https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Sunday 4 August 2024

قزع

 سر کے کچھ بال کاٹنا اور کچھ چھوڑدینا منع ہے، اسے حدیث میں ’’قزع‘‘ سے تعبیر کرکے اس کی ممانعت کی گئی ہے، اور "قزع" کی مختلف صورتیں ہیں، حاصل ان کا یہی ہے کہ سر کے بال کہیں سے کاٹے جائیں اور کہیں سے چھوڑدیے جائیں، اس طرح کرنا شرعاً جائز نہیں ہے۔

سر کے بالوں کے بارے میں شرعی حکم یہ ہے کہ یا تو سر کے پورے بال رکھے جائیں یا پورے کاٹے جائیں ۔

البتہ  بالوں کی تحدید کے لیے گدی سے بال کاٹے جائیں یا حلق کیا جائے تو یہ اس ممانعت میں داخل نہیں ہے، اسی طرح کان کے اطراف کے بال جو کان پر لگ رہے ہوں، انہیں برابر کرنے کے لیے اطراف سے معمولی بال کاٹ لینا جیسا کہ عام طور پر اس کا معمول ہے کہ سر کے بالوں کو متعین کرنے اور اس کو دوسرے سے جدا کرنے کے لیے کان کے اوپر بلیڈ لگاتے ہیں تو اس کی گنجائش ہے۔ تاہم یہ خیال رہے کہ زیادہ اوپر سے بلیڈ نہ لگایا جائے ورنہ ”قزع“ میں داخل ہوگا، حاصل یہ ہے کہ سر کے اطراف کے بال اگر اس طرح کاٹے جائیں کہ ان کی وجہ سے سر کے اس حصہ کے بال کم اور باقی سر کے بال بڑے ہوں تو یہ درست نہیں ہے، اور اگر سر کے تمام بالوں برابر ہوں اور اطراف سے تحدید کے لیے انہیں برابر کیا جائے تو یہ جائز ہے۔

 سنن ابی داؤد  میں ہے:

"عن ابن عمر: أن النبي -صلى الله عليه وسلم- رأى صبيا قد حلق بعض شعره، وترك بعضه، فنهاهم عن ذلك، وقال: احلقوا كله أو اتركوا كله."

(کتاب الترجل، باب في الذؤابة،ج:6،ص:261،ط:الرسالة العالمیة)

ترجمہ:" حضرت عبد اللہ بن عمر  رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نےایک بچہ کو دیکھا کہ اس کے سر کے بعض حصے کے بال مونڈے ہوئے اور بعض حصے میں بال چھوڑ دیے گئے ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے منع فرمایا ،اور  ارشاد فرمایا کہ  ؛"(اگر بال مونڈنا ہو تو) پورے سر کے بال مونڈو ( اور اگر بال رکھنے ہوں تو) پورے سر پر بال رکھو۔"

بذل المجھود میں ہے:

"عن ابن عمر: أن النبي - صلى الله عليه وسلم - نهى عن القزع) ثم فسر ذلك (وهو أن يحلق رأس الصبي، ويترك له) من شعره (ذؤابة). قلت: وليس هذا مختصا بالصبي، بل إذا فعله كبير يكره (3) له ذلك، فذكر الصبي باعتبار العادة الغالبة."

(كتاب الترجل، باب في الصبي له ذؤابة،ج:12،ص:220،ط:مركز الشيخ أبي الحسن الندوي للبحوث والدراسات الإسلامية،الهند

لاعلاج شخص کو انجیکشن کے ذریعے مارنا

  زندگی اور موت کے فیصلے اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں،اس نے ہر انسان کی موت کا ایک وقت مقرر کر رکھا ہے ،اور مسلمان کا خون اللہ تعالیٰ کے ہاں کعبۃ اللہ سے بھی زیادہ محترم ہے،اس لیے کسی مسلمان کو بغیر کسی گناہ کے جان سے مار ڈالنا گناہ کبیرہ ہے،اور اس پر سخت وعیدیں قرآن وسنت میں وارد ہوئی ہیں ،لہٰذا کسی انسان کو اس کی بیماری کے سبب انجکشن وغیرہ کے ذریعے مارنا یہ قتل کے حکم میں  ہے،اور اگر اس مریض کے حکم سے ہو تو یہ اس کی جانب سے خود کشی کا اقدام ہے،اور دونوں صورتوں میں یہ اقدام ناجائز اور حرام ہے۔

