https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Thursday 1 August 2024

کرکٹ کھیلنا

 شریعتِ مطہرہ میں چند شرائط کے ساتھ   مختلف کھیلوں کی اجازت دی ہے، مثلاً اس میں دینی یا دنیوی نفع ہو، وہ کھیل فی نفسہ جائز ہو، اس میں مشغول ہو کر فرائض اور واجبات کا ترک لازم نہ آتا ہو اور دیگر غیر شرعی امور  (مثلاً ویڈیو تصاویر ، مرد وزن کا اختلاط   وغیرہ) کا ارتکاب نہ کیا جاتا ہو،  اگر کسی کھیل میں اس طرح کی شرائط پائی جائیں، تو وہ کھیل   فی نفسہ جائز   ہے،  لہٰذا مذکورہ بالا شرائط کی رعایت رکھتے ہوئے کرکٹ کھیلنا جائز ہے، اگر ان شرائط کی رعایت نہ رکھی جائے، تو کرکٹ کھیلنا جائز نہیں ہے۔

  تکملۃ فتح الملہم شرح صحیح المسلم میں ہے:

"فالضابط في هذا . . . أن اللهو المجرد الذي لا طائل تحته، وليس له غرض صحيح  مفيد في المعاش ولا المعاد حرام اور مكروه تحريماً، . . . وما كان فيه غرض  ومصلحة دينية أو دنيوية، فإن ورد النهي  عنه من الكتاب أو السنة . . . كان حراماً أو مكروهاً تحريماً، ... وأما مالم يرد فيه النهي عن الشارع وفيه فائدة ومصلحة للناس، فهو بالنظر الفقهي علي نوعين ، الأول ما شهدت التجربة بأن ضرره أعظم من نفعه ومفاسده أغلب علي منافعه، وأنه من اشتغل به الهاه عن ذكر الله  وحده وعن الصلاة والمساجد التحق ذلك بالمنهي عنه لاشتراك العلة فكان حراماً أو مكروهاً، والثاني ماليس كذالك  فهو أيضاً إن اشتغل به بنية التلهي والتلاعب فهو مكروه، وإن اشتغل به لتحصيل تلك المنفعة وبنية استجلاب المصلحة فهو مباح،  بل قد ير تقي إلى درجة الاستحباب أو أعظم منه ... وعلي هذا الأصل فالألعاب التي يقصد بها رياضة الأبدان أو الأذهان جائزة في نفسها مالم يشتمل علي معصية أخري، وما لم يؤد الانهماك فيها إلى الإخلال بواجب الإنسان في دينه و دنياه‘‘.

( کتاب الشعر، باب تحریم اللعب بالنردشیر،381/4، ط:  داراحیاء التراث العربی)

بیوی کو لیکر شاپنگ پر جانا

 بہتریہ ہے کہ شوہرخودہی خریداری کرے،آج کل مخلتف ذرائع سےخواتین کی پسندکی ہی چیزیں گھربیٹھےمنگوائی جاسکتی ہیں،لہٰذاعورت کےلیےبلاضرورت گھرسےخریداری کےلیےنکلناجائزنہیں،خصوصاًجب کہ بازارمیں مردوں کےساتھ بےتکلفانہ گفتگو،بھاؤ تاؤاوراختلاط ہو،تاہم اگرمجبوری ہوتوشوہر اپنی بیوی کو  مکمل پردےکی رعایت کےساتھ خریداری کےلیے  اپنےساتھ لےجاسکتاہے۔

الدرالمختار میں ہے:

"(وينقلها فيما دون مدته) أي السفر (من المصر إلى القرية وبالعكس) ومن قرية إلى قرية لأنه ليس بغربة، وقيده في التتارخانية بقرية يمكنه الرجوع قبل الليل إلى وطنه، وأطلقه في الكافي قائلا: وعليه الفتوى."

(کتاب النکاح، باب المهر، مطلب فی السفر بالزوجة، ج: 3، ص: 147، ط: سعيد)

تفسيرمظہری میں ہے:

"أمر بالقرار في البيوت وعدم الخروج بقصد المعصية كما يدل عليه قوله تعالى وَلا تَبَرَّجْنَ فإنه عطف تفسيري وتأكيد معنى وليس في الآية نهي عن الخروج من البيت مطلقا."

