https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Saturday 3 August 2024

ارھا نام رکھنا

 "ارہا " یعنی"ہ" کے ساتھ عربی اردو لغات میں مستعمل نہیں ،البتہ اس کا تلفظ  عربی لغت میں"ارحا" یعنی "ح"کے ساتھ کیا جاتا ہے،اور اس کےمعنی" چکی اور داڑھ کے ہیں"اوراس کے اندر کسی چیز کو گھمانے کا معنی بھی ہے،معنی کے اعتبار سے یہ نام رکھنا مناسب نہیں ہے ،لہذا بہتر ہے کہ صحابیات کے ناموں میں سے کسی نام کا انتخاب کر کے نام رکھا جائے۔

ہماری ویب سائٹ پر اسلامی ناموں کی فہرست اور تلاش کی سہولت بھی موجود ہے ،وہاں سے بھی انتخاب کرسکتے ہیں۔

المدخل إلى تقويم اللسان میں ہے:

"ويقولون لبيت ‌الرحا: (الطاحونة). وإنما الطاحونة الطحانة التي تدور بالماء، والجمع: الطواحين."

(باب ما جاء لشيئين أو لأشياء فقصروه على واحد، ص:375 ط: دار البشائر)

المغرب فی ترتیب المعرب میں ہے:

"رحي"  الرَّحى مؤنث وتثنيتُها رحَيان والجمع أرحاءُ وأَرْحٍ وأنكر أبو حاتم الأَرْحِية. وقوله: ما خلا الرَحَى أي وضع الرحى وتستعار، الأرحاء للأضراس وهي اثنا عشر."

( باب الراء المهملة، الراء مع الدال المهملة، ص:186 ط: دار الکتاب العربی)

گلیوں میں پھرنے والی مرغی کا گوشت

 گلی کوچوں میں مرغی صاف اور گندی دونوں چیزیں کھاتی ہے تو اس کا گوشت کھانا بلا کراہت درست ہے ،کیونکہ اس کے جسم اور گوشت سے اکثر بدبو نہیں آتی ،البتہ اگر مرغی خالص گندگی کھالیں اور گوشت اور جسم سے بدبو آنے لگے تب اس کو تین دن پنجرہ وغیرہ میں رکھ کرپاک صاف چیزیں کھلائی جائیں ،جب جسم اور گوشت سے بدبو آنا ختم ہوجائے تو پھر اس کا کھانا جائز ہوگا۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما بيان ما يكره من الحيوانات فيكره أكل لحوم الإبل الجلالة وهي التي الأغلب من أكلها النجاسة لما روي أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن أكل لحوم الإبل الجلالة ولأنه إذا كان الغالب من أكلها النجاسات تتغير لحمها وينتن فيكره أكله كالطعام المنتن. وروي  «أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - نهى عن الجلالة أن تشرب ألبانها» ؛ لأن لحمها إذا تغير يتغير لبنها، وما روي «أنه عليه الصلاة والسلام - نهى عن أن يحج عليها وأن يعتمر عليها وأن يغزى وأن ينتفع بها فيما سوى ذلك» فذلك محمول على أنها أنتنت في نفسها فيمتنع من استعمالها حتى لا يتأذى الناس بنتنها كذا ذكره القدوري  رحمه الله  في شرحه مختصر الكرخي، وذكر القاضي  في شرحه مختصر الطحاوي أنه لا يحل الانتفاع بها من العمل وغيره إلا أن تحبس أياما وتعلف فحينئذ تحل وما ذكر القدوري رحمه الله أجود؛ لأن النهي ليس لمعنى يرجع إلى ذاتها بل لعارض جاورها فكان الانتفاع بها حلالا في ذاته إلا أنه يمنع عنه لغيره.

