: دار طوق النجاة - بيروت)

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:

"عن يزيد بن أبي عبيد، مولى سلمة، عن سلمة: (أنه كان ‌إذا ‌توضأ ‌أخذ ‌المسك فمسح به وجهه ويديه)."

(كتاب الأدب، ‌‌التطيب بالمسك، ج:5، ص:305، ط: ‌‌‌دار التاج - لبنان)

اُسوہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میں ہے:

"آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آخر شب میں بھی خوشبو لگایاکرتے تھے،سونےسے بیدار ہوتے تو قضاء حاجت سے فراغت کے بعد وضو کرتے اور پھر خوشبو لباس پر لگاتے۔"

(زیر عنوان:عادات برگزیدہ خوشبو کے بارے میں :حصہ دوئم، ص:168، طبع:الطاف اينڈ سنز، كراچي)

شمائل کبریٰ میں ہے:

"حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہےکہ میں بہترین خوشبو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کولگاتی یہاں تک کہ خوشبو کانشان داڑھی اور سرمبارک پرہوتا۔"

(زیر عنوان: (آپ صلی اللہ علیہ وسلم) کوبکثرت عطر کااستعمال فرماتے، ج:اول، حصہ دوئم، ص:351، طبع: المیزان ،کراچی)

کوہ پیما مہم جوئی کرنا

 کوہِ پیمائی کرنے کی مہم جوئی میں عموماً کوہِ پیما اپنے آپ کو نقصان میں ڈالتے ہیں اور ازرُوئے شرع کسی بھی انسان کو اختیار نہیں ہے کہ وہ اپنے آپکو نقصان پہنچائے، لہذامذکورہ مہم جوئی پر جانا  جہاں جانی نقصان کا خطرہ ہو، اپنے آپ کو خطرے میں ڈالنے کی وجہ سے شرعاً جائز نہیں ہے،  وہاں جانے سے اجتناب کرنا لازمی ہے،اور اگر اس طرح کی مہم جوئی سے مقصود  محض شہرت پسند اور نام کمانا ہو تو پھر یہ بالکل ناجائز ہے اور اگر مقصدروزگار کمانا ہے تو اپنے لئے خطرات سے خالی روزگار کی تلاش کرنی چاہیے، ان شاء اللہ اللہ تعالیٰ معاون ومدد گار بھی ہوں گے۔

تفسیرِ معالم التنزیل (تفسير البغوي ) میں ہے:

"وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ وَأَحْسِنُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ (195)

قَوْلُهُ تَعَالَى: وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، أَرَادَ بِهِ الْجِهَادَ وَكُلَّ خَيْرٍ هُوَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَلَكِنَّ إِطْلَاقَهُ يَنْصَرِفُ إِلَى الْجِهَادِ، وَلا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ، قِيلَ: الْبَاءُ فِي قَوْلِهِ تَعَالَى: بِأَيْدِيكُمْ زَائِدَةٌ، يُرِيدُ: وَلَا تُلْقُوا أَيْدِيَكُمْ، أَيْ: أَنْفُسَكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ عَبَّرَ بالأيدي عن الأنفس  ، كقوله تعالى: فَبِما كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ [الشُّورَى: 30] ، أَيْ: بِمَا كَسَبْتُمْ، وَقِيلَ: الْبَاءُ فِي مَوْضِعِهَا، وفيه حذف، أي: ولا تُلْقُوا أَنْفُسَكُمْ بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ، أَيِ الْهَلَاكِ، وَقِيلَ: التَّهْلُكَةُ كُلُّ شَيْءٍ يَصِيرُ عَاقِبَتُهُ إِلَى الْهَلَاكِ، أَيْ: وَلَا تَأْخُذُوا فِي ذَلِكَ، وَقِيلَ: التَّهْلُكَةُ مَا يُمْكِنُ الِاحْتِرَازُ عَنْهُ، وَالْهَلَاكُ مَا لَا يُمْكِنُ الِاحْتِرَازُ عَنْهُ، وَالْعَرَبُ لَا تَقُولُ لِلْإِنْسَانِ:أَلْقَى بِيَدِهِ إِلَّا فِي الشر"