(ج: 7، ص:338، ط: رشيدية)

عورت کا ناپاکی کی حالت میں بچے کودودھ پلانا

 بچے کو دودھ پلانے کے لیے عورت کا پاک ہونا ضروری نہیں ہے، لہذا حالتِ جنابت میں بھی عورت اپنے بچے کو دودھ پلا سکتی ہے  ۔ البتہ بچے کو فوری طلب نہ ہو تو غسل کرکے پلانا بہتر ہے۔

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"(عن عائشة قالت: كنت أرجل رأس رسول الله صلى الله عليه وسلم) : أي شعر رأسه (و أنا حائض) : فيه جواز المخالطة مع الحائض  ... و في الحديث دلالة على ‌طهارة ‌بدن ‌الحائض ‌وعرقها."

(كتاب اللباس، باب الترجل، ج:7، ص:2813، ط:دار الفكر)

فتاوی ہندیۃ میں ہے:

"وإن أراد أن يأكل أو يشرب فينبغي أن يتمضمض ويغسل يديه."

(كتاب الطهارة، الباب الثاني في الغسل، الفصل الثالث في المعاني الموجبة للغسل، ج:1، ص:16، ط:رشيدية)

چہرے کی سرجری کرانا

 ازروئے شریعت   سرجری کروانے کی گنجائش صرف اُن انسانی عیب دار اعضاء میں دی  گئی ہے،جوسرجری کے بغیرانسان کے لیے باعث تکلیف ہوں یا جن میں سرجری نہ کروائی جائے توبیماری بڑھنے  یا پھیلنے کا امکان ہو، تاہم حُسن  وخوبصورتی کے لیے یا مزید پُر کشش بننے کے لیےکسی بھی قسم کی سرجری   کا عمل "تغییر لخلق اللّٰه" کے زمرے میں آتا ہے جو کہ حرام ہے،لہذا صورت مسئولہ میں بغیر کسی شرعی وجہ کے چہرے کی سرجری کرواناجائز نہیں ہے۔ تاہم اگر عیب ہو تو ازالہ عیب تک کی اجازت ہے۔

قرآن پاک میں ہے :

"{ لَعَنَهُ اللَّهُ وَقَالَ لَأَتَّخِذَنَّ مِنْ عِبَادِكَ نَصِيبًا مَفْرُوضًا  وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُبَتِّكُنَّ آذَانَ الْأَنْعَامِوَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللَّهِوَمَنْ يَتَّخِذِ الشَّيْطَانَ وَلِيًّا مِنْ دُونِ اللَّهِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُبِينًا}"[النساء:118، 119]

ترجمہ :" جس کو خدا تعالیٰ نے اپنی رحمت سے دور ڈال رکھا ہے اور جس نے یوں کہا تھا کہ میں ضرور تیرے بندوں سے اپنا مقرر حصہ (اطاعت کا) لوں گا۔ اور میں ان کو گمراہ کروں گا اور میں ان کو ہوسیں دلاؤں گا اور میں ان کو تعلیم دوں گا جس میں وہ چوپایوں کے کانوں کوتراشا کریں گے اورمیں ان کو تعلیم دوں گا جس سے وہ الله تعالیٰ کی بنائی ہوئی صورت کو بگاڑا کریں گے  اور جو شخص خدا تعالیٰ کو چھوڑ کرشیطان کو اپنا رفیق بناوے گا وہ صریح نقصان میں واقع ہوگا۔ "

(بيان القرآن ،ج:1،ص:157،ط:كتب خانه آرام باغ)

تفسیر قرطبی میں ہے :

"وهذه الأمور كلها قد شهدت الأحاديث بلعن فاعلها وأنها من الكبائر. واختلف في المعنى الذي نهي لأجلها، فقيل: لأنها من باب التدليس. وقيل: من باب تغيير خلق الله تعالى، كما قال ابن مسعود، وهو أصح، وهو يتضمن المعنى الأول. ثم قيل: هذا المنهي عنه إنما هو فيما يكون باقيا، لأنه من باب تغيير خلق الله تعالى، فأما ما لايكون باقيًا كالكحل والتزين به للنساء فقد أجاز العلماء ذلك مالك وغيره، وكرهه مالك للرجال."