قرآن کریم میں ہے:

"وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِناً مُتَعَمِّداً فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِداً فِيهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَاباً عَظِيماً (النساء93)

"ترجمہ : اور جو کوئی قتل کرے مسلمان کو  جان کر تو اس کی سزا دوزخ ہے ،پڑا رہے گا اسی میں اور اللہ کا اس پر غضب ہوا اور اس کو لعنت کی اور اس کےواسطے تیار کیا ہےبڑا عذاب

(فائدہ ) قتل عمد کی سزا یعنی اگر ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو غلطی سے نہیں بلکہ قصداً اور مسلمان معلوم کرنے کے بعد قتل کرے گا تو اس کے لیے آخرت میں جہنم اور لعنت اور عذابِ عظیم ہے،کفارہ سے اس کی رہائی نہیں ہوگی۔"

(تفسیر عثمانی،ج:1 ،ص:436  ، 437 ،ط: دار الاشاعت)

صحیح بخاری میں ہے:

"حدثنا محمد بن مقاتل: أخبرنا النضر: أخبرنا شعبة: حدثنا فراس قال: سمعت الشعبي، عن عبد الله بن عمرو، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: الكبائر: الإشراك بالله، وعقوق الوالدين، وقتل النفس، واليمين الغموس."

"ترجمه: نبی كريمﷺ کا ارشاد ہے کہ اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا،والدین کی نافرمانی کرنا،کسی کو(نا حق)قتل کرنااور یمین غموس کبیرہ گناہوں میں سے ہیں۔"

( کتاب الأیمان والنذور ،باب الیمین الغموس ،2 / 518 ط:رحمانیہ )


مصنف عبد الرزاق میں ہے:

" أخبرنا معمر، عن بعض المكيين، أن عبد الله بن عمرو بن العاصي قال: أشهد أنك بيت الله، وأن الله عظم حرمتك، وأن حرمة المسلم أعظم من حرمتك."

"ترجمہ: میں گواہی دیتا ہوں تو اللہ کا گھر ہے،اور اللہ تعالیٰ نے تجھے بڑا قابل احترام بنایا ہے (لیکن)مسلمان کا احترام تیرے احترام سے (بھی) بڑھ کر ہے۔"

(کتاب الجامع،  باب الاغتیاب والشتم  11 / 178 ط: المکتب الإسلامی)

كنز العمال میں ہے:

"من ‌قتل ‌نفسه بحديدة فحديدته في يده يتوجأ  بها في بطنه في نار جهنم خالدا مخلدا فيها أبدا، ومن شرب سما فقتل نفسه فهو يتحساه في نار جهنم خالدا مخلدا فيها أبدا، ومن تردى من جبل فقتل نفسه فهو يتردى في نار جهنم خالدا مخلدا فيها."

"ترجمہ:جس نے اپنے آپ کو لوہے سے قتل کیا تو اس کا (وہ) لوہا اس کے ہاتھ میں ہوگا جسے وہ اپنے پیٹ میں مارتا رہے گاجہنم کی آگ میں ہمیشہ کے لیے،اور جس نے زہر پی کر اپنے آپ کو قتل کیا تو وہ جہنم کی آگ میں ہمیشہ کے لیےزہر کے گھونٹ لیتا رہےگا،اور جس نے پہاڑ سے لُڑھک کر اپنے آپ کو قتل کیا تو وہ جہنم کی آگ میں (بھی )ہمیشہ کےلیےلُڑھکتا رہےگا۔"

(حرف القاف،کتاب القصاص،الباب الأول فی القصاص،الفصل الرابع ،الفرع الأول،ج:15 ،ص:36 )

