https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Tuesday 9 January 2024

عالم ربانی کی صفات

علماء چمکدار ستاروں کے مانند ہیں۔کیونکہ زندگی کے مختلف گوشوں میں لوگ ان سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ اگر وہ روپوش ہوجائیں یا انہیں روپوش کردیاجائے توپورے خطۂ ارضی پر گھٹا ٹوپ تاریکی کابسیرا ہوجائے ، خلق ِخدااندھیرے میں حیران وپریشان ٹامک ٹوئیاں مارنے لگے اور انہیں کوئی راہ سجھائی نہ دے اور وہ سیدھے راستے تک پہنچنے سے قاصر رہ جائیں،سلف میں سے کسی کا قول ہے ’’علماء ان ستاروں کے مانند ہیں جن سے لوگ رہنمائی حاصل کرتے ہیں اور اس نشان کی طرح ہیں جسے دیکھ کر لوگ منزلِ مقصود کا راستہ طے کرتے ہیں۔ اگر یہ ستارے ڈوب جائیں اور یہ نشانِ راہ غائب ہوجائیں تو وہ غلطاں و پیچاں ہوجائیں اور اگر لوگ ان سے رہنمائی حاصل کرنا چھوڑ دیں توسیدھے راستہ سے بھٹک جائیں۔[أخرجہ ابن أبی شیبۃ فی مصنفہ:۸؍۲۵۳،عن کاتبِ أبی قلابۃ ]
جب بھی امت پر فتنوں کی تیز و تند آندھیاں چلی ہیں اور امت سخت آزمائش کے تھپیڑوں سے دوچار ہوئی ہے تو اہلِ علم کے اس منفرد گروہ کی امت کو شدیدترین ضرورت پڑی ہے ،اس وجہ سے ا س موضوع پر گفتگو بے انتہا اہمیت کا حامل ہے ،جسے درج ذیل دو نکات کی روشنی میں ترتیب دیا گیاہے ۔
پہلا نکتہ ! حقیقیت میں ربانی عالم کی خصوصیات
دوسرانکتہ ! ربانی علماء کا امت کے تئیں تبلیغی کردار
پہلا نکتہ: حقیقت میں ربانی عالم کی خصوصیات:
ربانی عالم بلند ترین اور عظیم الشان صفات کے پیکر ہواکرتے ہیں، ان کے نمایاں ترین اوصاف درج ذیل ہیں۔
۱۔ علمی رسوخ اور پختگی: صحیح منہج کے مطابق محکم کی پیروی کرکے اور متشابہ کو ترک کرکے انبیاء کی علمی وراثت (شرعی علوم)میں عبور حاصل کرنا۔
ابودرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ:’’ بلاشبہ علماء انبیاء کے وارث ہیں اور انبیاء نے کوئی درہم و دینار ورثے میں نہیں چھوڑے ہیں ، انہوں نے علم کی وراثت چھوڑی ہے ، جس نے اسے حاصل کر لیا گویا کہ اس نے بڑا حصہ حاصل کرلیا ‘‘[إسنادہ صحیح:أخرجہ أبوداؤد فی سننہ:۳؍۳۵۴، رقم۳۶۴۳]
اور اللہ رب العالمین فرماتاہے:’’وہی اللہ تعالیٰ ہے جس نے آپ پر کتاب اتاری جس میں واضح مضبوط آیتیں ہیں جو اصل کتاب ہیں اور بعض متشابہ آیتیں ہیں،پس جن کے دلوں میں کجی ہے وہ تو اس کی متشابہ آیتوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں، فتنے کی طلب اور ان کی مراد کی جستجو کے لئے، حالانکہ ان کی حقیقی مراد کو سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا۔اور پختہ اور مضبوط علم والے یہی کہتے ہیں کہ ہم تو ان پر ایمان لا چکے ہیں، یہ ہمارے رب کی طرف سے ہیں اور نصیحت تو صرف عقلمند حاصل کرتے ہیں‘‘۔[آل عمران:۷]