(سورة النساء، آية: ۱۱۹، ج: ۵، صفحہ: ۳۹۳،  ط:  دار الکتب المصرية)

بیوی کے ہاتھ سے مشت زنی کرانا

 بیوی کی بیماری یا حیض یا نفاس کی حالت میں شوہر پر غلبۂ شہوت کی صورت میں بیوی سے  یہ فعل کروانا جائز ہے، البتہ عام حالات میں بیوی کے ہاتھ سے یہ عمل مکروہِ تنزیہی ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"ويجوز أن يستمني ‌بيد ‌زوجته وخادمته اهـ وسيذكر الشارح في الحدود عن الجوهرة: أنه يكره، ولعل المراد به كراهة التنزيه، فلا ينافي قول المعراج: يجوز، تأمل ...لأن فعله ‌بيد ‌زوجته ونحوها فيه سفح الماء، لكن بالاستمتاع بجزء مباح، كما لو أنزل بتفخيذ أو تبطين، بخلاف ما إذا كان بكفه ونحوه، وعلى هذا فلو أدخل ذكره في حائط أو نحوه حتى أمنى أو استمنى بكفه بحائل يمنع الحرارة يأثم أيضا، ويدل أيضا على ما قلنا ما في الزيلعي حيث استدل على عدم حله بالكف بقوله تعالى {والذين هم لفروجهم حافظون} [المؤمنون: 5] الآية، وقال: فلم يبح الاستمتاع إلا بهما أي بالزوجة والأمة، اهـ فأفاد عدم حل الاستمتاع أي قضاء الشهوة بغيرهما، هذا ما ظهر لي. والله سبحانه أعلم."

(ج:2، ص:399، كتاب الصوم، ‌‌باب ما يفسد الصوم وما لا يفسده، مطلب في حكم الاستمناء بالكف، ط:سعيد)

وایضاً:

"[فرع]في الجوهرة: الاستمناء حرام، وفيه التعزير. ولو مكن امرأته أو أمته من العبث بذكره فأنزل كره ولا شيء عليه.

وفي الرد: (قوله: كره) الظاهر أنها كراهة تنزيه؛ لأن ذلك بمنزلة ما لو أنزل بتفخيذ أو تبطين تأمل."

(ج:4، ص:27، کتاب الحدود، ‌‌باب الوطء الذي يوجب الحد والذي لا يوجبه، ط:سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وله أن يقبلها ويضاجعها ويستمتع بجميع بدنها ما خلا ما بين السرة والركبة عند أبي حنيفة وأبي يوسف. هكذا في السراج الوهاج."

(الفتاوى الهندية، كتاب  الطهارة، الباب السادس : الدماء المختصة  بالنساء، الفصل الرابع في الحيض، ج:1، ص:93)

گھڑی کونسے ہاتھ میں پہننا بہتر ہے

 شرعی اعتبار سےگھڑی پہننے میں کسی ہاتھ کی تعیین  نہیں، اپنی سہولت کے مطابق جس ہاتھ میں چاہیں  پہن سکتے ہیں ، البتہ اکثر  خیر  کی چیزوں میں   آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دائیں سمت کو ترجیح دی ہے،گھڑی بھی خیر کا ذریعہ ہے، کیوں کہ اس سے نماز وں کے اوقات معلوم ہوتے ہیں،اس لیے گھڑی بھی دائیں ہاتھ میں پہننا بہتر ہے ، البتہ اگر کوئی بائیں ہاتھ میں پہنے، تو بھی کوئی حرج نہیں ۔

بخاری شریف میں ہے:

"عن عائشة قالت: «كان النبي صلى الله عليه وسلم ‌يحب ‌التيمن ما استطاع في شأنه كله، في طهوره وترجله وتنعله»."

