https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Wednesday 14 August 2024

خاتون قاضی بن سکتی ہے کہ نہیں

  خاتون اگر حدود وقصاص کے علاوہ کسی اور معاملہ میں قاضی بن کر فیصلہ دیتی ہے تو فیصلہ نافذ ہوجائے گا تاہم خاتون کو قاضی بنانا گناہ ہے،  کیوں  ایسے تمام مناصب جن میں ہرکس و ناکس کے ساتھ اختلاط اور میل جول کی ضرورت پیش آتی ہے(جیسے قاضی اور  جج بننے کی ذمہ داری وغیرہ ) شریعتِ اسلامی نے ان کی ذمہ داری مردوں پر عائد کی ہے،خود اسلام کے ابتدائی ادوار میں بڑی فاضل خواتین موجود تھیں، مگر کبھی کسی خاتون کو مذکورہ ذمہ داری نہیں دی گئی۔

فتاویٰ شامی (الدر المختار ورد المحتار) میں ہے:

"(والمرأة تقضي في غير حد وقود وإن أثم المولي لها) لخبر البخاري «لن يفلح قوم ولوا أمرهم امرأة»

 (قوله: في غير حد وقود) لأنها لا تصلح شهادة فيهما فلا تصلح حاكمة.

(کتاب القضاء، باب التحکیم، مطلب في جعل المرأة شاهدة في الوقف، ج:5، ص:440، ط:ایچ ایم سعید)

Tuesday 13 August 2024

غسل کے دوران کلی کرنا یاناک میں پانی ڈالنا بھول گیا بعد میں یاد آنے پر کرلیا غسل ہوا کہ نہیں

 غسل شروع کرنے سے پہلے وضو کرنا سنت ہے، اسی وضو میں کلی بھی کرلینی چاہیے اور ناک میں پانی بھی ڈال لینا چاہیے، لیکن اگر غسل شروع کرنے سے پہلے یا غسل کے دوران کلی نہیں کی یا ناک میں پانی نہیں ڈالا تو غسل کے بعد جب بھی یاد آجائے اس وقت کلی کرلینی چاہیے اور ناک میں پانی ڈال لینا چاہیے چاہے جتنی بھی دیر گزر چکی ہو۔

  غسل کرلینے کے بعد جس وقت بھی یاد آئے کہ کلی نہیں کی یا ناک میں پانی نہیں ڈالا تو  چاہے جتنی دیر گزر چکی ہو تب بھی صرف کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا کافی ہوگا، مکمل غسل دوبارہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہوگی۔ البتہ اگر یہ غسل فرض تھا اور اس میں کلی کرنا یا ناک میں پانی ڈالنا بھول گیا تھا، اور کلی کرنے یا ناک میں پانی ڈالنے سے پہلے اگر کوئی نماز پڑھ لی تو کلی کرنے یا ناک میں پانی ڈالنے کے بعد اس نماز کا اعادہ کرنا ہوگا۔

اللباب في الجمع بين السنة والكتاب (1/ 129):
"وعنه: عن ابن عباس رضي الله عنه قال: " إذا نسي المضمضة والاستنشاق إن كان جنباً أعاد المضمضة والاستنشاق واستأنف الصلاة ". وكذلك قال ابن عرفة، وإلى هذا ذهب الثوري رحمه الله تعالى".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 155):
"فروع] نسي المضمضة أو جزءاً من بدنه فصلى ثم تذكر، فلو نفلا لم يعد لعدم صحة شروعه.

(قوله: لعدم صحة شروعه) أي والنفل إنما تلزم إعادته بعد صحة الشروع فيه قصدا، وسكت عن الفرض لظهور أنه يلزمه الإتيان به مطلقاً".

الأصل للشيباني ط قطر (1/ 32):
"قلت: أرأيت رجلاً  توضأ ونسي المضمضة والاستنشاق أو كان جُنُباً فنسي المضمضة والاستنشاق ثم صلى؟ قال: أمّا ما كان في الوضوء فصلاته  تامة، وأمّا ما كان في غُسل الجنابة أو طُهر حيض فإنه يتمضمض ويستنشق ويعيد الصلاة. قلت: من أين اختلفا؟ قال: هما في القياس سواء، إلا أنّا نَدَعُ القياس للأثر الذي جاء عن ابن عباس". 
 فقط