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: ’’اہلِ علم صحابہ رسول اللہ ﷺکے کلام کے وہ معانی بھی جانتے تھے جس کا علم دوسرے لوگوں کو نہیں ہوتا تھااوریہی لوگ پختہ وٹھوس علم والے تھے‘‘[مجموع الفتاویٰ:۱۷؍۴۲۸]
امام شاطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں :’’{مِنْهُ آيَاتٌ مُحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَاب} اللہ نے اس آیت میں محکم کو اصل اور مرجع قرار دیا ہے اور محکم سے مراد وہ آیتیں ہیں جو بالکل واضح ہوں اور ان کے اندر کسی قسم کا کوئی اشتباہ اور غموض نہ ہو(جن کا بیان بہت واضح بالکل صاف اور سیدھا ہے)پھر اللہ نے فرمایا: {وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ} اور متشابہ سے مراد وہ آیا ت ہیں جو اصل کتاب نہیں ہیں اور نہ ہی یہ قرآن کریم کا بیشتر حصہ ہیں بلکہ یہ بہت ہی کم ہیں ، پھر اللہ نے اس بات کی خبر دی کہ ان میں سے متشابہ آیا ت کی پیروی کرنا حق سے منحرف اور صحیح راستہ سے بھٹکے ہوئے لوگوں کا شیوہ ہے ، اس کے برعکس جنہیں شرعی علوم میں مہارت حاصل ہے تو وہ لوگ ایسا نہیں کرتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ اصل کتاب کی پیروی کرتے ہیں اور متشابہ کوترک کردیتے ہیں‘‘ ۔[الموافقات:۱۰؍۲۱۰، ت۔فضیلۃ الشیخ مشہور حسن]
علامہ ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ علماء ربانیین سے متعلق رقم طراز ہیںکہ :’’ یہ انبیاء کے وارث اور ان کی امت کے لیے ان کے جانشین ہیں ، یہی لوگ بہرِ صورت علمی و عملی طور پرانبیاء کے مشن پر گامزن ہیں اور ان کے طریقہ ومنہج کے مطابق لوگوں کو اللہ کی طرف دعوت دیتے ہیں، یہ مقام نبوت و رسالت کے بعد سب سے افضل مقام ہے ، اور یہی ربانی علماء ہیں جنہیں علم میں رسوخ اورپختگی حاصل ہوتی ہے، اسی طرح یہ رسول اور اس کی امت کے درمیان قاصداور پیغام رساں کی حیثیت رکھتے ہیں، الغرض یہ علماء ہی رسول کے جانشین ،ان کے پیروکار ، ان کے اعوان ومددگار ،ان کے خاص اور ان کے دین کے علماء آسمانِ دنیا پر چمکدار ستاروں کے مانند ہیں۔چنانچہ زندگی کے مختلف گوشوں میں لوگ ان سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ اگر وہ روپوش ہوجائیں یا انہیں روپوش کردیاجائے توپورے خطۂ ارضی پر گھٹا ٹوپ تاریکی کابسیرا ہوجائے ، خلق ِخدااندھیرے میں حیران وپریشان ٹامک ٹوئیاں مارنے لگے اور انہیں کوئی راہ سجھائی نہ دے اور وہ سیدھے راستے تک پہنچنے سے قاصر رہ جائیں،سلف میں سے کسی کا قول ہے ’’علماء ان ستاروں کے مانند ہیں جن سے لوگ رہنمائی حاصل کرتے ہیں اور اس نشان کی طرح ہیں جسے دیکھ کر لوگ منزلِ مقصود کا راستہ طے کرتے ہیں۔ اگر یہ ستارے ڈوب جائیں اور یہ نشانِ راہ غائب ہوجائیں تو وہ غلطاں و پیچاں ہوجائیں اور اگر لوگ ان سے رہنمائی حاصل کرنا چھوڑ دیں توسیدھے راستہ سے بھٹک جائیں۔[أخرجہ ابن أبی شیبۃ فی مصنفہ:۸؍۲۵۳،عن کاتبِ أبی قلابۃ ]