ثم ليس لحبسها تقدير في ظاهر الرواية هكذا روي عن محمد رحمه الله أنه قال: كان أبو حنيفة رضي الله عنه لا يوقت في حبسها وقال تحبس حتى تطيب وهو قولهما أيضا، وروى أبو يوسف عن أبي حنيفة عليه الرحمة أنها تحبس ثلاثة أيام، وروى ابن رستم رحمه الله عن محمد في الناقة الجلالة أو الشاة والبقر الجلال أنها إنما تكون جلالة إذا تفتتت وتغيرت ووجد منها ريح منتنة فهي الجلالة حينئذ لا يشرب لبنها ولا يؤكل لحمها، وبيعها وهبتها جائز، هذا إذا كانت لا تخلط ولا تأكل إلا العذرة غالبا فإن خلطت فليست جلالة فلا تكره؛ لأنها لا تنتن."

(كتاب الذبائح والصيود،فصل في بيان ما يكره من الحيوانات،39،40/5،ط:دار الكتب العلمية)

جس کمرےمیں تصویر لگی ہو وہاں تلاوت کرنا

 ایسے  کمرے  میں،  جہاں  کسی  جاندار  کی  تصویر  لگی  ہوئی  ہو،  خواہ  ہاتھ  سے  بنائی  ہوئی  ہو،  یا  کیمرہ  وغیرہ  کے  ذریعہ،وہاں  رحمت کے فرشتے داخل نہیں ہوتے اس لیے جاندار كی تصاویر سے اپنے گھروں کو مکمل پاک رکھنا چاہیے، تا کہ ہمارے گھر رحمت کے فرشتوں سے آباد رہیں،تاہم ایسے گھر یا کمرے میں  قرآن   کریم  کی  تلاوت  کرسکتے  ہیں،  البتہ  قرآن  کریم  کا  تقدس  اور  ادب  کا  لحاظ  رکھتے  ہوئے  بہتر  یہی  ہے  کہ    ایسے  کمرے میں تلاوت کی جائے جہاں تصاویر وغیرہ نہ ہوں ، اور زیادہ بہتر ہے کہ اپنی بیٹھک  کو بھی اس  ناجائز  اور  حرام    چیز  سے  پاک  رکھا  جائے؛ تاکہ بیٹھک پر اللہ کی رحمت نازل ہو۔

مسلم شریف میں ہے:

"عن مسلم، قال: كنا مع مسروق، في دار يسار بن نمير، فرأى في صفته تماثيل، فقال: سمعت عبد الله، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: «إن أشد الناس عذابا عند الله يوم القيامة المصورون."

(باب عذاب المصورين يوم القيامة، ج:7، ص:167، ط:دار طوق النجاة)

ترجمہ:" سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:سب سے زیادہ سخت عذاب قیامت میں تصویر بنانے والوں کو ہو گا۔"

عمدة القاری میں ہے:

"وفي التوضيح قال أصحابنا وغيرهم تصوير صورة الحيوان حرام أشد التحريم وهو من الكبائر وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره فحرام بكل حال لأن فيه مضاهاة لخلق الله وسواء كان في ثوب أو بساط أو دينار أو درهم أو فلس أو إناء أو حائط وأما ما ليس فيه صورة حيوان كالشجر ونحوه فليس بحرام وسواء كان في هذا كله ما له ظل وما لا ظل له وبمعناه قال جماعة العلماء مالك والثوري وأبو حنيفة وغيرهم."