Friday 9 August 2024

وسعت کے باوجود قرض ادا نہ کرنے پر وعید

  قرض اتارنے کی قدرت ہونے کے باوجود قرض نہ اتارنا اور اس میں ٹال مٹول کرناظلم ہے، یہی وجہ تھی کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جب کوئی جنازہ لایا جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دریافت فرماتے کہ اس پر قرض تو نہیں ہے؟ اگر میت مقروض نہ ہوتی تو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جنازہ پڑھاتے اور اگرمیت مقروض ہوتی اور اپنے پیچھے قرض کی ادائیگی کا انتظام نہ چھوڑا ہوتا اور کوئی اس کے قرض کی ضمانت بھی نہ لیتا تو صحابہ سے کہہ دیتے کہ اپنے بھائی کا جنازہ ادا کرلو، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے افراد کی نمازِ جنازہ ادا نہ فرماتے؛ تاکہ امت کو قرض میں ٹال مٹول کی برائی اور اس کی شدت کا احساس ہو۔ بعد میں جب آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے فتوحات عطا فرمائیں تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم جنازے کے موقع پر یہ سوال فرماتے، اگر میت مقروض ہوتی اور اس نے ادائیگی کا انتظام نہ چھوڑا ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود اس کے قرض کی ادائیگی کا انتظام فرماتے اور نمازِ جنازہ ادا فرماتے، جیساکہ مندرجہ ذیل روایت مروی ہے:

"عن سلمة بن الأكوع رضي الله عنه: أن النبي صلى الله عليه وسلم أتي بجنازة ليصلي عليها، فقال: «هل عليه من دين؟»، قالوا: لا، فصلى عليه، ثم أتي بجنازة أخرى، فقال: «هل عليه من دين؟»، قالوا: نعم، قال: «صلوا على صاحبكم»، قال: أبو قتادة علي دينه يا رسول الله، فصلى عليه".

(صحیح البخاری،کتاب الکفالۃ، باب من تكفل عن ميت دينا، فليس له أن يرجع، رقم الحدیث:2295، ج:3، ص:96، ط:دارطوق النجاۃ)

ترجمہ: حضرتِ سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کوئی جنازہ لایا جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: کہ کیا اس پر کوئی قرض ہے؟ لوگوں نے عرض کی نہیں تو اُس کی نماز جنازہ پڑھی،  پھر دوسرا جنازہ لایا گیا تو فرمایا: کیا اس پر قرض ہے؟ لوگ عرض گزار ہوئے: ہاں۔ فرمایا: تم اپنے ساتھی کی نماز جنازہ پڑھو، حضرت ابو قتادہ نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! اس کا قرض مجھ پر۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس کی نماز جنازہ پڑھی۔

اسی طرح ایسے شخص کے بارے میں جنت میں داخل نہ ہونے کی وعید بھی وارد ہے۔

اعمالکم عمالکم روایت کی تحقیق

 یہ مرفوع حدیث نہیں ہے، بلکہ اس طرح کے جملےبعض صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم، اور تابعین کے کلام میں ملتے  ہیں۔ حافظ سخاوی (ت 902 ھ) " المقاصد الحسنة" میں حديث "كما تكونون يولى عليكم أو يؤمر عليكم" کے تحت فرماتے ہیں :

          وعند الطبراني معناه من طريق عمر، و كعب أحبار و الحسن البصري أنه سمع رجلا يدعو على الحجاج فقال له :لا تفعل إنما نخاف إن عزل الحجاج أو مات أن يستولي عليكم القردة و الخنازير فقد روي أن أعمالكم عمالكم وكما تكونون يولى عليكم.

(المقاصد الحسنة للسخاوي، حرف الكاف، رقم الحديث: ٨٤٥ ، ٢/ ٢٨١، جائزة دبي الدولية للقرآن الكريم ١٤٤٠)

یعنی اس حدیث کا ہم معنی کلام امام طبرانی کے ہاں حضرت عمر، کعب أحبار اور حسن بصری رحمہم اللہ تعالیٰ کی سند سے  ملتا ہے اور حسن بصری رحمہ اللہ تعالیٰ نے یہ تب کہا تھا جب آپ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ حجاج کو بد دعا دے رہا ہے ، تو آپ نے فرمایا:  ایسا مت کرو ، یہ تمہارے ہی اعمال کا نتیجہ ہے، ہمیں ڈر ہے اگر حجاج معزول ہو گیا یا مر گیا  تو تم پر بندر اور خنزیروں کو مسلط کر دیا جائے ، کیوں کہ مروی ہے کہ أعمالكم عمالكم، وكما تكونون يولى عليكم، مطلب جيسے: اعمال ویسے امراء"۔

