https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Sunday 7 July 2024

ایمازون ایفلیٹ مارکیٹینگ کاحکم

 ایمازون اپنے ایسے ممبرز جو ایمازون میں سرمایہ کاری  نہ کرنا چاہتے ہیں، یا نہ کرسکتے ہوں، تو ایمازون  ایفیلیٹ مارکیٹنگ کی صورت  میں اپنے  ایسے ممبران کو ایمازون  دیگر سرمایہ کاروں کی فروخت ہونے والی اشیاء کے لنک فراہم کرتا ہے،  جسے ایفلیٹ ممبرز  حاصل شدہ لنکس کے ذریعہ  مختلف بلاکس، سوشل میڈیا و دیگر سائٹس پر ان اشیاء کی تشہیر کرتے ہیں،  پھر جس ممبر کے  لنک کے ذریعہ وہ اشیاء فروخت ہوں، تو ایمازون اس ممبر کو کچھ فیصد کمیشن دیتا ہے۔

مذکورہ حاصل شدہ معلومات کے مطابق ایفلیٹ ممبران  کی حیثیت کمیشن ایجنٹ کی ہے، اورکمیشن ایجنٹ سے مراد وہ آدمی ہے جو بروکری لے کر کام کرتا ہو،  اور بروکر کے لیے بروکری کی اجرت لینا جائز ہے، بشرطیکہ جس کام پر کمیشن لیا جا رہا ہے وہ کام فی نفسہ جائز ہو، کام بھی متعین ہو ،کمیشن ایجنٹ واقعی کوئی معتد بہ عمل انجام دے  اور کمیشن (اجرت) جانبین کی رضامندی سے بلاکسی ابہام کے متعین ہو۔

لہذا صورت مسئولہ میں کمیشن / بروکری کے جائز ہونے کی شرائط اگر ایمازون ایفیلیٹ مارکٹنگ میں پائی جاتی ہوں، تو اس صورت میں کمیشن لینا جائز ہوگا، بصورت دیگر جائز نہ ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

’’قَالَ فِي التتارخانية: وَفِي الدَّلَّالِ وَالسِّمْسَارِ يَجِبُ أَجْرُ الْمِثْلِ، وَمَا تَوَاضَعُوا عَلَيْهِ ... وَفِي الْحَاوِي: سُئِلَ مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ أُجْرَةِالسِّمْسَارِ؟ فَقَالَ: أَرْجُو أَنَّهُ لَا بَأْسَ بِهِ وَإِنْ كَانَ فِي الْأَصْلِ فَاسِدًا؛ لِكَثْرَةِ التَّعَامُلِ، وَكَثِيرٌ مِنْ هَذَا غَيْرُ جَائِزٍ، فَجَوَّزُوهُ لِحَاجَةِ النَّاسِ إلَيْهِ...‘‘ الخ

( مَطْلَبٌ فِي أُجْرَةِ الدَّلَّالِ ، ٦/ ٦٣، ط: سعيد)

وفیه أیضاً:

’’وَأَمَّا أُجْرَةُ السِّمْسَارِ وَالدَّلَّالِ فَقَالَ الشَّارِحُ الزَّيْلَعِيُّ: إنْ كَانَتْ مَشْرُوطَةً فِي الْعَقْدِ تُضَمُّ‘‘.

(5/ 136)

مال بکنے پر قیمت کی ادائیگی کی شرط کے ساتھ بیچنا

 ادھار خرید و فروخت کے درست ہونے کے لیے ضروری ہے کہ مبیع (جو چیز فروخت کی جارہی ہے) کی قیمت بھی متعین ہو اور قیمت کی ادائیگی کا وقت بھی متعین ہو، اگر قیمت متعین نہ ہو یا قیمت کی ادائیگی کا وقت متعین نہ ہو، تو ایسی بیع درست نہیں ہے، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں  سپلائیر سے جو اس شرط پر مال خریدتاہے کہ جب مال بک جائے گا اس وقت پیسے دیں گے، تو اصولاً  تو یہ بیع  قیمت کی ادائیگی کا وقت متعین نہ ہونے کی وجہ سے درست نہیں ہونی چاہیے اور اگر مال ادھار کہہ کر نہیں خریدتا اور قیمت متعین ہوتی ہے اور قیمت بعد میں ادا کرتا ہے، تو جائز ہے، غرض کہ قیمت متعین کر کے نقد میں خریدلے اور خریداری سے فارغ ہونے کے بعد کہہ دے کہ بعد میں ادا کردیں گے، تو جائز ہے اور اگر ادھار خرید رہا ہے، تو ادائیگی کی مدت مقرر کرنا ضروری ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ومنها أن يكون المبيع معلوما والثمن معلوما علما يمنع من المنازعة فبيع المجهول جهالة تفضي إليها غير صحيح كبيع شاة من هذا القطيع."

