https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Tuesday 16 July 2024

خشک پیشاب کا حکم

 اگر پیشاب کسی زمین پر گرا ہو اور وہ زمین خشک ہو جائے تو وہ  زمین خشک ہونے اور نجاست کا اثر باقی نہ رہنے کی صورت میں بغیر دھوئے پاک ہوجائے گی،  اس پر نماز پڑھنا تو جائز ہوگا لیکن پانی سے دھوئے بغیر اس پر  تیمم نہیں کیا جاسکتا۔ 

احتیاط یہ ہے کہ اس زمین یا فرش کو پاک کر لیا جائے، اسے پاک کرنے کے دو طریقے ہیں:

1۔ ا س پر پانی ڈال کر صاف کیا جائے، پھر  کپڑے سے خشک کرلیا جائے، اس طرح تین مرتبہ کرنے سے وہ پاک ہوجائے گا۔

2۔ مذکورہ فرش پر اتنی وافر مقدار میں پانی ڈال کر بہا دیا جائے کہ اس پر نجاست کا کوئی اثر باقی نہ رہے اور پھر وہ خشک ہوجائے تو اس طرح بھی وہ پاک ہوجائے گا۔

وفي الهندیة(۴۳/۱) :

" الأرض إذا تنجست ببول واحتاج الناس إلی غسلها، فإن کانت رخوةً یصب الماء علیها ثلاثاً فتطهر، وإن کانت صلبةً قالوا: یصب الماء علیها وتدلك ثم تنشف بصوف أوخرقة، یفعل کذلك ثلاث مرات فتطهر، وإن صب علیها ماء کثیر حتی تفرقت النجاسة ولم یبق ریحها ولا لونها وترکت حتی جفت تطهر، کذا في فتاویٰ قاضی خان".

" البول إذا أصاب الأرض واحتیج إلی الغسل یصب الماء علیه ثم یدلك وینشف ذلك بصوف أو خرقة فإذا فعل ذلك ثلاثاً طهر، وإن لم یفعل ذلك ولكن صب علیه ماء کثیر حتی عرف أنه زالت النجاسة ولایوجد في ذلك لون ولا ریح، ثم ترک حتی نشفته الأرض کان طاهراً". (المحیط البرهاني۱؍۳۸۲)

البحرالرائق میں ہے:

’’وإن كان اللبن مفروشاً فجف قبل أن يقلع طهر بمنزلة الحيطان، وفي النهاية: إن كانت الآجرة مفروشةً في الأرض فحكمها حكم الأرض، وإن كانت موضوعةً تنقل وتحول، فإن كانت النجاسة على الجانب الذي يلي الأرض جازت الصلاة عليها، وإن كانت النجاسة على الجانب الذي قام عليه المصلي لاتجوز صلاته‘‘. (1/235)

حاشیة الطحطاوي علی مراقي الفلاح  میں ہے:

’’ والمراد بالأرض مايشمله اسم الأرض، كالحجر والحصى والآجر واللبن ونحوها، إذا كانت متداخلةً في الأرض غير منفصلة عنها‘‘. (حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح، كتاب الطهارة، باب الأنجاس والطهارة عنها، (1/231) ط: غوثيه) 

Monday 15 July 2024

روپے کے بدلے ڈالرکی ادھار خریدوفروخت

 کرنسی کے بدلے کرنسی کی جو بیع  ہوتی ہے اس کی حیثیت بیع صرف کی ہے، اس لیے اس طرح کی بیع میں ادھار جائز نہیں ہے، بلکہ ضروری ہے کہ سودا نقد کیا جائے اور مجلس عقد میں ہی ہاتھ کے ہاتھ  جانبین سے عوضین پر قبضہ بھی ہوجائے ،ورنہ بیع باطل  ہوجائے گی،اسی طرح  ڈالر کی اد ھار خرید و فروخت کرنا جائز نہیں،یعنی جب ڈالر خریدا جائے تو اسی مجلس میں ڈالر پر قبضہ کرلیا جائے اور ساتھ ہی اس کی رقم بھی بیچنے والے کے حوالے کردی جائےاور جب اس کو بیچا جائے تو اسی وقت اس کی قیمت پر قبضہ کرنے کے ساتھ ساتھ ڈالر بھی خریدار کو حوالہ کردیا جائے،بصورتِ دیگر یہ معاملہ سودی ہوجانے کی وجہ سے جائز نہ ہوگا


"الفتاوى الهندية"میں ہے:

"(وأما شرائطه) فمنها قبض البدلين قبل الافتراق كذا في البدائع سواء كانا يتعينان كالمصوغ أو لا يتعينان كالمضروب أو يتعين أحدهما ولا يتعين الآخر كذا في الهداية."