اسی طرح محدث عجلونی (ت 1162ھ) رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے  ہیں : 

            "وأقول: رواه الطبراني عن الحسن البصري أنه سمع رجلاً يدعو على الحجاج، فقال له : لا تفعل، إنما نخاف إن عزل الحجاج أو مات و يتولى عليكم القردة و الخنازير، فقد روي أن أعمالكم عمالكم، وكما تكونوا يولى عليكم". (كشف الخفاء ومزيل الإلباس للعجلوني، باب الهمزة مع العين، ١/ ١٤٧، مؤسسة مناهل العرفان)

        اور یہی کلام امام مناوی رحمہ اللہ  (ت ١٠٣١ھ) نے  فیض القدیر میں اور ملا علی قاری رحمہ اللہ ( ت 1014ھ) نے  مرقاۃ  المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح  میں ذکر کیا ہے، ملاحظہ فرمائیے: (فيض القدير شرح جامع الصغير للمناوي، تحت حرف الكاف في شرح حديث: كما تكونوا يولى عليكم، ٦/ ٣١٧، دار الحديث القاهرة، ١٤٣١- المرقاة شرح المشكاة لعلي القاري ، كتاب الإمارة والقضاء، الفصل الثالث، في شرح حديث: كما تكونون كذلك يؤمر عليكم، ٧ / ٢٢٨، المكتبه الإمدادية، ملتان)

حافظ سخاوی اور محدث عجلونی رحمہما اللہ تعالیٰ کے کلام میں اگرچہ  یہ صراحت نہیں کہ یہ ان حضرات کا اپنا کلام ہے ، یا وہ حضور صلی اللہ علیہ سے نقل کرتے ہیں، یا پھر کوئی اسرائیلی روایت ہے، البتہ اتنا ضرور ہے کہ یہ کلام اور اس طرح کا مفہوم قرن اول میں ہی مشہور تھا، خلاصہ یہ ہے کہ اگرچہ یہ بات فی نفسہ درست ہے، لیکن  جب تک کوئی معتبر سند نہ مل جائے ، اس جملے کو بطورِ حدیثِ مرفوع نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب نسبت کرکے بیان کرنے میں احتیاط ضروری ہے۔

پرانی مسجد کی جگہ مدرسہ بنانا

 مسجد کی زمین پر  مدرسہ تعمیر کرنا شرعاً جائز نہیں ،اس مسجد  کی حفاظت  اور آباد كرنا ضروری ہے، البتہ مسجد کے احکام اور آداب واحترام کی رعایت رکھتے ہوئے وہاں بچوں کی دینی تعلیم کا عارضي طور پر انتظام کیا جاسکتا ہے، یعنی وہاں بیت الخلا، گھر اور وضو خانہ وغیرہ نہ بنایاجائے،مسجد کےآداب کالحاظ رکھتے ہوئے صرف  تعلیم ہو اور اساتذہ اور طلبہ وہاں جماعت سے نماز ادا کریں تو  مسجدبھی آباد رہے گی۔

الفقہ الاسلامی و ادلتہ میں ہے۔ 

"إذا صح الوقف خرج عن ملك الواقف، وصار حبيساً على حكم ملك الله تعالى، ولم يدخل في ملك الموقوف عليه، بدليل انتقاله عنه بشرط الواقف (المالك الأول) كسائر أملاكه، وإذا صح الوقف لم يجز بيعه ولا تمليكه ولا قسمته."

