جب نماز جیسی اہم ترین عبادت کی ادائیگی کے لیے عورتوں کے مسجد میں جانے سے منع کردیا گیا اور فقہاء کرام نے نصوص کی روشنی میں اس کو مکروہ تحریمی قرار دیا ہے تو موجودہ پر فتن دور جس میں فتنہ ، فساد ، اور بے حیائی عام ہے، اور مرد وزن میں دین بیزاری کا عنصر غالب ہے، عورتوں میں فیشن ، اور بن سنور کر باہر نکلنے کا رواج ہے ، پھر خاص نکاح کے مواقع پر عورتیں بننے سنورنے کا اہتمام بھی زیادہ کرتی ہیں،اس میں فتنہ کا اندیشہ بھی زیادہ ہے، لہذا عورتوں کا اہتمام سے نکاح میں شرکت کے لیے مسجد جانا جائز نہیں ۔
المستدرك للحاكم میں ہے:
" عن عبد الله ، عن النبي صلى الله عليه وسلم ، قال : صلاة المرأة في بيتها أفضل من صلاتها في حجرتها ، وصلاتها في مخدعها أفضل من صلاتها في بيتها."
(كتاب الطهارة، ومن كتاب الإمامة، وصلاة الجماعة، 1/ 324، ط: دار الكتب العلمية)
صحيح البخاری میں ہے:
"عن عائشة ـ رضي الله عنها ـ قالت: لو أدرك رسول الله صلى الله عليه وسلم ما أحدث النساء لمنعهن كما منعت نساء بني إسرائيل، قلت لعمرة: أو منعن؟ قالت: نعم."
(كتاب صفة الصلاة، باب: انتظار الناس قيام الإمام العالم، 1/ 296، ط :دار ابن كثير)
الدر المختار مع رد المحتار میں ہے:
"(ويكره حضورهن الجماعة) ولو لجمعة وعيد ووعظ (مطلقاً) ولو عجوزاً ليلاً (على المذهب) المفتى به؛ لفساد الزمان، واستثنى الكمال بحثاً العجائز والمتفانية."
و في الرد:
"(قوله: ولو عجوزاً ليلاً) بيان للإطلاق: أي شابةً أو عجوزاً نهاراً أو ليلاً (قوله: على المذهب المفتى به) أي مذهب المتأخرين. قال في البحر: وقد يقال: هذه الفتوى التي اعتمدها المتأخرون مخالفة لمذهب الإمام وصاحبيه، فإنهم نقلوا أن الشابة تمنع مطلقاً اتفاقاً. وأما العجوز فلها حضور الجماعة عند الإمام إلا في الظهر والعصر والجمعة أي وعندهما مطلقاً، فالإفتاء بمنع العجائز في الكل مخالف للكل، فالاعتماد على مذهب الإمام. اهـ.
No comments:
Post a Comment