(کتاب الصرف،الباب الأول، ،ج:٣، ص:٢١٧، ط:دار الفكر،بيروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"(هو) لغةً: الزيادة. وشرعاً: (بيع الثمن بالثمن) أي ما خلق للثمنية ومنه المصوغ (جنساً بجنس أو بغير جنس) كذهب بفضة، (ويشترط) عدم التأجيل والخيار و (التماثل) أي التساوي وزناً، (والتقابض) بالبراجم لا بالتخلية (قبل الافتراق)، وهو شرط بقائه صحيحاً على الصحيح، (إن اتحد جنساً وإن) وصلية (اختلفا جودةً وصياغةً) ؛ لما مر في الربا (وإلا) بأن لم يتجانسا (شرط التقابض) لحرمة النساء، (فلو باع) النقدين (أحدهما بالآخر جزافاً أو بفضل وتقابضا فيه) أي المجلس (صح)".

(باب الصرف، ج: 5، ص: 257 - 259،  ط: سعيد)

چار رکعت والی نماز میں پانچویں کے لیے کھڑا ہونے کی صورت میں نماز کا حکم

 صورتِ مسئولہ میں  مذکورہ شخص  اگر  فرض نماز پڑھ رہا تھا اور چوتھی رکعت کے قعدہ میں بیٹھا تھا اور اس کے بعد  پانچویں رکعت کے لیے غلطی سے کھڑا ہوگیا تو  جب تک  وہ پانچویں رکعت کا سجدہ  نہ کرلے  قعدہ  کی طرف  واپس لوٹ آئے  اور سجدہ سہو کرکے نماز مکمل کرلے، اور اگر  پانچویں رکعت کا سجدہ کرلیا ہو تو اب اس کے ساتھ چھٹی رکعت بھی ملادے اور آخر میں سجدہ سہو کرلینے سے نماز ہوجائے گی، چار رکعت فرض اور دو نفل ہوجائے گی۔

اور اگر مذکورہ شخص نے  چوتھی رکعت پر قعدہ  نہیں کیا تھا اور اس کے بعد پانچویں رکعت کے لیے کھڑا ہوگیا تو پانچویں رکعت کے سجدہ سے پہلے پہلے واپس قعدہ میں آجائے، اور سجدہ سہو کرکے نماز  مکمل کرلے، اور اگر پانچویں رکعت کا سجدہ بھی کرلیا ہو تو اب اس کی فرض نماز باطل ہوگئی،  اب اس نماز کا اعادہ کرنا لازم ہے۔ 

الفتاوى الهندية (1/ 129):
’’رجل صلى الظهر خمساً وقعد في الرابعة قدر التشهد إن تذكر قبل أن يقيد الخامسة بالسجدة أنها الخامسة عاد إلى القعدة وسلم، كذا في المحيط. ويسجد للسهو، كذا في السراج الوهاج. وإن تذكر بعدما قيد الخامسة بالسجدة أنها الخامسة لا يعود إلى القعدة ولا يسلم، بل يضيف إليها ركعةً أخرى حتى يصير شفعاً ويتشهد ويسلم، هكذا في المحيط. ويسجد للسهو استحساناً، كذا في الهداية. وهو المختار، كذا في الكفاية. ثم يتشهد ويسلم، كذا في المحيط. والركعتان نافلة ولا تنوبان عن سنة الظهر على الصحيح، كذا في الجوهرة النيرة ... وإن لم يقعد على رأس الرابعة حتى قام إلى الخامسة إن تذكر قبل أن يقيد الخامسة بالسجدة عاد إلى القعدة، هكذا في المحيط. وفي الخلاصة: ويتشهد ويسلم ويسجد للسهو، كذا في التتارخانية. وإن قيد الخامسة بالسجدة فسد ظهره عندنا، كذا في المحيط‘‘

