https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Tuesday 15 June 2021

راقب حمید نائک کودھمکیوں کی مذمت

 خبررساں ایجنسی الجزیرہ میڈیا نیٹ ورک نے امریکہ میں کوویڈ 19 ریلیف فنڈ کے مبینہ غلط استعمال پر شائع مضامین کیلئے ہندوستانی صحافی راقب حمید نائیک کو ہندوتوا سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کی جانب سے آن لائن ہراسانی اور موت کی دھمکیاں دینے کی سخت مذمت کی ہے۔ الجزیرہ میں اپریل میں شائع مضامین میں بتایا کہ کوویڈ ریلیف فنڈ کی رقم 833,000 ڈالر (زائد از 6.10 کروڑ روپئے) ہندوتوا امریکن فاونڈیشن کے علاوہ دیگر چار امریکی فاونڈیشن کو دیئے گئے جو مبینہ طور پر ہندو مذہبی گروپ سے وابستہ ہیں۔ الجزیرہ نے اتوار کو دیئے گئے اپنے بیان میں ہندوستانی صحافی کی حمایت اور ان کے پیشہ وارانہ حصہ کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ مضامین میں یہ بتایا گیا کہ ہندو امریکن فاؤنڈیشن، وشوا ہندو پریشد امریکن، اکل ودیالیہ فاؤنڈیشن اور آف یو ایس اے، انفنیٹی فاؤنڈیشن اور سیوا انٹرنیشنل نے 3 پروگراموں کے تحت فنڈس حاصل کئے ہیں جس کا مقصد کورونا بحران کے دوران متاثرہ تاجرین کو معاشی امداد فراہم کرنا تھا۔ ایک رپورٹ میں یو ایس گروپ ''ہندوس فار ہیومن رائٹس'' کے شریک بانی سنیتا وشواناتھ کے حوالہ سے بتایا گیا کہ مذکورہ پانچ تنظیمیں ہندوستان میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز مہم کیلئے ان فنڈس کا استعمال کرسکتے ہیں۔

Monday 14 June 2021

Invention of Covid Alarm

  کورونا کا پتہ لگانے کے لئے ، اب ایسے الیکٹرانک ڈیوائس کا استعمال کیا جائے گا جو جسم کی بدبو سونگھ کر وائرس کے خطرے پرآگاہ کرے گا۔ برطانوی سائنس دانوں نے یہ آلہ تیار کرنے کا دعوی کیا ہے ، جس کا نام ' کوویڈ الارم ' رکھا گیا ہے۔

لندن اسکول آف ہائجین اینڈتڑاپیکل میڈیسن (LSHTM) اور ڈرہم یونیورسٹی کی تحقیق میں سائنس دانوں نے یہ پایاکہ کورونا انفیکشن کی ایک خاص بدبو ہے جس کاسینسر پتہ لگاسکتا ہے۔ایل ایس ایچ ٹی ایم کے محققین کی زیر قیادت ، ڈرہم یونیورسٹی کے ساتھ بائیوٹیک کمپنی روبوسائنٹیک لمیٹڈ ، نامیاتی سیمی کنڈکٹنگ (او ایس سی) سینسر کے ذریعہ اس آلے کا تجربہ کیا۔ پروفیسر جیمز لوگان ، جنہوں نے تحقیق کی قیادت کی کہا کہ یہ نتائج بہت امید افزا اور بہت درست ہیں۔ تاہم ، اس کی صداقت کی تصدیق کے لئے اور جانچ ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ آلہ کامیابی کے ساتھ عوامی مقامات پر استعمال کے لئے تیار کیا گیا ہے ،اوریہ کفایتی بھی ہے ۔اسے کہیں بھی آسانی سے لگایاجاسکے گا۔یہ آلہ مستقبل میں لوگوں کو کسی بھی وبا سے بچانے میں معاون ثابت ہوگا۔ اس تحقیق کے دوران ، ٹیم نے جسمانی بدبو کا سراغ لگایا۔ 54 افراد کے موزے پر تحقیق کیا جس میں 27 افراد کورونا وائرس سے متاثر تھے باقی 27 افراد انفیکشن سے پاک تھے۔

محرم کے بغیر عورت کاحج وعمرہ وغیرہ کا طویل سفر

 عورت کے لیے شوہر یا محرم شرعی کے بغیر حج یا عمرہ کا سفر کرنا جائز نہیں اگر اس کے وطن اور مکہ مکرمہ  کےدرمیان سفر شرعی کی مسافت ہے خواہ سعودیہ میں اس کا شوہر یا محرم شرعی موجود ہو ، احادیث میں سفر شرعی کی مسافت کا شوہر یا محرم شرعی کے بغیر سفر کرنے سے منع کیا گیا ہے ، محیط برہانی (کتاب الکراھیة والاستحسان، فصل: ۲۸،ج: ۸،ص ۱۱۴، مطبوعہ:پاکستان)میں ہے: ولا تسافر المرأة بغیر محرم ثلاثة أیام فما فوقھا، واختلفت الروایات فیما دون ذلک ، قال أبو یوسف رحمہ اللہ تعالی: أکرہ لھا أن تسافر یوماً بغیر محرم ، وھکذا روي عن أبي حنیفة رضی اللہ تعالی عنہ، وقال الفقیہ أبو جعفررحمہ اللہ تعالی:اتفقت الروایات فی الثلاث اھ،ونقلہ عنہ فی التاتار خانیة (۱۸: ۲۴۵، ۲۴۶ ط مکتبة زکریا دیوبند)، والفتاوی الھندیة( ۵: ۳۶۶ ط مکتبة زکریا دیوبند) عن المحیط،نیز فتاوی محمودیہ جدید (۱۰: ۳۳۰، ۳۳۱، سوال:۵۰۶۹، مطبوعہ:ادارہٴ صدیق، ڈابھیل)،آپ کے مسائل اور ان کا حل جدید تخریج شدہ(۵: ۲۹۶، مطبوعہ: کتب خانہ نعیمیہ دیوبند)، اور فتاوی حقانیہ (۴: ۲۲۱، مطبوعہ: پاکستان) وغیرہ دیکھیں ۔ (۲): راجح ومفتی بہ قول کے مطابق سفر شرعی کی مسافت سوا ستتر کلو میٹر ہے، اتنی مسافت کا سفر شوہر یا محرم شرعی کے بغیر جائز نہیں ،اور اگر اس سے کم مسافت ہو تو کسی طرح کا خوف فتنہ نہ ہونے کی صورت میں جائز ہے ورنہ اس میں بھی شوہر یا محرم ساتھ ہونا چاہئے ۔