(باب عذاب الصورین،22/70، ط:دار إحياء التراث العربي)

قرآن مجید ناظرہ پڑھنا افضل ہے یاسننا

 قرآنِ کریم سننا اور قرآنِ کریم پڑھنا ٗ دونوں اپنی اپنی جگہ مستقل عبادت کی حیثیت سے ثواب کے حامل ہیں، لیکن عام حالات میں قرآن کو دیکھ کر خود سے پڑھنا کسی اور سے سننے سے زیادہ افضل ہے، کیوں کہ قرآن خود پڑھنے میں پڑھنے اور سننے دونوں روایات کی فضیلت حاصل ہوجاتی ہے، جب کہ سننے میں صرف سننے کی روایات کی فضیلت حاصل ہوتی ہے۔

تاہم اگر تلاوتِ قرآنِ کریم میں دل نہ لگ رہا ہو، یا قرآنِ کریم پڑھنے میں وہ خشوع، خضوع یا یکسوئی حاصل نہ ہورہی ہو، جو  سُن کر حاصل ہوسکتی ہے، یا قرآنِ کریم کاسیکھنا، سکھانا مقصود ہو، ایسے ہی اگر کہیں قرآنِ کریم کی تلاوت پہلے سے جاری ہو، تو ایسی صورتوں میں قرآنِ کریم کو سننا، پڑھنے سے زیادہ افضل ہوگا۔

سنن الترمذي میں ہے:

"عبد الله بن مسعود، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من ‌قرأ ‌حرفا من كتاب الله فله به حسنة، والحسنة بعشر أمثالها، لا أقول الم حرف، ولكن ألف حرف ولام حرف وميم حرف."

(ص:١٧٥، ج:٥، أبواب فضائل القرآن، ‌‌باب ما جاء فيمن قرأ حرفا من القرآن ماله من الأجر، ط: ألبابي، مصر)

سنن أبي داؤد   میں ہے:

"عن عائشة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: الذي يقرأ القرآن وهو ماهر به مع السفرة ‌الكرام ‌البررة، والذي يقرؤه وهو يشتد عليه فله أجران."

(ص:٥٤٣، ج:١، کتاب ‌‌الصلاۃ، باب في ثواب قراءة القرآن، ط: المطبعة الأنصارية)

المصنف لعبد الرزاق   میں ہے:

"عن ابن عباس قال: من ‌استمع ‌آية ‌من ‌كتاب ‌الله، كانت له نورا يوم القيامة."

(ص:١٠٩، ج:٤، کتاب فضائل القرآن، باب تعلیم القرآن وفضله، ط: دار التأصيل)

مسند أحمد میں ہے:

"عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " من استمع إلى آية من كتاب الله عز وجل، كتب له حسنة مضاعفة، ومن تلاها كانت له نورا يوم القيامة."

(ص:١٩١، ج:١٤، صحيفة همام بن منبه،

خواتین کا پڑوس میں ختم قرآن مجید میں شریک ہونا

 بیان اور دعا میں شرکت کی غرض سے پردےکے اہتمام کے ساتھ اگرپڑوس سے کچھ بوڑھی عورتیں  آتی ہیں تو اس میں مضائقہ نہیں ہے ۔ 

بخاری میں ہے:

"عن أبي سعيد الخدري قالت النساء للنبي صلى الله عليه وسلم: غلبنا عليك الرجال، فاجعل لنا يوما من نفسك، فوعدهن يوما لقيهن فيه، فوعظهن وأمرهن، فكان فيما قال لهن: «ما منكن امرأة تقدم ثلاثة من ولدها، إلا كان لها حجابا من النار» فقالت امرأة: واثنتين؟ فقال: واثنتين."

(کتاب العلم ،ہل یجعل للنساء یوم علی حدۃ فی العلم،ج:1،ص:32،ط:دار طوق النجاۃ)

احلام فاطمہ نام رکھنا

 احلام کے عربی زبان میں کئی معانی آتے ہیں ،مثلا اگر اس کی اصل حُلماً وحُلُماً ہو تو ،اس کا معنی ہوگا:خواب دیکھنا۔

اگر اس کی اصل حِلماً ہو،تو معنی ہے:بردبار ہونا۔

لہذا اگر بیٹی کا نام احلام(ہمزہ پر زبر)  فاطمہ رکھنا چاہتے ہیں ت  بمعنی بردبار ہونا ہوگا ،اس طرح نام رکھنے میں کوئی حرج نہیں ،معنی کے اعتبار سے یہ نام درست ہوگا۔