Sunday 14 July 2024

تقسیم ترکہ تین بیٹی اور پانچ بیٹوں کے مابین

 صورتِ مسئولہ میں اگر مرحوم کے ورثاء میں صرف تین بیٹی او ر پانچ بیٹے ہیں، اور اس کے علاوہ کوئی وارث نہیں ہے ، تو اس صورت میں مرحوم کے ترکہ کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے مرحوم کے حقوقِ متقدمہ  علی الارث یعنی تجہیز وتکفین کاخرچہ ادا کرنے کے بعد، مرحوم کےذمہ اگر کوئی قرض ہوتواسے ادا کرنے کے بعد، مرحوم نے اگر کوئی جائز وصیت کی ہو تو اسے ترکہ کے ایک تہائی میں نافذ کرنے کےبعد باقی کل ترکہ منقولہ وغیر منقولہ کو (13)حصوں میں تقسیم کرکے مرحوم کے تینوں بیٹوں میں سے ہر ایک بیٹے کو دو-دو  حصے اور مرحوم کی تین بیٹیوں میں سے ہرایک بیٹی کو ایک- ایک حصہ ملے گا۔

صورت تقسیم یہ ہے:

میت:13

بیٹابیٹابیٹابیٹابیٹیبیٹیبیٹی
22
22111

بیٹا(2)

فإن الأصل في تقسيم الميراث بين الأبناء والبنات أن يعطى الذكر ضعف الأنثى، كما يدل له قوله تعالى: يوصيكم الله في أولادكم للذكر مثل حظ الأنثيين {النساء:11}

جس بیٹے کا انتقال والدکی زندگی میں ہوگیا اسے وراثت میں کویی حصہ نہیں ملے گا ۔

الموسوعۃ الفقھیۃالکویتیۃ میں ہے:

"(وللإرث ‌شروط ‌ثلاثة) :۔۔۔۔۔۔۔ ثانيها: تحقق حياة الوارث بعد موت المورث."

(شروط المیراث، ج:3،ص:22،ط:دار السلاسل)

Saturday 13 July 2024

گروی رکھنے

 ۔واضح رہے کہ گروی "رہن"  کا  شرعی  حکم یہ  ہے کہ  ضرورت  کی  وجہ  سے کسی قرض کے  مقابلے میں "رہن" لینا اور دینا درست ہے، لیکن رہن میں رکھی جانے والی چیز  کی حیثیت محض ضمانت کی ہوتی ہے، اور رہن (گروی) رکھی ہوئی چیز  اس کے اصل مالک  ہی کی  ملک  میں  رہتی ہے،  اور  مرتہن  (جس کے پاس چیز گروی رکھی ہو) کے لیے شرعاً اس کے استعمال اور اس سے نفع  کمانے  کی اجازت نہیں ہوتی، اگر رہن میں رکھی ہوئی چیز کو مرتہن نے استعمال کرلیا  یا زیادہ قیمت میں فروخت  کیا تو اُس چیز سے نفع حاصل کرنا  سود کے زمرے میں آئے گا؛ کیوں کہ رہن قرض کے بدلے ہوتا ہے اور قرض دے کر مقروض سے نفع حاصل کرنا سود ہے۔

لہذا  گروی پر مکان لینا دینا درست ہے، لیکن گروی میں لیا ہوا مکان سے نفع اٹھانا جائز نہیں۔

2۔قسطوں پر خرید وفروخت جائز ہے، لیکن اس  میں  درج ذیل  شرائط کا لحاظ  اور رعایت کرنا ضروری ہے:

1.قسط کی رقم متعین ہو۔

2.مدت متعین ہو۔

3.معاملہ متعین ہو کہ نقد کا معاملہ کیا جارہا ہے یا ادھار۔

4 .عقد کے وقت مجموعی قیمت مقرر ہو ۔

5. ایک شرط یہ بھی  ہے کہ کسی قسط کی ادائیگی میں تاخیر کی صورت میں اس  میں اضافہ (جرمانہ) وصول نہ کیا جائے۔

6. جلد ادائیگی کی صورت میں قیمت کی کمی عقد میں مشروط نہ ہو ، اگر بوقتِ عقد یہ شرط ہوگی تو پورا معاملہ ہی فاسد ہوجائے گا۔

ان  تمام شرائط کی رعایت کے ساتھ قسطوں پر خریدوفروخت کرنا جائز ہے، لیکن اگر ان شرائط کی رعایت نہ ہو تو جائز نہیں ہوگا۔

1۔فتاوی شامی میں ہے:

"(هو) لغة: حبس الشيء. وشرعا (حبس شيء مالي) أي جعله محبوسا لأن الحابس هو المرتهن بحق يمكن استيفاؤه) أي أخذه (منه) كلا أو بعضا كأن كان قيمة المرهون أقل من الدين (كالدين) كاف الاستقصاء لأن العين لا يمكن استيفاؤها من الرهن إلا إذا صار دينا حكما كما سيجيء (حقيقة) وهو دين واجب ظاهرا وباطنا أو ظاهرا فقط كثمن عبد أو خل وجد حرا أو خمرا (أو حكما) كالأعيان (المضمونة بالمثل أو القيمة)..قوله كالأعيان المضمونة بالمثل أو القيمة) ويقال لها المضمونة بنفسها لقيام المثل أو القيمة مقامها كالمغصوب ونحوه مما سيجيء.واحترز به عن المضمونة بغيرها كمبيع في يد البائع فإنه مضمون بغيره وهو الثمن، وعن غير المضمونة أصلا كالأمانات."

(كتاب الرهن،  ج:6، ص:478، ط:سعيد)

سونا چاندی

 سونا اور چاندی کی بیع پیسوں کے بدلہ بیع صرف کہلاتی ہے، اور بیع صرف کے درست ہونے کے لئے شرط ہے کہ مجلس عقد میں دونوں چیزوں پر جانبین سے قبضہ پایا جائے، لہٰذا صورت مسئولہ میں آپ کا ۱۵ دن پہلے پیسوں کی ادائیگی کر کے چاندی کا سودا کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ اس سودے میں چاندی ۱۵ دن بعد دی جارہی ہے جس کی وجہ سے یہ سودا بیع فاسد ہے اور واجب الفسخ ہے۔

طلاق دیدوں گا سے طلاق ہوئی کہ نہیں

 اگر شوہر نے اپنی بیوی سے واقعی صرف اتنا ہی کہا تھا کہ اگر تم باہر جاؤگی تو میں تمہیں طلاق دیدوں گا تو اس جملے سے طلاق واقع نہیں ہوگی ، کیونکہ یہ جملہ صرف اور صرف طلاق کی دھمکی ہے طلاق نہیں ہے۔اور طلاق کی دھمکی دینے سے طلاق واقع نہیں ہوتی۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"قالت لزوجها: من باتو نمي باشم، فقال الزوج: مباش، فقالت: طلاق بدست تو است مرا طلاق كن، فقال الزوج: طلاق ميكنم، طلاق ميكنم، وكرر ثلاثًا، طلقت ثلاثًا بخلاف قوله: كنم؛ لأنه استقبال فلم يكن تحقيقًا بالتشكيك."

( الفتاوی الهندیة: كتاب الطلاق، الباب الثاني في إيقاع الطلاق، الفصل السابع في الطلاق بالألفاظ الفارسية(1/ 384)، ط. رشيديه)

قسطوں پر کاروبار میں سوفیصد یااس سے زیادہ نفع لینا

 خرید و فروخت کی صورت میں باہمی رضامندی سے جتنا نفع طے کرلیا جائے وہ لینا جائز ہوگا، البتہ بازار کے متعارف منافع سے زائد منافع رکھنا مناسب نہیں ،شریعتِ مطہرہ نے خرید و فروخت کی صحت کا مدار عاقدین کی باہمی رضامندی پر رکھا ہے اور منافع کے حوالہ سے کسی قسم کی پابندی یا حد مقرر نہیں کی، بلکہ اس معاملہ کو عرف پر چھوڑ دیا ہے، تاہم تاجر کو اس بات کا پابند بھی کیا ہے کہ وہ کسی کی مجبوری کا غلط فائدہ نہ اٹھائے اور یہ اسلامی معاشیات کی اہم خوبی ہے۔

سنن ابی داؤد میں ہے:

"عَنْ أَنَسٍ قَالَ النَّاسُ: يَا رَسُولَ اﷲِ غَلَا السِّعْرُ فَسَعِّرْ لَنَا، فَقَالَ رَسُولُ اﷲِ: إِنَّ اﷲَ هُوَ الْمُسَعِّرُ الْقَابِضُ الْبَاسِطُ الرَّازِقُ، وَإِنِّي لَأَرْجُو أَنْ أَلْقَی اﷲَ وَلَيْسَ أَحَدٌ مِنْکُمْ يُطَالِبُنِي بِمَظْلَمَةٍ فِي دَمٍ وَلَا مَالٍ".