An example of Lawlessness in U.P:


 

بھارت نے امریکہ کے کمیشن برائے عالمی مذہبی آزادی (یو ایس سی آئی آر ایف) کی اس رپورٹ کو مسترد کر دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بھارت میں مذہبی آزادی خطرناک حد تک سکڑتی جا رہی ہے اور اقلیتوں پر حملے بڑھ رہے ہیں۔

کمیشن نے اپنی سالانہ رپورٹ میں امریکی حکومت کو بھارت کو ان 13 ممالک کی فہرست میں شامل کرنے کی تجویز دی ہے، جہاں شہریوں کو مذہبی آزادی حاصل نہیں ہے۔

سال 2004 کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب بھارت کو اس فہرست میں شامل کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ اس فہرست میں چین، پاکستان، شمالی کوریا، سعودی عرب اور روس بھی شامل ہیں۔

بھارت کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان انوراگ سریواستو نے اپنے رد عمل میں کہا کہ مذکورہ کمیشن کی جانب سے بھارت کے خلاف متعصبانہ اور متنازع تبصرے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ البتہ اس مرتبہ اس کی غلط بیانی نئی سطحوں تک پہنچ گئی ہے۔

لیکن نئی دہلی کے تجزیہ کار اس رپورٹ کو جائز قرار دے رہے ہیں۔

انسانی حقوق کے سرگرم کارکن مسیحی رہنما جان دیال نے امریکی کمیشن کی رپورٹ کو بھارت کے لیے انتہائی شرمناک قرار دیا اور کہا کہ بھارت میں حالات ایسے ہو گئے ہیں کہ دوسرے ملکوں کو بھی ان پر تبصرہ کرنا پڑ رہا ہے۔

انہوں نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی حکومت نے کمیشن کی رپورٹ پر بچگانہ ردعمل دیا ہے۔ اُن کے بقول ہمیں اس سے انکار نہیں کرنا چاہیے کہ یہاں کی مذہبی اقلیتوں پر ظلم ہو رہا ہے۔

(بی بی سی  سے ماخوذ) 

