https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Wednesday 1 June 2022

رزق عورت کے مقدرسے اوراولادمردکے نصیب سے کہاوت کی تحقیق

اولاد میاں بیوی دونوں ہی کا نصیب ہوتا ہے۔ارشادِ باری تعالی ہے: {یخلق ما یشاء لمن یشاء ویهب لم یشاء اناثا ویهب لمن یشاء الذکور او یزوجهم ذکرانا واناثا} (شوری) ترجمہ: اللہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، جس کو چاہتا ہے بیٹیاں دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے بیٹے دیتا ہے۔اور جس کو چاہتا ہے بیٹے اور بیٹیاں دونوں دیتا ہے۔ نیز رزق ہر ایک کا علیحدہ علیحدہ مخصوص و متعین ہے۔ چناچہ اللہ تعالی نے قرآنِ کریم میں پارہ 12 سورہ ھود کی آیت نمبر 06 میں ارشاد فرمایا: {وَ مَا مِنْ دَآبَّةٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَى اللّٰهِ رِزْقُهَا وَ یَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَ مُسْتَوْدَعَهَا كُلٌّ فِیْ كِتٰبٍ مُّبِیْنٍ} ترجمہ: زمین پر چلنے پھرنے والے جتنے جان دار ہیں سب کی روزیاں اللہ تعالٰی پر ہیں، وہی ان کے رہنے سہنے کی جگہ کو جانتا ہے اور ان کے سونپے جانے کی جگہ کو بھی، سب کچھ واضح کتاب میں موجود ہے۔ بخاری شریف کی حدیث کا مفہوم ہے کہ جب بچہ چارہ ماہ کا ہوتا ہے تو اللہ رب العزت فرشتہ کو بھیجتا ہے اور اس کا رزق لکھواتا ہے، گویا اس کا رزق پہلے سے ہی مختص کر دیا جاتا ہے جس میں کوئی کمی بیشی نہیں ہو سکتی ۔ لہذا مذکورہ جملے کی کوئی اصل نہیں

Monday 30 May 2022

اعلان مفقود الخبر ئ زوج

مقدمہ 981/98.1443 عرفانہ بنت اطہر احمدخان شروانی ساکن ببلوشروانی فلیٹس, نمبر110,شاکرہ ہوم, وی آئی پی گلی جمال پور علی گڑھ. یوپی. مدعیہ بنام محب اللہ فاروقی ولد لطافت اللہ فاروقی ساکن 367دھورامافی عقب شروانی چکی, تحصیل کول علی گڑھ202002مدعاعلیہ مدعیۂ مقدمہ ہذانے دارالقضاء علی گڑھ میں اپنے شوہرمحب اللہ فاروقی پردعوی دائرکیا ہے کہ میری شادی مدعلیہ سے تقریباً گیارہ سال پہلے ہوئی تھی مدعاعلیہ عرصہ تین سال سے لاپتہ ہے. کافی تلاش کیا کوئی پتہ نہیں چل سکا. لہذااس اعلان کے ذریعہ مدعاعلیہ کوآگاہ کیاجاتاہے کہ محب اللہ فاروقی ولد لطافت اللہ فاروقی جہاں بھی ہوں فورا اپنی موجودگی کی اطلاع کریں اور مؤرخہ 29ذوالقعد1443مطابق29جون2022ء تک دارالقضاء میں حاضر ہوکراپنے مقدمہ کی پیروی کریں بصورت عدم حاضری وعدم پیروی بعدثبوت وشواہد نکاح فسخ کردیا جائے گا. فقط. محمدعامرالصمدانی قاضئ شریعت دارالقضاء علی گڑھ