(الباب الخامس الوقف،الفصل الثالث حکم الوقف،ج:10،ص:7617،دارالفکر)

فتاوی شامی میں ہے :

"(ولو خرب ما حوله واستغني عنه يبقى مسجدا عند الإمام والثاني) أبدا إلى قيام الساعة (وبه يفتي) حاوي القدسي 

مطلب فيما لو خرب المسجد أو غيره (قوله: ولو خرب ما حوله) أي ولو مع بقائه عامرا وكذا لو خرب وليس له ما يعمر به وقد استغنى الناس عنه لبناء مسجد آخر (قوله: عند الإمام والثاني) فلا يعود ميراثا ولا يجوز نقله ونقل ماله إلى مسجد آخر، سواء كانوا يصلون فيه أو لا وهو الفتوى حاوي القدسي، وأكثر المشايخ عليه مجتبى وهو الأوجه فتح. اهـ"

(کتاب الوقف،ج:4،ص:358،سعید)

Thursday 8 August 2024

عائزل نام رکھنا

 "عائزل"  کا معنی ہمیں نہیں مل سکا، نیز کسی مستند حوالے  سے کسی دوسری زبان کا ہونا بھی معلوم نہیں ہوسکا۔

باقی بچوں کے ناموں کے لیے  بہتر یہ ہے کہ ان  کا ایسا نام رکھا جائے جس سے اسلام کے تشخص کا اظہار ہو، اس  کے لیے  لڑکے کا نام انبیاءِ کرام علیہم السلام یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یا تابعین رحمہم اللہ کے نام پر رکھیں ، اور لڑکی کا نام  صحابیات رضوان اللہ  علیہن  یا  تابعات رحمہن اللہ  کے ناموں پر  رکھا جائے، یا اچھے معنی والا عربی نام رکھا جائے۔

Tuesday 6 August 2024

شرط فاسد کے ساتھ بیع

 خرید و فروخت کا معاملہ کرتے وقت ایسی شرط لگانا جس شرط کا یہ عقد نہ تقاضا  کرتا ہو  اور نہ ہی یہ شرط اس معاملہ کے مناسبات میں سے ہو  اور اس شرط میں بیچنے والے یا خریدنے والے کا کوئی فائدہ ہو (یا مبیع کا فائدہ ہو، بشرطیکہ مبیع اس کا اہل ہو، مثلاً: غلام ہو) تو یہ شرط خرید و فروخت کے معاملہ کو فاسد کردیتی ہے، شرعی اعتبار سے  شرطِ فاسد کی صورت میں  فروخت کنندہ اور خریدار کے لیے حکم یہ ہے کہ اس معاملہ کو ختم  کر کے نئے سرے سے معاملہ کریں۔ شرطِ فاسد کی موجودگی میں مشتری کے لیے مبیع سے استفادہ جائز نہیں ہوتا، فقہاءِ کرام نے بیوعِ فاسدہ کو سود کے حکم میں شامل کیا ہے۔

شروطِ فاسدہ کی بنا پر شریعت نے جب بیع کو فاسد قرار دیا ہے تو اس میں عاقدین کی رضا وعدم رضا کا اعتبار نہیں، بلکہ اس عقد میں موجود اس خرابی (شرط فاسد) کو جب تک دور نہ کیاجائے اس وقت تک شریعت کی نگاہ میں وہ بیع درست نہیں ہے، ایسی بیع کو ختم کرکے شرطِ فاسد کے بغیر بیع کرنا لازم ہے۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق - (5 / 32(

"فالحاصل أن كل جهالة تفضي إلى المنازعة مبطلة فليس يلزم أن ما لايفضي إليها يصح معها بل لا بد مع عدم الإفضاء إليها في الصحة من كون المبيع على حدود الشرع ألا ترى أن المتبايعين قد يتراضيا على شرط لا يقتضيه العقد وعلى البيع بأجل مجهول كقدوم الحاج ونحوه ولايعتبر ذلك مصحّحًا، كذا في فتح القدير."

الهداية شرح البداية - (3 / 48):

"وكل شرط لا يقتضيه العقد وفيه منفعة لأحد المتعاقدين أو للمعقود عليه وهو من أهل الاستحقاق يفسده كشرط أن لا يبيع المشتري العبد المبيع لأن فيه زيادة عارية عن العوض فيؤدي إلى الربا أو لأنه يقع بسببه المنازعة فيعري العقد عن مقصوده."

مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر - (3 / 90):

"ولو كان البيع بشرط لايقتضيه العقد وفي نفع لأحد المتعاقدين أي البائع والمشتري أو  لمبيع يستحق النفع بأن يكون آدميًّا فهو أي هذا البيع فاسد لما فيه من زيادة عرية عن العوض فيكون ربا وكل عقد شرط فيه الربا يكون فاسدًا."