(كتاب الصلاة، ‌‌باب التيمن في دخول المسجد وغيره، ج:1، ص:93، رقم الحدیث:426، ط:دار طوق النجاة)

ترجمہ:حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جتنا ممکن ہو سکتا تھا اتنا اپنے ہر کام میں دائیں جانب سے ابتدا کرنے کو پسند کرتے تھے، مثلا: طہارت حاصل کرنے میں، اور کنگھی کرنے میں، اور جوتے پہنے ہیں ۔ (کشف الباری)

الیکٹرک مشین سے مچھروں کو مارنا

 مذکورہ مشین  (جس میں کرنٹ کے ذریعہ مچھر ہلاک ہوتے  ہیں) کے ذریعہ مچھر مارنا (مسجد اور غیر مسجد دونوں میں ) جائز ہے، البتہ بلاعذر مچھروں کے آگ کے ذریعہ جلا کر مارنا یا  کسی ایسی مشین کے ذریعہ اپنے عمل سے ان کو جلا کر مارنا  مکروہ  ہے، اور  اگر کسی نصب شدہ مشین میں وہ خود آکر  جل کر مرجائیں تو یہ صورت مکروہ نہیں ہے۔  

فتاوی ہندیۃ میں ہے:

"قتل النملة تكلموا فيها والمختار أنه إذا ابتدأت بالأذى لا بأس بقتلها وإن لم تبتدئ يكره قتلها واتفقوا على أنه يكره إلقاؤها في الماء وقتل القملة يجوز بكل حال كذا في الخلاصة

 وإحراق القمل والعقرب بالنار مكروه وطرح القمل حيا مباح لكن يكره من طريق الأدب كذا في الظهيرية."

(كتاب الكراهية، الباب الحادي والعشرون فيما يسع من جراحات بني آدم والحيوانات، ج:5، ص:361، ط:رشيدية)

ولیمہ کا مسنون وقت

 " ولیمہ مسنونہ" کا اعلیٰ اور افضل درجہ یہ ہے کہ شبِ زفاف اور صحبت   کے بعد ہو، اور دوسرا درجہ یہ ہے کہ  شبِ زفاف کے بعد اور صحبت سے پہلے ہو،  یہ دونوں مسنون ولیمہ شمار ہوں گے،  اور اس کے علاوہ  نفس نکاح  کے بعد، یا رخصتی کے بعد اور شبِ زفاف سے پہلے جو ولیمہ ہو وہ " ولیمہ مسنونہ" تو نہیں ہوگا، البتہ اس سے نفسِ ولیمہ کی سنت ادا ہوجائے گی، گو مسنون وقت کی سنت ادا نہیں ہوگی، اور جو دعوت/ ضیافت عقدِ نکاح سے ہی پہلے کی جائے وہ ولیمہ ہی نہیں ہوگا، بلکہ عام دعوت ہوگی۔نیز  شبِ زفاف  کے تیسرے دن تک حدیث شریف سے ولیمہ کا ثبوت ہے، اگر شبِ زفاف کے بعد پہلے دن انتظام ہوسکتا ہو تو سب سے بہتر پہلا دن ہے، تیسرے دن کے بعد ولیمہ کرنا فقط ضیافت شمار ہوگی۔

اگر مہمان زیادہ ہوں، یا کسی مقام کا عرف ایک ہی دفعہ ولیمہ منعقد  کرکے مہمانوں کو بلانے کے بجائے  یہ ہو  کہ یکے بعد دیگرے مہمان آتے ہوں اور کھا کر چلے جاتے ہوں تو مستقلاً تین دن تک بھی ولیمہ کا کھانا کھلایا جاسکتا ہے،  حضورِ اقدس ﷺ نے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے نکاح میں اسی طرح تین دنوں تک ولیمہ فرمایا ہے، الغرض ولیمہ ایک دن میں کر دیا جائے یا عرف کے مطابق مسلسل تین دنوں تک دونوں درست ہیں، لیکن مسلسل تین دن تک کھانا کھلانے میں یہ شرط ملحوظ رہے کہ اس میں دکھلاوا یا اسراف نہ ہو، بلکہ حسبِ استطاعت سنت کے اتباع کی نیت سے اس معاملے کو انجام دیا جائے۔ ایک حدیث میں ہے ' پہلے دن ولیمہ حق ہے، دوسرے دن نیکی ہے، اور  (مسلسل) تیسرے دن سناوا اور دکھلاواہے'۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"و عن أنس قال: أولم رسول الله صلى الله عليه و سلم حين بنى بزينب بنت جحش فأشبع الناس خبزاً و لحماً. رواه البخاري".