( كتاب البيوع،الباب الأول في تعريف البيع وركنه وشرطه وحكمه وأنواعه، ج:3،ص:3، ط: دارالفكر)

ہدایہ میں ہے:

"قال: "‌ويجوز ‌البيع ‌بثمن ‌حال ‌ومؤجل ‌إذا ‌كان ‌الأجل ‌معلوما" لإطلاق قوله تعالى: {وأحل الله البيع وحرم الربا} [البقرة:٢٧٥] وعنه عليه الصلاة والسلام "أنه اشترى من يهودي طعاما إلى أجل معلوم ورهنه درعه". ولا بد أن يكون الأجل معلوما؛ لأن الجهالة فيه مانعة من التسليم الواجب بالعقد، فهذا يطالبه به في قريب المدة، وهذا يسلمه في بعيدها."

(کتاب البیوع، ج:3، ص:24، ط:دار احیاء التراث العربی

اسلامی بینک میں اکاؤنٹ

 جو بینک  ،اسلامی یا غیر سودی بینکاری کے نام سے  کسی مستند عالم کی نگرانی میں مکمل طور پر تمام  معاملات شریعت کے مطابق کر رہے ہوں اور دیگر بہت سے وہ  بینک جو جزوی طور پر  مستند علماء کی نگرانی میں  غیر سودی بینکاری کررہے ہیں ، ان کے ساتھ معاملا ت کیے جاسکتے ہیں  ، جب تک یہ بینک  مستند علماء کی نگرانی میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے طے کردہ غیر سودی بینکاری کے معیارات کے مطابق کام کرتے رہیں،اس وقت تک ان سے معاملات کرنا جائز ہے۔اس لیےفیصل اسلامک بینک میں بھی سیونگ اکاؤنٹ کھلوانے کی گنجائش 

بحوث في قضايا فقهية معاصرة (ص: 363):
أما الأموال المودعة في المصارف الإسلامية، فإن ما أودع في حساباتها الجارية، فإنه ينطبق عليه ما ذكرنا في الحسابات الجارية للبنوك التقليدية سواء بسواء، فهي قروض قدمها أصحابها إلى البنك، وهي مضمونة عليه، وتجري عليها جميع أحكام القرض: ولكن يختلف تكييف الودائع الثابتة وحسابات التوفير في البنوك الإسلامية من تكييفها في البنوك التقليدية، فإن هذه الودائع قروض أيضا في البنوك التقليدية قدمت إليها على أساس الفائدة الربوية، ولكن البنوك الإسلامية لا تعمل على أساس الفائدة الربوية، بل إنما تقبل هذه الودائع على أن يشاركها أصحابها في ربحها إن كان هناك ربح، فليست هذه الودائع في البنوك الإسلامية قروضا، وإنما هي رأس مال في المضاربة، وإنها تستحق حصة مشاعة من ربح البنك، وتحتمل حصة مشاعة من الخسران إن كان هناك خسران، وليست مضمونة على البنك، فلا يضمن البنك أصلها ولا ربحها، إلا إذا حصل هناك تعد من قبل البنك، فإنه يضمن بقدر التعدي.

کاروبار بہتر ہے یا ملازمت

  اسلام نے انسان کو رزق حلال کے حصول میں کسی خاص ذریعہ معاش کو اختیار کرنے کا پابند نہیں بنایا، ہاں اس کا پابند بنایا ہے کہ جو بھی ذریعہ معاش اختیار کیا جائے وہ حلال اور جائز ہو، چاہے وہ ملازمت ہو، یا کوئی بھی جائز کاروبارہو، حلال ذریعہ معاش اور روزگار کو اسلام نے عبادت قرار دیا ہے،لہذا اگر کاروبار مشتمل برمنافع ہو تو اسی کو اختیار کرنا چاہیے، اور نفع بخش کاروبار نہ ہو تو اچھی سی نوکری بھی کی جاسکتی ہے، باقی کاروبار میں جو برکت ہے وہ ملازمت میں نہیں ہے۔

الترغيب والترہيب للمنذری میں ہے:

"عن ابن عمر رضي الله عنهما عن النبيِّ صلى الله عليه وسلم قال: إن الله يحبُّ المؤمن المحترف . رواه الطبراني في الكبير والبيهقي".