سرکاری یوجنا کے تحت ملے فلیٹ کو کرایہ پر دینا

 کیا فرماتے ہیں علماء دین درج ذیل سوال کے جواب میں۔

احقر ایک مسجد کے امام ہے مالی حالت ٹھیک نہ ہونے کی وجہ سےسرکاری آواس یوجنا کے تحت ۵۰گزپرمشتمل ایک نامکمل فلاٹ احقرکوملاہےجسےاحقر اپنی ذاتی رقم سے مکمل کرتولیامگر مسجدسےکافی دوراورایسی ابادی میں جہاں موجودہ حالات میں اسلامی تشخص کےساتھ رہنااورجان ومال کی حفاظت کرنا ایک مستقل مسئلہ بنگیاہے۔

 سرکار کی طرف سے اس طرح کی فلاٹ کوفروخت کر نے یاکریاپراٹھانے کی اجازت نہیں ہے، البتہ سرکاری ادھکاریوں کے من پسند کسی افراد کے حوالے کردیں تو کوکوئ اعتراض نہیں ہے ۔اب سوال یہ ہےکیااس صورت میں فلاٹ کاقبضہ کسی اور کو دےکراس سے  جومیری ذاتی رقم فلاٹ کومکمل کرنےمیں خرچ ہواہےوہ یااس کی موجودہ جوقیمت ہے وہ حاصل کر سکتے ہیں یانہی۔

عبدالقدوس علی گڑھ 

۵اگست ۲۰۲۴

الجواب وباللہ التوفیق ومنہ المستعان 

عقدِ اجارہ یا بیع تام ہونے کے بعد کرایہ داریامشتری منافع کا مالک بن جاتا ہے اور اس کو منافع حاصل کرنے کا اختیار حاصل ہو جاتا ہے اب چاہے وہ خود منافع حاصل کرے یا کسی اور کو منافع کا مالک بنائے۔ بشرطیکہ کسی ایسے شخص کو نہ دے جو اس میں ایسا کام شروع کرے جس کی وجہ سے مکان کو نقصان پہنچتا ہو، لہذا اگر حکومت نے کرایہ داریامشتری پر یہ شرط لگائی کہ آپ یہ مکان کسی اور کو کرایہ پر نہیں دیں گے تو یہ شرط باطل ہوگی اور کرایہ داریامشتری وہ مکان  کسی اور کو کرائے پر دینا چاہےتو دے سکتاہے  

لھذا صورت مسئولہ میں 

فلیٹ کاقبضہ کسی اور کو دےکراس سے  جو رقم فلیٹ کومکمل کرنےمیں خرچ ہویی ہےیااس کی موجودہ جوقیمت ہے وہ حاصل کر سکتے ہیں ۔

    ۔البتہ

حکومتی ضوابط وحدود کی پاسداری کرتے ہویے اپنی جان مال کی حفاظت کرنا بھی لازم ہے ۔

وقد اختلف أهل العلم في بطلان البيع إذا كان مصحوبا بشرط ينافي مقتضى العقد، فذهب المالكية والشافعية وهو رواية عن أحمد إلى بطلان البيع، وذهب الحنفية إلى بطلان البيع إذا كان في الشرط منفعة لأحد المتعاقدين، وذهب الحنابلة إلى صحة البيع وبطلان الشرط وهو قول في مذهب الشافعية، وإليك بعض نصوص الفقهاء في ذلك.

وله السكنى بنفسه وإسكان غيره بإجارة وغيرها) وكذا كل ما لا يختلف بالمستعمل يبطل التقييد لانه غير مفيد۔  (الدر المختار على صدر رد المحتار، كتاب الإجارة، باب ما يجوز من الإجارة وما يكون خلافا فيها، ج:9، ص:38)

فتاوی شامی میں ہے:

"ولو آجر بأكثر تصدق بالفضل إلا في مسألتين: إذا ‌آجرها ‌بخلاف ‌الجنس أو أصلح فيها شيئا ..... قال ابن عابدين:(قوله بخلاف الجنس) أي جنس ما استأجر به وكذا إذا آجر مع ما استأجر شيئا من ماله يجوز أن تعقد عليه الإجارة فإنه تطيب له الزيادة كما في الخلاصة. (قوله أو أصلح فيها شيئا) بأن جصصها أو فعل فيها مسناة وكذا كل عمل قائم؛ لأن الزيادة بمقابلة ما زاد"

(كتاب الإجارة،‌‌باب ما يجوز من الإجارة وما يكون خلافا فيها،29/6،ط:سعيد)