(٣ / ٢٧٢، رقم الحديث: ٣٤٥١)

ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ لوگوں نے شکایت کی کہ اے اللہ کے رسول (صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھاؤ بہت چڑھ گئے ہیں، لہٰذا ہمارے لیے نرخ مقرر فرما دیجیے۔ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ نرخ مقرر کرنے والا تو اللہ تعالیٰ ہے، وہی رزق کی تنگی اور کشادگی کرتا ہے، اور میں یہ تمنا رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملوں کہ تم میں سے کسی کا مجھ سے مطالبہ نہ ہو، جانی یا مالی زیادتی کا۔

درر الحکام میں ہے:

البيع ‌مع ‌تأجيل ‌الثمن وتقسيطه صحيح."

(کتاب البیوع، المادہ: 245، ج:1،  ص:227، ط:دار الجیل)

 المبسوط للسرخسی میں ہے: 

"وإذا عقد العقد علی أنہ إلی أجل کذا بکذا وبالنقد بکذا، فہو فاسد،وہذا إذا افترقا علی ہذا، فإن کان یتراضیان بینہما ولم یتفرقا، حتی قاطَعہ علی ثمن معلوم، وأتما العقد علیہ جاز."

(ج:8، ص:13، ط:دار المعرفة)

Friday 12 July 2024

اسکول میں جمعہ کی نماز

 جمعہ کی نماز  درست ہونے کے لیے  مسجد کا ہونا شرط نہیں ہے، شہر ، فنائے شہر   یا بڑی بستی میں جہاں کہیں نماز پڑھنے کی عام اجازت ہو وہاں جمعہ کی نماز پڑھنا صحیح ہے،  اسلامک مشن اسکول علی گڑھ شہر کی حدودفنا میں واقع ہونے کی بنا پر پنجی پور گاؤں کا حصہ نہیں بلکہ پنجی پور گاؤں علی گڑھ میں ضم ہوچکا ہے لہٰذا اسکول مذکور میں جمعہ کی دیگر شرائط  کی رعایت رکھتے ہوئے نماز جمعہ کی ادائیگی کے وقت گیٹ کھول کراذن عام کردیا جائے کہ نماز جمعہ میں شرکت کے لیے کویی روک ٹوک نہ ہو تو جمعہ  ادا ہوجائے گا، ۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(و) السابع: (الإذن العام)...فلو دخل أمير حصنا) أو قصره (وأغلق بابه) وصلى بأصحابه (لم تنعقد) ولو فتحه وأذن للناس بالدخول جاز وكره.

(قوله الإذن العام) أي أن يأذن للناس إذنا عاما بأن لا يمنع أحدا ممن تصح منه الجمعة عن دخول الموضع الذي تصلى فيه.

(قوله وكره) لأنه لم يقض حق المسجد الجامع."

(كتاب الصلاة، باب الجمعة، ج:2، ص:152، ط:سعيد)

"الفتاوی الھندیة" میں ہے: 

"(ومنها: الإذن العام) و هو أن تفتح أبواب الجامع فيؤذن للناس كافةً حتى أن جماعة لو اجتمعوا في الجامع و أغلقوا أبواب المسجد على أنفسهم و جمعوا لم يجز، و كذلك السلطان إذا أراد أن يجمع بحشمه في داره فإن فتح باب الدار و أذن إذنًا عامًّا جازت صلاته شهدها العامة أو لم يشهدوها، كذا في المحيط."

(كتاب الصلاة، الباب السادس عشر في صلاة الجمعة، ج:1، ص:148، ط:رشيدية)


قسطوں پر موبائل خریدنا

   قسط پر موبائل خریدنا شرعاً جائز ہے ،البتہ یہ ضروری ہے کہ   ہر ماہ کی قسط متعین کرلی جائے اور کسی قسط کی عدم ادائیگی کی صورت میں   اس پر کوئی اضافی رقم جرمانہ کے نام سے نہ لی جائے اور جلد ادائیگی کی صورت میں قیمت کی کمی عقد میں مشروط نہ ہو۔  اگر بوقتِ عقد یہ شرط ہوگی تو پورا معاملہ ہی فاسد ہوجائے گا۔ 

مجلۃ الاحکام العدلیہ میں ہے :

"‌البيع ‌مع ‌تأجيل ‌الثمن وتقسيطه صحيح  يلزم أن تكون المدة معلومة في البيع بالتأجيل والتقسيط".

(الفصل الثانی فی بیان المسائل المتعلقۃ فی البیع  بالتاجیل والنسیئۃ،ص:50،نور محمد کارخانہ)

البحر الرائق میں ہے :

"‌ويزاد ‌في ‌الثمن ‌لأجله إذا ذكر الأجل بمقابلة زيادة الثمن قصدا".