 (كتاب النكاح،الفصل الاول، باب الولیمة، 278/2،ط: قدیمی)

وفیہ ایضا: 

" قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «طعام أول يوم حق وطعام يوم الثاني سنة وطعام يوم الثالث ‌سمعة ومن سمع سمع الله به» . رواه الترمذي".

(‌‌كتاب النكاح،‌‌باب الوليمة،الفصل الثاني،٩٦٢/٢،ط : المكتب الإسلامي)

درختوں کی پیوند کاری درست ہے کہ نہیں

 درختوں اور پودوں کی پیوند کاری کرنا شرعاًجائز ہے،خواہ یہ پیوند کاری  ایک ہی قسم (جنس)کے  درختوں میں کی جائے یا ایک قسم کے درخت کو دوسری قسم کے درخت میں پیوند کیا جائے،احادیث مبارکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں درختوں میں پیوندکاری کرنے کا ثبوت ملتا ہے،باقی اس کا کوئی مخصوص  شرعی طریقہ نہیں۔

 سنن ابن ماجہ میں ہے:

"حدثنا محمد بن يحيى قال: حدثنا عفان قال: حدثنا حماد قال: حدثنا ثابت، عن أنس بن مالك، وهشام بن عروة، عن أبيه، عن عائشة، أن النبي صلى الله عليه وسلم سمع أصواتا، فقال: «ما هذا الصوت؟» قالوا: النخل يأبرونه، فقال: «لو لم يفعلوا لصلح» ، فلم يؤبروا عامئذ، فصار شيصًا، فذكروا ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم، فقال: «إن كان شيئًا من أمر دنياكم، فشأنكم به، و إن كان شيئًا من أمر دينكم، فإلي»."

(کتاب الرھون،  باب تلقیح النخل، ج:2، ص:825، ط:دار إحياء الكتب العربية)

"ترجمہ:ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ آوازیں سنیں تو پوچھا: ”یہ کیسی آواز ہے“؟ لوگوں نے کہا: لوگ کھجور کے درختوں میں پیوند لگا رہے ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایسا نہ کریں تو بہتر ہو گا“ چنانچہ اس سال ان لوگوں نے پیوند نہیں لگایا تو کھجور خراب ہو گئی، لوگوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہاری دنیا کا جو کام ہو، اس کو تم جانو، البتہ اگر وہ تمہارے دین سے متعلق ہو تو اسے مجھ سے معلوم کیا کرو“۔

نابالغ کی خودکشی پر مؤاخذہ ہوگاکہ نہیں

 نابالغ شرعی احکام کا مکلف نہیں ہوتا اور اس کے بلوغت  سے پہلے کیے گئے  گناہوں پر کوئی مواخذہ نہیں ہے، لہذا نابالغ  اگر  خود کشی کرلے تو مکلف نہ ہونے کی وجہ سے آخرت میں اس کی پکڑ نہیں ہوگی۔

سنن نسائی میں ہے:

"عن عائشة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " ‌رفع ‌القلم عن ثلاث: عن النائم حتى يستيقظ، ‌وعن ‌الصغير حتى يكبر، وعن المجنون حتى يعقل أو يفيق."

(کتاب الطلاق، باب: من لا يقع طلاقه من الأزواج، ج:6، ص:156، ط:مكتب المطبوعات الاسلامية)

مبسوط سرخسی میں ہے:

"(قال) وإذا ارتد الغلام المراهق عن الإسلام لم يقتل،  ۔۔۔۔ لقوله - صلى الله عليه وسلم -: «‌رفع ‌القلم عن ثلاث عن الصبي حتى يحتلم»، ومن كان مرفوع القلم فلا ينبني الحكم في الدنيا على قوله، ولأنه غير مخاطب بالإسلام ما لم يبلغ فلا يحكم بصحة إسلامه كالذي لا يعقل إذا لقن فتكلم به." 