(سورة البقرة ، رقم الآية:  195، ج:1، ص:239، ط:داراحیاء التراث العربی)

فقط

عورتوں کا نکاح میں شرکت کے لیے مسجد جانا

 جب نماز جیسی اہم ترین عبادت کی ادائیگی کے لیے عورتوں کے مسجد میں جانے سے منع کردیا گیا اور فقہاء کرام نے نصوص کی روشنی میں  اس کو مکروہ تحریمی قرار دیا  ہے تو   موجودہ  پر فتن دور   جس میں  فتنہ ، فساد ، اور بے حیائی عام ہے، اور مرد وزن میں دین بیزاری  کا عنصر غالب ہے، عورتوں میں فیشن ، اور بن سنور  کر باہر نکلنے کا رواج ہے  ،  پھر خاص نکاح کے مواقع پر عورتیں بننے سنورنے کا اہتمام  بھی زیادہ کرتی ہیں،اس میں فتنہ کا اندیشہ بھی زیادہ ہے،  لہذا   عورتوں  کا اہتمام سے  نکاح میں شرکت کے لیے مسجد   جانا جائز نہیں ۔

المستدرك للحاكم میں ہے:

" عن عبد الله ، عن النبي صلى الله عليه وسلم ، قال : صلاة المرأة في بيتها أفضل من صلاتها في حجرتها ، وصلاتها في مخدعها أفضل من صلاتها في بيتها."

(‌‌كتاب الطهارة،  ‌‌ومن كتاب الإمامة، وصلاة الجماعة،  1/  324، ط: دار الكتب العلمية)

صحيح البخاری میں ہے: 

"عن عائشة ـ رضي الله عنها ـ قالت: لو أدرك رسول الله صلى الله عليه وسلم ما أحدث النساء لمنعهن كما منعت نساء بني إسرائيل، قلت لعمرة: أو منعن؟ قالت: نعم."

(كتاب صفة الصلاة، باب: انتظار الناس قيام الإمام العالم،  1/ 296، ط :دار ابن كثير) 

الدر المختار مع رد المحتار  میں ہے:

"(ويكره حضورهن الجماعة) ولو لجمعة وعيد ووعظ (مطلقاً) ولو عجوزاً ليلاً (على المذهب) المفتى به؛ لفساد الزمان، واستثنى الكمال بحثاً العجائز والمتفانية."

و في الرد:

"(قوله: ولو عجوزاً ليلاً) بيان للإطلاق: أي شابةً أو عجوزاً نهاراً أو ليلاً (قوله: على المذهب المفتى به) أي مذهب المتأخرين. قال في البحر: وقد يقال: هذه الفتوى التي اعتمدها المتأخرون مخالفة لمذهب الإمام وصاحبيه، فإنهم نقلوا أن الشابة تمنع مطلقاً اتفاقاً. وأما العجوز فلها حضور الجماعة عند الإمام إلا في الظهر والعصر والجمعة أي وعندهما مطلقاً، فالإفتاء بمنع العجائز في الكل مخالف للكل، فالاعتماد على مذهب الإمام. اهـ.

Monday 29 July 2024

حلال جانورکے حرام اجزاء

 حلال جانور میں سات چیزیں حرام ہیں جن کا کھانا جائز نہیں ہے، وہ سات چیزیں یہ ہیں:

۱)دمِ مسفوح ، یعنی بہنے والا خون ۔۲)پیشاب کی جگہ (نر و مادہ کی) ۔۳)خصیے (فوطے)۔ ۴)پاخانے کی جگہ۔ ۵)غدود (سخت گوشت)۔ ۶)مثانہ (پیشاب کی تھیلی)۔ ۷)پتہ۔ 

صاحبِ کنز اور علامہ طحطاوی  رحمہما اللہ نے حرام مغز کو بھی حرام اجزاء میں شمار کیا ہے۔ حرام مغز سے مراد دودھ کی طرح ایک سفید ڈوری ہے جو جانور کی پیٹھ کی ہڈی کے اندر کمر سے لے کر گردن تک ہوتی ہے۔فقط

مرغی کے پنجے کھانا

 مرغی کے پنجے ان سات  چیزوں میں سے نہیں ہیں جنہیں کھانا جائز نہیں، لہذا مرغی کے پنجے کھانا جائز ہے۔ دیگر حلال جانوروں کے پائے کی طرح حلال و جائز ہیں۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(كره تحريما) وقيل تنزيها والأول أوجه (من الشاة سبع الحياء والخصية والغدة والمثانة والمرارة والدم المسفوح والذكر)."