(كتاب البيوع وغيرها الترغيب في الاكتساب بالبيع وغيره، رقم الحدیث:2611، ج:2، ص:335، ط:دارالکتب العلمیۃ)

ترجمہ:’’ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلاشبہ اللہ تعالیٰ پسند فرماتے ہیں ایسے مومن کو جو اپنے اہل وعیال کے لئے کمائے۔‘‘

وفیہ ایضاً:

"وعن كعب بن عجرة رضي الله عنه قال مر على النبي صلى الله عليه وسلم رجل فرأى أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم من جلده ونشاطه فقالوا يا رسول الله لو كان هذا في سبيل الله فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم إن كان خرج يسعى على ولده صغارا فهو في سبيل الله وإن كان خرج يسعى على أبوين شيخين كبيرين فهو في سبيل الله وإن كان خرج يسعى على نفسه يعفها فهو في سبيل الله وإن كان خرج يسعى رياء ومفاخرة فهو في سبيل الشيطان رواه الطبراني".

(كتاب البيوع وغيرها الترغيب في الاكتساب بالبيع وغيره، رقم الحدیث:2610، ج:2، ص:335، ط:دارالکتب العلمیۃ)

ترجمہ:’’ حضرتِ کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص کا گزر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہوا تو اس نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو دیکھا، تو فرمایا کہ اے اللہ کے رسول کیا یہ لوگ اللہ کے راستے میں ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اپنے چھوٹے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے محنت مشقت کرتا ہے وہ اللہ کے راستے میں ہے اور جو شخص اپنے بوڑھے والدین کا پیٹ پالنے کے لیے محنت کرتا ہے وہ اللہ کے راستے میں ہے اور جو شخص اپنا پیٹ پالنے کے لیے محنت کرتاهے  وہ حلال کماتا ہے؛ تاکہ کسی کے سامنے دستِ سوال دراز کرنے سے اپنے آپ کو بچائے تو وہ بھی اللہ کے راستے میں ہے، اور جو شخص لوگوں کے دکھلاوے اور فخر کے لئے محنت کرتا ہے، وہ شیطان کے راستے پر ہے۔‘


Saturday 6 July 2024

مصیبت پر صبر کا اجر

 نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاارشاد ہے:( مَا یُصِیْبُ الْمُسْلِمُ مِنْ نَصَبٍ وَلَا وَصَبٍ وَلَا ھَمٍّ وَلَا حَزَنٍ وَلَا أَذًی وَلَا غَمٍّ ... حَتّٰی الشَّوْکَۃِ یُشَاکُھَا ... إِلاَّ کَفَّرَ اللّٰہُ بِھَا مِنْ خَطَایَاہُ۔ ))1

'' مسلمان کو کوئی بھی دکھ و تکلیف و رنج و غم آئے یا صدمہ پہنچے یہاں تک کہ ایک کانٹا بھی اگر چبھے ہر دکھ کے بدلے اللہ تعالیٰ اس کے گناہ مٹا دیتا ہے۔ ''
نیز رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ رضی اللہ عنہ ، قَالَ: أَتَیْتُ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم فِیْ مَرَضِہِ وَھُوَ یُوْعَکُ وَعْکًا شَدِیْدًا فَقُلْتُ: إِنَّکَ لَتُوْعَکُ وَعْکًا شَدِیْدًا، قُلْتُ: إِنَّ ذَاکَ بِأَنَّ لَکَ أَجْرَیْنِ، قَالَ: أَجَلْ مَا مِنْ مُسْلِمٍ یَصِیْبُہُ أَذًی إِلاَّ حَاتَّ اللّٰہُ عَنْہُ خَطَایَاہُ کَمَا تَحَاتُّ وَرَقُ الشَّجَرِ۔ ))2
''عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آپ کی بیماری کی حالت میں گیا (بیمار پرسی کے لیے) ۔ آپ کو شدید بخار تھا۔ میں نے عرض کیا: بے شک آپ تو شدید بخار میں مبتلا ہیں۔ اورمیں نے کہا اگر ایسی حالت ہے تو پھر آپ کے لیے اجر بھی دوہرا ہوگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''کیوں نہیں'' جس مسلمان کو بھی کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو جیسے درخت کے پتے جھڑتے ہیں ایسے اللہ تعالیٰ اس کے گناہ جھاڑتا ہے۔ ''
ان احادیث میں ہر مومن کے لیے بشارت ہے کیونکہ اکثر اوقات انسان مذکورہ تکالیف میں سے کسی نہ کسی میں ضرور مبتلا ہوتا ہے، تو معلوم ہوا کہ امراض و تکالیف بدنی ہوں یا قلبی ان کی وجہ سے گناہ معاف ہوتے ہیں۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 أخرجہ البخاري في کتاب المرضی، باب: ما جاء في کفارۃ المرض، رقم: ۵۶۴۱، ۵۶۴۲۔
2 أخرجہ البخاري في کتاب المرضی، باب: شدۃ المرض، رقم: ۵۶۴۷۔