(كتاب السير، باب المرتدين، ج:10، ص:120، ط:دار المعرفة)

Wednesday 31 July 2024

زیادہ ایڈوانس جمع کراکے کم کرایہ پر گھر لینا

 ایڈوانس زیادہ جمع کرانے کی صورت میں مروجہ کرایہ میں کمی کرنا سود کی اقسام میں سے ایک قسم ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے؛  اس لیے کہ ایڈوانس رقم درحقیقت مالکِ  مکان کے ذمہ قرض ہوتی ہے اور قرض کے عوض میں کسی قسم کا مشروط نفع اٹھانا سود ہونے کی وجہ سے حرام ہے، لہذا اس طرح عقد نہ کیا جائے۔البتہ

-  اگر کرایہ دار کرایہ کم کرنے کی صورت  میں سال بھر کا کرایہ یکمشت ادا کردے تو  یہ جائز ہے، بشرطیکہ کرایہ کے کم کرنے کوایڈوانس (سیکیورٹی ڈپازٹ) کے  زیادہ ہونے کے ساتھ  مشروط نہ کیا گیا ہو۔ سو اگر یوں  طے کیا گیا کہ کرایہ دار  زیادہ سیکیورٹی دے گا تو کرایہ کم کیا جائے گا تو یہ معاملہ  سود کی اقسام میں سے ہونے کی وجہ سے جائز نہیں ہوگا۔  ہاں  ڈپازٹ کی رقم معمول کے مطابق ہو  یا بالکل بھی نہ ہو اور کرایہ بھی کم ہو اور کرایہ دار یک مشت ادا کردے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

النتف فی الفتاوی میں ہے:

أنواع الربا: وأما الربا فهو علی ثلاثة أوجه:أحدها في القروض، والثاني في الدیون، والثالث في الرهون. الربا في القروض: فأما في القروض فهو علی وجهین:أحدهما أن یقرض عشرة دراهم بأحد عشر درهماً أو باثني عشر ونحوها. والآخر أن یجر إلی نفسه منفعةً بذلک القرض، أو تجر إلیه وهو أن یبیعه المستقرض شيئا بأرخص مما یباع أو یوٴجره أو یهبه…، ولو لم یکن سبب ذلک (هذا ) القرض لما کان (ذلک) الفعل، فإن ذلک رباً، وعلی ذلک قول إبراهیم النخعي: کل دین جر منفعةً لا خیر فیه.

(النتف في الفتاوی ، ص: ٤٨٤، ٤٨٥)


گونگے شخص کی طلاق

 گونگے شخص کی طلاق اشارہ سے  چند شرائط کے ساتھ واقع ہوگی، اگر ان شرائط میں سے کوئی ایک بھی شرط مفقود ہوئی تو طلاق واقع نہیں ہوگی، وہ شرائط مندرجہ ذیل ہیں:

۱) اشارہ سے طلاق دینے والا گونگا شخص  پیدائشی گونگا ہو ، پیدائشی گونگا نہ ہونے کی صورت میں اس کے گونگے پن پر کم از کم ایک سال گزر گیا ہو۔

۲)  اس کے اشارے اور اشاروں کا مطلب لوگوں میں معروف (جانا پہچانا) ہو، اور وہ ایسے اشارہ سے طلاق دے جس کا طلاق کے اشارہ کے طور پر استعمال ہونا معروف و مشہور ہو۔

۳) اشارہ کرتے وقت اس کے منہ سے کچھ آواز بھی نکلے جیسا کہ گونگوں کی عادت ہوتی ہے۔

۴) اشارہ سے طلاق دینے والا گونگا شخص لکھنے پر قادر نہ ہو؛ جو گونگا لکھنے پر قادر ہو اس کی طلاق لکھنے سے ہی ہوگی، اشارہ کرنے سے نہیں ہوگی۔

واضح رہے کہ گونگا شخص اشارہ سے طلاق دیتے وقت جتنے عدد کا اشارہ کرے گا اتنی ہی طلاقیں واقع ہوں گی اور اگر اشارہ سے تین سے کم (ایک یا دو) طلاق دے گا تو وہ طلاقِ  رجعی ہی شمار کی جائے گی۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 241):

"(أو أخرس) ولو طارئاً إن دام للموت، به يفتى، وعليه فتصرفاته موقوفة. واستحسن الكمال اشتراط كتابته (بإشارته) المعهودة؛ فإنها تكون كعبارة الناطق استحساناً.