(باب المرابحۃوالتولیۃ،ج:6،ص:125،دارالکتاب الاسلامی)

فتاوی شامی میں ہے :

"وفي شرح الآثار: ‌التعزير ‌بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ. اهـ والحاصل أن المذهب عدم التعزير بأخذ المال".

(کتاب الحدود ،باب التعزیر،ج:4،ص:62،سعید)

Thursday 11 July 2024

عاشورا کی فضیلت

 ) عاشورہ (دسویں محرم) کا روزہ ابتدائے اسلام میں فرض تھا، لیکن رمضان کے روزوں کے فرض ہونے کے بعد اس کی فرضیت منسوخ ہوگئی، البتہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے روزے فرض ہونے کے بعد بھی اس روزے کا اہتمام فرمایا ہے، اس  لیے اس کا رکھنا مسنون ومستحب ہے، اور یہ روزہ پچھلے ایک سال کے گناہوں کا کفارہ بنتا ہے، وفات سے پہلے والے سال جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتلایا گیا کہ یہود بھی شکرانہ کے طور پر عاشورہ کا روزہ رکھتے ہیں  تو آپ ﷺ نے یہ ارشاد فرمایا تھا کہ:"اگر میں آئندہ سال تک زندہ رہا تو نویں کا روزہ بھی رکھوں گا"، جب کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ :"عاشورہ کے دن روزہ رکھو اور یہود کی مخالفت کرو، اس سے ایک دن پہلے یا ایک دن بعد کا روزہ بھی رکھو"، لہٰذا  فقہاءِ کرام نے عاشورہ کے ساتھ نو محرم کے روزہ کو مستحب قرار دیا ہے، اور  مشابہتِ یہود کی بنا پر صرف عاشورہ کا روزہ رکھنے کو مکروہِ تنزیہی قرار دیا ہے، اس  لیےدسویں کے ساتھ نویں یا گیارہوں کا روزہ رکھنا بھی بہتر ہے،  تاکہ اس عبادت کی ادائیگی میں یہود کے ساتھ مشابہت نہ رہے،  تاہم اگر کسی بنا پر تین یا دو روزے رکھنا دشوار ہو تو صرف عاشورہ کا روزہ رکھ لینا چاہیے؛ تاکہ اس کی فضیلت سے محرومی نہ ہو۔  حضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ  فرماتے ہیں : عاشوراء کے روزہ کی تین شکلیں ہیں: (۱) نویں، دسویں اور گیارہویں تینوں کا روزہ رکھا جائے،  (۲) نویں اور دسویں یا دسویں اور گیارہویں کا روزہ رکھا جائے، (۳) صرف دسویں تاریخ کا روزہ رکھا جائے۔ ان میں پہلی شکل سب سے افضل ہے، اور دوسری شکل کا درجہ اس سے کم ہے، اور تیسری شکل کا درجہ سب سے کم ہے، اور  تیسری شکل کا درجہ جو سب سے کم ہے اسی کو فقہاء نے کراہتِ تنزیہی سے تعبیر کردیا ہے، ورنہ جس روزہ کو آپ ﷺ نے رکھا ہو اور آئندہ نویں کا روزہ رکھنے کی صرف تمنا کی ہو اس کو کیسے مکروہ کہا جاسکتا ہے۔


)عاشوراء  (دس محرم) کے روز اپنے اہل و عیال پر رزق کی وسعت اور فراوانی کی ترغیب وارد ہوئی ہے،  حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ راویت کرتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:  "جو شخص عاشورہ کے دن اپنے اہل و عیال کے خرچ میں وسعت اختیار کرے تو اللہ تعالی سارے سال اس کے مال و زر میں وسعت عطا فرمائے گا۔  حضرت سفیان  رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ہم نے اس کا تجربہ کیا تو ایسا ہی پایا"۔ (رزین )

"عن ابن مسعود قال: قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : من وسع على عياله في النفقة يوم عاشوراء وسع الله عليه سائر سنته. قال سفيان : إنا قد جربناه فوجدناه كذلك. رواه رزين".