قرآن کریم میں ہے :

"اَمْ تَاْمُرُھُمْ اَحْلاَمُھُمْ بِھٰذَا"(سورة الطور،32)

القاموس الوحید میں ہے:

"حَلَمَ یَحلُمُ حُلما وحُلُما :خواب دیکھنا۔

حَلُمَ یَحلُمُ حِلما :بردبار ہونا،یعنی ناگواری اور غصہ کے اظہار پر قدرت کے باوجود نرمی سے کام لینا،متحمل مزاج ہونا،سلیم الطبع ہونا ،دور اندیش ہونا ،دانشمند ہونا۔"

(ص:371، ط:ادارۂ اسلامیات)

خرگوش کو حیض آتا ہے پھر بھی یہ حلال کیوں ہے

 خرگوش کھانا حلال ہے،اور   نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں خرگوش پیش کیا گیا، آپ ﷺ نے اسے قبول فرمایا،باقی رہی یہ بات کہ اس کے حلال ہونے کی وجہ کیا ہے تو جہاں واضح نص موجود ہو وہاں علتو ں سے بحث نہیں کی جاتی۔

سنن ترمذی میں ہے:

" عن هشام بن زيد بن أنس قال : سمعت أنساً يقول : أنفجنا أرنباً بمر الظهران فسعى أصحاب النبي صلى الله عليه و سلم خلفهتا فأدركتها فأتيت بها أبوطلحة فذبحها بمروة فبعث معي بفخذها أو بوركها إلى النبي صلى الله عليه و سلم فأكله، قال: قلت: أكله ؟ قال: قبله"۔

(أبواب الأطمعة، باب في أكل الأرنب،ج:4، س؛251۔ ط:داراحياء التراث)

عصر کے بعد سونا

 عصر سے مغرب تک کے وقت میں سونا   مکروہ ہے، اور عصر سے مغرب کے درمیان سونے کا معمول بنالینا  ممنوع  ہے،لہذا اس سے احتراز کیا جائے، البتہ کبھی کبھار کسی عذر (بیماری، تھکن یا بے خوابی وغیرہ) کی وجہ سے اگر عصر اور مغرب کے درمیان سونے کا تقاضہ  ہو تو  پھر اس وقت سونے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

ملحوظہ: عصر کے بعد سونے سے ایک روایت  میں منع آیا ہے،جس میں عقل کی فتور کو سبب قررارد یاہے، اگر چه يه روايت سنداً ضعیف  ہے(1)،لیکن  کسی نے بھی اس روایت کو  موضوع نہیں کہاہے(2)، ترغیبات و ترهیبات  میں ضعیف احادیث سے استدلال کرنا سلف سے منقول ہے(3)، دوئم  اس حدیث کو تلقی بالقبول حاصل ہے،جو حديث ضعيف كي ضعف كو ختم كرديتا هے(4)،  سلف  صالحين نے عصر کے بعد سونا کو مکروہ قراردیا ہے ان کے سامنے بظاہر یہی حدیث تھی(5)۔

حوالہ جات ملاحظہ ہو:

(1)

"مسند أبي يعلى " میں ہے:

"4918 - حدثنا عمرو بن حصين، حدثنا ابن علاثة، حدثني الأوزاعي، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «من نام بعد العصر فاختلس عقله فلا يلومن إلا نفسه» ۔"

ترجمہ:نبی کریم ﷺ سے روایت ہے جوعصر کے بعد سویا تواس کی عقل ميں فتور پیدا ہو ا توصرف اپنے آپ کو ہی ملا مت کرے ۔

‌‌[حكم حسين سليم أسد] : إسناده ضعيف۔"

(مسند أبي يعلى لأبی يعلى أحمد بن علي بن المثُنى بن يحيى بن عيسى بن هلال التميمي، الموصلي (ت ٣٠٧ هـ)، ج:8، ص:316،رقم:4918،  ط: دار المأمون للتراث - دمشق)