بینک سے ملنے والے سود کا مصرف

 ہاوٴس ٹیکس، بجلی بل شرعاً جائز ٹیکس ہیں، غیر شرعی ٹیکس نہیں ہیں ؛ اس لیے سرکاری بینک کا سود ہاوٴس ٹیکس اور بجلی بل میں بھرنا درست نہیں، یہ سودی رقم ذاتی استعمال میں لانے کے حکم ہے، البتہ انکم ٹیکس، سیل ٹیکس اور ویٹ ٹیکس وغیرہ میں بھر سکتے ہیں؛ کیوں کہ یہ سب ناجائز وغیر شرعی ٹیکس ہیں۔ اورجائز اور ناجائز ٹیکس کا معیار یہ ہے کہ جس ٹیکس میں ٹیکس دینے والے کو کوئی قابل ذکر نفع حاصل ہوتا ہے وہ جائز ٹیکس ہے اور جس میں ٹیکس دینے والے کو کوئی قابل ذکر نفع حاصل نہیں ہوتا وہ ناجائز ٹیکس ہے، اور ہاوٴس ٹیکس اور بجلی بل جائز ٹیکس اس لیے ہیں کہ نگر پالیکا محلہ میں گلیوں کی صفائی اور پانی سپلائی وغیرہ کا کام کرتا ہے اور سرکار بجلی کے عوض بجلی کا بل وصول کرتی ہے ، ویردونہا علی أربابہا إن عرفوہم، وإلا تصدقوا بہا؛ لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق إذا تعذر الرد علی صاحبہ (شامی ۹: ۵۵۳، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند) ، قال شیخنا: ویستفاد من کتب فقہائنا کالہدایة وغیرہا: أن من ملک بملک خبیث، ولم یمکنہ الرد إلی المالک، فسبیلہ التصدقُ علی الفقراء… …، قال: والظاھر إن المتصدق بمثلہ ینبغي أن ینوي بہ فراغ ذمتہ، ولا یرجو بہ المثوبة (معارف السنن، أبواب الطہارة، باب ما جاء: لا تقبل صلاة بغیر طہور، ۱: ۳۴، مطبوعہ: مکتبہ اشرفیہ دیوبند) ۔ ویبرأ بردھا ولو بغیر علم المالک، فی البزازیة: غصب دراہم إنسان من کیسہ، ثم ردہا فیہ بلا علمہ برئ، وکذا لو سلمہ إلیہ بجہة أخریٰ کہبة وإیداع وشراء، وکذا لو أطعمہ فأکلہ، …، زیلعي (در مختار مع شامی ۹: ۲۶۶، ۲۶۷) ۔

قرآن مجید کو بھلا دینے پر وعید

      قرآنِ کریم کو یادکرنے کے بعد جان بوجھ کر بھلادینا انتہائی سخت گناہ ہے، اورایسےشخص کے بارے میں حدیث شریف میں سخت وعیدیں آئی ہیں، چنانچہ مشکوۃ شریف کی روایت میں ہے:

"عن سعد بن عبادة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: "ما من امرئ يقرأ القرآن ثم ينساه إلا لقي الله يوم القيامة أجذم" . رواه أبو داود والدارمي".

ترجمہ: حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو شخص قرآنِ  کریم پڑھ کر بھول جائے تو وہ قیامت کے دن اللہ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اس کا ہاتھ کٹا ہوا/کوڑھی ہونے کی حالت میں  ہو گا۔

نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ مجھ پر امت کے گناہ پیش کئے گئے میں نے اس سے بڑھ کر کوئی گناہ نہیں پایا کہ کوئی شخص قرآن شریف یاد کرنے کے بعد اُسے بھلا دے۔ (الترغیب والترہیب: ج۲، ص۳۵۹)-
دوسری جگہ ارشاد ہے کہ جو شخص قرآن شریف پڑھ کر بھلادے قیامت کے دن اللہ کے دربار میں کوڑھی حاضر ہوگا۔ جیسا کہ اوپر گزرا (نابینا کی روایت میرے علم میں نہیں)اھ (الترغیب والترہیب: ج۲، ص۳۵۹)-
لہٰذا شخصِ مذکور پر لازم ہے کہ اُسے جتنا قرآن بھول چکا ہے اُسے دوبارہ نئے سرے سے یاد کرنے کی بھرپور کوشش کرے چاہے تھوڑا تھوڑا کرکے ہی کیوں نہ ہو اور اب تک جو سستی ہوئی ہے اس پر صدقِ دل سے توبہ واستغفار بھی کرے۔