 (قوله: إن دام للموت) قيد في طارئاً فقط ح. قال في البحر: فعلى هذا إذا طلق من اعتقل لسانه توقف، فإن دام به إلى الموت نفذ، وإن زال بطل. اهـ. قلت: وكذا لو تزوج بالإشارة لايحل له وطؤها؛ لعدم نفاذه قبل الموت، وكذا سائر عقوده، ولايخفى ما في هذا من الحرج (قوله: به يفتى) وقدر التمرتاشي الامتداد بسنة، بحر. وفي التتارخانية عن الينابيع: ويقع طلاق الأخرس بالإشارة، ويريد به الذي ولد وهو أخرس أو طرأ عليه ذلك ودام حتى صارت إشارته مفهومة وإلا لم يعتبر (قوله: واستحسن الكمال إلخ) حيث قال: وقال بعض الشافعية: إن كان يحسن الكتابة لايقع طلاقه بالإشارة؛ لاندفاع الضرورة بما هو أدل على المراد من الإشارة وهو قول حسن، وبه قال بعض مشايخنا اهـ. قلت: بل هذا القول تصريح بما المفهوم من ظاهر الرواية.

ففي كافي الحاكم الشهيد ما نصه: فإن كان الأخرس لايكتب وكان له إشارة تعرف في طلاقه ونكاحه وشرائه وبيعه فهو جائز، وإن كان لم يعرف ذلك منه أو شك فيه فهو باطل. اهـ. فقد رتب جواز الإشارة على عجزه عن الكتابة، فيفيد أنه إن كان يحسن الكتابة لاتجوز إشارته، ثم الكلام كما في النهر إنما هو في قصر صحة تصرفاته على الكتابة، وإلا فغيره يقع طلاقه بكتابة كما يأتي آخر الباب، فما بالك به (قوله: بإشارته المعهودة) أي المقرونة بتصويت منه؛ لأن العادة منه ذلك، فكانت الإشارة بياناً لما أجمله الأخرس، بحر عن الفتح. وطلاقه المفهوم بالإشارة إذا كان دون الثلاثة فهو رجعي، كذا في المضمرات ط عن الهندية"

گونگے کا نکاح میں ایجاب وقبول

 گونگا اگر لکھنا پڑھنا جانتا ہے، تو اس کے سامنے ایک کاغذ پر ایجاب لکھ دیا جائے اور وہ جواب میں "مجھے قبول ہے" لکھ دے، تو  نکاح منعقد ہوجائے گا اور اگر وہ لکھنا پڑھنا بھی نہیں جانتاہو تو پھر اشارہ سے "مجھے قبول ہے" بتادے، نکاح منعقد ہوجائے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

رد المحتار: (21/3، ط: دار الفکر)
وفي الفتح ينعقد النكاح من الأخرس إذا كانت له إشارة معلومة ۔

و فیہ ایضا: (241/3، ط: دار الفکر)
قلت بل هذا القول تصريح بما هو المفهوم من ظاهر الرواية ففي كافي الحاكم الشهيد ما نصه فإن كان الأخرس لا يكتب وكان له إشارة تعرف في طلاقه ونكاحه وشرائه وبيعه فهو جائز وإن كان لم يعرف ذلك منه أو شك فيه فهو باطل اھ فقد رتب جواز الإشارة على عجزه عن الكتابة فيفيد أنه إن كان يحسن الكتابة لا تجوز إشارته ۔الخ۔

الفتاوی الھندیۃ: (270/1، ط: دار الفکر)
وكما ينعقد بالعبارة ينعقد بالإشارة من الأخرس إن كانت إشارته معلومة كذا في البدائع۔