  • جب بھی امت پر فتنوں کی تیز و تند آندھیاں چلی ہیں اور امت سخت آزمائش کے تھپیڑوں سے دوچار ہوئی ہے تو اہلِ علم کے اس منفرد گروہ کی امت کو شدیدترین ضرورت پڑی ہے ،اس وجہ سے ا س موضوع پر گفتگو بے انتہا اہمیت کا حامل ہے ،جسے درج ذیل دو نکات کی روشنی میں ترتیب دیا گیاہے ۔
    پہلا نکتہ ! حقیقیت میں ربانی عالم کی خصوصیات
    دوسرانکتہ ! ربانی علماء کا امت کے تئیں تبلیغی کردار
    پہلا نکتہ: حقیقت میں ربانی عالم کی خصوصیات:
    ربانی عالم بلند ترین اور عظیم الشان صفات کے پیکر ہواکرتے ہیں، ان کے نمایاں ترین اوصاف درج ذیل ہیں۔
    ۱۔ علمی رسوخ اور پختگی: صحیح منہج کے مطابق محکم کی پیروی کرکے اور متشابہ کو ترک کرکے انبیاء کی علمی وراثت (شرعی علوم)میں عبور حاصل کرنا۔
    ابودرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ:’’ بلاشبہ علماء انبیاء کے وارث ہیں اور انبیاء نے کوئی درہم و دینار ورثے میں نہیں چھوڑے ہیں ، انہوں نے علم کی وراثت چھوڑی ہے ، جس نے اسے حاصل کر لیا گویا کہ اس نے بڑا حصہ حاصل کرلیا ‘‘[إسنادہ صحیح:أخرجہ أبوداؤد فی سننہ:۳؍۳۵۴، رقم۳۶۴۳]
    اور اللہ رب العالمین فرماتاہے:’’وہی اللہ تعالیٰ ہے جس نے آپ پر کتاب اتاری جس میں واضح مضبوط آیتیں ہیں جو اصل کتاب ہیں اور بعض متشابہ آیتیں ہیں،پس جن کے دلوں میں کجی ہے وہ تو اس کی متشابہ آیتوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں، فتنے کی طلب اور ان کی مراد کی جستجو کے لئے، حالانکہ ان کی حقیقی مراد کو سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا۔اور پختہ اور مضبوط علم والے یہی کہتے ہیں کہ ہم تو ان پر ایمان لا چکے ہیں، یہ ہمارے رب کی طرف سے ہیں اور نصیحت تو صرف عقلمند حاصل کرتے ہیں‘‘۔[آل عمران:۷]
    شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: ’’اہلِ علم صحابہ رسول اللہ ﷺکے کلام کے وہ معانی بھی جانتے تھے جس کا علم دوسرے لوگوں کو نہیں ہوتا تھااوریہی لوگ پختہ وٹھوس علم والے تھے‘‘[مجموع الفتاویٰ:۱۷؍۴۲۸]
    امام شاطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں :’’{مِنْهُ آيَاتٌ مُحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَاب} اللہ نے اس آیت میں محکم کو اصل اور مرجع قرار دیا ہے اور محکم سے مراد وہ آیتیں ہیں جو بالکل واضح ہوں اور ان کے اندر کسی قسم کا کوئی اشتباہ اور غموض نہ ہو(جن کا بیان بہت واضح بالکل صاف اور سیدھا ہے)پھر اللہ نے فرمایا: {وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ} اور متشابہ سے مراد وہ آیا ت ہیں جو اصل کتاب نہیں ہیں اور نہ ہی یہ قرآن کریم کا بیشتر حصہ ہیں بلکہ یہ بہت ہی کم ہیں ، پھر اللہ نے اس بات کی خبر دی کہ ان میں سے متشابہ آیا ت کی پیروی کرنا حق سے منحرف اور صحیح راستہ سے بھٹکے ہوئے لوگوں کا شیوہ ہے ، اس کے برعکس جنہیں شرعی علوم میں مہارت حاصل ہے تو وہ لوگ ایسا نہیں کرتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ اصل کتاب کی پیروی کرتے ہیں اور متشابہ کوترک کردیتے ہیں‘‘ ۔[الموافقات:۱۰؍۲۱۰، ت۔فضیلۃ الشیخ مشہور حسن]