Sunday 13 June 2021

تعویذ کی شرعی حیثیت

 رقیہ اور تعویذ تین شرطوں  کے ساتھ جائز ہے: (۱) یہ کہ وہ آیاتِ قرآنیہ اسمائے حسنیٰ وغیرہ پر مشتمل ہو۔ (۲) عربی یا اس کے علاوہ ایسی زبان میں ہو جو معلوم المراد ہو۔ (۳) یہ عقیدہ ہو کہ یہ تعویذ موٴثر بالذات نہیں ہے (اس کی حیثیت صرف دوا کی ہے) موٴثر بالذات صرف اللہ رب العزت ہیں۔ وقال ابن حجر: وقد أجمع العلماء علی جواز الرقی عند اجتماع ثلاثة شروط أن یکون بکلام اللہ تعالی أو بأسمائہ وصفاتہ وباللسان العربی أو بما یعرف معناہ من غیرہ وأن یعتقد أن الرقیة لا تؤثر بذاتہا بل بذات اللہ تعالی (فتح الباري: الطب والرقی بالقرآن والمعوذات: ۵۷۳۵) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحتاً ایسے رقیے اور تعویذ کی اجازت دی ہے جس میں شرک نہ ہو: عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِکٍ ، قَالَ: کُنَّا نَرْقِی فِی الْجَاہِلِیَّةِ، فَقُلْنَا: یَا رَسُولَ اللَّہِ، کَیْفَ تَرَی فِی ذَلِکَ؟ فَقَالَ: اعْرِضُوا عَلَیَّ رُقَاکُمْ، لَا بَأْسَ بِالرُّقَی مَا لَمْ یَکُنْ فِیہِ شرکٌ، رواہ مسلم (مشکاة: ۲/۳۸۸) نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابودجانہ رضی اللہ عنہ کو تعویذ کے کلمات لکھ کر دیے تھے جس کی وجہ سے ان کو پریشان کرنے والا شیطان ہلاک ہوگیا۔ وأخرج البیہقي عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: فَقَالَ لِعَلِیِّ رضي اللہ عنہ اکْتُبْ: بِسْمِ اللہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ. ہَذَا کِتَابٌ مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ رَبِّ الْعَالَمِینَ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، إِلَی مَنْ طَرَقَ الدَّارَ مِنَ الْعُمَّارِ وَالزُّوَّارِ وَالصَّالِحِینَ، إِلَّا طَارِقًا یَطْرُقُ بِخَیْرٍ یَا رَحْمَنُ․ أَمَّا بَعْدُ: فَإِنَّ لَنَا وَلَکُمْ فِی الْحَقِّ سَعَةً، فَإِنْ تَکُ عَاشِقًا مُولَعًا، أَوْ فَاجِرًا مُقْتَحِمًا أَوْ رَاغِبًا حَقًّا أَوْ مُبْطِلًا، ہَذَا کِتَابُ اللہِ تَبَارَکَ وَتَعَالَی یَنْطِقُ عَلَیْنَا وَعَلَیْکُمْ بِالْحَقِّ، إِنَّا کُنَّا نَسْتَنْسِخُ مَا کُنْتُمْ تَعْمَلُونَ وَرُسُلُنَا یَکْتُبُونَ مَا تَمْکُرُونَ، اتْرُکُوا صَاحِبَ کِتَابِی ہَذَا، وَانْطَلِقُوا إِلَی عَبَدَةِ الْأَصْنَامِ، وَإِلَی مَنْ یَزْعُمُ أَنَّ مَعَ اللہِ إِلَہًا آخَرَ لَا إِلَہَ إِلَّا ہُوَ کُلُّ شَیْء ٍ ہَالِکٌ إِلَّا وَجْہَہُ لَہُ الْحُکْمُ وَإِلَیْہِ تُرْجَعُونَ یُغْلَبُونَ، حم لَا یُنْصَرُونَ، حم عسق تُفَرِّقَ أَعْدَاء َ اللہِ، وَبَلَغَتْ حُجَّةُ اللہِ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللہِ فَسَیَکْفِیکَہُمُ اللہُ وَہُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ․ (دلائل النبوة ما یذکر من حرز أبی دجانة: ۷/۱۱۸) ایک اورحدیث میں ہے: عَنْ یَعْلَی بْنِ مُرَّةَ، عَنْ أَبِیہِ، قَال: سَافَرْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ․․․وَأَتَتْہُ امْرَأَةٌ فَقَالَتْ: إِنَّ ابْنِی ہَذَا بِہِ لَمَمٌ مُنْذُ سَبْعِ سِنِینَ یَأْخُذُہُ کُلَّ یَوْمٍ مَرَّتَیْنِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: أَدْنِیہِ فَأَدْنَتْہُ مِنْہُ فَتَفَلَ فِی فِیہِ وَقَالَ: اخْرُجْ عَدُوَّ اللَّہِ أَنَا رَسُولُ اللَّہِ․ (رواہ الحاکم في المستدرک) اس کے علاوہ صحابہ میں حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ وغیرہ اور ان کے علاوہ تابعین میں حضرت عطا وغیرہ اس کے جواز کے قائل تھے، اور آج بھی اس پر لوگوں کا عمل ہے: عن عمرو بن شعیب، عن أبیہ، عن جدہ، أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یعلمہم من الفزع کلمات: أعوذ بکلمات اللہ التامة، من غضبہ وشر عبادہ، ومن ہمزات الشیاطین وأن یحضرون․ وکان عبد اللہ بن عمر یعلمہن من عقل من بنیہ، ومن لم یعقل کتبہ فأعلقہ علیہ․ (أبوداوٴد: ۳۸۹۳، والترمذي: ۳۵۲۸ وقال: حسن غریب، اور علامہ شامی لکھتے ہیں: اخْتُلِفَ فِی الِاسْتِشْفَاء ِ بِالْقُرْآنِ بِأَنْ یُقْرَأَ عَلَی الْمَرِیضِ أَوْ الْمَلْدُوغِ الْفَاتِحَةُ، أَوْ یُکْتَبَ فِی وَرَقٍ وَیُعَلَّقَ عَلَیْہِ أَوْ فِی طَسْتٍ وَیُغَسَّلَ وَیُسْقَی. وَعَنْ النَّبِیِّ -صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ- أَنَّہُ کَانَ یُعَوِّذُ نَفْسَہُ قَالَ - رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ -: وَعَلَی الْجَوَازِ عَمَلُ النَّاسِ الْیَوْمَ، وَبِہِ وَرَدَتْ الْآثَارُ․ (شامي: ۹/۵۲۳) واضح رہے کہ تعویذ میں جس طرح پڑھ کر دم کرنا جائز ہے اسی طرح قرآنی آیات وغیرہ کو کسی کاغذ پر لکھ کر اس کو باندھنا بھی جائز ہے، علامہ سیوطی تحریر فرماتے ہیں: وأما قول ابن العربي: السُّنة في الأسماء والقرآن الذکر دون التعلیق فممنوع (فیض القدیر: ۶/۱۰۷) جہاں تک ان احادیث کا تعلق ہے جن میں تمیمہ کو لٹکانے پر شرک کا حکم مذکور ہے، جیسا کہ امام اسیوطی کی جامع صغیر میں ہے: من تعلق شیئا وکل إلیہ (فیض القدیر: ۶/۱۰۷) اسی طرح دوسری حدیث میں ہے: من علق ودعة فلا ودع اللہ ومن علق تمیمة فلا تمم اللہ لہ (فیض القدیر: ۶/۱۸۱) تو یہ اس صورت پر محمول ہیں جب کہ اسی تعویذ کو نافع وضار سمجھا جائے، جیسا کہ لوگ زمانہ جاہلیت میں اعتقاد رکھتے تھے، یا ان سے مراد ایسے تعاویذ ہیں جن میں الفاظ شرکیہ یا ایسے الفاظ ہوں جن کے معانی معلوم نہ ہوں، ان حدیثوں کی شرح کرتے ہوئے علامہ سیوطی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں: أو المراد من علق تمیمة من تمائم الجاہلیة یظن أنہا تدفع أو تنفع فإن ذلک حرام والحرام لا دواء فیہ وکذا لو جہل معناہا وإن تجرد عن الاعتقاد المذکور فإن من علق شیئا من أسماء اللہ الصریحة فہو جائز بل مطلوب محبوب فإن من وکل إلی أسماء اللہ أخذ اللہ بیدہ․ (فیض القدیر: ۶/۱۰۷)