(2)

"اللآلىء المصنوعة في الأحاديث الموضوعة للسيوطي"میں ہے:

‌‌كتاب الأدب والزهد

"(ابن حبان) حدثنا أحمد بن يحيى بن زهير حدثنا عيسى بن أبي حرب الصفار حدثنا خالد بن القاسم عن الليث بن سعد عن عقيل عن الزمري عن عروة عن عائشة قالت قال رسول الله: من نام بعد العصر فأختلس عقله فلا يلومن إلا نفسه.لا يصح......"

(اللآلىء المصنوعة في الأحاديث الموضوعة لعبد الرحمن بن أبي بكر، جلال الدين السيوطي (ت ٩١١هـ)، ج:2، ص:237، ط: دار الكتب العلمية - بيروت)

خواتین کی اصلاح کے لیے دینی جلسے

 خواتین  کی  اصلاح اور دینی تربیت کے لیے علاقہ کے کسی گھر میں باپردہ اہتمام کے ساتھ مستند متدین عالم کی وعظ و نصیحت کی مجلس رکھی جا سکتی ہے،  جس میں خواتین شرکت کرسکتی ہیں،  ایسا کرنا خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے بھی ثابت ہے کہ خواتین نے حضور صلی اللہ علیہ سلم  کی خدمت میں درخواست کی تھی تو ان کے لیے مخصوص دن اور مخصوص جگہ میں اجتماع تجویز فرما دیا گیا تھا۔

لہذا صورتِ مسئولہ  میں عورتوں کے لیے وعظ اور نصیحت کے لیے کوئی دن اور وقت مقرر کرلیا جائے،اور عورتیں اس وقت میں کسی جگہ پردے کے اہتمام کے ساتھ شریک ہوجائیں، تو ایسا کرنا درست ہے،تاہم خواتین کو مسجد شرعی میں جمع کرنے سے اجتناب کیا جائے:

1:اس لیے کہ خواتین مسائل کے ناواقفیت کے باعث ممکن ہے کہ  ناپاکی کے ایام میں ہوں،جب کہ حیض ونفاس والی عورت کا مسجد میں آنا جائز نہیں ۔

2:خواتین عموماً جب جمع ہوں، تو دنیوی باتوں میں مشغول ہوجاتی ہے،یہ مسجد کے آداب کے خلاف ہے۔

3:نیز عموماً خواتین کے ساتھ چھوٹے بچے بھی ہوتے ہیں،گندگی کرسکتے ہیں،اس سے مسجد کی تلویث کا اندیشہ ہے۔

4:مسجد میں مرد حضرات کی آمد ورفت مستقل رہتی ہے،بے پردگی کا اندیشہ ہے۔

5:تجربہ اور مشاہدہ یہی ہے ،کہ ایک ہی جگہ مرد وزن کا  مستقل جمع ہونا،اگر چہ الگ الگ اوقات میں ہو، فتنے کا باعث بن ہی جاتا ہے۔

لہذا عورتوں کے لیے مسجد سے ہٹ کر کوئی علیحدہ جگہ مقرر کی جائے۔

صحیح بخاری میں روايت  ہے :

"عن أبي سعيد الخدري: قال النساء للنبي صلى الله عليه وسلم: غلبنا عليك الرجال، فاجعل لنا يوما من نفسك، فوعدهن يوما لقيهن فيه، فوعظهن وأمرهن، فكان فيما قال لهن: (ما منكن امرأة تقدم ثلاثة من ولدها، إلا كان لها حجابا من النار). فقالت امرأة: واثنين؟ فقال: (واثنين)."