Monday 5 August 2024

فوتگی کے اعلان سے پہلے تلاوت

  اس طر ح کے اعلانات سے پہلے قرآن مجید کے کسی بھی حصے کی تلاوت کرنا مکروہ ہے ۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وعن هذا يمنع ‌إذا ‌قدم ‌واحد من العظماء إلى مجلس فسبح أو صلى على النبي صلى الله عليه وآله وأصحابه إعلاما بقدومه حتى ينفرج له الناس أو يقوموا له يأثم هكذا في الوجيز للكردري"۔

(كتاب الكراهية،الباب الرابع في الصلاة والتسبيح ورفع الصوت عند قراءة القرآن،ج:5،ص:315،ط:دار الفكر بيروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"وقد كرهوا والله أعلم ونحوه … لإعلام ختم الدرس حين يقرر،(قوله لإعلام ختم الدرس).....فإنه استعمله آلة للإعلام ونحوه إذا قال الداخل: يا الله مثلا ليعلم الجلاس بمجيئه ليهيئوا له محلا، ويوقروه وإذا قال الحارس: لا إله إلا الله ونحوه ليعلم باستيقاظه."

(كتاب الحظر والإباحة،‌‌فصل في البيع،ج:6،ص:431،ط:دار الفكر - بيروت)

منھا نام رکھنا

 معنی کے اعتبار سے منھا   نام رکھنا درست نہیں ، سائل اپنی  بیٹئ کا نام ’’منہا‘‘ کے بجائے  ’’منحہ‘‘  منتخب کرلے  اور اس کا درست تلفظ ’’منحہ‘‘ (مِنْحَہ)ہے، اور  ’’مِنحہ‘‘  کے معنی گفٹ، تحفہ کے ہیں۔

المعجم الوسیط  میں ہے:

"المنحة: العطية". ( ج:۲، صفحہ:  ۸۸۸، ط:  دار الدعوة)

یا اس کے علاوہ صحابیات کے ناموں  سے یا  کسی اچھے معنی والے لفظ کا انتخاب کرلے۔ف

سبحان نام رکھنا

 سبحان‘‘  کے معنی  کسی کو تمام عیوب اور نقائص سے پاک ٹھہرانا یا بتانا ہے،سبحان، اللہ تعالیٰ کے لائقِ شان ہے، اللہ کی ذات کے علاوہ کسی اور  کے بارے میں  ’’سبحان‘‘  نہیں کہا جاسکتا؛ لہٰذا "سبحان" یا "محمد سبحان" نام رکھنا درست نہیں ہے، "عبدالسبحان" نام رکھ سکتے ہیں، لیکن بہتر ہے کہ اس  کےبجائے  کوئی دوسرا نام تجویز کرلیں۔

انبیائے کرام علیہم  الصلاۃ والسلام، صحابہ کرام رضوان  اللہ علیہم اجمعین یا اولیاءِ کرام رحمہم اللہ کے ناموں میں سے یا کوئی اچھا بامعنی نام  کا انتخاب کرلیا جائے۔ (السعایۃ فی کشف مافی شرح الوقایۃ،2/164،ط:سہیل اکیڈمی –فتاوی محمودیہ 19/386، ط:فاروقیہ کراچی)

تفسير القرطبي میں ہے:

"قوله تعالى: (سبحان) " سبحان" اسم موضوع موضع المصدر، وهو غير متمكن، لأنه لايجري بوجوه الإعراب، ولاتدخل عليه الألف واللام، ولم يجر منه فعل، ولم ينصرف لأن في آخره زائدتين، تقول: سبحت تسبيحاً وسبحاناً، مثل كفرت اليمين تكفيراً وكفراناً. ومعناه التنزيه والبراءة لله عز وجل من كل نقص. فهو ذكر عظيم لله تعالى لايصلح لغيره، فأما قول الشاعر: أقول لما جاءني فخره ... سبحان من علقمة الفاخر فإنما ذكره على طريق النادر. وقد روى طلحة بن عبيد الله الفياض أحد العشرة أنه قال للنبي صلى الله عليه وسلم: ما معنى سبحان الله؟ فقال:" تنزيه الله من كل سوء". والعامل فيه على مذهب سيبويه الفعل الذي من معناه لا من لفظه، إذ لم يجر من لفظه فعل، وذلك مثل قعد القرفصاء، واشتمل الصماء، فالتقدير عنده: أنزه الله تنزيها، فوقع" سبحان الله" مكان قولك تنزيه"۔ ( 10 / 204 )