میت کے اہل خانہ کو کھاناکھلانا

 جس گھر میں موت ہوجائے ان کے پڑوسیوں اور رشتے داروں کے لیے مستحب اور باعث اجر و ثواب ہے کہ میت کے گھر والوں کے لیے اس دن (دو وقت) کے کھانے کا انتظام کریں اور خود ساتھ بیٹھ کر، اصرار کر کے ان کو کھلائیں،اور ضرورت ہو تو تین دن تک کھانا کھلانا بھی جائز ہے، اہلِ میت کو یہ کھانا کھلانا اس وجہ سے نہیں ہوتا کہ میت کے گھر میں یا میت کے گھر والوں کے لیے کھانا پکانا ممنوع ہے، بلکہ اس وجہ سے   ہوتا ہے کہ غم و حزن اور تجہیز و تکفین کی مشغولیت کی وجہ سے ان کو کھانا پکانے کا موقع نہیں ملے گا، لہٰذا اگر میت کے گھر والے خود اپنے لیے اسی دن کھانا بنائیں تو اس کی اجازت ہے۔رسول اللہﷺ کے چچا زاد بھائی حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے موقع پر آپﷺ نے لوگوں سے فرمایا کہ جعفر کے گھر والوں کے لیے کھانا تیار کرو، اس لیے کہ ان کو ایسی خبر پہنچی ہے جو ان کو مشغول کرے گی ( یعنی جعفر کی شہادت کی خبر سن کر صدمہ اور رنج میں مشغول ہوکر کھانے پینے کے انتظام کی خبر نہیں رہے گی)۔

                لیکن یہ کھانا صرف میت کے گھر والوں کے لیے ہے ، یہ نہیں کہ تمام برادری اور قوم کو کھلایا جائے، کیوں کہ تعزیت کرنے والوں کو اپنے اپنے گھروں کو واپس جانا چاہیے، میت کے گھر قیام بھی نہیں کرنا چاہیے اور اہلِ میت کے یہاں ضیافت و دعوت بھی نہیں کھانی چاہیے، کیوں کہ دعوت کا کھانا تو خوشی کے موقع پر مشروع ہے نہ کہ غم کے موقع پر، اسی لیے فقہاء نے تعزیت کے موقع پر کھانے کی دعوت کو مکروہ اور بدعتِ مستقبحہ قرار دیا ہے۔

حدیث شریف میں ہے:

"وعن عبد الله بن جعفر قال: لما جاء نعي جعفر قال النبي صلى الله عليه وسلم: صانعوا لآل جعفر طعاما فقد أتاهم ما يشغلهم). رواه الترمذي وأبو داود وابن ماجه". (مشکاة المصابیح، کتاب الجنائز، باب البکاء علی المیت،الفصل الثاني،ص:۱۵۱ ،ط:قدیمي)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"والمعنى: جاءهم ما يمنعهم من الحزن عن تهيئة الطعام لأنفسهم، فيحصل لهم الضرر وهم لايشعرون. قال الطيبي: دل على أنه يستحب للأقارب والجيران تهيئة طعام لأهل الميت اهـ. والمراد طعام يشبعهم يومهم وليلتهم، فإن الغالب أن الحزن الشاغل عن تناول الطعام لايستمر أكثر من يوم، وقيل: يحمل لهم طعام إلى ثلاثة أيام مدة التعزية، ثم إذا صنع لهم ما ذكر من أن يلح عليهم في الأكل لئلايضعفوا بتركه استحياء، أو لفرط جزع، واصطناعه من بعيد أو قريب للنائحات شديد التحريم ؛ لأنه إعانة على المعصية، واصطناع أهل البيت له لأجل اجتماع الناس عليه بدعة مكروهة، بل صح عن جرير رضي الله عنه: كنا نعده من النياحة، وهو ظاهر في التحريم. قال الغزالي: ويكره الأكل منه، قلت: وهذا إذا لم يكن من مال اليتيم أو الغائب، وإلا فهو حرام بلا خلاف". (کتاب الجنائز، باب البکاء علی المیت،الفصل الثاني،ج:۴؍ ۱۹۴ ،ط: رشیدیه) 

  فتاویٰ شامی میں ہے:

"(قوله: وباتخاذ طعام لهم) قال في الفتح: ويستحب لجيران أهل الميت والأقرباء الأباعد تهيئة طعام لهم يشبعهم يومهم وليلتهم، لقوله صلى الله عليه وسلم: «اصنعوا لآل جعفر طعاماً فقد جاءهم ما يشغلهم». حسنه الترمذي وصححه الحاكم؛ ولأنه بر ومعروف، ويلح عليهم في الأكل؛ لأن الحزن يمنعهم من ذلك فيضعفون. اهـ.

مطلب في كراهة الضيافة من أهل الميت

وقال أيضاً: ويكره اتخاذ الضيافة من الطعام من أهل الميت؛ لأنه شرع في السرور لا في الشرور، وهي بدعة مستقبحة: وروى الإمام أحمد وابن ماجه بإسناد صحيح عن جرير بن عبد الله قال: " كنا نعد الاجتماع إلى أهل الميت وصنعهم الطعام من النياحة ". اهـ. وفي البزازية: ويكره اتخاذ الطعام في اليوم الأول والثالث وبعد الأسبوع ونقل الطعام إلى القبر في المواسم، واتخاذ الدعوة لقراءة القرآن وجمع الصلحاء والقراء للختم أو لقراءة سورة الأنعام أو الإخلاص. والحاصل: أن اتخاذ الطعام عند قراءة القرآن لأجل الأكل يكره. وفيها من كتاب الاستحسان: وإن اتخذ طعاماً للفقراء كان حسناً اهـ وأطال في ذلك في المعراج. وقال: وهذه الأفعال كلها للسمعة والرياء فيحترز عنها لأنهم لايريدون بها وجه الله تعالى. اهـ. وبحث هنا في شرح المنية بمعارضة حديث جرير المار بحديث آخر فيه «أنه عليه الصلاة والسلام دعته امرأة رجل ميت لما رجع من دفنه فجاء وجيء بالطعام» . أقول: وفيه نظر، فإنه واقعة حال لا عموم لها مع احتمال سبب خاص، بخلاف ما في حديث جرير. على أنه بحث في المنقول في مذهبنا ومذهب غيرنا كالشافعية والحنابلة استدلالاً بحديث جرير المذكور على الكراهة، ولا سيما إذا كان في الورثة صغار أو غائب، مع قطع النظر عما يحصل عند ذلك غالباً من المنكرات الكثيرة كإيقاد الشموع والقناديل التي توجد في الأفراح، وكدق الطبول، والغناء بالأصوات الحسان، واجتماع النساء والمردان، وأخذ الأجرة على الذكر وقراءة القرآن، وغير ذلك مما هو مشاهد في هذه الأزمان، وما كان كذلك فلا شك في حرمته وبطلان الوصية به، ولا حول ولا قوة إلا بالله العلي العظيم". (کتاب الصلاة، باب صلاة الجنازة،ج:۲ ؍ ۲۴۰ ، ط: سعید)