    علامہ ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ علماء ربانیین سے متعلق رقم طراز ہیںکہ :’’ یہ انبیاء کے وارث اور ان کی امت کے لیے ان کے جانشین ہیں ، یہی لوگ بہرِ صورت علمی و عملی طور پرانبیاء کے مشن پر گامزن ہیں اور ان کے طریقہ ومنہج کے مطابق لوگوں کو اللہ کی طرف دعوت دیتے ہیں، یہ مقام نبوت و رسالت کے بعد سب سے افضل مقام ہے ، اور یہی ربانی علماء ہیں جنہیں علم میں رسوخ اورپختگی حاصل ہوتی ہے، اسی طرح یہ رسول اور اس کی امت کے درمیان قاصداور پیغام رساں کی حیثیت رکھتے ہیں، الغرض یہ علماء ہی رسول کے جانشین ،ان کے پیروکار ، ان کے اعوان ومددگار ،ان کے خاص اور ان کے دین کے مبلغ ہیں۔[طریق الہجرتین:۱؍۵۱۶]
    ۲۔ منہجِ نبوت پرثابت قدمی: بدعات اور دین میں نئی نئی چیزوں سے دور ی اختیار کرتے ہوئے رسول اللہﷺ اور خلفاء راشدین کے منہج و طریق پر قائم رہنا ،جیسا کہ نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے:
     «وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الأُمُورِ فَإِنَّهَا ضَلَالَةٌ فَمَنْ أَدْرَكَ ذَلِكَ مِنْكُمْ فَعَلَيْهِ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الخُلَفَاء ِ الرَّاشِدِينَ المَهْدِيِّينَ، عَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ»
    ’’نئے نئے فتنوں اور نئی نئی بدعتوں میں نہ پڑنا، کیونکہ یہ سب گمراہی ہیں۔ چنانچہ تم میں سے جو شخص ان حالات کو پالے تو اسے چاہیے کہ وہ میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت پر قائم اور جمار ہے اور میری اس نصیحت کو اپنے دانتوں کے ذریعے مضبوطی سے دبا لے‘‘ (اور اس پر عمل پیرا رہے)
    [إسنادہ صحیح ۔أخرجہ الترمذی فی سننہ :۵؍ ۴۴، رقم:۲۶۷۶]
    ۳۔ خوفِ الہٰی: جیسا کہ اللہ نے اہلِ علم کے بارے میں متعدد مقامات میں فرمایا ہے:
    {قُلْ آمِنُوا بِهِ أَوْ لَا تُؤْمِنُوا إِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِهِ إِذَا يُتْلَي عَلَيْهِمْ يَخِرُّونَ لِلْأَذْقَانِ سُجَّدًا}
    ’’کہہ دیجیے! تم اس پر ایمان لاؤ یا نہ لاؤ، جنہیں اس سے پہلے علم دیا گیا ہے ان کے پاس تو جب بھی اس کی تلاوت کی جاتی ہے تو وہ ٹھوڑیوں کے بل سجدہ میں گر پڑتے ہیں‘‘۔
    [الإسراء:۱۰۷]
    {وَيَخِرُّونَ لِلْأَذْقَانِ يَبْكُونَ وَيَزِيدُهُمْ خُشُوعًا}