بیوٹی پارلر کا کام سیکھنا اور کرنا

 بیوٹی پارلر کے وہ کام جو شریعت میں  جائز ہواس کو سیکھنا اور کرنا جائز ہے جیسا زیب وزینت اختیار کرنا اور اس میں دوسری عورت سے مدد لینا  ،زینت کے لیے چہرے یا ہاتھ پاؤں کا فیشل کرواناشرعی حدود کے اندر، خواتین کو اپنے چہرے کے غیر معتاد بال مثلًا داڑھی مونچھ ،پیشانی وغیرہ کے بال یا کلائیوں اور پنڈلیوں کے بال صاف کرنا جائز ہے ۔  اورجو شرعًا جائز نہ ہو اس کو سیکھنا اور کرنا  ناجائز ہے،  جیسا کہ خواتین کا اپنے سرکے بالوں کوکٹوانا یا کتروانا خواہ کسی بھی جانب سے ہو مردوں کے ساتھ مشابہت کی وجہ سے ناجائز اور گناہ ہے ،عورتوں کے  لیے بھنویں بنانا  ـ(دھاگا یا کسی اور چیز سے )جائز نہیں ہے ، اسی طرح مرد کے ہاتھ سے ہو  ،  شرعی پردے   کی رعایت نہ ہو، ان سب صورتوں میں اجازت نہیں ہوگی۔

لمعات التنقیح شرح مشکوۃ المصابیح میں ہے :

 " قال: قال النبي -صلى الله عليه وسلم-: "لعن الله المتشبهين من الرجال بالنساء، والمتشبهات من النساء بالرجال"

 "وعن ابن عمر أن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: "لعن الله الواصلة والمستوصلة والواشمة والمستوشمة". متفق عليه."

(فصل فی الترجل ،ج:7،ص:410،رقم الحدیث :4429/4430،ط:دارالنوادر)

"عن ابن عباس قال: لعنت الواصلة، والمستوصلة، والنامصة، والمتنمصة، والواشمة، والمستوشمة من غير داء."

(فصل فی الترجل ،ج:7،ص:336،رقم الحدیث:4468،ط:دارالنوادر)

صحیح البخاری میں ہے:

"عبد اللّٰہ بن مسعود رضي اللّٰہ عنہ قال: لعن اللّٰہ الواشمات والمستوشمات، والمُتنمِّصات، والمتفلجات للحسن المغیرات خَلْقَ اللّٰہ تعالیٰ، مالي لا ألعنُ من لعن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وھو في کتاب اللّٰہ {مَا اٰتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ} ."

 (باب المتفلجات للحسن: 878/2، رقم الحدیث: 5931، ط: دار الفکر)

فتاوی شامی میں ہے :

"قطعت شعر رأسها أثمت ولعنت زاد في البزازية وإن بإذن الزوج لأنه لا طاعة لمخلوق في معصية الخالق."

(کتاب الحظر والاباحۃ ،فصل فی البیع ،ج:6،ص:407،ط:دارالفکر ،بیروت

رٹائرمنٹ کے بعد پینشن لینا

 سرکاری ملازمت میں جو فرد کسی ایسے ادارے کا ملازم ہو جس کا کام جائز ہوتو ریٹائرمنٹ کے بعد پینشن و دیگر مراعات جو ادارے کی جانب سے ضابطے کے موافق ملازم کو دی جاتی ہوں ، ان کا حاصل کرنا جائز ہے۔

المعجم الکبیر میں ہے:

"عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «المسلمون على شروطهم إلا شرطا حرم حلالا، وأحل حراما، والصلح جائز بين الناس، إلا صلحا أحل حراما أو حرم حلالا»."

( عمرو بن عوف بن ملحة المزني، جلد 17 ص:22 ط: مکتبہ ابن تیمیہ قاہرہ)

ام محمد نام رکھنا

 امِ محمد نام رکھ سکتے ہیں،صحابہ اور تابعین کی خواتین میں یہ نام بطورِ کنیت ملتا ہے۔

الكمال فی اسماء الرجال میں ہے:

"[6692] أم محمد، امرأة أبي علي بن زيد بن جدعان .

روت عن: عائشة الصديقة.  روى عنها: علي بن زيد بن جدعان. روى لها: أبو داود، والترمذي، وابن ماجه".

(‌‌ذكر الكنى من النساء،  أم محمد، امرأة أبي علي بن زيد بن جدعان، 10/ 206، ط:الهيئة العامة للعناية بطباعة ونشر القرآن الكريم والسنة النبوية وعلومها، الكويت)

اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ میں ہے:

"7595- أم محمد خولة بنت قيس

س: أم محمد خولة بنت قيس روى آدم بن أبي إياس، عن أبي معشر، عن سعيد المقبري، عن عبيد سنوطي، قال: دخلنا على خولة بنت قيس، وكانت تحت حمزة بن عبد المطلب رضي الله عنه، فتزوجها بعده النعمان بن عجلان، فقلنا: يا أم محمد، حدثينا.