(‌‌كتاب الخنثى،‌‌مسائل شتى،ج:6ص: 749،ط:دار الفكر - بيروت)

زمزم کا پانی بیٹھ کر پینا مستحب یاکھڑے ہوکر

 زمزم کا پانی عام پانی کے مقابلہ میں بہت مبارک پانی ہے، اس کے بابرکت ہونے کی وجہ سے  اسے کھڑے ہوکر پینے کو مستحب قراردیا گیا ہے، تاکہ اس کی برکات پورے جسم میں بآسانی  سرایت کرجائیں،   رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زمزم کا پانی کھڑے ہوکر پینا ثابت ہے ، لیکن اس کا یہ مطلب  نہیں ہے کہ  زم زم   کا پانی کھڑے ہوکر پینا ضروری ہے، بیٹھ کر نہیں پیا جاسکتا، ایسا نہیں ہے، بیٹھ کر بھی  پی سکتے ہیں، البتہ کھڑے ہوکر پینا مستحب ہے۔

لمعات التنقیح میں ہے:

"و عن ابن عباس قال: أتيت النبي صلى الله عليه وسلم بدلو من ماء ‌زمزم، فشرب و هو قائم. متفق عليه.

قوله: (من ماء ‌زمزم) قيل: كان ذلك لأنه لم يجد موضعًا للقعود لازدحام الناس عند ‌زمزم، هذا وقد يقال: هذا مخصوص بماء ‌زمزم، وقد ثبت في السنة ذلك، وما ذكر من سريان الماء في البدن الذي عد ضررًا في الشرب ‌قائمًا فهو من المنافع ههنا لما فيه من البركة والنور، وهكذا قيل في فضل ماء الوضوء، واللَّه أعلم."

(باب الأشربة، الفصل الأول، ج:7، ص:303، ط: دار النوادر)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"ولعل وجه تخصيصهما أن المطلوب في ماء زمزم التضلع ووصول بركته إلى جميع الأعضاء، وكذا فضل الوضوء مع إفادة الجمع بين طهارة الظاهر والباطن، وكلاهما حال القيام أعم، وبالنفع أتم، ففي شرح الهداية لابن الهمام: ومن الأدب أن يشرب فضل ماء وضوئه مستقبلاًقائماً، وإن شاء قاعداً اهـ، وظاهر سياق كلام علي -رضي الله تعالى عنه- أن القيام مستحب في ذلك المقام؛ لأنه رخصة."

(كتاب الأطعمة ،باب الأشربة ،ج: 7 ،ص:2747 ،ط:دارالفكر)

اعلاء السنن میں ہے:

"واستحب علماؤنا أن يشرب ماء زمزم قائماً ويشير إليه ما في حديث ابن عباس رضي الله تعالى عنهما آية ما بيننا و بين المنافقين أنهم لا يتضلعون من زمزم والتضلع لا يتأتى إلا قائماً وأخرج البخاري عن الشعبي أن ابن عباس رضي الله تعالى عنهما حدثه قال: سقيت رسول الله صلى الله عليه وسلم من زمزم فشرب وهو قائم."

(ج:1، ص:213، ط: ادا رة القرآن ، كراتشي)

گدھی کے دودھ کی کریم کا حکم

 جس طرح گدھی کا دودھ حلال نہیں ہے، اسی طرح گدھی کے دودھ سے حاصل کی گئی کریم بھی حلال نہیں ہے،لہذا اس کو کھانے پینے کے استعمال میں لاناتو جائز نہیں، البتہ چونکہ گدھی کا دودھ ناپاک نہیں ہے، اس لیےاس کےدودھ سے بنائی گئی کریم کو بیرونی جسم پراستعمال کرنادرست اور جائز ہے۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق  میں ہے:

"(كره ‌لبن ‌الأتان) لأن اللبن يتولد من اللحم فصار مثله."