اس طرح کی روایات دیگر صحابہ سے بھی مروی ہیں جو  اگرچہ سنداً ضعیف ہیں، لیکن مختلف طرق سے مروی ہونے کی وجہ سے فضائل میں قابلِ استدلال ہیں، اسی وجہ سے اکابرین نے اس عمل کو مستحب قرار دیا ہے۔

صحيح مسلم (2/ 797)

"وحدثنا الحسن بن علي الحلواني، حدثنا ابن أبي مريم، حدثنا يحيى بن أيوب، حدثني إسماعيل بن أمية، أنه سمع أبا غطفان بن طريف المري، يقول: سمعت عبد الله بن عباس رضي الله عنهما، يقول: حين صام رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم عاشوراء وأمر بصيامه قالوا: يا رسول الله إنه يوم تعظمه اليهود والنصارى فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «فإذا كان العام المقبل إن شاء الله صمنا اليوم التاسع» قال: فلم يأت العام المقبل، حتى توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم".

صحيح مسلم (2/ 798)

" عن عبد الله بن عباس رضي الله عنهما، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لئن بقيت إلى قابل لأصومن التاسع» وفي رواية أبي بكر: قال: يعني يوم عاشوراء".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 418)


"وحديث التوسعة على العيال يوم عاشوراء صحيح وحديث الاكتحال فيه ضعيفة لا موضوعة كما زعمه ابن عبد العزيز".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 418)

"مطلب في حديث التوسعة على العيال والاكتحال يوم عاشوراء (قوله: وحديث التوسعة إلخ) وهو «من وسع على عياله يوم عاشوراء وسع الله عليه السنة كلها» قال جابر: جربته أربعين عاما فلم يتخلف ط وحديث الاكتحال هو ما رواه البيهقي وضعفه «من اكتحل بالإثمد يوم عاشوراء لم ير رمدا أبدا» ورواه ابن الجوزي في الموضوعات «من اكتحل يوم عاشوراء لم ترمد عينه تلك السنة» فتح. قلت: ومناسبة ذكر هذا هنا أن صاحب الهداية استدل على عدم كراهة الاكتحال للصائم بأنه - عليه الصلاة والسلام - قد ندب إليه يوم عاشوراء وإلى الصوم فيه. قال في النهر: وتعقبه ابن العز بأنه لم يصح عنه - صلى الله عليه وسلم - في يوم عاشوراء غير صومه وإنما الروافض لما ابتدعوا إقامة المأتم وإظهار الحزن يوم عاشوراء لكون الحسين قتل فيه ابتدع جهلة أهل السنة إظهار السرور واتخاذ الحبوب والأطعمة والاكتحال، ورووا أحاديث موضوعة في الاكتحال وفي التوسعة فيه على العيال. اهـ.

وهو مردود بأن أحاديث الاكتحال فيه ضعيفة لا موضوعة كيف وقد خرجها في الفتح ثم قال: فهذه عدة طرق إن لم يحتج بواحد منها، فالمجموع يحتج به لتعدد الطرق وأما حديث التوسعة فرواه الثقات وقد أفرده ابن القرافي في جزء خرجه فيه اهـ ما في النهر، وهو مأخوذ من الحواشي السعدية لكنه زاد عليها ما ذكره في أحاديث الاكتحال وما ذكره عن الفتح وفيه نظر فإنه في الفتح ذكر أحاديث الاكتحال للصائم من طرق متعددة بعضها مقيد بعاشوراء، وهو ما قدمناه عنه، وبعضها مطلق فمراده الاحتجاج بمجموع أحاديث الاكتحال للصائم، ولا يلزم منه الاحتجاج بحديث الاكتحال يوم عاشوراء، كيف وقد جزم بوضعه الحافظ السخاوي في المقاصد الحسنة، وتبعه غيره منهم مثلا علي القاري في كتاب الموضوعات، ونقل السيوطي في الدرر المنتثرة عن الحاكم أنه منكر، وقال الجراحي في كشف الخفاء ومزيل الإلباس قال الحاكم أيضا الاكتحال يوم عاشوراء لم يرد عن النبي - صلى الله عليه وسلم - فيه أثر، وهو بدعة، نعم حديث التوسعة ثابت صحيح كما قال الحافظ السيوطي في الدرر (قوله: كما زعمه ابن عبد العزيز) الذي في النهر والحواشي السعدية ابن العز. قلت: وهو صاحب النكت على مشكلات الهداية كما ذكره في السعدية في غير هذا المحل".