فقال لها زوجها النعمان: انظري ماذا تحدثين فإن الحديث عن رسول الله صلى الله عليه وسلم بغير ثبت شديد...الخ".

(‌‌‌‌الكنى من النساء الصحابيات، حرف اللام وحرف الميم،  أم محمد خولة بنت قيس، 7/ 382، ط: دار الكتب العلمية)

والدین کے احترام میں کھڑے ہونا

 " جو یہ چاہے کہ لوگ اس کے لیے کھڑے ہوں وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے' اس حدیث کے مصداق وہ لوگ ہیں جو تعظیم کے مستحق نہ ہوں  ، لیکن   اپنے لیے لوگوں کے کھڑے ہونے  کو  پسند کرتے ہوں ، جس سے ان کے دلوں میں بڑائی اور تکبر پیدا ہوتا ہو، البتہ اولاد کا اپنے والدین کے لیے احتراما کھڑے ہونے میں، یا سلطانِ عادل کے لیے ان کے رفقاء کے کھڑے ہونے میں کوئی حرج نہیں ،  اسی طرح اگر کسی بزرگ، استاذ یا کسی اور قابل احترام شخص کے لئے از خود کوئی کھڑا ہوجائے اور وه خود کھڑے ہونے کے لیے نہ کہے اور نہ اس پر خوشی کا اظہار کرےتو وہ اس حدیث کے مصداق سے خارج ہیں ۔

مزید دیکھیے:

مسند احمد میں ہے: 

"حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، عن حبيب بن الشهيد، قال: سمعت أبا مجلز قال: دخل معاوية على عبد الله بن الزبير وابن عامر، قال: فقام ابن عامر، ولم يقم ابن الزبير، قال: وكان الشيخ أوزنهما، قال: فقال: مه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من أحب أن يمثل له عباد الله قيامًا، فليتبوأ مقعده من النار."

(مسند الشاميين، حديث معاوية بن أبي سفيان، رقم الحديث: 16830، ج28، ص40، ط: الرسالة العالمية)

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الوهبانية: يجوز بل يندب القيام تعظيما للقادم كما يجوز القيام، ولو للقارئ بين يدي العالم وسيجيء نظما..............

مرغی کا انڈا

 مرغی کا انڈہ حلال ہے ،لہذا اس کو کھانا شرعا درست ہے ۔

فتاوی ہندیہ میں ہے : 

"البيضة إذا خرجت من دجاجة ميتة أكلت وكذا اللبن الخارج من ضرع الشاة الميتة كذا في السراجية."

(كتاب الكراهية، الباب الحادي عشر في الكراهة في الأكل ...، ج: 5، ص: 339 ، ط: دار الفكر) 

فتاوی تاتارخانیہ میں ہے : 

"وفى مختلفات الفقيه أبي الليث : إذا ماتت دجاجة - وخرج منها بيضةجاز اكلها عند أبي حنيفة رحمه الله ، اشتد أو لم يشتد."

(كتاب الاستحسان، الفصل الثاني عشر في الكراهة في الأ كل ...، ج: 18، ص: 146، ط: مكتبة زكريا بديوبند الهند) 

Saturday 3 August 2024

اجنبی عورت سے محبت کرنا

  بیوی کے علاوہ کسی اجنبی لڑكی سے بغير نكاح  كےتعلق قائم كرنا،اور اس سے محبت كرنا ،اس كو  شہوت سے ديكھنا،چھونا وغیرہ  یہ سب چیزیں شرعاً ناجائز وحرام ہیں اس سے اجتناب کرنا لازم ہے۔

صحیح مسلم میں ہے:

"عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: « ‌كتب ‌على ‌ابن ‌آدم ‌نصيبه ‌من ‌الزنا مدرك ذلك لا محالة، فالعينان زناهما النظر، والأذنان زناهما الاستماع، واللسان زناه الكلام، واليد زناها البطش، والرجل زناها الخطا، والقلب يهوى ويتمنى، ويصدق ذلك الفرج ويكذبه."