(كتاب الكراهية،فصل في الأكل،ج:8،ص:207،ط:دار إحياء التراث العربي، بيروت) 

مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحرمیں ہے:

"(ولا يحل شرب ‌لبن ‌الأتان) بالفتح هي أنثى الحمر الأهلية لكون اللبن متولدا من لحم فيأخذ حكمه."

 (كتاب الكراهية،فصل في الأكل والشرب،ج:2ص: 526،ط: دار الكتاب الإسلامي)

فتاوى هندية میں ہے:

"والصحيح أن ‌لبن ‌الأتان طاهر. كذا في التبيين وهكذا في منية المصلي وهو الأصح، كذا في الهداية ولا يؤكل. كذا في النهاية والخلاصة."

(كتاب الطهارة،الباب السابع،الفصل الثاني،ج:1،ص: 46،ط:دار الفكر بيروت)

مساج اور اس کی اجرت کاحکم

 مساج (مالش)   اگر  محض تلذذ  یا شہوت رانی کے لیے ہو تو بالکل ناجائز ہے، تاہم اس کا ایک اہم مقصد  علاج بھی  ہے؛  لہٰذا   بطورِ علاج مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ اس کی گنجائش ہوگی:

  1.  مرد  اور عورت  کا بالکل اختلاط نہ ہو۔
  2. مرد مرد کا اور عورت عورت کا ہی مساج کرے۔
  3. ستر کے شرعی احکام کا لحاظ رکھا جائے۔
  4. کسی بھی غیر شرعی کام کا ارتکاب نہ ہو۔

مذکورہ شرائط میں سے کسی شرط کا لحاظ نہ رکھا جائے تو مساج کرنا اور اس کی اجرت لینا جائز نہیں ہوگا، اور ان شرائط کا لحاظ رکھتے ہوئے مساج کیا جائے تو اس کی اجرت لینا جائز ہوگا، لیکن عمومًا ایسے مقامات پر شرائط کا لحاظ نہیں رکھا جاتا ، لہذا ان میں  کام کرنے اور  جانے سے اجتناب کیا جائے۔

اسی طرح  اگر مساج میں تو  مذکورہ شرائط کا لحاظ رکھا جائے، لیکن اس جگہ غیر شرعی کام بھی ہوتے ہوں، مثلًا موسیقی چلنا،  داڑھی منڈوانا اور بھنویں بنوانا وغیرہ تو   ایسی جگہ کام کرنا ناجائز ہوگا،  ایسی صورت میں اپنے لیے کوئی جائز  و حلال پیشہ  اختیار کیاجائے۔

المحیط البرہانی میں ہے:

"لا تجوز الإجارة على شيء من اللهو والمزامير والطبل وغيره؛ لأنها معصية والإجارة على المعصية باطلة؛ ولأن الأجير مع المستأجر يشتركان في منفعة ذلك فتكون هذه الإجارة واقعة على عمل هو فيه شريك."

(كتاب الإجارات، الفصل الخامس عشر: في بيان ما يجوز من الإجارات، وما لا يجوز، ج: 7، ص: 482، ط. دار الكتب العلمية، بيروت)

فتح الباری لابن رجب الحنبلی میں ہے:

"وقال عمرو بنِ ميمون: لا يدخل أحد الفرات إلا بإزار، و لا ‌الحمام إلا بإزار، إلا تستحيون مما استحى منهُ أبوكم آدم؟".

(كتاب الغسل، باب التستر في الغسل عند الناس، ج: 1، ص: 337، ط: مكتبة الغرباء الأثرية)

زمین پر سونا سنت ہے یا منع ہے

 آپ صلی اللہ علیہ  وسلم  سے بستر ،کھجور کے درخت کی چھال،چٹائی ،زمین ،چارپائی وغیرہ پر سونا ثابت ہے،لہذا  زمین پر سونے سے بھی  سنت ادا ہوجائے گی  ۔

وفي زاد المعاد في هدي خير العباد :

"فصل في هديه وسيرته صلى الله عليه وسلم في نومه وانتباهه كان ينام على الفراش تارة، وعلى النطع تارة، وعلى الحصير تارة، وعلى الأرض تارة، وعلى السرير تارة بين رماله وتارة على كساء أسود."

