اگر شوھرعرصہ دراز سے قتل وغیرہ کے سنگین الزامات کے تحت جیل میں بند ہے ، اور اس کی جلد رہائی کی کوئی امید نہیں ہے تو ایسی صورت میں اگر عورت کے لیے نان ونفقہ اور گزارہ کا کچھ انتظام ہو، اور وہ اتنی مدت تک صبروتحمل اور عفت کے ساتھ زندگی گزارسکے تو وہ عورت صبر کرے، اور اگراس کے نان و نفقہ کا کوئی انتظام نہ ہو یا شوہر کے بغیر رہنے میں عفت وعصمت پر داغ لگنے اور گناہ اور فتنہ میں پڑنے کا قوی اندیشہ ہے تو ایسی صورت میں شوہر سے طلاق لے لے یا باہمی رضامندی سے خلع حاصل کرلے، البتہ اگر اس کی صورت نہ ہو تو مجبوری میں مسلمان جج کی عدالت میں فسخ نکاح کا دعوی دائر کرے، اور قاضی مکمل تحقیق کے بعد دونوں کے نکاح کو فسخ کرسکتا ہے۔
جاء في الموسوعة الكويتية : إذا حبس الزوج مدة عن زوجته , فهل لزوجته طلب التفريق كالغائب ؟ الجمهور على عدم جواز التفريق على المحبوس مطلقا , مهما طالت مدة حبسه , وسواء أكان سبب حبسه أو مكانه معروفين أم لا , أما عند الحنفية والشافعية فلأنه غائب معلوم الحياة , وهم لا يقولون بالتفريق عليه كما تقدم , وأما عند الحنابلة فلأن غيابه لعذر. وذهب المالكية إلى جواز التفريق على المحبوس إذا طلبت زوجته ذلك وادعت الضرر , وذلك بعد سنة من حبسه , لأن الحبس غياب , وهم يقولون بالتفريق للغيبة مع عدم العذر , كما يقولون بها مع العذر على سواء كما تقدم. انتهى من الموسوعة.
No comments:
Post a Comment