فتح القدیر میں ہے:

"ويكره اتخاذ الضيافة من الطعام من أهل الميت لأنه شرع في السرور لا في الشرور، وهي بدعة مستقبحة. روى الإمام أحمد وابن ماجه بإسناد صحيح عن جرير بن عبد الله قال: كنا نعد الاجتماع إلى أهل الميت وصنعهم الطعام من النياحة. ويستحب لجيران أهل الميت والأقرباء الأباعد تهيئة طعام لهم يشبعهم يومهم وليلتهم؛ لقوله صلى الله عليه وسلم: «اصنعوا لآل جعفر طعاماً فقد جاءهم ما يشغلهم». حسنه الترمذي وصححه الحاكم؛ ولأنه بر ومعروف، ويلح عليهم في الأكل؛ لأن الحزن يمنعهم من ذلك فيضعفون، والله أعلم". (کتاب الصلاة، قبیل باب الشهید، ج:۲ ؍ ۱۰۲ ، ط: رشیدیه

آسام کے وزیراعلیٰ کا بیان شرمناک

 مسلمانوں کی آبادی کے تعلق سے آسام کے وزیر اعلی ہیمنتا بسوا کے بیان پر آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر محمد منظور عالم نے سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے شرمناک بتایااور کہاکہ ایک وزیر اعلی کی زبان سے اس طرح کا فرقہ وارانہ اور ایک خاص کمیونٹی کے خلاف بیان یہ واضح کرتاہے کہ بی جے پی کے رہنماؤں میں اب ذرہ برابر بھی ذمہ داری اور آئین کا پاس ولحاظ نہیں رہ گیا ہے۔ مسلمانوں کی آباد ی کو جس طرح نشانہ بناتے ہوئے ہیمنتا بسوا شرمانے اپنا بیان دیاہے وہ یقینی طور پر ملک کی گنگا جمنی تہذیب اور آئین کے نہ صرف خلا ف ہے بلکہ مسلمانوں کو ایک طرح سے دھمکی دی گئی ہے۔ڈاکٹر منظور عالم نے کہاکہ مسلمانوں کی آبادی بڑھنے کی شرح گذشتہ سالوں کے مقابلے میں کم ہورہی ہے۔ دوسری طرف خود ہیمنتابسوا چھ بھائی سے زیادہ ہیں۔ سابق وزیر اعلی سونوال آٹھ بھائی تھے۔ یہ اپنے گھر میں نہیں دیکھتے ہیں اور صرف مسلمانوں کو تنبہیہ کرتے ہیں۔در اصل بی جے پی آسام میں جب این آرسی کے نام پرمسلمانوں کو پریشان کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ہے اور مسلمانوں سے زیادہ جب اکثریتی طبقہ کا نام آگیاہے تو اب انہیں آبادی کو بنیاد بناکر پریشان کرنے اور نشانہ بنانے کی یہ مہم شروع ہوئی ہے۔ آسام میں مسلمانوں کی آبادی بہت پرانی ہے ، ان پر کسی طرح کا سوال اٹھانے کا کسی کو کوئی حق نہیں ہے۔2011 کی مردم شماری کے مطابق آسام سے زیادہ دوسرے صوبوں میں آبادی کی شرح زیادہ ہے۔ آسام میں آبادی میں اضافہ کی شرح سترہویں نمبر پرہے۔ یہ در اصل ملک کے ماحول کو خراب کرنے کی سازش ہے اور وزیر اعلی اپنی کرسی کا خیال رکھنے کے بجائے گھٹیاترین حرکت کررہے ہیں۔ ایسے بیان سے گریز کرنا چاہیے اور تمام مسلمانوں سے معافی مانگنی چاہیے۔

Saturday 12 June 2021

بانجھ جانور کی قربانی

 جانور کا بانجھ ہونا قربانی کے لئے عیب نہیں ہے، اس لئے بانجھ جانور کی قربانی  کرنا جائز ہے

کذا فی الھندیۃ:

تجوز الأضحیۃ بالعاجزۃ عن الولادۃ لکبر سنہا ۔

(297/5، الباب الخامس)

خنثی یاکرن جانورکی قربانی

 جو جانور خنثی ہو، یعنی: اس میں نر ومادہ دونوں کی جنسی علامات ہوں یا دونوں میں سے کسی کی کوئی جنسی علامت نہ ہو اور پیشاب کے لیے صرف سوراخ ہو تو اس کی قربانی یا عقیقہ شرعاً درست نہیں، جانور کا خنثی ہونا ایسا عیب ہے جو قربانی یا عقیقہ کی صحت میں مانع ہوتاہے .(در مختار وشامی،۹: ۴۷۰، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند،الدر المنتقی مع المجمع، ۴:۱۷۲مطبوعہ: دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان)۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

لَا تَجُوزُ التَّضْحِيَةُ بِالشَّاةِ الْخُنْثَى؛ لِأَنَّ لَحْمَهَا لَا يَنْضَجُ، تَنَاثُرُ شَعْرِ الْأُضْحِيَّةِ فِي غَيْرِ وَقْتِهِ يَجُوزُ إذَا كَانَ لَهَا نِقْيٌ أَيْ مُخٌّ كَذَا فِي الْقُنْيَةِ. (الْبَابُ الْخَامِسُ فِي بَيَانِ مَحَلِّ إقَامَةِ الْوَاجِبِ، ۵ / ۲۹۹، ط: دار الفكر)۔