 (1/149،ط:مؤسسة الرسالة، بيروت)

کوشر سرٹیفائیڈ سپلیمنٹ کاحکم

 ’’جیلیٹن‘‘  ایک ’’پروٹین‘‘ کا نام ہے، جو جان دار کی ہڈی اور کھال سے حاصل کی گئی ’’کولیجن‘‘  سے حاصل کی جاتی ہے، اس کا بنیادی استعمال کھانے پینے کی اشیاء میں گاڑھاپن پیدا کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔

اس کا شرعی حکم یہ ہے کہ ’’جیلیٹن‘‘  اگر حلال جانوروں سے حاصل کی گئی ہو اور اس جانور کو شرعی طریقہ سے ذبح کیا گیا ہو تو ایسی ’’جیلیٹن‘‘ حلال ہے، جس چیز میں اس کا استعمال ہو وہ بھی حلال ہے، اور اگر وہ حرام جانوروں سے حاصل کی گئی ہو،  یا حلال مردار جانور سےحاصل کی گئی ہوتو اس کا استعمال حرام ہے، اور جس چیز میں اس کا استعمال ہو وہ بھی حلال نہیں ہوگی، لہذا اگر تحقیق سے یہ معلوم ہوجائے کہ  کسی چیز میں  حرام جیلیٹن استعمال کی گئی ہے تو اس کا استعمال جائز نہیں ہوگا، اور اگر یہ معلوم ہو جائے کہ حلال جیلیٹن شامل ہے یا معلوم نہ ہونے کی صورت میں کسی مستند حلال سرٹیفکیشن کے ادارے کی تصدیق ہو تو اس کا استعمال جائز ہوگا، اور جب تک معلوم نہ ہو، اجتناب بہتر ہے۔

 "کوشر "یہودیوں کے ہاں ان کے مذہب کے مطابق اسی معنی میں استعمال ہوتا ہے، جس معنی میں ہم "حلال" کا لفظ استعمال کرتے ہیں،اور موجودہ دور کے اکثر یہودی حقیقی معنوں میں اپنی کتابوں کی تعلیمات سےنہ تو واقف ہوتے ہیں،اور نہ ہی اپنی کتابوں کی تعلیمات کے مطابق عمل کرنے کا اہتمام کرتے ہیں، بلکہ اکثر مادہ پرست اور دہریہ نظریات کے حامل ہوتے ہیں، جس کی بناپر اُنہیں اہل کتاب میں شمار کرنا مشکل ہے، اس لیے ان کا ذبیحہ مطلقاً حلال نہیں ہوگا، بلکہ کم از کم مشتبہ ٹھہرتا ہے، اورموجودہ دور میں ان کے ذبیحہ سے احتراز کرنا ضروری ہے۔

لہذا صرف کوشر سرٹیفائیڈ ہونے کی وجہ سے ان سپلیمنٹ کا استعمال کرنا جائز نہ ہوگا، جب تک کہ یہ سپلیمنٹ کسی مستند حلال سرٹیفیکش ادارے سے سرٹیفائیڈ  ہو یا سپلیمنٹ میں شامل ہونے والے جیلیٹن سے متعلق اس بات کی مکمل تحقیق ہو کہ وہ حلال جانوروں سے  شرعی طریقے سے ذبح کر کے حاصل  کی گئی ہے،توپھر ان سپلیمنٹز کا استعمال جائز ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"ومقتضى الدلائل الجواز كما ذكره التمرتاشي في فتاواه، والأولى أن لا يأكل ‌ذبيحتهم ولا يتزوج منهم إلا للضرورة كما حققه الكمال بن الهمام اهـ"

(کتاب الذبائح، ج:6،ص:297،ط:سعید)