    ’’وہ اپنی ٹھوڑیوں کے بل روتے ہوئے سجدہ میں گر پڑتے ہیں اور یہ قرآن ان کی عاجزی اور خشوع اور خضوع بڑھا دیتا ہے ‘‘
    [الإسراء:۱۰۹]
    {إِنَّمَا يَخْشَي اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَائُ}
    ’’اللہ سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں‘‘
    [فاطر:۲۸]
    ۴۔ صبر اور یقین : جیسا کہ اللہ رب العالمین کا فرمان ہے:
    {وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا وَكَانُوا بِآيَاتِنَا يُوقِنُونَ}
    ’’اور جب ان لوگوں نے صبر کیا تو ہم نے ان میں سے ایسے پیشوا بنائے جو ہمارے حکم سے لوگوں کو ہدایت کرتے تھے، اور وہ ہماری آیتوں پر یقین رکھتے تھے‘‘
    [السجدۃ :۲۴]
    حافظ ابن کثیررحمہ اللہ کہتے ہیں:’’جب تک وہ اللہ کے احکامات پر ڈٹے رہے اور اس کی منع کردہ چیزوں کو چھوڑتے رہے ساتھ ہی اس کے رسولوں کی تصدیق کرتے رہے اور ان کی لائی ہوئی شریعت میں ان کی پیروی کرتے رہے ، تو انہی میں سے ایسے امام و پیشواپیدا ہوتے رہے جو اللہ کے حکم سے حق کی جانب رہنمائی کرتے تھے ، خیر کی دعوت دیتے تھے اورامر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیتے تھے ۔پھر جب وہ لوگ اللہ کے احکامات میں تبدیلی ،تحریف ا ور تاویل سے کا م لینے لگے تو ان سے یہ مقام چھین لیاگیا اور ان کے دل اس قدرسخت ہوگئے کہ وہ کلامِ الہٰی میں تحریف کرنے لگے نتیجتاً نہ تو ان کے پاس عملِ صالح بچا اور نہ ہی صحیح اعتقاد ۔بعض اہل علم کا کہنا ہے ’’صبر اور یقین سے ہی دین میں امامت حاصل کی جاسکتی ہے ‘‘[تفسیر القرآن العظیم :۳؍۵۶۰بتصرف ]
    ۵۔ علم کے مطابق عمل کرنا۔
    ۶۔ فہم وادراک کے لیے گہراذاتی مطالعہ
    ۷۔ لوگوں کی تربیت کرنا اور بڑے مسائل سے پہلے چھوٹے مسائل کی تعلیم دینا۔
    ۸۔ حکمت
    ۸۔ بر دباری
    ۹۔ تفقہ
    یہ ساری کی ساری صفا ت سلف سے اللہ کے فرمان:
    {وَلَـكِن كُونُواْ رَبَّانِيِّينَ بِمَا كُنتُمْ تُعَلِّمُونَ الْكِتَابَ وَبِمَا كُنتُمْ تَدْرُسُونَ}
    ’’بلکہ وہ تو کہے گا کہ تم سب رب کے ہو جاؤ، تمہارے کتاب سکھانے کے باعث اور تمہارے کتاب پڑھنے کے سبب‘‘
    [آل عمران:۷۹] کی تفسیرمیں منقول ہیں۔
    امام طبری رحمہ اللہ کہتے ہیں:’’ربانی عالم وہ ہے جو ان تمام صفات سے متصف ہو جن صفات کومیں نے بیان کیا ہے ‘‘
    فقہ و حکمت کا علم رکھتا ہو اورمصلحین میں سے ہوساتھ ہی وہ لوگوں کے معاملات کی اچھے سے دیکھ ریکھ کرتا ہو ،انہیں خیر کی تعلیم دیتاہو اور انہیں اس چیز کی طرف بلاتا ہوجس میں ان کے لیے بھلائی ہو ،اسی طرح وہ حکمت والا اور اللہ سے ڈرنے والا ہو، منصف حکام کے طرز پر وہ لوگوں کے معاملات کی نگہداشت کرتا ہو اوردنیاوآخرت میں ان کی بھلائی کا خواہاں ہو ۔