      جوشخص اپنی غفلت اور لاپرواہی کی وجہ سے قرآنِ  کریم اتنا بھول جائے کہ بالکل نہ پڑھ سکے وہ اس وعید میں شامل ہے، اورجو شخص مسلسل اپنی محنت اور عزم سے قرآن کریم کو یادکرتا رہے  اور حافظہ کی کم زوری کی وجہ سے اگر پختگی مضبوط نہ رہ سکی تو امید ہے کہ ان شاء اللہ اس وعید سے محفوظ رہے گا

اوکٹا یااولیمپ پےٹریڈ کاحکم

 octafx اور  olymp  وغیرہ کے ذریعے آن لائن ٹریڈنگ کی جاتی ہے، ان میں ٹریڈنگ کے لیے  اکاؤنٹ میں پیسے جمع کر کے اسے آن لائن کرنسی یا الیکٹرانک منی میں تبدیل کر کے کرنسی کی خرید و فروخت کرتے ہیں، اس کے ذریعے پیسے کمانا درج ذیل وجوہات کی بنا پر ناجائز ہے:

(1)  کرنسی کی بیع شرعاً "بیعِ صرف" ہے، جس  میں بدلین پر مجلس میں قبضہ ضروری ہے جب کہ دونوں جانب سے یا کسی ایک جانب سے ادھار ناجائز ہے،لہذا اسپاٹ ٹریڈ ہو یا فیوچر ٹریڈ، ایسے تمام سودے ناجائز ہیں  جن میں کرنسی کی خریدوفروخت ادھار ہوتی ہے، یا نقد ہوتی ہے مگر عقد کے دونوں فریق  یا کوئی ایک فریق اپنے حق پر قبضہ نہیں کرتا۔ حاصل یہ ہے کہ  تقابض نہ پائےجانے کی وجہ سے ایسے سودے فاسد ہوں گے اور نفع حلال نہ ہوگا۔

(2) مسلمہ (طے شدہ) اصول ہے کہ بیع شرطِ فاسد  سے فاسد ہو جاتی ہے،ان پلیٹ فارم کے ذریعے بڑے پیمانے پر فاریکس ٹریڈنگ ہوتی ہے "فاریکس" کے کاروبار میں شروطِ فاسدہ بھی لگائی جاتی ہیں، مثلاً swaps( بیع بشرط الاقالہ) میں یہ شرط لگانا کہ ایک مقررہ مدت کے بعد بیع کو  ختم کیا جائے گا، حال آں کہ بیع تام ہو جانے بعد لازم ہوجاتی ہے اور جانبین کا اختیار ختم ہو جاتا ہے۔ 

(3) نیز Options میں خریدار کو یہ حق دینا کہ وہ اپنی بیع کو  سامنے والے فریق کی رضا مندی کے بغیر بھی "اقالہ" کرسکتا ہے۔ یہ بھی شرطِ فاسد ہے، کیوں کہ "اقالہ" میں جانبین کی رضامندی شرط  ہوتی ہے۔

(4) اس میں فیوچر سیل بھی ناجائز ہے؛ کیوں کہ  بیع  کا فوری ہوناضروری ہے،مستقبل کی تاریخ پر خریدوفروخت ناجائز ہے۔

(5) اس  طریقہ کاروبار میں ایک قباحت "بیع قبل القبض" کی بھی ہے؛ کیوں کہ ستر ،اسی فیصد لوگ اس مارکیٹ میں خریداری محض کرنسی ریٹ کےاتارچڑہاؤ کے ذریعہ نفع حاصل کرنے کےلیے کرتے ہیں، ان کا مقصد کرنسی حاصل کرنا نہیں ہوتا؛ لہذا اکثر خریدارکرنسی کا قبضہ حاصل نہیں کرتے اور آگے بیچ دیتے ہیں۔