ابروؤں کے درمیان کے بال صاف کرنا

 اگر بھنویں اتنی  زیادہ پھیلی ہوئی ہوں  کہ   معتاد بناوٹ سے مختلف ہوں اوردیکھنے میں  بد نما معلوم ہورہی ہوں  تو عیب دور کرنے کے لیےمرد  وعورت دونوں کے لیے ابروؤں  کو درست کرکے انہیں  عام حالت کے مطابق   معتدل کرنے کی گنجائش ہے۔

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"وعن عبد الله بن مسعود قال: لعن الله الواشمات، والمستوشمات، والمتنمصات) : بتشديد الميم المكسورة هي التي تطلب ‌إزالة ‌الشعر ‌من الوجه بالمنماص أي المنقاش، والتي تفعله نامصة، قال النووي: وهو حرام إلا إذا نبت للمرأة لحية أو شوارب (والمتفلجات) : بكسر اللام المشددة، وهي التي تطلب الفلج، وهو بالتحريك فرجة ما بين الثنايا والرباعيات... والمراد بهن النساء اللاتي تفعل ذلك بأسنانهن رغبة في التحسين... واللام في قوله: (للحسن) : للتعليل... قال النووي: فيه إشارة إلى أن الحرام هو المفعول لطلب الحسن، أما لو احتاجت إليه لعلاج أو عيب في السن ونحوه فلا بأس به."

(كتاب اللباس، باب الترجل، الفصل الأول، ج:7، ص:2819، ط؛دارالفكر)

بذل ُالمجہود میں ہے:

"قال أبو داود: وتفسير الواصلة: التي تصل الشعر بشعر النساء. والمستوصلة: المعمول بها. والنامصة: التي تنقش ‌الحاجب، ‌حتى ‌ترقه."

(أول كتاب الترجل، باب: في صلة الشعر، ج:12، ص:199، ط:مركز الشيخ أبي الحسن الندوي للبحوث والدراسات الإسلامية، الهند)

البحر الرائق میں ہے:

"ولعن في الحديث «النامصة والمتنمصة» ‌والنامصة هي التي تنقص الحاجب لتزينه، والمتنمصة هي التي يفعل بها ذلك."

(كتاب البيع، ‌‌باب البيع الفاسد، ج:6، ص:88، ط:دارالكتاب الإسلامي)

خواتين كا مرد حضرات سے ناک کان چھدوانا

 خواتین کے لیے  شدید ضرورت کی بنا  پر یعنی کسی بیماری کی علاج کی غرض سے نامحرم کے سامنے متاثرہ بدن کھولنے کی بقدرِ ضرورت اجازت ہے،  لیکن ضرورت کے بغیر یعنی بیماری سے علاج کے بغیر بدن دکھاناجائز نہیں ہے، لہذا کسی بھی خاتون کے  لیے نامحرم مرد سے ناک کان چھیدوانا جائز نہیں ہے؛ کیوں کہ  ناک کان چھیدنا  ایسی ضرورت نہیں ہے جس کی وجہ سے نامحرم مرد سے کروانے کی اجازت دی جائے، البتہ  اگر بچپن ہی میں (یعنی بچی کے حدِّ شہوت  تک پہنچنے سے پہلے پہلے)  کسی مرد سے بچی کے کان چھدوائے جائیں تو  جائز ہے۔  

فتاوی شامی (الدر المختار ورد المحتار) میں ہے:

"ولا بأس بثقب أذن البنت والطفل استحسانا ملتقط. قلت: وهل يجوز الخزام في الأنف، لم أره.

(قوله: و الطفل) ظاهره أن المراد به الذكر مع أن ثقب الأذن لتعليق القرط، وهو من زينة النساء، فلايحل للذكور، والذي في عامة الكتب، وقدمناه عن التتارخانية: لا بأس بثقب أذن الطفل من البنات وزاد في الحاوي القدسي: و لايجوز ثقب آذان البنين فالصواب إسقاط الواو (قوله: لم أره) قلت: إن كان مما يتزين النساء به كما هو في بعض البلاد فهو فيها كثقب القرط اهـ ط وقد نص الشافعية على جوازه مدني".

(کتاب الحظر والإباحة، فصل فی البیع، ج:6، ص:420، ط:ایج ایم سعید)