Friday 27 May 2022

حضرت عبید بن عمیر کا قصہ

عُبید بن عُمیر ، بن قتادہ اللیثی رحمہُ اللہ پہلے درجے کے تابعین میں سے تھے ، کنیت ابو عاصم تھی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے دُور مُبارک میں ہی پیدا ہو چکے تھے ، تاریخ وفات سن اَڑسٹھ 68ہجری ہے ، اھل مکہ کے قاضی اور اُن میں سے سب سے بہترین اندازء خطاب والے خطیب تھے ، یعنی اِس طرح وعظ و نصیحت اور خطاب فرماتے تھے جیسا کہ کوئی آنکھوں دیکھا قصہ بیان کیا جا رہا ہو ،بلکہ کچھِ اس طرح گویا کہ بیان کرنے والا اُس قصے کے کرداروں کے تاثرات اور اُس قصے کے واقعات کے اثرات خود پر پا رہا ہو، حق گوئی کے ساتھ ایسا اندازء بیان اللہ کسی کسی کو ہی نصیب فرماتا ہے ، عُبید بن عُمیر رحمہُ اللہ نے مُسلمانوں میں سب سے پہلے یہ انداز خطابت دُوسرے بلا فصل خلیفہ أمیر المومنین عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہما کے دور خلافت میں پیش کیا ، اپنے دیگر تابعین بھائیوں رحمہم اللہ کی طرح اِیمان ، عِلم ء نافع ، عمل ء صالح اور ز ُھد و تقویٰ کی عظیم الشان مثال تھے، اپنے زمانے کے """ مُستجاب الدعوات """ لوگوں میں سے مانے جاتے تھے یعنی جن کی دُعا ءقُبول ہوتی تھی ، إمام مجاھد رحمہ ُ اللہ کہا کرتے تھے """ہم اپنے فقیہ اور اپنے قاضی پر فخر کرتے ہیں ، ہمارے فقیہ تو ہیں عبداللہ ابن عباس ( رضی اللہ عنہما ) اور ہمارے قاضی ہیں عُبید بن عُمیر( رحمہُ اللہ)، یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اللہ کے دِین کو جِس کا ایک حصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سُنّتء مُبارکہ پر مشتمل ہے ، اُس دِین کی جُزئیات کواِنتہائی اِمانت ، صداقت ، احتیاط ،ذمہ داری اور خوب چھان بین کےساتھ اپنے دِلوں میں محفوظ کیا ، زندگی بھر اُس پر عمل پیرا رہے ، اور اِسی طرح دُوسروں کو سِکھایا ، قصہ مختصر ایک عورت کو اللہ نے بہت حُسن دیا تھا کہ گویا اُس کا حُسن توبہ شکن تھا ، ایک دِن اُس عورت نے اپنا چہرہ آئینے میں دیکھا تو اُس نے اپنے خاوند سے کہا """کیا تُم یہ سوچ سکتے ہو کہ کوئی شخص میرا چہرہ دیکھ کر میرے حُسن کا شِکار ہوئے بغیر رہ سکتا ہے ؟ """ اُس کے خاوند نے کہا """ ہاں """ بیوی نے کہا """ ایسا کون ہو سکتا ہے ؟ """ خاوند نے کہا """ عُبید بن عُمیر """ بیوی نے کہا """ مجھے اُس کے پاس جانے کی اِجازت دو ، میں اُسے ضرور فتنے میں ڈال کر رہوں گی """ خاوند نے کہا """ جاؤ ، اِجازت ہے """ بیوی نے تیاری کی اور عُبید بن عُمیر رحمہُ اللہ کے پاس فتویٰ حاصل کرنے کے بہانے سے پہنچی ، اور علیحدگی میں بات کرنے کے لیے عُبید بن عُمیر رحمہُ اللہ کو مسجد الحرام کے ایک گوشے میں لیے چلی ، جب وہ دونوں لوگوں کی نظروں سے کافی دُور ہو گئے تو اُس عورت نے اپنے چہرے سے پردہ ہٹا دیا ، گویا کہ چمکتے دمکتے چاند کاایک ٹکڑا زمین پر اُتر آیا ہو ، عُبید بن عُمیر رحمہُ اللہ نے فرمایا """ اے اللہ کی بندی ، اللہ کا خوف کرو اور اپنا چہرہ چھپائے رکھو """ عورت نے کہا """ میں آپ کی مُحبت میں مُبتلا کر دِی گئی ہوں ، میرے معاملے میں غور فرمایے """ عُبید بن عُمیر رحمہُ اللہ نے فرمایا """ میں تُم سے کچھ پوچھتا ہوں ، اگر تُم نے ہاں میں جواب دیا تو پھر میں تمہارے اُس معاملے میں کی طرف توجہ کروں گا """ عورت نے کہا """ آپ جو بھی پوچھیں گے میں اُس میں آپ کی ہاں میں ہاں ہی ملاوں گی """ عُبید بن عُمیر رحمہُ اللہ نے فرمایا """ مجھے یہ بتاؤ کہ جب ملک الموت تُمہاری رُوح قبض کرنے کے لیے آئے گا تو کیا تمہیں یہ بات خوش کرے گی کہ میں نے تُمہاری یہ ضرورت پُوری کی ہو ؟ """ عورت نے کہا """ اللہ کی قسم ، نہیں """ عُبید بن عُمیر رحمہُ اللہ نے فرمایا """ دُرست کہا """، اور پوچھا """ جب تمہیں قبر میں داخل کر دیا جائے گا اور پھر تمہیں سوال وجواب کے لیے بٹھایا جائے گا تو کیاتمہیں یہ بات خوش کرے گی کہ میں نے تمہاری یہ ضرورت پوری کی ہو ؟ """ عورت نے کہا """ اللہ کی قسم ، نہیں """ عُبید بن عُمیر رحمہُ اللہ نے فرمایا """ دُرست کہا """، اور پھر پوچھا """ جب لوگوں کو اُن کے اعمال نامے دیے جائیں گے ، اور تم جانتی نہیں ہو گی کہ تمہار ا اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا یا بائیں ہاتھ میں ،تو کیا تمہیں یہ بات خوش کرے گی کہ میں نے تمہاری یہ ضرورت پوری کی ہو ؟ """ عورت نے کہا """ اللہ کی قسم ، نہیں """ عُبید بن عُمیر رحمہُ اللہ نے فرمایا """ دُرست کہا """، اور پوچھا """ اور جب تم پل صراط سے گذرنے لگو گی اور تم نہ جانتی ہوگی کہ تم لڑکھڑاؤ گی یا ثابت قدمی سے گذر جاؤ گی ، تو کیاتمہیں یہ بات خوش کرے گی کہ میں نے تمہاری یہ ضرورت پوری کی ہو ؟ """ عورت نے کہا """ اللہ کی قسم ، نہیں """ عُبید بن عُمیر رحمہُ اللہ نے فرمایا """ دُرست کہا """، اور پوچھا """ اور جب اعمال تولنے کے لیے ترازو پر لائے جائیں گے اور تم نہ جانتی ہو گی کہ تمہارے نیک کاموں کا پلڑا بھاری ہو گا یا ہلکا ، تو کیا تمہیں یہ بات خوش کرے گی کہ میں نے تمہاری یہ ضرورت پوری کی ہو ؟ """ عورت نے کہا """ اللہ کی قسم ، نہیں """ عُبید بن عُمیر رحمہُ اللہ نے فرمایا """ دُرست کہا """، اور پوچھا """ اور جب تُم سوال و جواب کے لیے اللہ کے سامنے پیش کی جاؤ گی ، تو کیاتمہیں یہ بات خوش کرے گی کہ میں نے تمہاری یہ ضرورت پوری کی ہو ؟ """ عورت نے کہا """ اللہ کی قسم ، نہیں """ عُبید بن عُمیر رحمہُ اللہ نے فرمایا """ دُرست کہا """، اورفرمایا """ اے اللہ کی بندی ، اللہ کی ناراضگی اور عذاب سے بچو ، اُس نے تُمہیں اپنی نعمتیں عطاء کی ہیں ، اور تمہارے ساتھ اچھا سلوک کیا ہے """ یہ سب سن کر وہ عورت اپنے خاوند کے پاس واپس پہنچی تو اُس نے پوچھا """ کیا کر کے آئی ہو؟ """ عورت نے کہا """ تم بے کار و بے ہودہ ہو ، ہم سب ہی بے کار و بےہودہ ہیں """ اور وہ عورت نماز ،روزےاور عِبادات کی طرف پلٹ پڑی ، اِس واقعے کے بعد اُس کا خاوند کہا کرتا تھا """ میرے اور عُبید بن عُمیر کے درمیان کیا دشمنی تھی کہ اِس نے میری بیوی کو میرے لیے خراب کر دیا ، پہلے میں ہر رات دُولہا ہوتا تھا اور اب اِس نے میری بیوی کو راھبہ بنا دیا ہے """