Friday 11 June 2021

Anyone who speaks against the government is a traitor

 بھارت کے متعدد سماجی اور سیاسی رہنماوں نے اداکارہ عائشہ سلطانہ کے خلاف غداری کا مقدمہ دائر کیے جانے کی مذمت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عائشہ نے صرف عوام کو درپیش 'غیرانسانی' صورت حال پر توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی تھی۔بھارتی ماڈل، اداکارہ اور فلم ساز عائشہ سطانہ نے ایک ٹی وی مباحثے کے دوران جزیرہ نما لکش دیپ میں کورونا وبا کی صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ مرکز کی مودی حکومت کووڈ کو اس جزیرہ نما کے عوام کے خلاف 'حیاتیاتی ہتھیار‘ کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔ ان کے اس بیان پر حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک رہنما نے ان کے خلاف'ملک سے غداری‘ کا مقدمہ دائر کردیا۔ گزشتہ دسمبر تک لکش دیپ میں کووڈ کا ایک بھی کیس نہیں تھا لیکن بی جے پی رہنما پرفل پٹیل نے وہاں کے ایڈمنسٹریٹر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد کووڈ پروٹوکول میں بعض ترامیم کردیں جس کے نتیجے میں اس جزیرے میں اِس وقت نو ہزار سے زائد کووڈ کے کیسز سامنے آ چکے ہیں جبکہ دو درجن سے زائد اموات ہوچکی ہیں۔ عائشہ سلطانہ نے جمعرات 10 جون کو ایک علاقائی نیوز چینل پر کورونا کی صورت حال پر مباحثے کے دوران پرفل پٹیل کے فیصلوں پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ مرکز لکش دیپ کے خلاف 'حیاتیاتی ہتھیار‘ استعمال کر رہا ہے۔ کیا مرکز نے واقعی حیاتیاتی ہتھیار نصب کیے ہیں؟ عائشہ سلطانہ کا کہنا تھا، ”لکش دیپ میں کووڈ انیس کا ایک بھی کیس نہیں تھا۔ لیکن اب وہاں روزانہ ایک سو کیسز سامنے آرہے ہیں۔ کیا مرکز نے وہاں حیاتیاتی ہتھیار نصب کردیے ہیں؟ میں یہ بات واضح طور پر کہنا چاہتی ہوں کہ مرکزی حکومت نے وہاں حیاتیاتی ہتھیار نصب کیے ہیں۔" انہوں نے ٹی وی مباحثے کے دوران سوال کیا کہ آخر لکش دیپ کے ایڈمنسٹریٹر نے کووڈ کے حوالے سے پابندیاں ختم کیوں کردیں جس کے سبب انفیکشن کی تعداد میں اتنی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ بی جے پی کی ناراضگی فلم اداکار ہ کے بیان پر بی جے پی کے کارکنان مشتعل ہوگئے۔ انہوں نے لکش دیپ کی رہائشی عائشہ سلطانہ کے گھر کے باہر مظاہرے کیے۔ بی جے پی لکش دیپ یونٹ کے سربراہ عبدالقادر نے اس مبینہ ”ملک دشمن" بیان پر ان کے خلاف ”مرکزی حکومت کے قوم پرستانہ امیج‘‘ کو نقصان پہنچانے کا الزام لگاتے ہوئے ملک سے غداری کا مقدمہ دائر کردیا۔ فلم اداکارہ نے بعد میں اپنے فیس بک پیج پر لکھا کہ انہیں سچ بولنے سے کوئی روک نہیں سکتا، ”میں اپنے مادر وطن کے لیے لڑتی رہوں گی اور جولوگ آج خاموش ہیں دراصل وہی اس جزیرے سے غداری کر رہے ہیں۔ وہ جب بھی میرا منہ بند کرنے کی کوشش کریں گے میں اپنی آواز بلند کروں گی اور پہلے سے کہیں زیادہ زوردار انداز میں۔" مقدمے پر نکتہ چینی متعدد تنظیموں اور رہنماؤں نے عائشہ سلطانہ کے خلاف غداری کا مقدمہ دائر کیے جانے کی مذمت کی ہے۔ لکش دیپ کی ثقافتی تنظیم ساہتیہ پروتاکا سنگم نے ایک بیان میں کہا، ”عائشہ سلطانہ صرف لکش دیپ کے ایڈمنسٹریٹر کے ذریعہ اٹھائے گئے غیرانسانی اقدامات کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کر رہی تھیں۔" کانگریس کے سینئر رہنما اور سابق مرکزی وزیر ششی تھرور نے عائشہ سلطانہ کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ انہیں 'غداری‘ کے لفظ کا غلط استعمال کر کے ہراساں کیا جارہا ہے۔ عائشہ کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کے خلاف سوشل میڈیا پر بھی لوگوں کی طرف سے سخت ردعمل سامنے آرہا ہے۔ بھارت کے انتہائی خوبصورت مقامات میں سے ایک جزیرہ نما لکش دیپ بالخصوص سیاسی اسباب سے سرخیوں میں ہے۔ تقریباً ستر ہزار آبادی والے اس جزیرے میں مسلمانوں کی تعداد 97 فیصد کے قریب ہے۔ دسمبر 2020 میں پہلی مرتبہ اس جزیرے کا ایڈمنسٹریٹر ایک سیاسی شخصیت، پرفل پٹیل کو بنایا گیا۔ اس سے قبل وہاں انڈین ایڈمنسٹریٹیو سروس کے کسی افسر کو ہی ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا جاتا تھا۔ پرفل پٹیل، وزیر اعظم مودی کے قریبی سمجھے جاتے ہیں۔ وہ مودی کی وزارت اعلٰی کے دور میں گجرات کے وزیر داخلہ بھی رہ چکے ہیں۔ پٹیل نے ایڈمنسٹریٹر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد کئی متنازعہ فیصلے کیے ہیں جن کے خلاف وہاں احتجاج اور مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ اپوزیشن جماعتوں اور سابق اعلی بیوروکریٹس نے پٹیل کو واپس بلانے کا مطالبہ کیا ہے