(كتاب العلم،  باب: هل يجعل للنساء يوم على حدة في العلم، ج:1، ص:50، رقم:101، ط:دار ابن كثير)

شیخ کی تعریف

 مختلف دایرہ کار کےلوگوں کی اصطلاح  میں شیخ کے مختلف معانی اور مصداق ہیں، اہل لغت کے نزدیک شیخ وہ شخص ہے جس میں بڑھاپا ظاہر ہوگیاہو یا پچاس سال کی عمر سے  زیادہ ہو، نیز کبھی اس شخص کو بھی شیخ کہا جاتا ہے جس کا علم زیادہ ہو اس کے وسیع تجربہ اور پہچان کی وجہ سے،  اور محدثین جس سے حدیثیں روایت کی جائیں اس کو شیخ کہتے ہیں، صوفیاء کے نزدیک شیخ وہ شخص ہے جو خود بھی سیدھے راستے پر چلے، اور دین کے اعتبار سے مہلکات اور مضر چیزوں کو پہچانے،نیز مریدوں کی رہنمائی کرے اور ان کو ان کے نفع و نقصان کی چیزوں کا بتائے۔ با الفاظ دیگر شیخ وہ ہے جو مریدین اور طالبین کے دلوں میں دین اور شریعت کو راسخ کرے۔لہذا کسی عام آدمی کو ادب کی وجہ سے یا اس کی عمر کے زیادہ ہونے کی وجہ سے، یا اس کے علم اور تجربہ زیادہ ہونے کی وجہ سے شیخ کہنے میں کوئی حرج نہیں۔  

لسان العرب میں ہے:

"الشيخ: الذي استبانت فيه السن وظهر عليه الشيب؛ وقيل: هو شيخ من خمسين إلى آخره؛ وقيل: هو من إحدى وخمسين إلى آخر عمره؛ وقيل: هو من الخمسين إلى الثمانين".

(خا، فصل الشين المعجمة، ج:3، ص:31، ط:دار صادر)

کشاف اصطلاحات الفنون میں ہے:

"وقد يعبّر به عمّا يكثر علمه لكثرة تجاربه ومعارفه.

والمحدّثون يطلقون الشيخ على من يروى عنه الحديث كما يستفاد من كتب علم الحديث، وقد سبق في المقدمة أنّ المحدّث هو الأستاذ الكامل وكذا الشيخ والإمام. والشيخ عند السّالكين هو الذي سلك طريق الحقّ وعرف المخاوف والمهالك، فيرشد المريد ويشير إليه بما ينفعه وما يضرّه. وقيل الشيخ هو الذي يقرّر الدين والشّريعة في قلوب المريدين والطالبين. وقيل الشيخ الذي يحبّ عباد الله إلى الله ويحبّ الله إلى عباده وهو أحبّ عباد الله إلى الله". 

(حرف الشين، ج:1، ص:1049، ط:مكتبة لبنان)

سحروافطار کے لیے مسجد کی حدود میں سایرن بجانا

 مسجد کی حدود میں یاحدودمسجدسےباہر رکھے ہوئے ساؤنڈسسٹم سے سحری وافطاری کے اوقات میں ایسا سائرن بجانا جس میں میوزک  ہوقطعاجائزنہیں،البتہ سادہ سائرن کی بقدرضرورت گنجائش ہے،تاہم بہتریہ ہے کہ سائرن کومسجدکی حدودسے باہربجایاجائےتاکہ مسجدکوشوروشغب سےپاک رکھاجاسکےہےاورضرورت بھی پوری ہو۔

المبسوط میں ہے:

"ولا يقام الحد في المسجد، ولا قود، ولا تعزير لما فيه من وهم تلويث المسجد، ولأن المجلود قد يرفع صوته، وقد نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن رفع الصوت في المسجد بقوله صلى الله عليه وسلم «جنبوا مساجدكم صبيانكم ومجانينكم ورفع أصواتكم»، ولكن القاضي يخرج من المسجد إذا أراد إقامة الحد بين يديه".

