https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Monday 29 July 2024

مساج اور اس کی اجرت کاحکم

 مساج (مالش)   اگر  محض تلذذ  یا شہوت رانی کے لیے ہو تو بالکل ناجائز ہے، تاہم اس کا ایک اہم مقصد  علاج بھی  ہے؛  لہٰذا   بطورِ علاج مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ اس کی گنجائش ہوگی:

  1.  مرد  اور عورت  کا بالکل اختلاط نہ ہو۔
  2. مرد مرد کا اور عورت عورت کا ہی مساج کرے۔
  3. ستر کے شرعی احکام کا لحاظ رکھا جائے۔
  4. کسی بھی غیر شرعی کام کا ارتکاب نہ ہو۔

مذکورہ شرائط میں سے کسی شرط کا لحاظ نہ رکھا جائے تو مساج کرنا اور اس کی اجرت لینا جائز نہیں ہوگا، اور ان شرائط کا لحاظ رکھتے ہوئے مساج کیا جائے تو اس کی اجرت لینا جائز ہوگا، لیکن عمومًا ایسے مقامات پر شرائط کا لحاظ نہیں رکھا جاتا ، لہذا ان میں  کام کرنے اور  جانے سے اجتناب کیا جائے۔

اسی طرح  اگر مساج میں تو  مذکورہ شرائط کا لحاظ رکھا جائے، لیکن اس جگہ غیر شرعی کام بھی ہوتے ہوں، مثلًا موسیقی چلنا،  داڑھی منڈوانا اور بھنویں بنوانا وغیرہ تو   ایسی جگہ کام کرنا ناجائز ہوگا،  ایسی صورت میں اپنے لیے کوئی جائز  و حلال پیشہ  اختیار کیاجائے۔

المحیط البرہانی میں ہے:

"لا تجوز الإجارة على شيء من اللهو والمزامير والطبل وغيره؛ لأنها معصية والإجارة على المعصية باطلة؛ ولأن الأجير مع المستأجر يشتركان في منفعة ذلك فتكون هذه الإجارة واقعة على عمل هو فيه شريك."

(كتاب الإجارات، الفصل الخامس عشر: في بيان ما يجوز من الإجارات، وما لا يجوز، ج: 7، ص: 482، ط. دار الكتب العلمية، بيروت)

فتح الباری لابن رجب الحنبلی میں ہے:

"وقال عمرو بنِ ميمون: لا يدخل أحد الفرات إلا بإزار، و لا ‌الحمام إلا بإزار، إلا تستحيون مما استحى منهُ أبوكم آدم؟".

(كتاب الغسل، باب التستر في الغسل عند الناس، ج: 1، ص: 337، ط: مكتبة الغرباء الأثرية)

No comments:

Post a Comment