Tuesday 24 May 2022

فسخ اورطلاق میں فرق

خاوند اور بيوى ميں عليحدگى یا تو طلاق کے ذریعے ہوتی ہے یاخلع کے ذریعہ (خلع بھی طلاق ہی کی ایک قسم ہے) يا پھر فسخ نكاح كے ذريعہ. طلاق اورفسخ ميں فرق يہ ہے كہ خاوند كى جانب سے ازدواجى تعلق كو ختم كرنا طلاق كہلاتا ہے، اس كے كچھ مخصوص اور معروف الفاظ ہيں. رہا فسخ نكاح تو يہ عقد نكاح كو توڑنا اور ازدواجى ارتباط كو بالكل اصلا ختم كرنے كا نام ہے گويا كہ يہ ارتباط تھا ہى نہيں، اور يہ قاضى يا شرعى حكم كے ذريعہ ہوگا. اور ان دونوں ميں درج ذيل فرق پايا جاتا ہے: 1 ـ طلاق صرف خاوند كے الفاظ اور اس كے اختيار و رضا سے ہوتى ہے، ليكن فسخ نكاح خاوند كے الفاظ كے بغير بھى ہو جاتا ہے، اور اس ميں خاوند كى رضا اور اختيار كى شرط نہيں. امام شافعى رحمہ اللہ كہتے ہيں: " ہر وہ جس سے تفريق اور عليحدگى كا فيصلہ كيا جائے اور خاوند اس كے الفاظ نہ بولے، اور اسے نہ چاہے... تو يہ عليحدگى طلاق نہيں كہلائيگى " انتہى ديكھيں: الام ( 5 / 128 ) 2 ـ طلاق كے كئى ايك اسباب ہيں، اور بعض اوقات بغير كسى سبب كے بھى ہو سكتى ہے، بلكہ طلاق تو صرف خاوند كا اپنى بيوى كو چھوڑنے كى رغبت سے ہوگى. ليكن فسخ نكاح كے ليے سبب كا ہونا ضرورى ہے جو فسخ كو واجب يا مباح كرے. فسخ نكاح ثابت ہونے والے اسباب كى مثاليں: ٭. خاوند اور بيوى كے مابين منافرت یاشقاق کاہونا كفؤ و مناسبت نہ ہونا ـ. ٭. جب خاوند يا بيوى ميں سے كوئى ايك اسلام سے مرتد ہو جائے، اور دين اسلام ميں واپس نہ آئے. ٭. جب خاوند اسلام قبول كر لے اور بيوى اسلام قبول كرنے سے انكار كر دے، اور وہ مشركہ ہو اور اہل كتاب سے تعلق نہ ركھتى ہو. ٭. خاوند اور بيوى ميں لعان ہو جائے. ٭. خاوند كا نفقہ و اخراجات کی ادائیگی سے تنگ اور عاجز ہو جانا،یاموسرہونے کے باوجود نفقہ ادانہ کرنا, حقوق زوجیت ادانہ کرنا,عنین,مجبوب,مجنون,مبروص ہونا . . ٭. خاوند يا بيوى ميں سے كسى ايك ميں ايسا عيب پايا جائے جو استمتاع ميں مانع ہو، يا پھر دونوں ميں نفرت پيدا كرنے كا باعث بنے. خاوندکامتعنت ہونا, نفقہ یاحقوق زوجیت ادانہ کرنا. وغیرہ وغیرہ. 3 ـ فسخ نكاح كے بعد خاوند كو رجوع كا حق حاصل نہيں اس ليے وہ اسے نئے عقد نكاح اور عورت كى رضامندى سے ہى واپس لا سكتا ہے. ليكن طلاق رجعى كى عدت ميں وہ اسكى بيوى ہے، اور اسے پہلى اور دوسرى طلاق كے بعد اسے رجوع كرنے كا حق حاصل ہے، چاہے بيوى راضى ہو يا راضى نہ ہو. ٭. فسخ نكاح ميں مرد جن طلاقوں كى تعداد كا مالك ہے اسے شمار نہيں كيا جاتا. امام شافعى رحمہ اللہ كہتے ہيں: " اور خاوند اور بيوى كے مابين جو فسخ نكاح ہو تو اس سے طلاق واقع نہيں ہوتى، نہ تو ايك اور نہ ہى اس كے بعد " انتہى ديكھيں: كتاب الام ( 5 / 199 ) ابن عبد البر رحمہ اللہ كہتے ہيں: " فسخ نكاح اور طلاق ميں فرق يہ ہے كہ اگرچہ ہر ايك سے خاوند اور بيوى ميں عليحدگى اور تفريق ہو جاتى ہے: فسخ يہ ہے كہ جب اس كے بعد خاوند اور بيوى دوبارہ نكاح كريں تو وہ پہلى عصمت پر ہيں، اور عورت اپنے خاوند كے پاس تين طلاق پر ہو گى ( يعنى خاوند كو تين طلاق كا حق ہوگا ) اور اگر اس نے فسخ نكاح سے قبل طلاق دى اور رجوع كر ليا تو اس كے پاس دو طلاقيں ہونگى " انتہى ديكھيں: الاستذكار ( 6 / 181 ) 5 ـ طلاق خاوند كا حق ہے، اس ميں قاضى كے فيصلہ كى شرط نہيں، اور بعض اوقات خاوند اور بيوى دونوں كى رضامندى سے ہوتى ہے. ليكن فسخ نكاح شرعى حكم يا پھر قاضى كے فيصلہ سے ہو گا، اور فسخ نكاح صرف خاوند اور بيوى كى رضامندى سے نہيں ہو سكتا، الا يہ كہ خلع كى صورت ميں. ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں: " دونوں ( يعنى خاوند اور بيوى ) كو بغير عوض ( يعنى خلع ) كے فسخ نكاح پر راضى ہونے كا حق حاصل نہيں، اس پر اتفاق ہے " انتہى ديكھيں: زاد المعاد ( 5 / 598 ). 6 ـ دخول سے قبل فسخ نكاح عورت كے ليے كوئى مہر واجب نہيں كرتا، ليكن دخول سے قبل طلاق ميں مقرر كردہ مہر كا نصف مہر واجب ہوتا ہے. ليكن خلع يہ ہے كہ عورت اپنے خاوند سے مطالبہ كرے كہ وہ مالى عوض يا پھر مہر سے دستبردار ہونے كے مقابلہ ميں اس سے عليحدگى اختيار كر لے.