محرم کے روزوں کی فضیلت

 محرم الحرام کا مہینہ قابلِ احترام  اور عظمت والا مہینہ ہے، اس میں دس محرم الحرام کے روزے  کی بڑی فضیلت وارد ہوئی ہے ،رمضان کے علاوہ باقی گیارہ مہینوں کے روزوں میں محرم کی دسویں تاریخ کے روزے کا ثواب سب سے زیادہ ہے، اور اس ایک روزے کی وجہ سے گزرے ہوئے ایک سال کے گناہِ صغیرہ معاف ہوجاتے ہیں، اس کے ساتھ نویں یا گیارہویں تاریخ کا روزہ رکھنا بھی مستحب ہے، اور یومِ عاشورہ کے علاوہ  اس پورے مہینے میں بھی روزے رکھنے کی فضیلت احادیث میں وارد ہوئی ہے، اور آپ ﷺ نے ماہِ محرم میں روزہ رکھنے کی ترغیب دی ہے۔

 حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :افضل ترین روزے رمضان کے  بعد ماہ محرم کے ہیں، اور فرض کے بعد افضل ترین نماز رات کی نماز ہے۔

 ’’[عن أبي هريرة:] سُئلَ: أيُّ الصلاةِ أفضلُ بعد المكتوبةِ؟ وأيُّ الصيامِ أفضلُ بعد شهرِ رمضانَ؟ فقال " أفضلُ الصلاةِ، بعد الصلاةِ المكتوبةِ، الصلاةُ في جوفِ الليل ِ. وأفضلُ الصيامِ، بعد شهرِ رمضانَ، صيامُ شهرِ اللهِ المُحرَّمِ ". مسلم (٢٦١ هـ)، صحيح مسلم ١١٦٣ • صحيح •‘‘.

اسی طرح عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : جو  شخص یومِ عرفہ کا روزہ رکھے گا  تو اس کے دو سال کے (صغیرہ) گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا اور جو  شخص محرم کے مہینہ میں ایک روزہ رکھے گا، اس کو ہر روزہ کے بدلہ میں تیس روزوں کا ثواب ملے گا۔

 ’’[عن عبدالله بن عباس:] من صام يومَ عرفةَ كان له كفَّارةَ سَنتيْن، ومن صام يومًا من المُحرَّمِ فله بكلِّ يومٍثلاثون يومًا‘‘.

(المنذري (٦٥٦ هـ)، الترغيب والترهيب ٢/١٢٩ • إسناده لا بأس به • أخرجه الطبراني (١١/٧٢) (١١٠٨١)، وفي «المعجم الصغير» (٩٦٣

شوھر کے سنگین جرم میں جیل جانے کی بناپر فسخ نکاح

  اگر   شوھرعرصہ دراز سے قتل وغیرہ کے سنگین الزامات کے تحت جیل میں بند ہے ، اور  اس کی جلد رہائی کی کوئی امید نہیں ہے تو  ایسی صورت میں اگر عورت کے لیے  نان ونفقہ اور گزارہ کا کچھ انتظام ہو،  اور وہ اتنی مدت تک صبروتحمل اور عفت کے ساتھ زندگی گزارسکے تو  وہ عورت صبر کرے، اور اگراس کے نان و نفقہ کا کوئی انتظام نہ ہو یا شوہر کے بغیر رہنے میں عفت وعصمت پر داغ لگنے اور گناہ اور فتنہ میں پڑنے کا قوی اندیشہ ہے تو ایسی صورت میں شوہر سے طلاق لے لے یا باہمی رضامندی سے خلع حاصل کرلے، البتہ اگر اس  کی صورت نہ  ہو تو  مجبوری میں مسلمان جج کی عدالت میں  فسخ نکاح کا دعوی دائر کرے،   اور قاضی مکمل تحقیق کے بعد  دونوں کے نکاح کو فسخ کرسکتا ہے۔

جاء في الموسوعة الكويتية : إذا حبس الزوج مدة عن زوجته , فهل لزوجته طلب التفريق كالغائب ؟ الجمهور على عدم جواز التفريق على المحبوس مطلقا , مهما طالت مدة حبسه , وسواء أكان سبب حبسه أو مكانه معروفين أم لا , أما عند الحنفية والشافعية فلأنه غائب معلوم الحياة , وهم لا يقولون بالتفريق عليه كما تقدم , وأما عند الحنابلة فلأن غيابه لعذر. وذهب المالكية إلى جواز التفريق على المحبوس إذا طلبت زوجته ذلك وادعت الضرر , وذلك بعد سنة من حبسه , لأن  الحبس غياب , وهم يقولون بالتفريق للغيبة مع عدم العذر , كما يقولون بها مع العذر على سواء كما تقدم. انتهى من الموسوعة.