امتحان سے بچی ہوئی رقم کالوٹانا

 طلبہ سے امتحاني فيس کے نام سے جو رقم لی جاتی ہے،وہ امتحان کے متعلق کاموں میں استعمال کرنا ضروری ہے،اگر امتحان کے بعد  کچھ رقم بچ جائے،تو علی الحساب هر طالب علم كو  رقم واپس  لوٹانا ضروری ہے، تاہم ا گر امتحانی فیس  کے نام سے رقم لیتے وقت اگر طلبہ سے اجازت لے لی جائے کہ بچ جانے والی رقم ادارہ اپنی صواب دید پر مدرسہ کی دیگر  ضروریات اور مصارف میں خرچ کرے گا،تو یہ اجازت معتبر ہوگی،اس کے بعد بچ جانے والی رقم کو مدرسہ کی دیگر  ضروریات میں خرچ کرنا جائز ہوگا، تاہم  نابالغ طالب علم  کی فیس اگر اس کے مال سے دی جاتی ہو تو  اس  میں سے بچی ہوئی رقم واپس کرنا ضروری  ہوگا؛ کیوں کہ  نابالغ ہبہ کرنا کا اہل نہیں ہوتا،اگر چہ ولی اس کی اجازت دے۔

مشکوٰۃ المصابیح میں ہے:

"وعن أبي حرة الرقاشي عن عمه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «‌ألا لا ‌تظلموا ‌ألا ‌لا يحل مال امرئ ‌إلا بطيب نفس منه. رواه البيهقي في شعب الإيمان والدارقطني في المجتبى."

(289/2، ط :المكتب الإسلامي - بيروت

فتاوی شامی میں ہے:

"(وتصرف الصبي والمعتوه) الذي يعقل البيع والشراء (إن كان نافعا) محضا (كالإسلام والاتهاب صح بلا إذن وإن ضارا كالطلاق والعتاق) والصدقة والقرض (لا).

(قوله والاتهاب) أي قبول الهبة وقبضها وكذا الصدقة قهستاني (قوله وإن ضارا) أي من كل وجه أي ضررا دنيويا، وإن كان فيه نفع أخروي كالصدقة والقرض (قوله كالطلاق والعتاق) ولو على مال فإنهما وضعا لإزالة الملك وهي ضرر محض، ولا يضر سقوط النفقة بالأول وحصول الثواب بالثاني، وغير ذلك مما لم يوضعا له إذ الاعتبار للوضع وكذا الهبة والصدقة وغيرهما قهستاني (قوله: لا وإن أذن به وليهما) لاشتراط الأهلية الكاملة، وكذا لو أجازه بعد بلوغه إلا إذا كانت بلفظ يصلح لابتداء العقد كأوقعت الطلاق أو العتاق، وكذا لا تصح من غيره كأبيه ووصيه والقاضي للضرر."

(‌‌كتاب المأذون، 173/6، ط: سعید)

سوشل میڈیا پرمخصوص فالوورزکی مقداپررقم کاملنا

 انسٹاگرام یا کسی بھی سوشل میڈیا(یوٹیوب، فیسبوک وغیرہ) کی آمدنی ناجائز ہے؛ کیوں کہ انسٹاگرام یا کسی بھی سوشل میڈیا(یوٹیوب، فیسبوک وغیرہ) کے استعمال کرنے میں بہت ساری غیر شرعی چیزوں کا ارتکاب کیا جاتاہے، مثلاً   جان د ار  کی تصویر یا جاندار کی ویڈیو ،یامیوزک وموسیقی والی ویڈیو اپ لوڈ کی جاتی ہےاورغیر شرعی  اشتہار کا شیئر کیا جاتاہے، نیز اگر صرف تاریخی مساجد کی تصاویر   اور اسلامی معلومات شیئر کی جاتی ہوں  تب  بھی، انسٹاگرام ، یوٹیوب وغیرہ کی طرف سے لگائے جانے والے  اشتہار میں مذکورہ خرابیاں پائی جاتی ہیں۔

لہٰذا سوشل میڈیا  پر چینل/پیج بنا کر اسے کمائی کا ذریعہ بنانا جائز نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"‌وظاهر ‌كلام ‌النووي في شرح مسلم الإجماع على تحريم تصوير الحيوان، وقال: وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره، فصنعته حرام بكل حال لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى، وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم وإناء وحائط وغيرها اهـ فينبغي أن يكون حراما لا مكروها إن ثبت الإجماع أو قطعية الدليل بتواتره اهـ كلام البحر ملخصا."

[كتاب الصلاة، باب مايفسد الصلاة، ج:1، ص:647، ط:سعيد]

مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر:

" لايجوز أخذ الأجرة على المعاصي (كالغناء، والنوح، والملاهي)؛ لأن المعصية لايتصور استحقاقها بالعقد فلايجب عليه الأجر، وإن أعطاه الأجر وقبضه لايحل له ويجب عليه رده على صاحبه. وفي المحيط: إذا أخذ المال من غير شرط يباح له؛ لأنه عن طوع من غير عقد. وفي شرح الكافي: لايجوز الإجارة على شيء من الغناء والنوح، والمزامير، والطبل أو شيء من اللهو ولا على قراءة الشعر ولا أجر في ذلك. وفي الولوالجي: رجل استأجر رجلاً ليضرب له الطبل إن كان للهو لايجوز، وإن كان للغزو أو القافلة أو العرس يجوز؛ لأنه مباح فيها."