Sunday 22 May 2022

کیکڑاکھاناکیساہے

حنفی مسلک کے اعتبار سے کیکڑا کھانا جائز نہیں ہے؛ کیوں کہ یہ مچھلی کے قبیل سے نہیں ہے، اور پانی کے جانوروں میں سے صرف مچھلی کا کھانا حلال ہے، جہاں تک اس کی بیع کی بات ہے تو کسی نفع کی غرض سے کیکڑے کی خریدو فروخت کر سکتے ہیں۔ ”ولا یحل حیوان مائي إلا السمک“ (الدر المختارمع الشامی: ۹/۴۴۴، ط: زکریا) احناف کے یہاں سمندری جانوروں میں سے صرف مچھلی کھانا حلال ہے۔ کیکڑا چوں کہ مچھلی کی کسی قسم میں شامل نہیں، بلکہ کیکڑے کا شمار ہ دریائی کیڑوں میں ہوتا ہے،اس لیے کیکڑا کھانا مکروہِ تحریمی ہے، قرآنِ حکیم میں جہاں اللہ تعالیٰ نے سمندری مخلوق کا ذکر فرمایا ہے وہ آیت یہ ہے: أُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ وَطَعَامُهُ مَتَاعًا لَكُمْ وَلِلسَّيَّارَةِ[المائدۃ، 96] اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے سمندر کے شکار کو کھانے کی اجازت دی ہے، لیکن احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں اس آیت میں شکار سے مراد صرف مچھلی ہے، لہذا کیکڑے کے حلال ہونے کے لیے اس آیت کو پیش کرنا درست نہیں۔ بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 35): {ويحرم عليهم الخبائث} [الأعراف: 157] والضفدع والسرطان والحية ونحوها من الخبائث

Friday 20 May 2022

مسجد گیان واپی بنارس

گیان واپی مسجد وارانسی، اتر پردیش، بھارت میں واقع ہے۔ مشہور ہے کہ اسے مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر نے سترھویں صدی میں تعمیر کرایا تھا لیکن تاریخی طور پر یہ بات ثابت نہیں ہے۔ بعض مصادر سے معلوم ہوتا ہے کہ مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر کے عہد حکومت میں بھی یہ مسجد موجود تھی، چنانچہ مخدوم شاہ طیب بنارسی کے احوال زندگی میں اس مسجد میں جمعہ ادا کرنا مرقوم ہے۔مرقع بنارس میں میں واضح طور پر یہ ثابت کیاہے کہ یہ مسجد ہمایوں بادشاہ کی پیدائش سے قبل بھی موجود تھی. اس مسجد کا سنہ تاسیس اور بانی ہنوز نامعلوم ہیں البتہ اورنگ زیب عالمگیر نے سنہ 1658ء میں اس کی تعمیر نو کرائی تھی۔چونکہ یہ گیان واپی محلہ میں واقع ہے اس لئے مسجد کانام یہ ہوگیا. سنسکرت میں گیان معنی علم اور واپی باؤلی کوکہتے ہیں. بعض ہندو مؤرخین کے مطابق اسے کاشی وشوناتھ مندر کے کھنڈر پر تعمیر کیا گیا ہے۔جس کاکوئی ثبوت تاریخی طور پر پیش نہیں کیاجاسکا. یہ مسجد دریائے گنگا کے کنارے دشاشومیدھ گھاٹ کے شمال میں للتا گھاٹ کے قریب واقع ہے۔

Monday 16 May 2022

طلاق کاجھوٹااقراریاایکٹنگ کرنا

ایک شخص نے اپنی پہلی بیوی کوبتائے بغیردوسرانکاح کرلیاکچھ عرصہ بعد پہلی بیوی کواس نکاح کاعلم ہوگیا توپہلی بیوی نے اپنے شوہر سے اصرار کیاکہ وہ دوسری بیوی کو طلاق دیدے. شوہر نے دوسری بیوی کوپہلے ہی بتادیاتھا کہ میں تمہیں فون پرطلاق دینے کی ایکٹنگ کروں گا حقیقتاً طلاق نہیں دوں گا بلکہ پہلی بیوی کودھوکہ دینے کے لئے ایکٹنگ کروں گا اس سے قضاءً طلاق واقع ہو جائے گی. البتہ دیانتاً(فیمابینہ وبین اللہ) واقع نہیں ہوگی.اگراس پلاننگ پر وہ گواہ بھی بنالیتاتوقضاءًبھی طلاق واقع نہ ہوتی. کمافی الدر المختار وحاشية ابن عابدين : في الخانية، ولو أقر بالطلاق كاذبا أو هازلا وقع قضاء لا ديانة. اهـ. ويأتي تمامه. (كتاب الطلاق، ركن الطلاق، ج:3، ص : 236،الناشر: دار الفكر) وفی البحر الرائق شرح كنز الدقائق : لو أكره على أن يقر بالطلاق فأقر لا يقع كما لو أقر بالطلاق هازلا أو كاذبا كذا في الخانية من الإكراه ومراده بعدم الوقوع في المشبه به عدمه ديانة لما في فتح القدير ولو أقر بالطلاق وهو كاذب وقع في القضاء اهـ. وصرح في البزازية بأن له في الديانة إمساكها إذا قال أردت به الخبر عن الماضي كذبا، وإن لم يرد به الخبر عن الماضي أو أراد به الكذب أو الهزل وقع قضاء وديانة واستثنى في القنية من الوقوع قضاء ما إذا شهد قبل ذلك لأن القاضي يتهمه في إرادته الكذب فإذا أشهد قبله زالت التهمة۔ (كتاب الطلاق، ج:3، ص264،الناشر: دار الكتاب الإسلامي) وفی الدر المختار مع حاشية ابن عابدين : المرأة كالقاضي لا يحل لها أن تمكنه إذا علمت منه ما ظاهره خلاف مدعاه. اهـ. (کتاب الطلاق ، باب الكنايات، ج:3، ص: 305،مط: سعید ) ایسے ہی اگر کسی شخص کا طلاق دینے کا بالکل قصد نہ ہو بلکہ محض بیوی کو ڈرانا یا دھمکانا مقصود ہو اور وہ فرضی طلاق نامہ بنوائے اور طلاق نامہ بنوانے سے پہلے اس بات پر دو گواہ بنالے کہ فرضی اور جھوٹا طلاق نامہ بنوانے جارہا ہے اور گواہوں کو بھی یہ معلوم ہو تو اس طرح جھوٹا طلاق نامہ بنوانے سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔ قال: أنت طالق أو أنت حر وعنی الإخبار کذبًا وقع قضاء إلا إذا أشہد علی ذلک․ (الدر مع الرد: ۴/ ۵۲۲، ط: زکریا دیوبند) البتہ اگر گواہ بنائے بغیر طلاق نامہ تیار کرایا اور پھر دعوی کیا کہ وہ فرضی اور جھوٹا طلاق نامہ تھا تو اس کا دعوی معتبر نہ ہوگا اور طلاق نامہ میں صراحت کے مطابق بیوی پرقضاءً طلاق واقع ہوجائے گی۔