(کتاب القدر، ‌‌باب: قدر على ابن آدم حظه من الزنا وغيره، ج:8، ص:52، حدیث:2657، ط:دار الطباعة العامرة - تركيا)

الدرالمختار میں ہے:

" ولا يكلم الأجنبية ‌إلا ‌عجوزا."

(کتاب الحظر والاباحۃ، ص:654، ط:دار الكتب العلمية - بيروت)


بیوٹی پارلر کے لیے دوکان کرایہ پر دینا

 آج کل بیوٹی پارلر میں جائز اورناجائزدونوں قسم کےکام  کئے جاتے ہیں،جس کی تفصیلات معلوم کی جاسکتی ہے،لہذا اگربیوٹی پارلر میں خلاف شریعت کام نہیں ہوتے توانہیں کرایہ پردکان دی جاسکتی ہے،اورشرعا کرایہ لینابھی درست اورجائز ہے،لیکن اگرغالب گمان یہ ہوکہ وہ شرعی حدود کالحاظ نہیں رکھیں گے توانہیں یہ دکان کرایہ پرنہ دیں ،اورایسی صورت میں کرایہ لینابھی درست نہیں ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وجاز اجارة الماشطة لتزين العروس ان ذكرالعمل والمدة."

(باب اجازة الفاسده، ج:6، ص:63، ط:سعيد)

سمنون نام رکھنا

 سمنون ایک صوفی شاعر تھے ، اللہ پاک کی محبت میں اشعار پڑھا کرتے، لوگ انہیں سمنون محب(محبت کرنے والا  سمنون) کہا کرتے تھے، لیکن وہ  خود کو سمنون کذاب ( جھوٹا سمنون) کہا کرتے تھے ، کپڑے  بنتے تھےاور  سوت کاتتے تھے ،  کسی  بزرگ ،صوفی کے نام پر رکھناجائزہے،لہذا محمد سمنون نام رکھنا درست ہے۔

معجم الشعراء العرب میں ہے:

"أبو الحسن ‌سمنون بن حمزة الخواص.صوفي شاعر، كان معاصروه يلقبونه بسمنون المحب، وذلك لأنه كان ينسج غزلياته وينظم محبته لله تعالى.أما هو فقد كان يسمي نفسه ‌سمنون الكذاب.عاش في بغداد وصحب ‌سمنون كل من السقطي والقلانسي ومحمد بن علي القصاب، وكانوا جميعاً من جلة مشايخ بغداد وأكابر صوفيتها.وله شعر جيد."

(حرف السین،سمنون المحب،ص:1422)

طبقات الصوفیہ میں ہے:

"ومنهم سمنون بن حمزة ويقال سمنون بن عبد الله أبو الحسن الخواص ويقال كنيته أبو القاسم سمى نفسه سمنون الكذاب لكتمه عسر البول بلا تضرر صحب سريا السقطي ومحمد بن علي القصاب وأبا أحمد القلانسي وسوس وكان يتكلم في المحبة بأحسن كلام وهو من كبار مشايخ العراق."

(‌‌الطبقة الثانية من أئمة الصوفية، ص: 159، ط:دار الکتب العلمیة)

منگل کی شب اور چاند رات میں ہمبستری نہ کرنا

 شرعًا میاں بیوی کی ہم بستری کے لیے کوئی خاص دن متعین نہیں ہیں، اور نہ ہی کسی خاص دن میں اس کی  ممانعت ہے، ہاں دیگر  وجوہات  مثلًا روزہ، احرام  کی حالت اور عورت کے ایام اور نفاس کی حالت میں اس کی ممانعت ہے۔

سوال میں موجود مذکورہ بات درست نہیں ہے۔ اس بات کا شریعت سے کوئی تعلق  نہیں ہے،یہ  بے اصل ہے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما ركنه: فالإمساك....... والجماع....... والجماع في ليالي رمضان لقوله تعالى {‌أحل ‌لكم ‌ليلة ‌الصيام الرفث}."

(کتاب الصوم، ج2، ص:90، ط: دار الکتب العلمیة)

مبسوط سرخسی میں ہے:

"فأما جماع الحائض في الفرج حرام بالنص يكفر مستحله ويفسق مباشره لقوله تعالى{فاعتزلوا النساء في المحيض}  ، وفي قوله تعالى{ولا تقربوهن حتى يطهرن}، دليل على أن الحرمة تمتد إلى الطهر."