    گویا کہ ربانی علماء فقہ ،علم ،دینی اور دنیاوی امور میں لوگوں کے لیے ستون کی حیثیت رکھتے ہیں ۔اسی وجہ سے امام مجاہدرحمہ اللہ نے کہا ہے:’’ربانیین کا مقام احبار سے بھی اونچا ہے، احبارعلماء ہوتے ہیں ،جبکہ ربانی عالم ایک ایسے جامع الصفات کا نام ہے جس میں علم و فقہ کے ساتھ ساتھ سیاسی بصیرت اور لوگوں کے دینی و دنیاوی معاملات بحسن وخوبی انجام دینے کی صلاحیت ہوتی ہے‘‘[تفسیر الطبری:۶؍۵۴۴]
    حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:’’ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ربانی عالم کی اس طرح تعریف کی ہے کہ’’ ربانی وہ ہے جو حکمت اورگہری سوجھ بوجھ کا مالک ہو‘‘۔
    ابن عباس کی موافقت ابن مسعود نے کی ہے۔ اور ابراہیم الحربی نے اسے اپنے کتاب ’’غریب الحدیث ‘‘کے اندر صحیح سند سے روایت کیاہے۔
    اصمعی اور اسماعیلی کہتے ہیں: ’’ربانی کی نسبت رب کی طرف ہے جس کا مقصد علم و عمل سے وہی ہوتا ہے جس کا اس کے رب نے اسے حکم دیا ہے‘‘۔ثعلب کہتے ہیں:’’علماء کو ربانی اس وجہ سے کہا گیا ہے کیونکہ وہ علم کی نگہداشت کرتے ہیں ۔ الف اور نون کا اضافہ مبالغہ کے طور پر کیا گیا ہے‘‘
    خلاصئہ کلام یہ ہے کہ اس کی نسبت میں اختلاف ہے آیااس کی نسبت لفظ رب کی طرف ہے یا لفظ تربیہ کی طرف اس اعتبار سے یہاں تربیہ سے مرادعلم ہے اور جو امام بخاری نے بیان فرمایا ہے اس اعتبار سے اس سے مراد علم سیکھنا ہے۔
    اور صغار علم سے مراد ایک قول کے مطابق علم کے واضح مسائل اور کبار علم سے مراد علم کے باریک مسائل ۔دوسرا قول یہ ہے کلیات سے پہلے جزئیات کی تعلیم لوگوں کودینا ،یا فروع سے پہلے اصول کی تعلیم کودینا ،یا مقاصد سے پہلے مبادیات کی تعلیم دینا ۔
    ابن الاعرابی فرماتے ہیں :’’ربانی کو ربانی عالم نہیں کہا جائے گا تاآنکہ وہ باعمل عالم و معلم نہ ہوجائے‘‘[فتح الباری :۱؍۱۶۲]
    علامہ ابن القیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:’’لغت میں ربانی اسے کہا جاتا ہے جس کامقام علم میں اونچا ہو اوراسے اس میں بلند رتبہ حاصل ہو۔اور اللہ تبارک و تعالیٰ کے فرمان {لولا ينهاهم الربانيون} اور{كونوا ربانيين} کو علماء نے اسی پر محمول کیاہے۔
    چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ربانیین سے مراد حکماء و فقہاء ہیں ۔
    ابورزین کہتے ہیں ربانیین سے مراد علماء فقہاء ہیں ۔
    ابو عمر الزاہد کہتے ہیں کہ میں نے ثعلب سے لفظ ’’ربانی ‘‘سے متعلق سوال کیاتو انہوں نے کہا کہ میں نے بھی ابن الاعرابی سے اس سے متعلق پوچھا تھا تو انہوں نے جواب دیا تھا’’جوبند ہ عالم ہو ،باعمل ہو نیز معلم بھی ہو تو اسے ربانی عالم کہا جاتاہے ۔لیکن اگر اس کے اندر ان اوصاف میں(عالم باعمل،معلم) سے کسی ایک وصف کی کمی ہو تو اسے ربانی عالم نہیں کہا جائے گا‘‘۔[مفتاح دار السعادۃ:۱؍۱۲۴]


No comments:

Post a Comment