Voice against mob lynching

 ملک میں کچھ تنظیموں سے وابستہ شرپسند عناصر نے ایک مرتبہ پھر مذہبی بنیاد پر ہجومی تشدد کی مہم شروع کرکے فرقہ وارانہ ہم آہنگی و بھائی چارے کو درہم برہم کرکے اقلیتوں کو خوف زدہ کرنے میں کوشاں ہیں ،جو جمہوریت و آئین کی منافی ہے ۔ پیس پارٹی کے قومی نائب صدر ڈاکٹر عبدالرشید انصاری نے جاری پریس ریلیز کے ذریعہ ہجومی تشدد کے واقعات کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے حکومت سے شرپسندوں پر قدغن لگانے کا مطالبہ کیا ۔

ڈاکٹر انصاری نے کہا کہ آج حالات ایسے پیدا کیئے جارہے ہیں کہ اقلیتی طبقے کے لوگ کہیں باہر جانے سفر کرنے سے خوف زدہ ہیں، انہیں خدشہ ہے کہ کہیں شرپسند ان پر حملہ نہ کر دیں ۔غازی آباد کے طالب علم ذیشان ، کامل و شہزاد وغیرہ جیسے متعدد افراد کو مختلف مقام پر ایک منظم سازش کے تحت شرپسندوں نے مذہبی منافرت پر صرف اس لیئے سخت زد و کوب کر رہے ہیں کہ انہوں نے جے شری رام کا نعرہ نہیں لگایا۔

اس طرح کے واقعات کسی بھی مہذب معاشرے کے لیئے انتہائی شرمناک ہیں۔ کسی بھی راہ گیر مسافر پر ہجومی تشدد کے ذریعہ مذہبی نعرہ نہ لگانے پر قاتلانہ حملہ کیئے جانے کی کیا کوئی مذہب اجازت دیتا ہے ؟ کچھ سخت گیر تنظیموں سے وابستہ شرپسند عناصر اقلیتوں پر حملہ ہی نہیں بلکہ ہندو مذہب کو بدنام کر یہ پیغام دے رہے ہیں کہ جو جے شری رام کا نعرہ نہیں لگائے گا اس کو قتل کر دیا جائے گا ۔کوئی مذہب تشدد کی اجازت نہیں دیتا ،لیکن یہ شرپسند عناصر کس کے اشارے پر ہندو مذہب کو بدنام کرنے کے لیئے کوشاں ہیں یہ تحقیق کا موضوع ہے۔

ہندوستان جیسے عظیم جمہوری ملک میں ایسے واقعات انتہائی  افسوس ناک و ملک کی رسوائی  کا سامان ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہجومی تشدد کا انجام دینے والے شرپسندوں کے خلاف کوئی سخت قانونی کارروائ نہ ہونے کے سبب ان کے حوصلے بلند ہیں، اور وہ اس طرح کے واقعات کا انجام دے کر قانون کو چیلنج کر رہے ہیں کہ وہ کچھ بھی غیر قانونی و آئین کے خلاف کام کریں ان کا کوئ کچھ بگاڑ نہیں سکتا ۔ پولیس شرپسندوں کے خلاف سخت کارروائ کے برعکس جو کارروائ کرتی بھی ہے اس میں اتنے پیچ ہوتے ہیں کی وہ جلد ہی رہا ہو جاتے ہیں۔

مذہبی بنیاد پر ہجومی تشدد کے انجام دینے والے شرپسندوں کی ملک کی کچھ مبینہ ہندوتو وادی تنظیموں کی حمایت کے سبب وہ بے خوف ہیں ۔حکومت ملک کے مفاد میں ایسے ہجومی تشدد کے انجام دینے والوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کرے جس سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی و بھائی چارہ برقرار رہ سکے ۔

Wednesday 9 June 2021

وضوکے بعد شہادت کی انگلی سے اشارہ کرنا

وضو کے بعد کی دعا حدیث سے ثابت اور سنت ہے اور اس وقت آسمان کی طرف دیکھنا بھی سنن ابی داؤد کی روایت میں مذکور ہے، لیکن انگلی سے اشارہ کرنا حدیث سے  ثابت نہیں ہے۔ البتہ  فقہ حنفی کی مستند کتاب حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں وضو کے بعد کلمہ شہادت پڑھتے وقت آسمان کی طرف دیکھنے کے ساتھ شہادت کی انگلی سے اشارہ کرنے کا ذکر بھی ہے. اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے خطبات وغیرہ میں شہادتین کے کلمات ادا کرتے وقت شہادت کی انگلی سے اشارہ ثابت ہے۔

بنا بریں وضو کے بعد  کلمہ شہادت پڑھتے وقت انگلی کے اشارے کوسنت تونہیں کہاجائے گا، لیکن اگر کوئی کلمہ شہادت پڑھتے وقت آسمان کی طرف نگاہ کرنے کے ساتھ شہادت کی انگلی سے اشارہ بھی کرے تو اسے منع بھی نہیں کیا جائے گا۔ 