(كتاب الاستحسان، باب جماع الحائض في الفرج، ج:10، س:159، ط:دارالمعرفة)

فتح القدیر میں ہے:

" الجماع فيما دون الفرج من جملة الرفث فكان منهيا عنه بسبب الإحرام. وبالإقدام عليه يصير مرتكبا محظور إحرامه. اهـ. وقد يقال: إن كان الإلزام للنهي فليس كل نهي يوجب كالرفث، وإن كان للرفث فكذلك إذ أصله الكلام في الجماع بحضرتهن وليس ذلك موجبا شيئا."

(كتاب الحج،باب الجنايات،فصل نظر إلي فرج إمرأته بشهوة فأمني، ج:3، ص:42،ط:دار الفكر)

انزلنا نام رکھنا

 لڑکی کا نام"انزلنا" رکھنا درست نہیں ہے،کیوں کہ یہ عربی کا لفظ ہے، جو کہ "انزل" اور "نا" دو الگ الگ کلمات کا مجموعہ ہے،"اَنزَل"درحقیقت "اِنزَال" سے بنا ہے، جس کے معنیٰ ہے:(1)نیچے اتارنا(2)نازل کرنا۔ اور "نا" یہ اسمِ ضمیر برائے جمع متکلم ہے، جس کا معنی ہے:ہم۔مذکورہ تفصیل کی رُو سے "انزلنا" کا معنی  بنا: "ہم نے نازل کیا"یا " ہم نے نیچے اتارا"۔

لہذا بچی کے لیےمذکورہ نام کے بجائے کسی اور اچھےاور بامعنیٰ نام کا انتخاب کیاجائے، اس حوالہ سے بہتریہ ہے کہ  اَزواجِ مطہرات اور صحابیات مکرمات رضوان اللہ علیہن اجمعین کے ناموں میں سے کسی نام پر رکھاجائے تاکہ زیادہ خیر و برکت کا باعث بھی بنے۔

مسند بزار میں  ہے:  

"عن أبي هريرة؛ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إن من حق الولد على الوالد أن يحسن اسمه ويحسن أدبه."

(مسند حمزه انس بن مالك، رقم الحديث:8540، ج:15، ص:176، ط:مكتبة العلوم والحكم)

ترجمہ:"حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"والد کے ذمہ بچےکے حقوق میں سےاس کا اچھا نام رکھنا اور اسے اچھے اخلاق و آداب سکھاناہے"۔

تاج العروس میں ہے:

"النزول، بالضم: الحلول وهو في الأصل انحطاط من علو.

ونزله تنزيلا، وأنزله إنزالاً، ومنزلا كمجمل، واستنزله بمعنى واحد."

(بحث نزل، ج:30، ص:478، ط:دارالهداية)

قرآن کریم کے اوراق ری سائیکل کرنا

 اگر ری سائیکل کرنے والے ادارے سے ری سائیکل کرتے وقت اور اس سے پہلے کسی قسم کی بےحرمتی نہ ہوتی ہو توقرآن کریم کےصفحات اور آیتوں کے علاوہ دیگر مقدّس  اوراق  حوالہ کرنے کی گنجائش ہے۔

فتاوی ٰشامی میں ہے:

"الكتب التي لا ينتفع بها يمحى عنها اسم الله وملائكته ورسله ويحرق الباقي ولا بأس بأن تلقى في ماء جار كما هي أو تدفن وهو أحسن كما في الأنبياء (قوله كما في الأنبياء) كذا في غالب النسخ وفي بعضها كما في الأشباه،،،،،،وإن شاء غسله بالماء أو وضعه في موضع طاهر لا تصل إليه يد محدث ولا غبار، ولا قذر تعظيما لكلام الله عز وجل ۔"

(كتاب الحظر والإباحة، 422/6،ط:سعید)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"ولو محا لوحا كتب فيه القرآن واستعمله في أمر الدنيا يجوز، وقد ورد النهي عن محو اسم الله تعالى بالبزاق، كذا في الغرائب۔"

(كتاب الكراهية، الباب الخامس في آداب المسجد والقبلة والمصحف وما كتب فيه شيء من القرآن،322/5، دار الفكر)