طلاق کی جھوٹی ایکٹنگ کرنےسے طلاق

اگر کسی شخص کا طلاق دینے کا بالکل قصد نہ ہو بلکہ محض بیوی کو ڈرانا یا دھمکانا مقصود ہو اور وہ فرضی طلاق نامہ بنوائے اور طلاق نامہ بنوانے سے پہلے اس بات پر دو گواہ بنالے کہ فرضی اور جھوٹا طلاق نامہ بنوانے جارہا ہے اور گواہوں کو بھی یہ معلوم ہو تو اس طرح جھوٹا طلاق نامہ بنوانے سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔ قال: أنت طالق أو أنت حر وعنی الإخبار کذبًا وقع قضاء إلا إذا أشہد علی ذلک․ (الدر مع الرد: ۴/ ۵۲۲، ط: زکریا دیوبند) البتہ اگر گواہ بنائے بغیر طلاق نامہ تیار کرایا اور پھر دعوی کیا کہ وہ فرض اور جھوٹا طلاق نامہ تھا تو اس کا دعوی معتبر نہ ہوگا اور طلاق نامہ میں صراحت کے مطابق بیوی پرقضاءً طلاق واقع ہوجائے گی۔

Friday 13 May 2022

اخلاص کی قوت

امام محمد غزالیؒ نے احیاء العلوم میں لکھا ہے کہ بنی اسرائیل میں ایک عابد تھا، جو ہر وقت عبادت میں مشغول رہتا تھا۔ ایک مرتبہ ایک جماعت اس کے پاس آئی اور کہا کہ یہاں ایک قوم ہے، جو ایک درخت کو پوجتی ہے۔ یہ سن کر اس کو غصہ آیا اور کلہاڑا کندھے پر رکھ کر اس کو کاٹنے کیلئے چل دیا۔ راستے میں اسے شیطان ایک پیر مرد کی صورت میں ملا۔ عابد سے پوچھا کہاں جا رہے ہو؟ اس نے کہا فلاں درخت کو کاٹنے جارہا ہوں۔ شیطان نے کہا: تمہیں اس درخت سے کیا غرض، تم اپنی عبادت میں مشغول رہو۔ تم نے اپنی عبادت کو ایک مہمل اور بے کار کام کیلئے چھوڑ دیا۔ عابد نے کہا لوگوں کو شرک سے بچانا یہ بڑی عبادت ہے۔ شیطان نے کہا: میں تمہیں نہیں کاٹنے دوں گا، پھر دونوں کا مقابلہ ہوا، وہ عابد اس کے سینے پر چڑھ گیا۔ شیطان نے اپنے کو عاجز دیکھ کر خوشامد کی اور کہا کہ اچھا ایک بات سن لے۔ عابد نے اس کو چھوڑ دیا۔ شیطان نے کہا: خدا نے تجھ پر اس درخت کو کاٹنا فرض تو کیا نہیں، تیرا اس سے کوئی نقصان نہیں تو اس کی پرستش و پوجا نہیں کرتا۔ خدا کے بہت سے نبی ہیں، اگر وہ چاہتا تو کسی نبی کے ذریعے اس کو کٹوا دیتا۔ عابد نے کہا میں ضرور کاٹوں گا۔ پھر دونوں میں مقابلہ ہوا، وہ عابد پھر اس کے سینے پر چڑھ گیا۔ شیطان نے کہا اچھا سن، ایک فیصلہ کن بات جو میں تیرے نفع کی کہوں گا۔ عابد نے کہا کہہ۔ شیطان نے کہا کہ تو غریب آدمی ہے۔ دنیا پر بوجھ بنا ہوا ہے تو اس کام سے باز آ۔ میں تجھے روزانہ تین دینار دیا کروں گا، جو روزانہ تیرے سرہانے کے نیچے رکھے ہوئے ملا کریں گے۔ تیری بھی ضرورتیں پوری ہو جایا کریں گی، اپنے اعزہ و اقارب پر بھی احسان کر سکے گا۔ فقیروں کی بھی مدد کرسکے گا اور بہت سے ثواب کے کام حاصل کرے گا۔ درخت کاٹنے میں تو فقط ایک ہی ثواب ہوگا اور وہ بھی رائیگاں جائے گا، وہ لوگ پھر دوسرا درخت لگالیں گے۔ عابد کو سمجھ میں آگیا اس عابد نے قبول کرلیا اور گھر آگیا۔ دو دن تک دینار تکیے کے نیچے سے ملے، تیسرے دن کچھ بھی نہ ملا۔ عابد کو پھر غصہ آیا اور اسی طرح کلہاڑا لے کر چلا، راستہ میں وہ بوڑھا اسے پھر ملا، تو پوچھا جناب کہاں جا رہے ہو؟ عابد نے کہا کہ اسی درخت کو کاٹنے جا رہا ہوں۔ بوڑھے نے کہا تو اس کو نہیں کاٹ سکتا۔ دونوں میں لڑائی ہوئی اور وہ بوڑھا (یعنی شیطان) غالب آگیا اور عابد کے سینے پر چڑھ گیا۔ عابد کو بڑا ہی تعجب ہوا۔ اس سے پوچھا کہ یہ کیا بات ہے کہ تو اس مرتبہ غالب آگیا؟ شیطان نے کہا کہ پہلی مرتبہ تیرا غصہ خالص خدا کیلئے تھا، اس لئے خدا نے مجھے مغلوب کردیا اور تجھے غالب۔ اس مرتبہ تیرے دل میں دیناروں کا دخل تھا۔ خدا کی رضا اور اخلاص نہ تھا، اس لئے تو مغلوب ہوا اور میں غالب۔ حق یہ ہے کہ جو بھی کام اخلاص اور رب تعالیٰ کی رضا جوئی کیلئے کیا جائے تو اس میں بڑی قوت و برکت ہوتی ہے اور جس کام میں حرص و لالچ کا دخل ہو، اس عمل میں کوئی طاقت اور برکت نہیں ہوتی، جیسا کہ اس مذکورہ واقعہ سے ظاہر ہوتا ہے۔ (فضائل ذکر ص 514) خلوص نیت کا مطلب یہ ہے کہ مطلوبہ کام صرف اور صرف رب تعالیٰ کی رضا جوئی کے لئے کیا جائے، جس میں تصنع اور ریاکاری اور کسی قسم کے لالچ کا دخل نہ ہو۔ نیت میں اخلاص کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اعمال روشن، وزنی اور قابل قبول ہوں گے۔ بصورت دیگر اعمال صرف ڈھانچے بن کر رہیں گے۔ جس طرح اعضائے بدن کی کارکردگی روح پر منحصر ہے، اسی طرح اعمال صالحہ بھی خلوص نیت پر موقوف ہیں۔ حضور اقدسؐ کا فرمان مبارک ہے: اعمال کے زندہ ہونے کا مدار بلاشک نیتوں پر ہے۔ مسجد میں جاتے وقت اگر کوئی اپنے جوتوں کی حفاظت اس لئے کرتا ہے کہ مبادا کوئی اپنی عاقبت خراب نہ کر بیٹھے یا مکان بناتے وقت روشندان اس لئے رکھتا ہے کہ اذان کی آواز بھی سنائی دے، تو یہ عمل اس کیلئے عمل ثواب اور عمل بقا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ روز قیامت اعمال گننے کے بجائے اعمال تولے جائیں گے۔ علی ہذا القیاس اخلاص نیت کے ہوتے ہوئے چھوٹے سے چھوٹا عمل بھی بڑا اور عدم اخلاص کی صورت میں بڑا عمل بھی چھوٹا اور بے وزن ثابت ہو گا۔