[كتاب الإجارة، باب الإجارة الفاسدة،ج:2، ص:364، ط:دار إحياء التراث العربي]

فتاوی رحیمیہ میں ہے:

"ذی روح اور غیر ذ ی روح اشیاء میں وہ چیز جس کی پرستش کی جاتی ہو(جیسا کہ صلیب) اس کی تصویر بنانی جائز نہیں۔"

(کتاب الحظر والاباحہ، ج:۱۰، ص:۱۴۶، ط:دار الاشاعت

ادھار سونے کی خریدوفروخت

 واضح رہے کہ سونے کے زیورات  سونے یانقدرقم کے بدلے میں بیچنابیع صرف کہلاتی ہے،اور بیع صرف کےجائز ہونے کے لیے شرط یہ ہےکہ دونوں طرف سے معاملہ نقد ہو،یعنی ایک ہاتھ سے سونے کے زیورات دے جائیں اور دوسرے ہاتھ سے سونا یا نقدرقم لی جائے، کسی بھی جانب  سے ادھار، رباکے دائرے میں آنےکی وجہ سے ناجائزوحرام ہے  ۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل کاگھروالوں کو سوناادھار بیچنااور قسط وار خریدناناجائزوحرام ہے۔

جائز صور ت یہ ہوسکتی ہے کہ سونا گھر والوں کو قرض دے دیا جائے پھر سونے  کے بدلے ان سے  نقدی میں اپنا قرض وصول کرلیا جائے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(هو) لغة الزيادة. وشرعا (بيع الثمن بالثمن) أي ما خلق للثمنية ومنه المصوغ (جنسا بجنس أو بغير جنس) كذهب بفضة (ويشترط) عدم التأجيل والخيار و (التماثل) ۔"

(کتاب البیوع ،باب الصرف، 257/5، ط، دار الفکر)

تعلیمی اداروں میں چھٹیوں کی فیس لینا

 تعلیمی ادارے میں چھٹیوں کے ایام ،تعلیمی ایام کے تابع ہوتے ہیں ؛لہذا صورت ِ مسئولہ میں اسکولز میں دوماہ کی چھٹیوں کی فیس لینا  شرعاً جائز ہے ،اس لیے کہ یہ ایام، تعلیمی ایام کے تابع ہیں  اور اسکول میں بچوں کو داخل کراتے وقت دونوں فریق کو اس کا علم بھی ہوتا ہے اس لیےعرف کی بناء پر بھی  اسکول والوں کا تعطیلات کے ایــام کی فیس لینا جائز ہے۔

فتاوی شامی میں ہے :

"مطلب في استحقاق القاضي والمدرس الوظيفة في يوم ‌البطالة

(قوله: وينبغي إلحاقه ببطالة القاضي إلخ) قال في الأشباه وقد اختلفوا في أخذ القاضي ما رتب له في بيت المال في يوم بطالته، فقال في المحيط: إنه يأخذ لأنه يستريح لليوم الثاني وقيل لا. اهـ. وفي المنية القاضي يستحق الكفاية من بيت المال في يوم ‌البطالة في الأصح، وفي الوهبانية أنه أظهر فينبغي أن يكون كذلك في المدرس؛ لأن يوم ‌البطالة للاستراحة، وفي الحقيقة تكون للمطالعة والتحرير عند ذوي الهمة، ولكن تعارف الفقهاء في زماننا بطالة طويلة أدت إلى أن صار الغالب ‌البطالة، وأيام التدريس قليلة اهـ ورده البيري بما في القنية إن كان الواقف قدر للدرس لكل يوم مبلغا فلم يدرس يوم الجمعة أو الثلاثاء لا يحل له أن يأخذ ويصرف أجر هذين اليومين إلى مصارف المدرسة من المرمة وغيرها بخلاف ما إذا لم يقدر لكل يوم مبلغا، فإنه يحل له الأخذ وإن لم يدرس فيهما للعرف، بخلاف غيرهما من أيام الأسبوع حيث لا يحل له أخذ الأجر عن يوم لم يدرس فيه مطلقا سواء قدر له أجر كل يوم أو لا. اهـ. ط قلت: هذا ظاهر فيما إذا قدر لكل يوم درس فيه مبلغا أما لو قال يعطى المدرس كل يوم كذا فينبغي أن يعطى ليوم ‌البطالة المتعارفة بقرينة ما ذكره في مقابله من البناء على العرف، فحيث كانت ‌البطالة معروفة في يوم الثلاثاء والجمعة وفي رمضان والعيدين يحل الأخذ، وكذا لو بطل في يوم غير معتاد لتحرير درس إلا إذا نص الواقف على تقييد الدفع باليوم الذي يدرس فيه كما قلنا. وفي الفصل الثامن عشر من التتارخانية قال الفقيه أبو الليث ومن يأخذ الأجر من طلبة العلم في يوم لا درس فيه أرجو أن يكون جائزا وفي الحاوي إذا كان مشتغلا بالكتابة والتدريس. اهـ. (قوله: وسيجيء) أي عن نظم الوهبانية بعد قوله مات المؤذن والإمام."

(کتاب الوقف،ج:4،ص:373،سعید)

دوا کمپنی سے اپنی دوکان میں کام کرانا

 اگر میڈیسن کمپنیوں کے نمائندے اپنی ادویات متعارف کروانے کے لیے ڈاکٹر حضرات سے ملتے ہیں اور بغیر کسی شرط کے محض وقت دینے پر ان کا شکریہ ادا کرنے کے لیے کوئی تحفہ دیتے ہیں تو ڈاکٹر حضرات کے لیے مندرجہ ذیل شرائط کا لحاظ رکھتے ہوئے کمپنیوں کی طرف سے ملنے والے تحائف یا کمیشن کا استعمال جائز ہے :

1۔  دوا تجویز کرتے وقت مریض کی مصلحت اور خیر خواہی کو مدنظر رکھا جائے۔

2۔  محض کمیشن، تحائف اور مراعات و سہولیات حاصل کرنے کی خاطر غیر معیاری و غیر ضروری ادویات تجویز نہ کی جائیں۔

3 ۔  کسی دوسری کمپنی کی دوا مریض کے لیے زیادہ مفید ہونے کے باوجود خاص اسی کمپنی ہی کی دوائی تجویز نہ کی جائے۔

4 ۔  دوا ساز کمپنیاں ڈاکٹر کو دیے جانے والے کمیشن، تحفہ اور مراعات کا خرچہ دوائیاں مہنگی کرکے مریض سے وصول نہ کریں، یا خرچہ وصول کرنے کے لیے دوائیوں کے معیار میں کمی نہ کریں۔

اگر ان شرائط کا لحاظ رکھا جائے تو تحائف کا لین دین کمپنی اور ڈاکٹرز کے لیے جائز ہے،لیکن اگر اِن شرائط کا لحاظ نہیں رکھاجاتا ہےاور یہ تحائف، نقد رقم یا دیگر سہولیات اس شرط کے ساتھ دی جاتی ہیں کہ مریضوں کو اسی مخصوص کمپنی کی ادویات تجویز کی جائیں گی اگر چہ اُن کے لیے کسی اور کمپنی کی ادویات زیادہ مفیدہوں،یا محض کمیشن اور تحائف کے خاطر مریضوں کے لیے  غیر معیاری و غیر ضروری ادویات تجویز کی جاتی ہیں تو ایسی صورت میں یہ  رشوت اور خیانت  کا معاملہ ہے جو کہ ناجائز اور حرام ہے۔

 چونکہ کمپنی والوں نے  دکان میں رنگ  وغیرہ کرانے کے بدلےدوائی مہنگی کرنے کی شرط   لگائی ہے ،اور کلینک کا خرچہ اس طرح مریضوں سے وصول کیا جائے گا اس لیے اس شرط پر ڈاکٹر کا کمپنی سے   مذکورہ معاملہ جائز نہیں ہے ۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"رجل اشترى أنزال كرم بشرط أن يبني البائع حيطانه فسد البيع."

(فتاوی ہندیہ، ج:3 ، ص:136،ط: دارالفکر )

فتاوی شامی  میں ہے:

"ولا بیع  بشرط لا یقتضیه العقد ولایلائمه  وفیہ نفع لاحدھما اوالمبیع."

(شامی باب البیع الفاسد،  ج:5،  ص: 84، ط:سعید)

البحر الرائق میں ہے:

"وفي المصباح الرشوة بكسر الراء ما يعطيه الشخص للحاكم وغيره ‌ليحكم ‌له أو يحمله على ما يريد."

(كتاب القضاء، أخذ القضاء بالرشوة، 285/6، ط: دار الكتاب الإسلامي