 عن عمر بن الخطاب رضي اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ما منکم من أحدٍ یتوضأ فیبلغ أو فلیسبغ الوضوء ثم یقول: أشھد أن لا إلہ إلا اللہ وحدہ لا شریک لہ وأشہد أن محمدًا عبدہ ورسولہ إلا فتحت لہ أبواب الجنة الثمانیة رواہ مسلم (مشکاة: ۳۹) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے جو کوئی بھی وضو کرے اور مکمل وضو کرے پھر کہے اشہد ان لا الٰہ إلا اللہ․․ تو اس کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، اور ابوداوٴد شریف میں ثم رفع نظرہ إلی السماء الخ یعنی وضو سے فارغ ہونے کے بعد نگاہ کو آسمان کی طرف اٹھائے پھر یہ دعاء پڑھے، اس وجہ سے بعض فقہاء دعاء پڑھتے وقت صرف نگاہ اٹھانے کو مستحب کہتے ہیں اور بعض فقہاء آسمان کی طرف دیکھتے وقت اپنی انگشت شہادت سے اشارہ کرنے کو بھی مستحب کہتے ہیں۔ قولہ والإتیان بالشہادتین بعدہ ذکر الغزنوي أنہ یشیر بسبابتہ حین النظر إلی السماء (طحطاوي علی مراقي الفلاح) پتہ چلا کہ دونوں طرح کی گنجائش ہے البتہ اسے ضروری نہ سمجھا جائے اور نہ کرنے والوں پر نکیر نہ کی جائے یہ محض آداب میں سے ہے۔

Tuesday 8 June 2021

کروکج جبیں پہ سرکفن میرے قاتلوں کوگماں نہو

 کینیڈا کے صوبے انٹاریو میں ایک شخص نے ایک مسلم کنبے پر گاڑی چڑھا دی جس سے چار افراد ہلاک ہو گئے۔ پولیس کو شبہ ہے کہ مسلمان ہونے کے سبب اس خاندان کو نشانہ بنا یا گیا۔کینیڈا میں صوبے انٹاریو کے لندن شہر میں پولیس حکام نے سات جون پیر کے روز بتایا کہ ایک نوجوان نے مشتبہ طور نفرت کی وجہ سے منصوبہ بند طور پراپنی گاڑی سے راہگیروں کو ٹکر مار کر ایک مسلم خاندان کے چار افراد کو ہلاک کر دیا۔ مقامی پولیس سربراہ اسٹیو ویلئم نے اس واقعے سے متعلق ایک بیان میں کہا، ''ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ایک سوچی سمجھی دانستہ حرکت تھی اور یہ کہ اس خوفناک واقعے میں ہدف بنا کر متاثرین پر حملہ کیا گیا۔ ہمیں اس بات کا بھی یقین ہے کہ ان پر اس لیے حملہ کیا گیا کیونکہ وہ مسلمان تھے۔'' پولیس کا کہنا ہے کہ 20 سالہ مشتبہ حملہ آور نے فٹ پاتھ پر پیدل جانے والے پانچ افراد پر گاڑی چڑھا کر فرار ہونے کی کوشش کی۔ تاہم حملے میں شدید طور پر زخمی ہونے والا ایک نو برس کا بچہ زندہ بچ گیا جو اسپتال میں اب بھی زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا ہے۔ کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈیو نے اپنی ایک ٹویٹ میں اس واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا، ''لندن کی مسلم برادری اور پورے ملک کی مسلم کمیونٹی کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ہماری کسی بھی برادری میں اسلامو فوبیا کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ عیاری و مکاری پر مبنی اس نفرت کو رکنا ہی ہو گا۔'' عینی شاہدین نے گلوبل نیوز نیٹ ورک کو بتایا کہ انہوں نے گاڑی کو سڑک کی درمیانی پٹی کے اوپر آتے ہوئے دیکھا اور انہیں ایسا لگا جیسے یہ اچانک سڑک کے دوسری جانب سے آ گئی ہو۔ حملہ آور ڈرائیور کو ایک قریبی مال کی پارکنگ سے گرفتار کر لیا گیا۔ اسے عمدا ًاقدام قتل کے چار الزامات اور قتل کی کوشش کرنے کے ایک الزام کا سامنا ہے۔ خفیہ ایجنسی سے وابستہ ایک سینیئر پولیس افسر کا کہنا تھا کہ مقامی پولیس سے اس بات کے لیے صلاح و مشورہ جاری ہے کہ ملزم پر دہشت گردانہ قانون کے تحت کیس درج کیا جائے۔ متاثرین کون ہیں؟ پولیس نے بتا یا ہے کہ جو چار افراد اس حملے میں ہلاک ہوئے، اس میں ایک 74 سالہ خاتون، 46 سالہ ایک مرد، 44 سالہ ایک خاتون اور ایک پندرہ برس کی لڑکی شامل ہے۔ نو برس کا ایک لڑکا بھی شدید طور پر زخمی ہوا ہے جس کا مقامی اسپتال میں علاج جاری ہے۔ حکام کے مطابق زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ بچہ شاید بچ جائے۔ اہل خانہ نے پولیس سے متاثرین کے نام افشا نہ کرنے کی درخواست کی تھی۔ متاثرہ خاندان کے ایک دوست زاہد خان نے ایسو سی ایٹیڈ پریس سے بات چیت میں کہا کہ متاثرین میں ایک دادی، ماں باپ اور ایک کم عمر بچی شامل ہیں۔ ان کے مطابق یہ خاندان تقریباً چودہ برس قبل پاکستان سے ہجرت کرکے کینیڈا آ یا تھا اور ایک مقامی مسجد کے بڑے سرگرم رکن تھے۔ ''وہ چہل قدمی کے لیے باہر نکلے تھے۔یہ ان کا روزانہ کا معمول تھا۔'' لندن کے میئر ایڈ ہولڈر نے اس واقعے کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا، ''یہ مسلمانوں کے خلاف ہونے والی قتل عام کی ایک واردات ہے جس کی جڑیں گھٹیا نفرت پر مبنی ہیں۔ یہ نا قابل بیان نفرت اور اسلامو فوبیا پر مبنی حرکت ہے، جس کا جواب انسانیت اور ہمدردی سے دینے کی ضرورت ہے۔'' ہولڈر کا کہنا ہے کہ لندن تقریباً چار لاکھ آبادی پر مشتمل شہر ہے جس میں تقریبا 30 سے چالیس ہزار مسلمان آباد ہے اور متاثرین کے احترام میں شہر میں تین دن تک قومی پرچم کو سر نگوں رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ص ز/ ج ا (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز)