https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Tuesday 9 January 2024

قرآن اللہ کی صفت ہے

 قرآنِ  پاک (یعنی کلام اللہ)  نہ تو خالق ہے اور نہ ہی مخلوق ہے، بلکہ خالق (یعنی اللہ تعالیٰ) کی صفات میں سے ایک صفت (کلام) ہے،البتہ  مصاحف میں قرآنِ پاک جو  حروف کی صورت میں لکھا اور پڑھا جاتا ہے اور  کتابی شکل میں صفحات وغیرہ میں نظر آتا ہے ، یہ اللہ رب العزت کی صفتِ کلام نہیں، بلکہ یہ مخلوق ہے، "کلام اللہ"  کا اصل مصداق تو اللہ تعالیٰ کی وہ  ازلی صفت ہے جو اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ قائم ہے،  اور وہ صفت  الفاظ اور حروف وغیرہ کی محتاج نہیں ہے؛ کیوں  کہ  الفاظ  (یعنی مخلوق کے تلفظ کردہ الفاظ) اور حروف وغیرہ تو خود مخلوق اور حادث ہیں، جب کہ اللہ تعالیٰ کی تمام صفات  ازل سے اللہ تعالیٰ کی ذات کے  ساتھ  قائم ہیں۔

شرح الطحاوية (1/ 172):

’’ قوله: و (و إن القرآن كلام الله، منه بدا بلا كيفية قولا، وأنزله على رسوله وحيا، وصدقه المؤمنون على ذلك حقا، وأيقنوا أنه كلام الله تعالى بالحقيقة، ليس بمخلوق ككلام البرية. فمن سمعه فزعم أنه كلام البشر فقد كفر، وقد ذمه الله وعابه وأوعده بسقر حيث قال تعالى: {سأصليه سقر} [المدثر: 26] (المدثر: 26) - فلما أوعد الله بسقر لمن قال: {إن هذا إلا قول البشر} [المدثر: 25] (المدثر: 25) علمنا وأيقنا أنه قول خالق البشر، ولا يشبه قول البشر).

ش: هذه قاعدة شريفة، وأصل كبير من أصول الدين، ضل فيه طوائف كثيرة من الناس. وهذا الذي حكاه الطحاوي رحمه الله هو الحق الذي دلت عليه الأدلة من الكتاب والسنة لمن تدبرهما، وشهدت به الفطرة السليمة التي لم تغير بالشبهات والشكوك والآراء الباطلة ... وقوله: كلام الله منه بدا بلا كيفية قولا: - رد على المعتزلة وغيرهم. فإن المعتزلة تزعم أن القرآن لم يبد منه، كما تقدم حكاية قولهم، قالوا: وإضافته إليه إضافة تشريف، كبيت الله، وناقة الله، يحرفون الكلم عن مواضعه! وقولهم باطل فإن المضاف إلى الله تعالى معان وأعيان، فإضافة الأعيان إلى الله للتشريف، وهي مخلوقة له، كبيت الله، وناقة الله، بخلاف إضافة المعاني، كعلم الله، وقدرته، وعزته، وجلاله، وكبريائه، وكلامه، وحياته، وعلوه، وقهره - فإن هذا كله من صفاته، لا يمكن أن يكون شيء من ذلك مخلوقًا.

 [مذهب أهل السنة والجماعة في صفة الكلام]


ألوهية العجل.

وغاية شبهتهم أنهم يقولون: يلزم منه التشبيه والتجسيم؟ فيقال لهم: إذا قلنا أنه تعالى يتكلم كما يليق بجلاله انتفت شبهتهم. ألا ترى أنه تعالى قال: {اليوم نختم على أفواههم وتكلمنا أيديهم وتشهد أرجلهم} [يس: 65] (يس: 65) . فنحن نؤمن أنها تتكلم، ولا نعلم كيف تتكلم. وكذا قوله تعالى: {وقالوا لجلودهم لم شهدتم علينا قالوا أنطقنا الله الذي أنطق كل شيء} [فصلت: 21] (فصلت: 21) . وكذلك تسبيح الحصا والطعام، وسلام الحجر، كل ذلك بلا فم يخرج منه الصوت الصاعد من الرئة، المعتمد على مقاطع الحروف. وإلى هذا أشار الشيخ رحمه الله بقوله: منه بدا بلا كيفية قولا، أي: ظهر منه ولا ندري كيفية تكلمه به. وأكد هذا المعنى بقوله قولا، أتى بالمصدر المعرف للحقيقة، كما أكد الله تعالى التكليم بالمصدر المثبت النافي للمجاز في قوله: {وكلم الله موسى تكليما} [النساء: 164] (النساء: 164) . فماذا بعد الحق إلا الضلال؟."

اللہ تعالیٰ کے کیاصرف ٩٩نام ہیں یازیادہ بھی ہیں

 اللہ تعالی کے اسمائے حسنی صرف ننانوے میں منحصر نہیں بلکہ اس سے زائد ہیں اور احادیث میں نناوے نام کا جو ذکر ہے یہ ان ناموں کو یاد کرنے کی فضیلت کے بارے میں ہے ،ان سے تعداد بیان کرنا مقصود نہیں ہے۔

قال الحافظ أبو بکر بن العربی عن بعضہم إن للہ تعالی ألف اسم قال ابن العربی وہذا قلیل فیہا وفی الحدیث الصحیح: إن للہ تعالی تسعة وتسعین اسما مائة إلا واحدا من أحصاہا دخل الجنة قال النووی فی شرح مسلم: واتفق العلماء علی أنہ لیس فیہ حصر فیہا، وإنما المراد الإخبار عن دخول الجنة بإحصائہا.واختلفوا فی المراد بإحصائہا فقال البخاری وغیرہ من المحققین معناہ: حفظہا وہذا ہو الأظہر لأنہ جاء مفسرا فی الروایة الأخری من حفظہا وقیل عدہا فی الدعاء، وقیل أحسن المراعاة لہا والمحافظة علی ما تقتضیہ بمعانیہا وقیل غیر ذلک والصحیح الأول اہ ملخصا.[الدر المختار وحاشیة ابن عابدین (رد المحتار) 6/ 396) (من أحصاہا) : أی حفظہا کما فسر بہ الأکثرون، کما ورد فی بعض الروایات الصحیحة. فإن الحفظ یحصل بالإحصاء وتکرار مجموعہا فالإحصاء کنایة عن الحفظ، أو ضبطہا حصرا وتعدادا، وعلما، وإیمانا، أو أطاقہا بالقیام بما ہو حقہا والعمل بمقتضاہا، وذلک بأن یعتبر معانیہا، فیطالب نفسہ بما تتضمنہ من صفات الربوبیة، وأحکام العبودیة فیتخلق بہا، قال ابن الملک: مثل أن یعلم أنہ سمیع بصیر، فکف لسانہ وسمعہ عما لا یجوز، وکذا فی باقی الأسماء اہ․ (مرقاة المفاتیح شرح مشکاة المصابیح 4/ 1562)

عالم ربانی کی صفات

علماء چمکدار ستاروں کے مانند ہیں۔کیونکہ زندگی کے مختلف گوشوں میں لوگ ان سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ اگر وہ روپوش ہوجائیں یا انہیں روپوش کردیاجائے توپورے خطۂ ارضی پر گھٹا ٹوپ تاریکی کابسیرا ہوجائے ، خلق ِخدااندھیرے میں حیران وپریشان ٹامک ٹوئیاں مارنے لگے اور انہیں کوئی راہ سجھائی نہ دے اور وہ سیدھے راستے تک پہنچنے سے قاصر رہ جائیں،سلف میں سے کسی کا قول ہے ’’علماء ان ستاروں کے مانند ہیں جن سے لوگ رہنمائی حاصل کرتے ہیں اور اس نشان کی طرح ہیں جسے دیکھ کر لوگ منزلِ مقصود کا راستہ طے کرتے ہیں۔ اگر یہ ستارے ڈوب جائیں اور یہ نشانِ راہ غائب ہوجائیں تو وہ غلطاں و پیچاں ہوجائیں اور اگر لوگ ان سے رہنمائی حاصل کرنا چھوڑ دیں توسیدھے راستہ سے بھٹک جائیں۔[أخرجہ ابن أبی شیبۃ فی مصنفہ:۸؍۲۵۳،عن کاتبِ أبی قلابۃ ]
جب بھی امت پر فتنوں کی تیز و تند آندھیاں چلی ہیں اور امت سخت آزمائش کے تھپیڑوں سے دوچار ہوئی ہے تو اہلِ علم کے اس منفرد گروہ کی امت کو شدیدترین ضرورت پڑی ہے ،اس وجہ سے ا س موضوع پر گفتگو بے انتہا اہمیت کا حامل ہے ،جسے درج ذیل دو نکات کی روشنی میں ترتیب دیا گیاہے ۔
پہلا نکتہ ! حقیقیت میں ربانی عالم کی خصوصیات
دوسرانکتہ ! ربانی علماء کا امت کے تئیں تبلیغی کردار
پہلا نکتہ: حقیقت میں ربانی عالم کی خصوصیات:
ربانی عالم بلند ترین اور عظیم الشان صفات کے پیکر ہواکرتے ہیں، ان کے نمایاں ترین اوصاف درج ذیل ہیں۔
۱۔ علمی رسوخ اور پختگی: صحیح منہج کے مطابق محکم کی پیروی کرکے اور متشابہ کو ترک کرکے انبیاء کی علمی وراثت (شرعی علوم)میں عبور حاصل کرنا۔
ابودرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ:’’ بلاشبہ علماء انبیاء کے وارث ہیں اور انبیاء نے کوئی درہم و دینار ورثے میں نہیں چھوڑے ہیں ، انہوں نے علم کی وراثت چھوڑی ہے ، جس نے اسے حاصل کر لیا گویا کہ اس نے بڑا حصہ حاصل کرلیا ‘‘[إسنادہ صحیح:أخرجہ أبوداؤد فی سننہ:۳؍۳۵۴، رقم۳۶۴۳]
اور اللہ رب العالمین فرماتاہے:’’وہی اللہ تعالیٰ ہے جس نے آپ پر کتاب اتاری جس میں واضح مضبوط آیتیں ہیں جو اصل کتاب ہیں اور بعض متشابہ آیتیں ہیں،پس جن کے دلوں میں کجی ہے وہ تو اس کی متشابہ آیتوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں، فتنے کی طلب اور ان کی مراد کی جستجو کے لئے، حالانکہ ان کی حقیقی مراد کو سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا۔اور پختہ اور مضبوط علم والے یہی کہتے ہیں کہ ہم تو ان پر ایمان لا چکے ہیں، یہ ہمارے رب کی طرف سے ہیں اور نصیحت تو صرف عقلمند حاصل کرتے ہیں‘‘۔[آل عمران:۷]
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: ’’اہلِ علم صحابہ رسول اللہ ﷺکے کلام کے وہ معانی بھی جانتے تھے جس کا علم دوسرے لوگوں کو نہیں ہوتا تھااوریہی لوگ پختہ وٹھوس علم والے تھے‘‘[مجموع الفتاویٰ:۱۷؍۴۲۸]
امام شاطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں :’’{مِنْهُ آيَاتٌ مُحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَاب} اللہ نے اس آیت میں محکم کو اصل اور مرجع قرار دیا ہے اور محکم سے مراد وہ آیتیں ہیں جو بالکل واضح ہوں اور ان کے اندر کسی قسم کا کوئی اشتباہ اور غموض نہ ہو(جن کا بیان بہت واضح بالکل صاف اور سیدھا ہے)پھر اللہ نے فرمایا: {وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ} اور متشابہ سے مراد وہ آیا ت ہیں جو اصل کتاب نہیں ہیں اور نہ ہی یہ قرآن کریم کا بیشتر حصہ ہیں بلکہ یہ بہت ہی کم ہیں ، پھر اللہ نے اس بات کی خبر دی کہ ان میں سے متشابہ آیا ت کی پیروی کرنا حق سے منحرف اور صحیح راستہ سے بھٹکے ہوئے لوگوں کا شیوہ ہے ، اس کے برعکس جنہیں شرعی علوم میں مہارت حاصل ہے تو وہ لوگ ایسا نہیں کرتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ اصل کتاب کی پیروی کرتے ہیں اور متشابہ کوترک کردیتے ہیں‘‘ ۔[الموافقات:۱۰؍۲۱۰، ت۔فضیلۃ الشیخ مشہور حسن]
علامہ ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ علماء ربانیین سے متعلق رقم طراز ہیںکہ :’’ یہ انبیاء کے وارث اور ان کی امت کے لیے ان کے جانشین ہیں ، یہی لوگ بہرِ صورت علمی و عملی طور پرانبیاء کے مشن پر گامزن ہیں اور ان کے طریقہ ومنہج کے مطابق لوگوں کو اللہ کی طرف دعوت دیتے ہیں، یہ مقام نبوت و رسالت کے بعد سب سے افضل مقام ہے ، اور یہی ربانی علماء ہیں جنہیں علم میں رسوخ اورپختگی حاصل ہوتی ہے، اسی طرح یہ رسول اور اس کی امت کے درمیان قاصداور پیغام رساں کی حیثیت رکھتے ہیں، الغرض یہ علماء ہی رسول کے جانشین ،ان کے پیروکار ، ان کے اعوان ومددگار ،ان کے خاص اور ان کے دین کے علماء آسمانِ دنیا پر چمکدار ستاروں کے مانند ہیں۔چنانچہ زندگی کے مختلف گوشوں میں لوگ ان سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ اگر وہ روپوش ہوجائیں یا انہیں روپوش کردیاجائے توپورے خطۂ ارضی پر گھٹا ٹوپ تاریکی کابسیرا ہوجائے ، خلق ِخدااندھیرے میں حیران وپریشان ٹامک ٹوئیاں مارنے لگے اور انہیں کوئی راہ سجھائی نہ دے اور وہ سیدھے راستے تک پہنچنے سے قاصر رہ جائیں،سلف میں سے کسی کا قول ہے ’’علماء ان ستاروں کے مانند ہیں جن سے لوگ رہنمائی حاصل کرتے ہیں اور اس نشان کی طرح ہیں جسے دیکھ کر لوگ منزلِ مقصود کا راستہ طے کرتے ہیں۔ اگر یہ ستارے ڈوب جائیں اور یہ نشانِ راہ غائب ہوجائیں تو وہ غلطاں و پیچاں ہوجائیں اور اگر لوگ ان سے رہنمائی حاصل کرنا چھوڑ دیں توسیدھے راستہ سے بھٹک جائیں۔[أخرجہ ابن أبی شیبۃ فی مصنفہ:۸؍۲۵۳،عن کاتبِ أبی قلابۃ ]

  • جب بھی امت پر فتنوں کی تیز و تند آندھیاں چلی ہیں اور امت سخت آزمائش کے تھپیڑوں سے دوچار ہوئی ہے تو اہلِ علم کے اس منفرد گروہ کی امت کو شدیدترین ضرورت پڑی ہے ،اس وجہ سے ا س موضوع پر گفتگو بے انتہا اہمیت کا حامل ہے ،جسے درج ذیل دو نکات کی روشنی میں ترتیب دیا گیاہے ۔
    پہلا نکتہ ! حقیقیت میں ربانی عالم کی خصوصیات
    دوسرانکتہ ! ربانی علماء کا امت کے تئیں تبلیغی کردار
    پہلا نکتہ: حقیقت میں ربانی عالم کی خصوصیات:
    ربانی عالم بلند ترین اور عظیم الشان صفات کے پیکر ہواکرتے ہیں، ان کے نمایاں ترین اوصاف درج ذیل ہیں۔
    ۱۔ علمی رسوخ اور پختگی: صحیح منہج کے مطابق محکم کی پیروی کرکے اور متشابہ کو ترک کرکے انبیاء کی علمی وراثت (شرعی علوم)میں عبور حاصل کرنا۔
    ابودرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ:’’ بلاشبہ علماء انبیاء کے وارث ہیں اور انبیاء نے کوئی درہم و دینار ورثے میں نہیں چھوڑے ہیں ، انہوں نے علم کی وراثت چھوڑی ہے ، جس نے اسے حاصل کر لیا گویا کہ اس نے بڑا حصہ حاصل کرلیا ‘‘[إسنادہ صحیح:أخرجہ أبوداؤد فی سننہ:۳؍۳۵۴، رقم۳۶۴۳]
    اور اللہ رب العالمین فرماتاہے:’’وہی اللہ تعالیٰ ہے جس نے آپ پر کتاب اتاری جس میں واضح مضبوط آیتیں ہیں جو اصل کتاب ہیں اور بعض متشابہ آیتیں ہیں،پس جن کے دلوں میں کجی ہے وہ تو اس کی متشابہ آیتوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں، فتنے کی طلب اور ان کی مراد کی جستجو کے لئے، حالانکہ ان کی حقیقی مراد کو سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا۔اور پختہ اور مضبوط علم والے یہی کہتے ہیں کہ ہم تو ان پر ایمان لا چکے ہیں، یہ ہمارے رب کی طرف سے ہیں اور نصیحت تو صرف عقلمند حاصل کرتے ہیں‘‘۔[آل عمران:۷]
    شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: ’’اہلِ علم صحابہ رسول اللہ ﷺکے کلام کے وہ معانی بھی جانتے تھے جس کا علم دوسرے لوگوں کو نہیں ہوتا تھااوریہی لوگ پختہ وٹھوس علم والے تھے‘‘[مجموع الفتاویٰ:۱۷؍۴۲۸]
    امام شاطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں :’’{مِنْهُ آيَاتٌ مُحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَاب} اللہ نے اس آیت میں محکم کو اصل اور مرجع قرار دیا ہے اور محکم سے مراد وہ آیتیں ہیں جو بالکل واضح ہوں اور ان کے اندر کسی قسم کا کوئی اشتباہ اور غموض نہ ہو(جن کا بیان بہت واضح بالکل صاف اور سیدھا ہے)پھر اللہ نے فرمایا: {وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ} اور متشابہ سے مراد وہ آیا ت ہیں جو اصل کتاب نہیں ہیں اور نہ ہی یہ قرآن کریم کا بیشتر حصہ ہیں بلکہ یہ بہت ہی کم ہیں ، پھر اللہ نے اس بات کی خبر دی کہ ان میں سے متشابہ آیا ت کی پیروی کرنا حق سے منحرف اور صحیح راستہ سے بھٹکے ہوئے لوگوں کا شیوہ ہے ، اس کے برعکس جنہیں شرعی علوم میں مہارت حاصل ہے تو وہ لوگ ایسا نہیں کرتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ اصل کتاب کی پیروی کرتے ہیں اور متشابہ کوترک کردیتے ہیں‘‘ ۔[الموافقات:۱۰؍۲۱۰، ت۔فضیلۃ الشیخ مشہور حسن]
    علامہ ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ علماء ربانیین سے متعلق رقم طراز ہیںکہ :’’ یہ انبیاء کے وارث اور ان کی امت کے لیے ان کے جانشین ہیں ، یہی لوگ بہرِ صورت علمی و عملی طور پرانبیاء کے مشن پر گامزن ہیں اور ان کے طریقہ ومنہج کے مطابق لوگوں کو اللہ کی طرف دعوت دیتے ہیں، یہ مقام نبوت و رسالت کے بعد سب سے افضل مقام ہے ، اور یہی ربانی علماء ہیں جنہیں علم میں رسوخ اورپختگی حاصل ہوتی ہے، اسی طرح یہ رسول اور اس کی امت کے درمیان قاصداور پیغام رساں کی حیثیت رکھتے ہیں، الغرض یہ علماء ہی رسول کے جانشین ،ان کے پیروکار ، ان کے اعوان ومددگار ،ان کے خاص اور ان کے دین کے مبلغ ہیں۔[طریق الہجرتین:۱؍۵۱۶]
    ۲۔ منہجِ نبوت پرثابت قدمی: بدعات اور دین میں نئی نئی چیزوں سے دور ی اختیار کرتے ہوئے رسول اللہﷺ اور خلفاء راشدین کے منہج و طریق پر قائم رہنا ،جیسا کہ نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے:
     «وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الأُمُورِ فَإِنَّهَا ضَلَالَةٌ فَمَنْ أَدْرَكَ ذَلِكَ مِنْكُمْ فَعَلَيْهِ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الخُلَفَاء ِ الرَّاشِدِينَ المَهْدِيِّينَ، عَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ»
    ’’نئے نئے فتنوں اور نئی نئی بدعتوں میں نہ پڑنا، کیونکہ یہ سب گمراہی ہیں۔ چنانچہ تم میں سے جو شخص ان حالات کو پالے تو اسے چاہیے کہ وہ میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت پر قائم اور جمار ہے اور میری اس نصیحت کو اپنے دانتوں کے ذریعے مضبوطی سے دبا لے‘‘ (اور اس پر عمل پیرا رہے)
    [إسنادہ صحیح ۔أخرجہ الترمذی فی سننہ :۵؍ ۴۴، رقم:۲۶۷۶]
    ۳۔ خوفِ الہٰی: جیسا کہ اللہ نے اہلِ علم کے بارے میں متعدد مقامات میں فرمایا ہے:
    {قُلْ آمِنُوا بِهِ أَوْ لَا تُؤْمِنُوا إِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِهِ إِذَا يُتْلَي عَلَيْهِمْ يَخِرُّونَ لِلْأَذْقَانِ سُجَّدًا}
    ’’کہہ دیجیے! تم اس پر ایمان لاؤ یا نہ لاؤ، جنہیں اس سے پہلے علم دیا گیا ہے ان کے پاس تو جب بھی اس کی تلاوت کی جاتی ہے تو وہ ٹھوڑیوں کے بل سجدہ میں گر پڑتے ہیں‘‘۔
    [الإسراء:۱۰۷]
    {وَيَخِرُّونَ لِلْأَذْقَانِ يَبْكُونَ وَيَزِيدُهُمْ خُشُوعًا}
    ’’وہ اپنی ٹھوڑیوں کے بل روتے ہوئے سجدہ میں گر پڑتے ہیں اور یہ قرآن ان کی عاجزی اور خشوع اور خضوع بڑھا دیتا ہے ‘‘
    [الإسراء:۱۰۹]
    {إِنَّمَا يَخْشَي اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَائُ}
    ’’اللہ سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں‘‘
    [فاطر:۲۸]
    ۴۔ صبر اور یقین : جیسا کہ اللہ رب العالمین کا فرمان ہے:
    {وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا وَكَانُوا بِآيَاتِنَا يُوقِنُونَ}
    ’’اور جب ان لوگوں نے صبر کیا تو ہم نے ان میں سے ایسے پیشوا بنائے جو ہمارے حکم سے لوگوں کو ہدایت کرتے تھے، اور وہ ہماری آیتوں پر یقین رکھتے تھے‘‘
    [السجدۃ :۲۴]
    حافظ ابن کثیررحمہ اللہ کہتے ہیں:’’جب تک وہ اللہ کے احکامات پر ڈٹے رہے اور اس کی منع کردہ چیزوں کو چھوڑتے رہے ساتھ ہی اس کے رسولوں کی تصدیق کرتے رہے اور ان کی لائی ہوئی شریعت میں ان کی پیروی کرتے رہے ، تو انہی میں سے ایسے امام و پیشواپیدا ہوتے رہے جو اللہ کے حکم سے حق کی جانب رہنمائی کرتے تھے ، خیر کی دعوت دیتے تھے اورامر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیتے تھے ۔پھر جب وہ لوگ اللہ کے احکامات میں تبدیلی ،تحریف ا ور تاویل سے کا م لینے لگے تو ان سے یہ مقام چھین لیاگیا اور ان کے دل اس قدرسخت ہوگئے کہ وہ کلامِ الہٰی میں تحریف کرنے لگے نتیجتاً نہ تو ان کے پاس عملِ صالح بچا اور نہ ہی صحیح اعتقاد ۔بعض اہل علم کا کہنا ہے ’’صبر اور یقین سے ہی دین میں امامت حاصل کی جاسکتی ہے ‘‘[تفسیر القرآن العظیم :۳؍۵۶۰بتصرف ]
    ۵۔ علم کے مطابق عمل کرنا۔
    ۶۔ فہم وادراک کے لیے گہراذاتی مطالعہ
    ۷۔ لوگوں کی تربیت کرنا اور بڑے مسائل سے پہلے چھوٹے مسائل کی تعلیم دینا۔
    ۸۔ حکمت
    ۸۔ بر دباری
    ۹۔ تفقہ
    یہ ساری کی ساری صفا ت سلف سے اللہ کے فرمان:
    {وَلَـكِن كُونُواْ رَبَّانِيِّينَ بِمَا كُنتُمْ تُعَلِّمُونَ الْكِتَابَ وَبِمَا كُنتُمْ تَدْرُسُونَ}
    ’’بلکہ وہ تو کہے گا کہ تم سب رب کے ہو جاؤ، تمہارے کتاب سکھانے کے باعث اور تمہارے کتاب پڑھنے کے سبب‘‘
    [آل عمران:۷۹] کی تفسیرمیں منقول ہیں۔
    امام طبری رحمہ اللہ کہتے ہیں:’’ربانی عالم وہ ہے جو ان تمام صفات سے متصف ہو جن صفات کومیں نے بیان کیا ہے ‘‘
    فقہ و حکمت کا علم رکھتا ہو اورمصلحین میں سے ہوساتھ ہی وہ لوگوں کے معاملات کی اچھے سے دیکھ ریکھ کرتا ہو ،انہیں خیر کی تعلیم دیتاہو اور انہیں اس چیز کی طرف بلاتا ہوجس میں ان کے لیے بھلائی ہو ،اسی طرح وہ حکمت والا اور اللہ سے ڈرنے والا ہو، منصف حکام کے طرز پر وہ لوگوں کے معاملات کی نگہداشت کرتا ہو اوردنیاوآخرت میں ان کی بھلائی کا خواہاں ہو ۔
    گویا کہ ربانی علماء فقہ ،علم ،دینی اور دنیاوی امور میں لوگوں کے لیے ستون کی حیثیت رکھتے ہیں ۔اسی وجہ سے امام مجاہدرحمہ اللہ نے کہا ہے:’’ربانیین کا مقام احبار سے بھی اونچا ہے، احبارعلماء ہوتے ہیں ،جبکہ ربانی عالم ایک ایسے جامع الصفات کا نام ہے جس میں علم و فقہ کے ساتھ ساتھ سیاسی بصیرت اور لوگوں کے دینی و دنیاوی معاملات بحسن وخوبی انجام دینے کی صلاحیت ہوتی ہے‘‘[تفسیر الطبری:۶؍۵۴۴]
    حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:’’ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ربانی عالم کی اس طرح تعریف کی ہے کہ’’ ربانی وہ ہے جو حکمت اورگہری سوجھ بوجھ کا مالک ہو‘‘۔
    ابن عباس کی موافقت ابن مسعود نے کی ہے۔ اور ابراہیم الحربی نے اسے اپنے کتاب ’’غریب الحدیث ‘‘کے اندر صحیح سند سے روایت کیاہے۔
    اصمعی اور اسماعیلی کہتے ہیں: ’’ربانی کی نسبت رب کی طرف ہے جس کا مقصد علم و عمل سے وہی ہوتا ہے جس کا اس کے رب نے اسے حکم دیا ہے‘‘۔ثعلب کہتے ہیں:’’علماء کو ربانی اس وجہ سے کہا گیا ہے کیونکہ وہ علم کی نگہداشت کرتے ہیں ۔ الف اور نون کا اضافہ مبالغہ کے طور پر کیا گیا ہے‘‘
    خلاصئہ کلام یہ ہے کہ اس کی نسبت میں اختلاف ہے آیااس کی نسبت لفظ رب کی طرف ہے یا لفظ تربیہ کی طرف اس اعتبار سے یہاں تربیہ سے مرادعلم ہے اور جو امام بخاری نے بیان فرمایا ہے اس اعتبار سے اس سے مراد علم سیکھنا ہے۔
    اور صغار علم سے مراد ایک قول کے مطابق علم کے واضح مسائل اور کبار علم سے مراد علم کے باریک مسائل ۔دوسرا قول یہ ہے کلیات سے پہلے جزئیات کی تعلیم لوگوں کودینا ،یا فروع سے پہلے اصول کی تعلیم کودینا ،یا مقاصد سے پہلے مبادیات کی تعلیم دینا ۔
    ابن الاعرابی فرماتے ہیں :’’ربانی کو ربانی عالم نہیں کہا جائے گا تاآنکہ وہ باعمل عالم و معلم نہ ہوجائے‘‘[فتح الباری :۱؍۱۶۲]
    علامہ ابن القیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:’’لغت میں ربانی اسے کہا جاتا ہے جس کامقام علم میں اونچا ہو اوراسے اس میں بلند رتبہ حاصل ہو۔اور اللہ تبارک و تعالیٰ کے فرمان {لولا ينهاهم الربانيون} اور{كونوا ربانيين} کو علماء نے اسی پر محمول کیاہے۔
    چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ربانیین سے مراد حکماء و فقہاء ہیں ۔
    ابورزین کہتے ہیں ربانیین سے مراد علماء فقہاء ہیں ۔
    ابو عمر الزاہد کہتے ہیں کہ میں نے ثعلب سے لفظ ’’ربانی ‘‘سے متعلق سوال کیاتو انہوں نے کہا کہ میں نے بھی ابن الاعرابی سے اس سے متعلق پوچھا تھا تو انہوں نے جواب دیا تھا’’جوبند ہ عالم ہو ،باعمل ہو نیز معلم بھی ہو تو اسے ربانی عالم کہا جاتاہے ۔لیکن اگر اس کے اندر ان اوصاف میں(عالم باعمل،معلم) سے کسی ایک وصف کی کمی ہو تو اسے ربانی عالم نہیں کہا جائے گا‘‘۔[مفتاح دار السعادۃ:۱؍۱۲۴]


Monday 8 January 2024

قاضی کا شادی شدہ ہونا ضروری ہے یا نہیں

 شریعتِ  میں قاضی کی شخصیت کو غیر معمولی اہمیت اور حیثیت حاصل ہے، اس منصب کے لیے کچھ خاص شرائط مقرر کئی گئی ہیں،ان شرائط کی تفصیل یہ ہے کہ  جس شخص کو قاضی کے منصب پر فائز کیا جارہا ہو وہ مسلمان، عاقل،بالغ،آزاد مرد ہو اور اس کےحواس بھی سالم ہوں۔ البتہ قاضی کا شادی شدہ ہونا   قضا کے منصب کے لیے شرط نہیں۔

لہذا  اگرکوئی عالم ِ دین غیر شادی شدہ ہے تو اس کو قضاء کے منصب پر فائز کرنا جائز ہے،بلکہ عالمِ دین ہونے کی وجہ سے منصبِ قضا کے لیےزیادہ اہل بھی ہیں، قاضی کا شادی شدہ ہونا جب شرعاًشرط نہیں ہےتو  لوگوں کا اس پر اعتراض کرنا درست نہیں۔

فتاوی عالمگیریہ میں ہے:

"ولا تصح ولاية القاضي حتى يجتمع في المولى شرائط الشهادة كذا في الهداية من الإسلام، والتكليف، والحرية وكونه غير أعمى ولا محدودا في قذف ولا أصم ولا أخرس، وأما الأطرش، وهو الذي يسمع القوي من الأصوات فالأصح جواز توليته كذا في النهر الفائق.ويكون من أهل الاجتهاد، والصحيح أن أهلية الاجتهاد شرط الأولوية كذا في الهداية.حتى لو قلد جاهل، وقضى هذا الجاهل بفتوى غيره يجوز كذا في الملتقط لكن مع هذا لا ينبغي أن يقلد الجاهل بالأحكام وكذلك العدالة عندنا ليست بشرط في جواز التقليد لكنها شرط الكمال فيجوز تقليد الفاسق وتنفذ قضاياه إذا لم يجاوز فيها حد الشرع لكن لا ينبغي أن يقلد الفاسق."

(کتاب ادب القاضی،ج




قاضی کے تعین کی شرائط

اسلامی شریعت میں قاضی کی شخصیت کو غیر معمولی اہمیت اور حیثیت حاصل ہے۔ اس لیے کوئی بھی اس منصب کے حاصل کرنے کا اہل نہیں ہو سکتا جب تک اس میں مخصوص شروط نہ پائی جائیں۔ ان شروط میں سے بعض ایسی ہیں جن پر تمام فقہاء کا اتفاق ہے اور بعض ایسی ہیں جو مخصوص حالات میں فقہاء کے نزدیک متفق علیہ ہیں اور بعض شروط میں فقہاء اسلام کا اختلاف ہے۔

قاضی کے منصب پر تقرری کے کے لیے مطلوبہ شرائط اجمالا درج ذیل ہیں۔

اسلام، بلوغ، عقل، حریت، مرد ہونا، عادل ہونا، اجتہاد کی صلاحیت رکھنا، آنکھوں اور کانوں کا سلامت ہونا، بولنے کی صلاحیت رکھنا وغیرہ۔

مذکورہ شرائط اور ان کے بارے میں فقہاء اسلام کے مختلف مذاہب کی تفصیل درج ذیل گزارش ہے۔

1) شرط اول: اسلام

اس امر پر اتفاق ہے کہ مسلمانوں کے درمیان قضاء کے منصب پر تقرری کے لیے قاضی کا مسلمان ہونا شرط ہے۔ چنانچہ مسلمانوں پر کسی غیر مسلم کو قاضی نہیں کیا جا سکتا۔ فقہاء اسلام نے اس شرط کے وجوب کے لیے جو دلائل پیش کئے ہیں وہ درج ذیل ہیں۔

  • قرآن مجید میں ارشاد ہے جس کا مفہوم یہ کہ ﷲ کافروں کو مومنوں پر ہرگز راہ نہیں دے گا۔ اس لیے اس آیت کی روشنی میں کسی غیر مسلم کی مسلمانوں پر ولایت و حکمرانی جائز نہیں ہو گی۔ اس لیے کسی غیر مسلم کو مسلمانوں پر قاضی مقرر نہیں کیا جا سکتا۔
  • آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اسلام کو فوقیت حاصل ہے اور اس پر کسی کو بالادستی حاصل نہیں ہو سکتی۔
  • مسلمانوں میں سے فاسق جو منجملہ اسلامی شریعت کا پابند ہوتا ہے، اگرچہ کافر کی بہ نسبت بدرجہا بہتر ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود کسی فاسق کو قاضی مقرر کرنا جائز نہیں۔ فاسق شخص اگر اس منصب کی اہلیت نہیں رکھتا تو کافر تو سرے سے ہی اسلام کا منکر ہے اس کافر کو یہ منصب کیونکر دیا جا سکتا ہے؟
  • اسلام میں شہادت کے لیے گواہوں کا مسلمان ہونا ضروری ہے اور قضاء کا منصب شہادت سے زیادہ معتبر اور خطرناک ہے۔
  • قضاء کا مقصد احکام شریعت کی روشنی میں تنازعات کا تصفیہ کرنا ہوتا ہے۔ جبکہ کافر ﷲ تعالی کے احکام کا منکر ہے اور اسلامی شریعت سے جاہل ہے۔ اس لیے وہ اس منصب کے لائق نہیں ہو سکتا۔
اس امر پر اتفاق کے بعد مسلمانوں پر کسی غیر مسلم قاضی کو مقرر نہیں کیا جا سکتا۔

جمہور فقہاء اسلام کے نزدیک ایک غیر مسلم شخص کا اسلامی ریاست کے اندر بسنے والے غیر مسلموں پر بھی بحیثیت قاضی تقرر نہیں کیا جا سکتا۔ یہ فقہاء اپنی تائید میں قرآن، سنت رسول صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم سے استدلال پیش کرتے ہیں۔

تاہم احناف کی رائے میں غیر مسلم کو غیر مسلموں کے معاملات کا قاضی مقرر کیا جا سکتا ہے ان کے خیال میں ذمی، ذمیوں کے درمیان فیصلہ کرنے کا اہل ہے۔ احناف کی دلیل یہ ہے کہ جو آدمی گواہی دینے کا اہل ہو وہ قاضی بھی بن سکتا ہے غیر مسلموں کے معاملات میں غیر مسلمان قاضی کے تعین سے مسلمانوں کے لیے ہرج کی کوئی بات نہیں ہے کیونکہ اس کی قضاء صرف غیر مسلموں تک ہی محدود ہو گی۔

2) شرط ثانی: بلوغ

فقہاء اسلام کا اس امر پر اتفاق ہے کہ قاضی کے منصب پر تقرری کے لیے بالغ ہونا شرط ہے۔ اور کوئی بھی نابالغ قاضی مقرر نہیں کیا جا سکتا۔ فقہاء اس شرط کے وجوب کے لیے جو دلائل پیش کرتے ہیں وہ درج ذیل ہیں۔

  • ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنھا روایت کرتی ہیں کہ حضور نبی کریم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تین اشخاص کسی قسم کے مواخذہ سے بری الذمہ ہیں سویا ہوا شخص جب تک کہ وہ بیدار نہ ہو جائے، پاگل جب تک کہ وہ تندرست نہ ہو جائے اور بچہ جب تک کہ وہ بڑا نہ ہو جائے۔
  • چنانچہ اس حدیث میں رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے نابالغ کو شرعی تکالیف اور ذمہ داریوں کے مواخذہ سے بری الذمہ قرار دیا ہے۔ آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ نابالغ شخص کسی ذمہ داری کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔ چونکہ قضاء ایک منصب، ایک غیر معمولی اہمیت کی حامل ذمہ داری کا منصب ہے اس لیے کوئی بھی نابالغ شخص اس منصب کا اہل نہیں ہو سکتا۔
  • رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ایک حدیث مبارکہ میں نابالغوں کی حکمرانی سے خداوند ذوالجلال کی پناہ مانگنے کا حکم دیا۔ اور چونکہ پناہ صرف اس چیز سے مانگی جاتی ہے جو بری ہو۔ اس لیے نابالغوں کی حکمرانی سے پناہ مانگنے کا حکم اس امر کی دلیل ہے کہ نابالغ کی حکمرانی جائز نہیں ہے۔ اور اس کو قاضی مقرر نہیں کیا جاسکتا۔
  • نابالغ شخص کی گواہی قابل قبول نہیں اور اس کی بنیاد پر قاضی فیصلہ نہیں کر سکتا اور اگر نابالغ شخص گواہ بننے کا اہل نہیں تو قضاء کا منصب سنبھالنے کا تو قطعی اہل نہیں ہو سکتا۔
  • نابالغ شخص اپنے ذاتی امور میں سے بھی کسی امر میں تصرف کے اختیارات نہیں رکھتا اور اگر وہ اپنے ذاتی امور میں تصرف نہیں کر سکتا تو دوسروں کے معاملات میں اسے تصرف کرنے کے اختیارات کیسے حاصل ہو سکتے ہیں؟
3) شرط ثالث: عقل

فقہاء اسلام کا اس امر پر اتفاق ہے کہ قاضی کے منصب پر تقرری کے لیے عقل شرط ہے۔ چنانچہ کسی غیر عاقل یا پاگل و مجنون کو قاضی مقرر نہیں کیا جا سکتا۔ فقہاء اسلام قاضی کے منصب پر تقرری کے لیے مطلوب شخص میں عقل کی شرط پائے جانے کے لیے جو دلائل پیش کرتے ہیں وہ درج ذیل ہیں۔

1: حضرت عائشہ صدیقہ روایت کرتی ہیں کہ حضور نبی کریم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تین اشخاص کسی قسم کے مواخذہ سے بری الذمہ ہیں سویا ہوا شخص جب تک کہ وہ بیدار نہ ہو جائے، پاگل جب تک کہ وہ تندرست نہ ہو جائے اور بچہ جب تک کہ وہ بڑا نہ ہو جائے۔

2: ایک مجنون شخص اپنی ذات کے بارے میں بھی کسی امر پر تصرف کا اختیار نہیں رکھتا اور اگر وہ اپنی ذات کے بارے میں کسی امر پر تصرف کا اختیار نہیں رکھتا تو دوسروں کے معاملات میں تصرف کس طرح کر سکتا ہے؟

3: شریعت اسلام نے جو عبادات بھی فرض کی ہیں اور جو معاملات بھی مسلمانوں کے لیے جائز قرار دیئے ہیں اس سب کے لیے عقل شرط ہے۔ قضاء ایک ایسا منصب ہے جو اسلامی ریاست میں غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ چنانچہ اس خطرناک منصب کے لیے وہی شخص اہلیت رکھ سکتا ہے جس کی عقل میں کوئی فتور نہ ہو بلکہ قاضی کا منصب تو اس امر کا متقاضی ہے کہ اس منصب پر مقرر ہونے والا شخص عقل کامل سے بہرہ ور ہو، صحیح و غلط میں تمیز کر سکتا ہو۔

4) شرط رابع: حریت

قاضی کے منصب پر تقرری کے لیے اس شرط کے وجوب کے بارے میں فقہاء اسلام کے دو اقوال ہیں، جن کی تفصیل درج ذیل ہے۔

قول اول:

جمہور فقہاء اسلام کے نزدیک ایک شخص کے قضا کے منصب پر تقرری کے لیے اس کا آزاد ہونا بھی شرط ہے۔ اس لیے کسی غلام کو قاضی مقرر نہیں کیا جا سکتا۔

اس گروپ کا یہ استدلال ہے کہ قضاء ولایت کی ایک قسم ہے جب کہ غلام اپنے آپ پر بھی مکمل ولایت نہیں رکھتا، اس لیے کہ وہ اپنے مالک کی خدمت کے لیے محبوس ہوتا ہے اور نہ تو اپنی ذات کے معاملے میں کسی تصرف کا اختیار رکھتا ہے اور نہ ہی اپنے اوقات کے استعمال کی اسے آزادی حاصل ہوتی ہے۔ چنانچہ جو شخص اپنے ذاتی معاملات کے بارے میں تصرف کا کوئی اختیار نہیں رکھتا وہ دوسرے کے بارے میں تصرف کا اہل نہیں ہو سکتا اور پھر شہادت کے ضمن میں گواہی کے قبول ہونے کے لیے گواہ کا آزاد ہونا شرط ہے اور غلام کی شہادت شرعا قابل قبول نہیں ہوتی اور جب غلام شہادت کا اہل نہیں تو قضا کا منصب کا اہل کس طرح ہو سکتا ہے۔

قول ثانی:

قاضی کے منصب پر تقرری کے لیے کسی شخص کا آزاد ہونا شرط نہیں۔ چنانچہ کسی غلام کو بھی قاضی مقرر کیا جا سکتا ہے۔ ان میں قاضی شریح، ابن سیرین اور ابن حزم اور بعض حنابلہ بھی اس کی تائید کرتے ہوئے غلام کے قضاء کے منصب پر تقرری کے لیے اس کے آقا کی اس میں اجازت اور رضا مندی سے اس کو مشروط کرتے ہیں۔

5) شرط خامس: الذکورہ (قاضی کا مرد ہونا)

قاضی کے منصب پر تقرری کے لیے مرد ہونا شرط ہے اور عورت کو کسی صورت میں قاضی مقرر نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ عورت نہ تو ان معاملات میں قاضی مقرر کی جا سکتی ہے جو صرف مردوں کے درمیان واقع ہوتے ہیں اور نہ ہی ان میں جو مردوں اور عورتوں کے درمیان ہوتے ہیں۔ اسی طرح عورت کو حدود و قصاص و اموال اور دیگر کسی بھی معاملہ میں قاضی مقرر نہیں کیا جا سکتا۔ جمہور فقهاء اسلام کا یہی مذہب ہے اور وہ اپنے اس مذہب کی تائید میں قرآن کریم، سنت رسول صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم، اجماع امت اور معقولات سے استدلال پیش کرتے ہیں۔

قرآن کریم سے استدلال:

قرآن کریم میں خداء ذوالجلال کا ارشاد ہے:

الرِّجَالُ قَوَّامُوۡنَ عَلَى النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعۡضَهُمۡ عَلٰى بَعۡضٍ وَّبِمَاۤ اَنۡفَقُوۡا مِنۡ اَمۡوَالِهِمۡ

مرد عورتوں پر محافظ و منتظِم ہیں اس لئے کہ ﷲ نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے (بھی) کہ مرد (ان پر) اپنے مال خرچ کرتے ہیں، (سورۃ النساء 34)

اس آیت کریمہ میں مرد کو عورت کا قیم کیا گیا ہے۔ اور یہ آیت کریمہ قیم ہونے کی اس صفت کو مرد کے لیے مختص کرتی ہے۔ چنانچہ اگر عورت کے لیے قضاء کا منصب حاصل کرنا جائز قرار دے دیا جائے تو اس کا نتیجہ یہ ظاہر ہوگا کہ عورت کو مرد پر برتری حاصل ہو جائے گی جو صرف مرد کے لیے ہی حق ہے اور اس طرح یہ امر مذکورہ آیت کے حکم کے بالکل خلاف ہو گا۔

سنت رسول صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم سے استدلال:

حضرت ابو بکرۃ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کو جب یہ معلوم ہوا کہ اہل فارس نے کسری کی بیٹی کو اپنا حکمران مقرر کیا ہے تو آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ

وہ قوم کبھی فلاح نہیں پا سکتی جس نے عورت کو اپنے امور کا نگہبان بنایا

اس لیے اسلامی ریاست میں عورت کو کوئی ایسا منصب سپرد نہیں کیا جا سکتا جس میں اسے مسلمانوں پر کسی طرح کی بھی ولایت حاصل ہو۔

احناف کی رائے جمہور کی رائے سے مختلف ہے۔ ان کے رائے یہ ہے کہ حدود و قصاص کے علاوہ باقی معاملات میں عورت قاضی ہو سکتی ہے۔ چونکہ ان معاملات میں اس کی گواہی مرد کے برابر نہیں ہے۔ جبکہ باقی معاملات میں اس کی گواہی برابر ہے۔ اس لیے اس کا قاضی بننا بھی درست ہے۔

امام ابن جریر الطبری سے یہ نقل ہے کہ قاضی کے لیے مرد ہونا ضروری نہیں ہے اس کہ جب عورت مفتی ہو سکتی ہے تو قاضی بھی بن سکتی ہے۔

6) شرط سادس: عدالت

عدالت کا مفہوم یہ ہے کہ اس سے متصف انسان ہمیشہ سچ بولنے والا ہو۔ جو چیز اس کے سپرد کی جائے اس کا امین ہو، گناہوں سے بچتا ہو، کسی ایسے معاملے میں ملوث نہ ہو جو اس کی شخصیت سے متعلق کسی شبہ اور اس کے چال چلن سے متعلق کسی شک کا سبب بنے۔

جمہور فقہاء اسلام کے نزدیک قاضی کے منصب پر تقرری میں عدالت کا پایا جانا شرط ہے۔ چنانچہ کسی ایسے شخص کو قاضی مقرر نہیں کیا جا سکتا جو فاسق ہو۔ ارشاد باری تعالی ہے:

يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوٓا اِنْ جَآءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَاٍ فَتَبَيَّنُـوٓا اَنْ تُصِيْبُوْا قَوْمًا بِجَهَالَـةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰى مَا فَعَلْـتُـمْ نَادِمِيْنَ۝

اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہاے پاس کوئی سی خبر لائے تو اس کی تحقیق کیا کرو کہیں کسی قوم پر بے خبری سے نہ جا پڑو پھر اپنے کیے پر پشیمان ہونے لگو۔ (سورۃ الحجرات 6)

اس لیے فاسق قاضی نہیں بن سکتا۔

فقہاء احناف میں سے بعض کے نزدیک قاضی کے منصب پر تقرری کے لیے اس وصف کا پایا جانا ضروری نہیں ہے۔ البتہ ایسا شخص دوسروں کے مقابلہ میں افضل اور قضاء کا منصب حاصل کرنے کا زیادہ مستحق ہے جس میں عدالت کا وصف موجود ہو۔ تاہم ان کے نزدیک اگر کسی ایسے شخص کو قاضی مقرر کیا جائے جس میں عدالت کا وصف موجود نہ ہو تو اس کی تقرری بھی درست ہے اور اس کا حکم بھی قابل نفاذ ہو گا۔

7) شرط سابع: اجتہاد

اس شرط کے وجوب کے بارے میں فقہاء اسلام سے تین اقوال منقول ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے۔

قول اول:

قضاء کے منصب کی اہلیت کے لیے اجتہاد شرط ہے۔ چنانچہ کسی ایسے شخص کو قاضی مقرر نہیں کیا جا سکتا جو مقلد ہو اور اجتہاد کی صلاحیت نہ رکھتا ہو۔ یہ شوافع اور حنابلہ کا مذہب ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا۝

مومنو! خدا اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو اور جو تم میں سے صاحب حکومت ہیں ان کی بھی اور اگر کسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہو تو اگر خدا اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اس میں خدا اور اس کے رسول (کے حکم) کی طرف رجوع کرو یہ بہت اچھی بات ہے اور اس کا مآل بھی اچھا ہے (سورۃ النساء 59)

اس آیت کریمہ کی رو سے کسی بھی اختلاف اور جھگڑے کی صورت میں ﷲ اور اس کے رسول کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا ہے جس کے معنی ﷲ تعالی کی کتاب اور سنت رسول کی طرف رجوع کرنے کے ہیں اور اسی کی روشنی میں تمام تنازعات کا تصفیہ اور فیصلہ کرنے کے ہیں۔ قرآن اور رسول کی طرف وہی شخص رجوع کر سکتا ہے جو اجتہاد کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جہاں تک مقلد کا تعلق ہے تو وہ اپنے امام کے مذہب کے مطابق فیصلہ کرتا ہے۔

قول ثانی:

قضاء کے منصب کی اہلیت کے لیے اجتہاد شرط نہیں ہے۔ کوئی مقلد بھی قاضی ہو سکتا ہے۔ تاہم اگر کوئی مجتہد موجود ہو تو قضاء کے منصب پر تقرری کے لیے مقلد پر ترجیح دی جائے گی۔ یہ احناف کا مسلک ہے۔ اور مالکیہ کے نزدیک بھی یہی قابل ترجیح ہے۔

ان کی یہ دلیل ہے کہ مجتہد دستیاب ہونا مشکل ہوتا ہے اور اگر قاضی کے لیے اجتہاد کی شرط لازمی قرار دی جائے اور مقلد کے لیے یہ منصب حاصل کرنا جائز نہ رکھا جائے تو موجودہ زمانہ میں شاید ہی کوئی ایسا شخص مل سکے جو قضاء کا منصب حاصل کرنے کا اہل ہو سکے۔

قول ثالث:

بعض مالکیہ اور حنابلہ کے نزدیک اگرچہ قاضی کے لیے مجتہد ہونا شرط ہے مگر یہ شرط اس صورت میں قابل عمل ہے جب ایسے لوگوں کا وجود ممکن ہو۔ اگر اجتہاد کی صلاحیت رکھنے والے موجود نہ ہوں تو مقلدین میں سے سب سے بہتر کو قاضی مقرر کیا جا سکتا ہے۔

8) شرط ثامن: حواس کا سلامت ہونا

قاضی کے لیے ضروری ہے کہ اس کے حواس سلامت ہوں اور اس میں مندرجہ ذیل چیزیں ضروری ہیں

1: بولنے کی صلاحیت: اس لیے کہ گونگا آدمی نہ کوئی حکم دے سکے گا اور نہ سب لوگ اس کے اشاوں کو سمجھ سکیں گے۔

2: سننے کی صلاحیت: اس لیے کہ بہرے آدمی کو فریقین کی گفتگو ہی سنائی نہ دے گی۔

3: دیکھنے کی صلاحیت: اس لیے کہ اندھے کو یہ پتا ہی نہ چلے گا کہ مدعی کون سا ہے اور مدعی علیہ کون ہے؟ کون اقرار کر رہا ہے اور کون جواب دے رہا ہے؟ اور کس کے حق میں دے رہا ہے؟ (اسلام میں قاضی کے منصب کے لیے مطلوب 


مفتی کے اوصاف

 جو شخص فتوی دینے کے اصول کو ملحوظ رکھ کر فتوی دینے کی صلاحیت واستعداد رکھتا ہے اور اس کی خدمت انجام دے رہا ہے وہ مفتی ہے اورجو شخص کتاب اللہ وسنت رسول اللہ کا علم رکھتا ہے، لغوی وشرعی معانی پر اس کو عبور ہے، وجوہِ استدلال یعنی خاص، عام، مشترک، موٴول، ظاہر، نص، مفسر، محکم، مجمل، متشابہ، خفی، مشکل، حقیقت، مجاز، صریح، کنایہ، عبارة النص، اشارة النص، دلالة النص، اقتضاء النص اور ان کے ماخذ اشتقاق، ان کی ترتیب، ان کے معانی اصطلاحیہ قطعیت وظنیت، امر ونہی وغیرہ کے درجات، رواةِ احادیث کے احوال وغیرہ جیسے امور میں مہارتِ تامہ رکھتا ہے اور ان سب امور کو ملحوظ رکھ کر استنباط واستخراجِ مسائل پر پوری قدرت اس کو حاصل ہے وہ مجتہد ہے، تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو علامہ حازمی رحمہ اللہ تعالی کی کتاب ”کتاب الاعتبار في بیان الناسخ والمنسوخ من الآثار“ علامہ سیوطی رحمہ اللہ کی ”تدریب الراوی“، ” فتاوی البحر الرائق، فتاوی شامی، حسامی، توضیح تلویح“ وغیرہ۔ (۲) مجتہد کے لیے شرائط واوصاف نیز علوم لازمہ کی جو تفصیل (۱) کے تحت لکھی گئی اس کے پیش نظر اس سوال کا مہمل ہونا ظاہر ہے۔

Sunday 7 January 2024

میت کو قبر میں دایں کروٹ پر قبلہ رخ لٹانا

  میت کو قبر میں  دائیں کروٹ  پر  قبلہ رخ   لٹانے کا حکم ہے،  میت کو قبر میں  دیوار سے ٹیک لگا کر اس طرح سیدھی کروٹ   رکھا جائے گا کہ اس کا رخ قبلہ کی طرف ہو،  يه عمل اس  لیے كيا جاتا هے  كه حديث ميں اسي كا حكم هے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بنی عبد المطلب کے کسی شخص کے انتقال پر اسی کا حکم فرمایا تھا اور چت لٹانے سے منع فرمایا تھا، اور ابو داود شریف میں ہے: حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیت الحرام  (کعبة اللہ) تم لوگوں کا قبلہ ہے زندگی میں بھی اور انتقال کے بعد بھی؛ اس لیے میت کو پورے طور پر دائیں کروٹ لٹاکر چہرہ قبلہ کی طرف کیا جائے، چت لٹاکر صرف چہرہ قبلہ کی جانب کردینے پر اکتفا نہ کیا جائے؛ کیوں کہ صرف چہرہ قبلہ کی طرف کرنا اور دائیں کروٹ نہ لٹانا خلافِ سنت اور خلاف افضل ہے۔

"(ویوجّه إلی القبلة علی جنبه الأیمن) بذلك أمر النبي صلى اللہ علیه وسلم، وفي حدیث أبي داود: (سنن أبي داود، کتاب الوصایا، باب ماجاء فی التشدید فی أکل مال الیتیم، ص ۳۹۷، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند): البیت الحرام قبلتکم أحیاء وأمواتاً."

(مراقی الفلاح مع حاشیة الطحطاوي، کتاب الصلاة، باب أحکام الجنائز، فصل في حملھا ودفنھا، ص ۶۰۹، ط: دار الکتب العلمیة بیروت)

الفتاوى الهندية (1/ 166):

"ويوضع في القبر على جنبه الأيمن مستقبل القبلة، كذا في الخلاصة."

ہینگ کھانا جائز ہے

 ہینگ کھانا جائزہے۔ لأن الأصل في الأشیاء الإباحة․

البتہ ہینگ سے کوئی نشہ آور چیز تیار کرکے استعمال کرنا جائز نہیں

Friday 5 January 2024

واللہ اعلم

  فتوی نویسی کے آداب میں سے ہے کہ فتوی لکھنے والے کی نظر اپنی کم علمی اور کوتاہی کے امکان پر ہو چنانچہ صحابۂ کرام کے دور سے سلف صالحین کا یہ طریقہ رہا ہے کہ وہ دینی مسئلہ بتانے کے بعد اپنے علم کی کمی اور اپنے بتائے ہوئے مسئلے میں خطا کے امکان کا اظہار فرمایا کرتے تھے، کیوں کہ انسانوں میں سےانبیاء علیہم السلام کے علاوہ کوئی غلطی سے خالی اور مبرا  نہیں۔

صفة الفتوى"  میں ہے :

"وأكثر من يفتي يقول الجواب وبالله التوفيق وحذف ذلك آخرون والأولى أن يكتب فيما طال من المسائل ويحذف فيما سوى ذلك ويختم الجواب بقوله وبالله التوفيق أو والله الموفق أو والله أعلم وكان بعض السلف يقول إذا أفتى إن كان صوابا فمن الله وإن كان خطأ فمني

وقد قال أبو بكر الصديق رضي الله عنه في الكلالة أقول فيها برأيي فإن كان صوابا فمن الله وإن كان خطأ فمني ومن الشيطان والله ورسوله بريئان منه الكلالة من لا ولد له ولا والد."

(ص 59، المكتب الإسلامي - بيروت)

حدیث وسنت کا فرق

 مختلف فنون واصطلاحات میں سنت کے مختلف معانی ہیں، جو حسب ذیل ہیں:

الف: فقہ میں احناف کے نزدیک سنت کا اطلاق اس حکم پر ہوتا ہے جو فرض اور واجب کے مقابلہ میں ہو۔اور شوافع وغیرہ کے نزدیک وہ حکم ہے جو فرض کے مقابلہ میں ہو؛ کیوں کہ ان حضرات کے نزدیک واجب کا کوئی درجہ نہیں ہے۔

ب:کبھی سنت کا اطلاق بدعت کے مقابل میں ہوتا ہے، اس وقت اس کے مصداق میں کل شریعت داخل ہوگی۔

ج: اصولیین کے نزدیک سنت کا اطلاق حضرت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صادر شدہ ان اقوال وافعال پر ہوتا ہے جو تشریع کا پہلو رکھتے ہوں۔

د: عام محدثین کی اصطلاح میں حدیث اور سنت دونوں مترادف (ہم معنی) ہیں، یعنی: حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہر چیز حدیث اور سنت ہے خواہ وہ آپ کا قول، فعل یا تقریر ہو، یا آپ کے اختیاری یا غیر اختیاری اوصاف ہوں، نیز نبوت سے پہلے کے احوال ہوں یا بعد کے، یہ سب حدیث و سنت ہیں۔

قال أبو بکر رحمہ اللہ: سنة النبي صلی اللہ علیہ وسلم ما فعلہ أو قالہ لیقتدی بہ فیہ ویداوم علیہ، وھو مأخوذ من سنن الطریق، وھي جادتہ التي یکون المرور فیھا (الفصول في أصول الفقہ، ۳: ۲۳۵)، قال أبو بکر: وأحکام السنة علی ثلاثة أنحاء: فرض وواجب وندب، ولیس یکاد یطلق علی المباح لفظ السنة؛ لأنا قد بینا أن معنی السنة أن یفعل أو یقول لیقتدی بہ فیہ ویداوم علیہ ویستحق بہ الثواب وذلک معدوم في قسم المباح۔(المصدر السابق،ص: ۲۳۶)، (وفي الأصول: قولہ علیہ السلام وفعلہ وتقریرہ) مما لیس من الأمور الطبیعیة، وکأنہ لم یذکرہ للعلم بہ (التقریر والتحبیر، ۲: ۲۸۸، ط: دار الکتب العلمیة بیروت)، (وفي) اصطلاح (الأصول: قولہ) علیہ السلام (وفعلہ وتقریرہ) مما لیس من الأمور الطبیعیة، لم یذکر ھذا القید للعلم بأنھا من الأدلة الشرعیة، والأمور المذکورة لیست منھا( تیسیر التحریر، ۳: ۱۹، ۲۰)، و-السنة- فی الأدلة ما صدر عن النبي صلی اللہ علیہ وآلہ سلم من غیر القرآن من قول أو فعل أو تقریر، وھذا ھو المقصود بالبحث عنہ في ھذا العلم (إرشاد الفحول للشوکاني، ص: ۱۸۶)، وقد تطلق علی ما صدر عن الرسول من الأدلة الشرعیة مما لیس بمتلو ولا ھو معجز ولا داخل في المعجز، وھذا النوع ھو المقصود بالبیان ھھنا، ویدخل في ذلک أقوال النبي صلی اللہ علیہ وسلم وأفعالہ وتقاریرہ (الإحکام في أصول الأحکام للآمدي، ۱: ۲۲۷، ط: دار الصمیعي للنشر والتوزیع، الریاض)، قال الأسنوي: ”وفی الاصطلاح تطلق علی ما یقابل الفرض وعلی ما صدر من النبي صلی اللہ علیہ وسلم من الأفعال والأقوال التي لیست للإعجاز، وھذا ھو المراد ھنا“:أقول: الأول اصطلاح الفقہاء من الشافعیة والمالکیة والحنابلة، وأما اصطلاح الحنفیة فھي ما قابل الفرض والواجب، وأما الثاني فھو اصطلاح الأصولیین وھو المراد ھنا؛ لأن الأصولیین إنما یبحثون عن الأدلة، والدلیل في ھذا لا في الأول؛ بل ھو حکم أخذ من فعلہ صلی اللہ علیہ وسلم ولو واظب علیہ ولم یتوعد علی ترکہ (نھایة السول في شرح منھاج الأصول، ۳: ۵)، وانظر أفعال الرسول للأشقر (۱:۱۸- ۲۰ ) والوضع في الحدیث (ص: ۱۴- ۱۸) أیضاً۔

فقہ اسلامی

 فقہ کی اہمیت کااندازہ اس سے لگایاجاسکتاہے کہ اس کی ضرورت کا ادراک کرتے ہوئے خود قرآن کریم نے اس عظیم مقصدکے لیے ایک مستقل جماعت کی تشکیل کو ناگزیر قراردیا ہے، چنانچہ سورۃ التوبہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: 

’’وَمَاکَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا کَافَّۃً ط فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْھُمْ طَائِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّھُوْا فِی   الدِّیْنِ   وَ لِیُنْذِرُوْا  قَوْمَھُمْ   اِذَا  رَجَعُوْٓا   اِلَیْھِمْ   لَعَلَّھُمْ یَحْذَرُوْنَ۔‘‘ 
’’اور مومنین کو ایسا نہیں کرنا چاہیے کہ سب کے سب (جہاد کے لیے)نکل پڑیں، ایسا کیوں نہ ہوکہ ہر گروہ میں سے ایک جماعت نکلے، تاکہ وہ (ادھر رہنے والے) دین میں سمجھ بوجھ حاصل کریں اور جب وہ (جہاد کے لیے جانے والے) ان کی طرف واپس لوٹ آئیں تو انہیں ڈرائیں،تاکہ وہ بچتے رہیں۔‘‘
اس کامنشا یہ ہے کہ دین کی دو بنیادی ضروریات ہیں: ایک غلبۂ دین اور دوسری فہم دین،اور یہ طے شدہ امر ہے کہ غلبۂ دین کا مدار فہمِ دین پر ہے، اس لیے باری تعالی نے تاکیدفرمائی کہ ایک جماعت غلبۂ دین کے سلسلہ میںجہاد کے لیے نکل پڑے اور دوسری فہمِ قرآن وسنت کے لیے اپنے مقام پر ہی رہے، تاکہ دین کے دونوں شعبے جاری رہیں۔

فقیہ کا مقام ومرتبہ

علم فقہ کی افادیت کے پیش نظراس محبوب مشغلہ کے لیے اپنی حیاتِ مستعار کے قیمتی لمحات وقف کرنے والے خوش نصیب افراد کو بہت سے فضائل ومناقب سے نوازا گیا ہے۔ سورۃ البقرہ میں فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
’’ مَنْ یُّؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ أُوْتِیَ خَیْرًاکَثِیْرًا‘‘        (البقرۃ:۲۶۹)
’’جس شخص کو حکمت عطا کی گئی اس کو بہت زیادہ بھلائی عطا کی گئی۔‘‘ 
حکمت کی تفسیر میں مفسرین کے متعدداقوال ہیں: ان میں سے ایک قول یہ ہے کہ: اس سے فقہ مراد ہے۔ گویاکہ باری تعالیٰ کی نظر میں سب سے زیادہ اس کی بھلائیوں اورخوبیوں کو سمیٹنے والاشخص فقیہ ہے۔ صحیح بخاری ، کتاب العلم میں حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ  کی روایت سے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے: ’’مَنْ یُّرِدِ اللہُ بِہٖ خَیْرًا یُّفَقِّہْہُ فِيْ الدِّیْنِ‘‘ ... ’’جس شخص کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی کا ارادہ کرتے ہیں، اسے دین کی سمجھ عطا فرمادیتے ہیں۔‘‘اس کے علاوہ کتب احادیث میں ’’أبواب العلم‘‘ کے تحت محدثین نے فقہاء کرام اوراہلِ علم کے فضائل ومناقب میں سینکڑوں احادیث نقل کی ہیں۔ 

حاصل کلام

ان تمام تر تفصیلات کی روشنی میںیہ بات واضح ہوگئی کہ فروعی مسائل کی تحقیق وتخریج کوئی معمولی اور آسان کام نہیںکہ ہر کس ونا کس اس مشغلے میں لگ جائے اور جمہور کے متفقہ مسائل سے انحراف کرکے اُمت کو نئی راہ پرلگادے ۔اجتہاد کی صلاحیت اوراستنباط کے ملکہ سے محروم شخص کے بس کایہ کام ہے اور نہ اسے اس لق ودق صحراء میں قدم رکھناچاہیے۔’’جس کاکام اسی کوساجھے‘‘ کے قاعدے پرعمل کرتے ہوئے یہ کام فقہاء کرام کے سپردکرناچاہیے، جو اس فن کے ماہر اور رموزِ شریعت کے شناور ہیں، ورنہ شریعت کے معاملے میںخودرائی سے ہدایت کی بجائے گمراہی پھیلنے کااندیشہ بلکہ یقین کامل ہے۔ ابن جوزی ؒنے ’’تلبیس ابلیس‘‘میںایک عامل بالحدیث کا واقعہ تحریر کیا ہے کہ وہ جب بھی استنجے سے فارغ ہوکر آتا بغیر وضوکیے وتر کی نیت باندھ لیتا۔ اس کی وجہ پوچھی گئی توکہنے لگا کہ میںنبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی حدیث ’’مَنِ اسْتَجْمَرَ فَلْیُوْتِرْ‘‘ (جوشخص استنجا کرے اس کوچاہیے کہ وترپڑھے) پر عمل کرتا ہوں، حالانکہ اس حدیث میں ’’فَلْیُوْتِرْ‘‘ سے مرادوتر پڑھنا نہیں، بلکہ طاق عدد میں ڈھیلے استعمال کرنا ہے۔ایک اورشخص کاواقعہ لکھاکہ وہ اپنے کنویں سے کسی دوسرے کو کھیت میں پانی نہیں لگانے دیتا تھا،وجہ پوچھنے پر اس نے بتایاکہ میں نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی حدیث ’’لَایَسْقِیْ أحَدُکُمْ مَاءَہٗ زَرْعَ غَیْرِہٖ‘‘ (کوئی شخص اپنے پانی سے کسی دوسرے کی کھیتی کوسیراب نہ کرے) پر عمل کرتا ہوں، حالانکہ اس حدیث میں ’’مَاء‘‘ سے مراد منی اور ’’زَرْع‘‘ سے مراد شرمگاہ ہے، مطلب حدیث پاک کا یہ ہے کوئی شخص دوسرے کی باندی سے صحبت نہ کرے۔ یقیناً یہ غلطی اس کوخودرائی کی وجہ سے لگی، اگر کسی ماہرِشریعت سے راہنمائی حاصل کرلیتاتوحدیث کے اصل مرجع اور مقصد تک پہنچ جاتا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کواکابر واسلاف کے نقشِ قدم پر چلنے اور ان کے فہم کے مطابق قرآن وسنت کی تعلیمات پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔

Thursday 4 January 2024

حلق یاقصر کی مقدار

 عمرے یا حج کے احرام سے نکلنے کے لیے  آخری عمل  ’’حلق‘‘ یا ’’قصر ‘‘ ہے، افضل یہ ہے کہ مرد حضرات پورے سر کے بال منڈوائیں اسے ’’حلق‘‘  کہاجاتاہے۔اوراگر کوئی شخص حلق نہیں کروانا چاہتا تو  کم از کم چوتھائی سر کے بال ایک پورے کی مقدار قصر کرنا (کاٹنا) ضروری ہے، سر کےجس حصے سے بھی چوتھائی سر کی مقدار ایک پورے کے بقدر بال کاٹ دیے تو احرام سے حلال ہوجائے گا۔ البتہ قصر کی صورت میں بھی بہتر یہ ہے کہ پورے سر کے بال کم از کم ایک پورے  کے برابر کاٹے۔  چوتھائی سر سے کم اور ایک پورے  کی لمبائی سے کم مقدار بال کاٹنا عمرہ یا حج کے احرام سے حلال ہونے کے لیے کافی نہیں ہوگا؛  لہٰذا اگر کسی مرد کے بال پہلے سے ایک پورے سے چھوٹے ہوں تو ایسی صورت میں قصر کی اجازت نہیں ہوگی، بہر صورت حلق ہی کرانا ہوگا۔ 

واضح رہے کہ مردوں کے لیے قصر (یعنی بال کتروانے) کے مقابلہ میں حلق (یعنی پورے سر کے بال منڈوانا) زیادہ اجر وثواب کا باعث ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں اپنے سرمبارک کا حلق فرماکر ارشاد فرمایا:"رحم اللّٰه المحلقین"، یعنی اللہ تعالیٰ سر منڈانے والوں پر رحم فرمائیں، توصحابہ نے عرض کیا کہ: ’’اے اللہ کے رسول! سر کے بال کتروانے والوں پر بھی رحمت ہو‘‘، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر یہی فرمایاکہ: "رحم اللّٰه المحلقین"، تو صحابہ نے دوبارہ مقصرین یعنی کتروانے والوں کے لیے دعا کی درخواست کی، مگر آپ نے تیسری مرتبہ بھی حلق کرنے والوں ہی کے لیے دعا فرمائی اور چوتھی مرتبہ میں مقصرین کو دعا میں شامل فرمایا۔

(صحیح البخاري، باب الحلق والتقصير عند الإحلال.2/213)

اور خواتین کے لیے بہرصورت یہ حکم ہے کہ وہ حج یا عمرے کے احرام سے حلال ہونے کے لیے سرکے بالوں کا قصر کریں، یعنی ایک پورے کے برابر کاٹ لیں، اگر کسی خاتون نے کم از کم چوتھائی سر کے بال ایک پورے کے بقدر کاٹ لیے تو وہ احرام سے حلال ہوجائے گی

مسبوق امام کے ساتھ سلام پھیردے

 مسبوق اگر بھول کر امام کے ساتھ ایک طرف سلام پھیر دے اور پھر فوراً  یاد آجانے پر کھڑے ہوکر اپنی بقیہ رکعت پوری کرلے تو اس پر سجدہ سہو واجب ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں ضابطہ یہ ہے کہ اگر اس نے بھولے سے سلام امام کے ساتھ  متصلاً پھیرا تھا، یعنی اس کے سلام کہنے کے الفاظ امام کے بالکل ساتھ ساتھ ادا ہوئے تھے، الفاظ کی ادائیگی میں امام کے مقابلے میں ذرا سی بھی تاخیر نہیں ہوئی تھی (اگرچہ عام طور سے ایسا ہونا بہت مشکل یا شاذ و نادر ہے) تو اس صورت میں اس پر سجدہ سہو واجب نہیں ہوگا۔

لیکن اگر مسبوق نے امام کے بالکل ساتھ متصلاً ایک طرف سلام نہ پھیرا ہو، بلکہ اس کے لفظ ’’السلام‘‘ کہنے میں امام سے ذرا سی بھی تاخیر ہوئی ہو ( جیسا کہ عام طور سے ہوتا ہے) تو اس صورت میں بقیہ رکعات پوری کرنے کے بعد آخر میں سجدہ سہو کرنا اس پر لازم ہے، اسی طرح اگر مسبوق نے بھولے سے دونوں طرف سلام پھیر دیا اور یاد آنے پر اگر اس نے نماز کے منافی کوئی کام نہ کیا ہو تو  کھڑے ہوکر بقیہ رکعات ادا کرلے اور آخر میں سجدہ سہو کرلے تو نماز ادا ہوجائے گی۔

البتہ اگر مسبوق نے جان بوجھ کر امام کے ساتھ سلام پھیرا ہو، یا یہ سمجھتے ہوئے سلام پھیرا کہ اس پر امام کے ساتھ سلام پھیرنا لازم ہے تو اس صورت میں اس کی نماز باطل ہوجائے گی، دوبارہ پڑھنا ضروری ہوگا۔

اور جن صورتوں میں سہواً امام کے ساتھ سلام پھیرنے کی وجہ سے مسبوق پر سجدہ سہو لازم ہوتا ہے اگر اس نے سجدہ سہو نہ کیا تو اس نماز کے  وقت کے اندر وہ نماز واجب الاعادہ ہوگی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قَوْلُهُ: وَالْمَسْبُوقُ يَسْجُدُ مَعَ إمَامِهِ) ... فَإِنْ سَلَّمَ فَإِنْ كَانَ عَامِدًا فَسَدَتْ وَإِلَّا لَا، وَلَا سُجُودَ عَلَيْهِ إنْ سَلَّمَ سَهْوًا قَبْلَ الْإِمَامِ أَوْ مَعَهُ؛ وَإِنْ سَلَّمَ بَعْدَهُ لَزِمَهُ لِكَوْنِهِ  مُنْفَرِدًا حِينَئِذٍ، بَحْرٌ، وَأَرَادَ بِالْمَعِيَّةِ الْمُقَارَنَةَ وَهُوَ نَادِرُ الْوُقُوعِ، كَمَا فِي شَرْحِ الْمُنْيَةِ. وَفِيهِ: وَلَوْ سَلَّمَ عَلَى ظَنِّ أَنَّ عَلَيْهِ أَنْ يُسَلِّمَ فَهُوَ سَلَامُ عَمْدٍ يَمْنَعُ الْبِنَاءَ". ( باب سجود السهو، ٢/ ٨٢ - ٨٣)

الدر المختار میں ہے:

"وَلَوْ سَلَّمَ سَاهِيًا إنْ بَعْدَ إمَامِهِ لَزِمَهُ السَّهْوُ وَإِلَّا لَا".

رد المحتار میں ہے:

"(قَوْلُهُ وَلَوْ سَلَّمَ سَاهِيًا) قَيَّدَ بِهِ لِأَنَّهُ لَوْ سَلَّمَ مَعَ الْإِمَامِ عَلَى ظَنِّ أَنَّهُ عَلَيْهِ السَّلَامُ مَعَهُ فَهُوَ سَلَامٌ عَمْدٌ، فَتَفْسُدُ كَمَا فِي الْبَحْرِ عَنْ الظَّهِيرِيَّةِ، (قَوْلُهُ: لَزِمَهُ السَّهْوُ)؛ لِأَنَّهُ مُنْفَرِدٌ فِي هَذِهِ الْحَالَةِ ح. (قَوْلُهُ: وَإِلَّا لَا) أَيْ وَإِنْ سَلَّمَ مَعَهُ أَوْ قَبْلَهُ لَايَلْزَمُهُ لِأَنَّهُ مُقْتَدٍ فِي هَاتَيْنِ الْحَالَتَيْنِ". ( شامي، قبيل باب الاستخلاف، ١ / ٥٩٩

Wednesday 3 January 2024

اہل کتاب خواتین سے نکاح کی تفصیل

 ) -اہل کتاب کی تعریف  یہ ہے کہ جن پیغمبروں پر اللہ نے آسمانی کتابیں نازل فرمائی ہیں ان کے ماننے والوں اور ان کی نازل کردہ کتابوں کے ماننے والے کو اہل کتاب کہتے ہیں۔

2) -اہل ذمہ کی تعریف  میں  " اہلِ ذمہ" سے مراد وہ غیر مسلم افراد ہیں جوکسی اسلامی ملک میں اس ملک کے قوانین کی پاسداری کاعہد کرکے وہاں سکونت اختیار کریں۔یہ افراد ''ذمی''کہلاتے ہیں۔

3)- حربی کی تعریف میں "حربی " سے مراد وہ کافر ہیں جن سے کسی قسم کا کوئی معاہدہ نہ ہو۔

واضح رہے کہ موجودہ دور میں  بلاضرورتِ شدیدہ  اہلِ  کتاب سے نکاح کرنا مکروہ،اور بہت مفاسد  کی جڑ ہے،   آج کل کے پرفتن ماحول میں جب کہ برائی کا اثر قبول کرنے میں اضافہ روز افزوں ہے، اور عام طور پر حال یہ ہے کہ مرد کا اثر بیوی پر قائم ہونے کے بجائے شاطر لڑکیاں مردوں کو اپنا تابع دار بنالیتی ہیں، نیز اہلِ کتاب ماؤں کے فاسد اَثرات اولاد پر بھی بہت زیادہ پڑتے ہیں،اس لیے حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے عہدِ خلافت میں  مسلمانوں کو کتابیہ عورتوں کے نکاح سےمنع فرمادیاتھا،نیز اگرلڑکی  اہلِ کتاب حربیہ ہو تو اس کے ساتھ نکاح مکروہِ تحریمی ہے،اور اگر اہلِ کتاب  ذمیہ ہو تو اس کے ساتھ نکاح مکروہِ  تنزیہی ہے۔

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:

"عبد الله بن إدريس، عن الصلت بن بهرام، عن شقيق، قال: تزوج حذيفة يهودية ‌فكتب ‌إليه ‌عمر ‌أن ‌خل ‌سبيلها، فكتب إليه: إن كانت حراما خليت سبيلها فكتب إليه: «إني لا أزعم أنها حرام، ولكني أخاف أن تعاطوا المومسات منهن»."

( كتاب النكاح، من كان يكره النكاح في أهل الكتاب،٤٧٤/٣، ط: مکتبةالرشد

وفی الشامیۃ:

"(قوله: مقرة بكتاب) في النهر عن الزيلعي: واعلم أن من اعتقد ديناً سماوياً وله كتاب منزل كصحف إبراهيم وشيث وزبور داود فهو من أهل الكتاب؛ فتجوز مناكحتهم وأكل ذبائحهم. (قوله: على المذهب) أي خلافاً لما في المستصفى من تقييد الحل بأن لايعتقدوا ذلك، ويوافقه ما في مبسوط شيخ الإسلام: يجب أن لايأكلوا ذبائح أهل الكتاب إذا اعتقدوا أن المسيح إله، وأن عزيراً إله، ولايتزوجوا نساءهم، قيل: وعليه الفتوى، ولكن بالنظر إلى الدليل ينبغي أنه يجوز الأكل والتزوج. اهـ.
قال في البحر: وحاصله أن المذهب الإطلاق لما ذكره شمس الأئمة في المبسوط من أن ذبيحة النصراني حلال مطلقاً سواء قال بثالث ثلاثة أو لا؛ لإطلاق الكتاب هنا، والدليل ورجحه في فتح القدير بأن القائل بذلك طائفتان من اليهود والنصارى انقرضوا لا كلهم مع أن مطلق لفظ الشرك إذا ذكر في لسان الشرع لاينصرف إلى أهل الكتاب، وإن صح لغةً في طائفة أو طوائف؛ لما عهد من إرادته به من عبد مع الله تعالى غيره ممن لايدعي اتباع نبي وكتاب إلى آخر ما ذكره. اهـ".
   (ج:۳،ص:۴۵،ط:سعید