Thursday 12 May 2022

زوال امت کے اسباب و عوامل

آجکل پوری دنیا میں مسلمانوں پرظلم وزیادتی بے انصافی عدوان وبربریت کاشورہے. مسلمان تواپنی ہرمحفل میں اس روناروتے ہی رہتے ہیں. مسجد بازار, دوکان, گھرکوئی جگہ ایسی نہیں جہاں یہ تذکرہ نہ ہو. میرے خیال میں اس کی وجہ خود مسلمان ہیں. ان کی زندگی پرنظرڈالیں توپتہ چلے گاسب سے زیادہ اسلام, قرآن شریعت کی توہین یہ خود کرتے ہیں. بظاہر حاجی نمازی, حافظ جی. وغیرہ وغیرہ سبھی کچھ ہیں. لیکن جہاں اپنے مفاد سے اسلام کاکوئی حکم ٹکرائے گاوہاں وہ اس گوشۂ اسلام کوحرف غلط کی طرح صفحۂ ہستی سے مٹانے کی کوشش کرتے ہیں. مسجد چپل پہن کر جانے پرٹوک دیاجائے تووہ ماننےکے لئے تیار نہیں بلکہ بحث کرے گااپنی بات پربضد ہوگا. اورٹوکنے والے ہی کوغلط ٹھہرائے گا. کوئی مسئلہ کھلے عام ایسا وضاحت سے بتادیاجائے جس میں سب عام طورپرمبتلاہوں توبتلانے والے ہی کے خلاف ہوجائیں گے. مثلا قربانی کے دنوں میں یہ مسئلہ کسی قریشی محلے میں بتادیاجائے کہ" دوسال سے کم عمر کے بڑے جانوربھینسہ وغیرہ کی قربانی جائز نہیں جودوکاندار عام طور سے اس کی رعایت نہیں کرتے ان سے جب جانور کے دوسال کے ہونے کی پختہ جانکاری یاثبوت نہ ہونہ کرائیں". تودوکاندار بتانے والے کےدشمن ہوجائیں گے. میں نے ایک مرتبہ یہ مسئلہ بتایا کئ دوکانداروں نے میری اقتداء میں نماز پڑھنی چھوڑ دی. ایک نے بعد میں وضاحت بھی طلب کی. گھریلومسائل میں آپ کسی مسلمان کے خلاف فیصلہ سنادیں تب دیکھئے کیاہوتاہے. زیادہ تر تویہی کہیں گے کہ ہم شریعت کے فیصلے کونہیں مانتے .اگرکچھ شرم وحیاہوئی توکہیں گے توشریعت کانام حذف کرکے یوں کہیں گے ہم آپ کے فیصلے کونہیں مانتے خواہ انہوں نے پہلے ہی آپ کے سامنے تحریری اقرار کیاہوکہ ہمیں شریعت کافیصلہ قبول منظورہوگا. اس کے باوجود آپ کے درپۂ آزار ہوں گے عدالت میں چیلنج کریں گے. پولیس سے آپ کی شکایت کریں انہیں رشوت دیں گے تاکہ پولیس اس عالم کے خلاف ایکشن لے جس نے شریعت کے مطابق فیصلہ کیا. علماء کی توہین. شریعت کی مساجد کی توہین. نمازوں کی توہین حج کی توہین قربانی کی توہین نکاح کی توہین عقیقہ کی توہین ان کاعام شیوہ ہے. نکاح کی توہین اس طرح کے نکاح کے موقع پرگانے ڈانس میوزک کااہتمام کرتے ہیں. عقیقہ میں بعض لوگ میوزک کااہتمام کرتے ہیں. حج سے واپس آکراکثر منکرات وفواحش کاارتکاب کرتے ہوئے اپنے آپ کوحاجی لکھواتے بتاہیں اوراعمال فساق وفجارکاکرتے ہیں. علم اللہ تعالیٰ کی صفت ہے اور اللہ اپنی اس صفت سے اپنے پسندیدہ بندوں کو ہی نوازتے ہیں، تاکہ وہ نائبِ رسول بن کر لوگوں کو راہِ شریعت بتلائے، اور کسی سبب یا عداوت کے بغیر کسی عالمِ دین یا حافظِ قرآن کی اہا نت درحقیقت علمِ دین کی اہانت ہے ، اور علمِ دین کی اہانت کو کفر قراردیا گیا ہے، اور اگر کوئی شخص کسی دنیاوی دشمنی یا بغض کی وجہ سے عالمِ دین کو برا بھلا کہتا ہےتو یہ گناہ گار ہے۔ حاصل یہ ہے کہ عالمِ دین کی اہانت سے سلبِ ایمان کا اندیشہ ہے؛ لہذا اس سے مکمل اجتناب ضروری ہے۔ لسان الحكام (ص: 415): "وفي النصاب: من أبغض عالماً بغير سبب ظاهر خيف عليه الكفر. وفي نسخة الخسرواني: رجل يجلس على مكان مرتفع ويسألون منه مسائل بطريق الاستهزاء، وهم يضربونه بالوسائد ويضحكون يكفرون جميعاً". البحر الرائق شرح كنز الدقائق (5/ 134): " ومن أبغض عالماً من غير سبب ظاهر خيف عليه الكفر، ولو صغر الفقيه أو العلوي قاصداً الاستخفاف بالدين كفر، لا إن لم يقصده". مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر (1/ 695): "وفي البزازية: فالاستخفاف بالعلماء؛ لكونهم علماء استخفاف بالعلم، والعلم صفة الله تعالى منحه فضلاً على خيار عباده ليدلوا خلقه على شريعته نيابةً عن رسله، فاستخفافه بهذا يعلم أنه إلى من يعود، فإن افتخر سلطان عادل بأنه ظل الله تعالى على خلقه يقول العلماء بلطف الله اتصفنا بصفته بنفس العلم، فكيف إذا اقترن به العمل الملك عليك لولا عدلك، فأين المتصف بصفته من الذين إذا عدلوا لم يعدلوا عن ظله! والاستخفاف بالأشراف والعلماء كفر. ومن قال للعالم: عويلم أو لعلوي عليوي قاصداً به الاستخفاف كفر. ومن أهان الشريعة أو المسائل التي لا بد منها كفر، ومن بغض عالماً من غير سبب ظاهر خيف عليه الكفر، ولو شتم فم عالم فقيه أو علوي يكفر وتطلق امرأته ثلاثاً إجماعاً"