چرس میں جڑی بوٹیوں کی آمیزش کے بعد استعمال

نشہ آوراشیاءکااستعمال شرعاًحرام ہے،البتہ شراب کےعلاوہ دیگرنشہ آوراشیاءجیسےچرس وغیرہ کی حرمت کادارومدارنشہ دینےاورنہ دینےپرہےاورنشہ ہونےاورنہ ہونےمیں عام آدمی کااعتبارہے،یعنی چرس پینےسےاگرایک عام آدمی(جونشہ کاعادی نہ ہو)کونشہ آتاہوتووہ حرام ہےچاہےاس میں جڑی بوٹیاں ملائی گئی ہویانہ ہو،البتہ چرس میں اگراس قدرحلال جڑی بوٹیاں ملائی جائے جس سےوہ نشہ آورنہ رہےیعنی اس کےاستعمال کرنےسےایک عام آدمی کونشہ نہ آتاہوتوایسی ملاوٹ شدہ چرس اگرچہ شرعاًحرام تونہ رہےگی،تاہم طبی اورطبعی طورپرمکروہ پھربھی رہےگی۔

لہٰذااگرچرس کی اپنی فطری تأثیر(نشہ آورہونے)کوکسی مباح وحلال چیز(جیسے:جڑی بوٹی کی ملاوٹ)کےذریعےختم یااس طورپرکم کی جائےکہ وہ نشہ آورنہ رہےتوایسی صورت میں کم ازکم حرمت سےنکل جائےگی،البتہ طبی /طبعی نقصان کی وجہ سےبغیرضرورت کےمباح بھی نہ رہےگی جیسےحرام موادسےخالی سیگریٹ اورنسوار،لہٰذابہتریہ ہےکہ ملاوٹ شدہ غیرنشہ آورچرس کےاستعمال سے بھی احترازکیاجائے،ایسی چیزوں میں عام طور پر طلب ہوتی ہے، جو رفتہ رفتہ نشہ کی طرف لے جاتی ہے۔

البنایہ میں ہے:

"‌أكل ‌قليل ‌السقمونيا، والبنج مباح للتداوي. وما زاد على ذلك إذا كان يقتل أو يذهب العقل حرام".

(كتاب الأشربة،بيع الأشربة المحرمة،ج:12،ص:370،ط:دار الكتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے:

"(ويحرم أكل البنج والحشيشة)هي ورق القنب ...(قوله ويحرم أكل البنج) هو بالفتح: نبات يسمى في العربية شيكران، يصدع ويسبت ويخلط العقل كما في التذكرة للشيخ داود..وفي القهستاني: هو أحد نوعي شجر القنب، حرام لأنه يزيل العقل، وعليه الفتوى...ومن صرح بحرمته أراد به القدر المسكر منه...وهكذا يقول في غيره من الأشياء الجامدة المضرة في العقل أو غيره، يحرم تناول القدر المضر منها دون القليل النافع، لأن حرمتها ليست لعينها بل لضررها...بقي هنا شيء لم أر من نبه عليه عندنا، وهو أنه إذا اعتاد أكل شيء من الجامدات التي لا يحرم قليلها ويسكر كثيرها حتى صار يأكل منها القدر المسكر ولا يسكره..نعم صرح الشافعية بأن العبرة لما يغيب العقل بالنظر لغالب الناس بلا عادة".

(كتاب الأشربة في بدايته،ج:6،ص:457-458،ط:سعيد)

پاگل کو زکوٰۃ دینا

   پاگل/مجنون  مستحقِ زکات شخص  کو  براہ راست زکات دینا جائز نہیں ہے اور نہ ہی اسے  زکات دینے سے زکات ادا نہ ہوگی،  البتہ  پاگل، مجنون مستحقِ زکات ہونے کی صورت میں اگر  اس کا  ولی/ سرپرست اس کی طرف سے قبضہ کرلے تو زکات ادا  ہوجائے گی۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"و كذا لو دفع زكاة ماله إلى صبي فقير أو مجنون فقير وقبض له وليه أبوه أو جده أو وصيهما جاز ؛ لأن الولي يملك قبض الصدقة عنه.و كذا لو قبض عنه بعض أقاربه و ليس ثمة أقرب منه و هو في عياله يجوز."

(ج: 4، صفحہ: 111، ط: دار الكتب العلمية - بيروت - لبنان)

فتاوی شامی میں ہے:

"و التملكيك إشارة إلى أنه لايصرف إلى مجنون وصبي غير مراهق إلا إذا قبض لهما من يجوز له قبضة كالأب والوصي وغيرهما ويصرف إلى مراهق يعقل الأخذ."

(ج:2، ص344، ط: سعيد