(کتاب الحدود،باب الاقراربالزنا،ج:9،ص:102/101،ط:دارالمعرفة)

فتاوی شامی میں ہے:

"وينبغي أن يكون ‌بوق ‌الحمام يجوز كضرب النوبة. وعن الحسن لا بأس بالدف في العرس ليشتهر. وفي السراجية هذا إذا لم يكن له جلاجل ولم يضرب على هيئة التطرب اهـ.أقول: وينبغي أن يكون طبل المسحر في رمضان لإيقاظ النائمين للسحور كبوق الحمام تأمل".

(کتاب الحظروالاباحة،ج:6،ص:350،ط:دارالفکر)

گدھاحرام ہے

  گدھا حرام جانوروں میں داخل ہے ، گدھے کا گوشت کھانا حرام ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"وأما الحمار الأهلي فلحمه حرام، وكذلك لبنه وشحمه، واختلف المشايخ في شحمه من غير وجه الأكل فحرمه بعضهم قياسا على الأكل وأباحه بعضهم وهو الصحيح، كذا في الذخيرة".

(کتاب الذبائح ،الباب الثانی فی بیان ما یؤکل من الحیوان،ج:5،ص:290،دارالفکر)

یاقوت کی انگوٹھی ثواب کی نیت سے پہننا

 ثواب کی نیت کے ساتھ  یا قوت پہننا درست نہیں ہے  ،کیوں کہ پتھر  کے پہننے کے ساتھ کسی  قسم كا کوئی ثواب مشروط نہیں ہے ، البتہ  ثواب کی نیت کے  بغیر نگینہ والی چاندی کی انگوٹھی پہن لے تو درست ہے ،بعض ضعیف روایتوں میں  بعض پتھروں کے بارے میں  بركت كا ذکر ہے ۔

فتاویٰ شامی میں ہے :

"(ولا يتختم) إلا بالفضة لحصول الاستغناء بها فيحرم (بغيرها كحجر) وصحح السرخسي جواز اليشب والعقيق وعمم منلا خسرو (وذهب وحديد وصفر) ورصاص وزجاج وغيرها لما مر فإذا ثبت كراهة لبسها للتختم ثبت كراهة بيعها وصيغها لما فيه من الإعانة على ما لا يجوز وكل ما أدى إلى ما لا يجوز لا يجوز وتمامه في شرح الوهبانية (والعبرة بالحلقة) من الفضة (لا بالفص) فيجوز من حجر وعقيق وياقوت وغيرها وحل مسمار الذهب في حجر الفص ۔۔۔(قوله فيحرم بغيرها إلخ) لما روى الطحاوي بإسناده إلى عمران بن حصين وأبي هريرة قال: نهى رسول الله - صلى الله تعالى عليه وسلم عن خاتم الذهب ، وروى صاحب السنن بإسناده إلى عبد الله بن بريدة عن أبيه: أن رجلا جاء إلى النبي صلى الله تعالى عليه وسلم وعليه خاتم من شبه فقال له: مالي أجد منك ريح الأصنام فطرحه ثم جاء وعليه خاتم من حديد فقال: مالي أجد عليك حلية أهل النار فطرحه فقال: يا رسول الله من أي شيء أتخذه؟ قال: اتخذه من ورق ولا تتمه مثقالا " فعلم أن التختم بالذهب والحديد والصفر حرام ۔۔۔وفي الجوهرة والتختم بالحديد والصفر والنحاس والرصاص مكروه للرجل والنساء۔۔۔فالحاصل: أن التختم بالفضة حلال للرجال بالحديث وبالذهب والحديد والصفر حرام عليهم بالحديث۔۔۔ولا يتختم إلا بالفضة الذي هو لفظ محرر المذهب الإمام محمد رحمه الله تعالى فافهم."

(‌‌كتاب الحظر والإباحة ، فصل في اللبس ، ج : 6 ، ص : 359/60 ، ط : سعيد كراچي)