Wednesday 11 May 2022

علماء کی توہین کفرہے

علم اللہ تعالیٰ کی صفت ہے اور اللہ اپنی اس صفت سے اپنے پسندیدہ بندوں کو ہی نوازتے ہیں، تاکہ وہ نائبِ رسول بن کر لوگوں کو راہِ شریعت بتلائے، اور کسی سبب یا عداوت کے بغیر کسی عالمِ دین یا حافظِ قرآن کی اہا نت درحقیقت علمِ دین کی اہانت ہے ، اور علمِ دین کی اہانت کو کفر قراردیا گیا ہے، اور اگر کوئی شخص کسی دنیاوی دشمنی یا بغض کی وجہ سے عالمِ دین کو برا بھلا کہتا ہےتو یہ گناہ گار ہے۔ حاصل یہ ہے کہ عالمِ دین کی اہانت سے سلبِ ایمان کا اندیشہ ہے؛ لہذا اس سے مکمل اجتناب ضروری ہے۔ لسان الحكام (ص: 415): "وفي النصاب: من أبغض عالماً بغير سبب ظاهر خيف عليه الكفر. وفي نسخة الخسرواني: رجل يجلس على مكان مرتفع ويسألون منه مسائل بطريق الاستهزاء، وهم يضربونه بالوسائد ويضحكون يكفرون جميعاً". البحر الرائق شرح كنز الدقائق (5/ 134): " ومن أبغض عالماً من غير سبب ظاهر خيف عليه الكفر، ولو صغر الفقيه أو العلوي قاصداً الاستخفاف بالدين كفر، لا إن لم يقصده". مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر (1/ 695): "وفي البزازية: فالاستخفاف بالعلماء؛ لكونهم علماء استخفاف بالعلم، والعلم صفة الله تعالى منحه فضلاً على خيار عباده ليدلوا خلقه على شريعته نيابةً عن رسله، فاستخفافه بهذا يعلم أنه إلى من يعود، فإن افتخر سلطان عادل بأنه ظل الله تعالى على خلقه يقول العلماء بلطف الله اتصفنا بصفته بنفس العلم، فكيف إذا اقترن به العمل الملك عليك لولا عدلك، فأين المتصف بصفته من الذين إذا عدلوا لم يعدلوا عن ظله! والاستخفاف بالأشراف والعلماء كفر. ومن قال للعالم: عويلم أو لعلوي عليوي قاصداً به الاستخفاف كفر. ومن أهان الشريعة أو المسائل التي لا بد منها كفر، ومن بغض عالماً من غير سبب ظاهر خيف عليه الكفر، ولو شتم فم عالم فقيه أو علوي يكفر وتطلق امرأته ثلاثاً إجماعاً"

یہ سب کامسئلہ ہے

ایک چُوہا کسان کے گھر میں بِل بنا کر رہتا تھا۔ ایک دن چُوہے نے دیکھا کہ کسان اور اُس کی بیوی ایک تھیلے سے کچھ نکال رہے ہیں۔ چُوہے نے سوچا کہ شاید کچھ کھانے کا سامان ہے۔🥀 خُوب غور سے دیکھنے پر اُس نے پایا کہ وہ ایک چُوہے دانی تھی۔ خطرہ بھانپنے پر اُس نے گھر کے پِچھواڑے میں جا کر کبُوتر کو یہ بات بتائی کہ گھر میں چوہے دانی آ گئی ہے۔ کبوتر نے مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ مجھے اس سے کیا؟ مجھے کون سا اُس میں پھنسنا ہے؟ مایُوس چُوہا یہ بات مُرغ کو بتانے گیا۔ مُرغ نے بھی مذاق اُڑاتے ہوئے کہا کہ جا بھائی یہ میرا مسئلہ نہیں ہے۔🥀👽 بالآخر چُوہے نے جا کر بکرے کو بھی یہ بات بتائی۔ جسے سُن کر بکرا ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہونے لگا اور یہی کہا کہ جاؤ میاں یہ میرا مسئلہ نہیں ہے۔🐀 اُسی رات چوہے دانی میں كھٹاک کی آواز ہوئی جس میں ایک زہریلا سانپ پھنس گیا تھا۔🐁 اندھیرے میں اُس کی دم کو چُوہا سمجھ کر کسان کی بیوی جب اُسے نکالنے لگی تو سانپ نے اُسے ڈس لیا۔🪱 طبیعت بگڑنے پر کسان نے حکیم کو بلوایا۔ جِس نے اُسے کبُوتر کا سُوپ پلانے کا مشورہ دیا۔🦜 کبُوتر ابھی برتن میں اُبل ہی رہا تھا کہ خبر سُن کر کسان کے کچھ رشتہ دار عیادت کو آ پہنچے۔ جن کے کھانے کے انتظام کیلئے اگلے دن مُرغ کو ذبح کر دیا گیا۔🐓 کچھ دنوں کے بعد کسان کی بیوی مر گئی۔ جِس کے جنازے اور تعزیت پر آنے والوں کی ضیافت میں بکرا کاٹنے کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہ تھا۔ جب کہ چُوہا تو کب کا دُور جا چکا تھا۔ بہت دُور ۔🐁 لہٰذا🌱🌱 اگلی بار اگر کوئی آپ کو اپنا مسئلہ بتائے اور آپ کو لگے کہ یہ میرا مسئلہ نہیں ہے تو انتظار کیجئیے اور دوبارہ سوچئیے کہ کہیں ہم سب خطرے میں تو نہیں ہیں۔ کیونکہ اگر سماج کا ایک حصہ، ایک طبقہ، یا ایک شہری بھی خطرے میں ہے تو یقیناََ کہ پُورا مُلک خطرے میں ہے۔🥀 ذات، مذہب اور طبقے کے دائرے سے باہر نکلیں،🥀🌱 صرف اپنی ہی ذات تک محدود مت رہیے، دوسروں کا بھی اِحساس کیجئیے۔ کیونکہ پڑوس میں لگی آگ آپکے گھر تک بھی پہنچ سکتی ہے

Monday 9 May 2022

قبر پرپھول ڈالنا. اگربتی جلانا

قبر وں پر پھول ڈالنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین رحمہم اللہ سے ثابت نہیں ہے، اس لیے قبر پر پھول ڈالنا درست نہیں ہے، قبروں پر پھول ڈالنے کے بجائے یہ رقم صدقہ وخیرات کرکے اس کا ثواب میت کو بخش دیاجائے تو یہ زیادہ بہتر ہے، تاکہ میت کو بھی فائدہ ہو اور رقم بھی ضائع نہ ہو۔ قبروں پر اگربتیاں یا چراغ جلانا بھی بدعت ہے، جس کا شریعت میں کوئی ثبوت نہیں، نیز احادیثِ مبارکہ میں رسول کریم ﷺنے قبروں پر چراغ جلانے سے سخت ممانعت فرمائی ہے اور ایسے فعل کے مرتکب پر لعنت فرمائی ہے۔ مشکاۃ شریف کی روایت میں ہے : " وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: لَعَنَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله علیه وسلم زَائِرَاتِ الْقُبُوْرِ وَالْمُتَّخِذِیْنَ عَلَیْهَا الْمَسَاجِدَ وَالسُّرْجَ". (رواه أبوداؤد و الترمذي والنسائي)." ترجمہ: " اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر اور قبروں کو مسجد بنا لینے (یعنی قبروں پر سجدہ کرنے والوں) اور قبروں پر چراغ جلانے والوں پر لعنت فرمائی ہے۔" صاحبِ مظاہرِ حق لکھتے ہیں : ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتدائے اسلام میں قبروں کی زیارت کرنے سے منع فرمایا تھا، پھر بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اجازت دے دی تھی، چنانچہ بعض علماء فرماتے ہیں کہ یہ اجازت مردوں اور عورتوں دونوں کے حق میں تھی، لہٰذا عورتوں کو پہلے تو قبروں کی زیارت کرنے کی اجازت نہیں تھی، مگر اب اس عام اجازت کے پیشِ نظر درست و جائز ہے۔ بعض علماء فرماتے ہیں کہ اس اجازت کا تعلق صرف مردوں سے ہے عورتوں کے حق میں وہ نہی اب بھی باقی ہے اور وجہ اس کی یہ بیان کرتے ہیں کہ عورتیں چوں کہ کم زور دل اور غیر صابر ہوتی ہیں، نیز ان کے اندر جزع و فزغ کی عادت ہوتی ہے؛ اس لیے ان کے لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ قبروں پر جائیں۔ چنانچہ یہ حدیث بھی بظاہر ان ہی علماء کی تائید کرتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کی زیارت جمہور علماء کے نزدیک اس حکم سے مستثنیٰ ہے، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کی زیارت مرد ہو یا عورت سب کے لیے جائز ہے۔ قبر پر چراغ جلانا اس لیے حرام ہے کہ اس سے بے جا اسراف اور مال کا ضیاع ہوتا ہے‘‘۔ عمدة القاري شرح صحيح البخاري - (5 / 4): ’’أنكر الخطابي ومن تبعه وضع الجريد اليابس وكذلك ما يفعله أكثر الناس من وضع ما فيه رطوبة من الرياحين والبقول ونحوهما على القبور ليس بشيء‘‘. فتاوی ہندیہ میں ہے : "وإخراج الشموع إلى رأس القبور في الليالي الأول بدعة، كذا في السراجية". (5/331رشیدیه) وإخراج الشموع إلی رأس القبور فی اللیالی بدعة (ہندیة: ۵/۳۵۱، کتاب الکراہیة) وعن ابن عباس (رضی اللہ عنہ) قال: لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زائرات القبور والمتخذین علیہا المساجد والسرج۔ (مشکوة)