https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Saturday 13 July 2024

گروی رکھنے

 ۔واضح رہے کہ گروی "رہن"  کا  شرعی  حکم یہ  ہے کہ  ضرورت  کی  وجہ  سے کسی قرض کے  مقابلے میں "رہن" لینا اور دینا درست ہے، لیکن رہن میں رکھی جانے والی چیز  کی حیثیت محض ضمانت کی ہوتی ہے، اور رہن (گروی) رکھی ہوئی چیز  اس کے اصل مالک  ہی کی  ملک  میں  رہتی ہے،  اور  مرتہن  (جس کے پاس چیز گروی رکھی ہو) کے لیے شرعاً اس کے استعمال اور اس سے نفع  کمانے  کی اجازت نہیں ہوتی، اگر رہن میں رکھی ہوئی چیز کو مرتہن نے استعمال کرلیا  یا زیادہ قیمت میں فروخت  کیا تو اُس چیز سے نفع حاصل کرنا  سود کے زمرے میں آئے گا؛ کیوں کہ رہن قرض کے بدلے ہوتا ہے اور قرض دے کر مقروض سے نفع حاصل کرنا سود ہے۔

لہذا  گروی پر مکان لینا دینا درست ہے، لیکن گروی میں لیا ہوا مکان سے نفع اٹھانا جائز نہیں۔

2۔قسطوں پر خرید وفروخت جائز ہے، لیکن اس  میں  درج ذیل  شرائط کا لحاظ  اور رعایت کرنا ضروری ہے:

1.قسط کی رقم متعین ہو۔

2.مدت متعین ہو۔

3.معاملہ متعین ہو کہ نقد کا معاملہ کیا جارہا ہے یا ادھار۔

4 .عقد کے وقت مجموعی قیمت مقرر ہو ۔

5. ایک شرط یہ بھی  ہے کہ کسی قسط کی ادائیگی میں تاخیر کی صورت میں اس  میں اضافہ (جرمانہ) وصول نہ کیا جائے۔

6. جلد ادائیگی کی صورت میں قیمت کی کمی عقد میں مشروط نہ ہو ، اگر بوقتِ عقد یہ شرط ہوگی تو پورا معاملہ ہی فاسد ہوجائے گا۔

ان  تمام شرائط کی رعایت کے ساتھ قسطوں پر خریدوفروخت کرنا جائز ہے، لیکن اگر ان شرائط کی رعایت نہ ہو تو جائز نہیں ہوگا۔

1۔فتاوی شامی میں ہے:

"(هو) لغة: حبس الشيء. وشرعا (حبس شيء مالي) أي جعله محبوسا لأن الحابس هو المرتهن بحق يمكن استيفاؤه) أي أخذه (منه) كلا أو بعضا كأن كان قيمة المرهون أقل من الدين (كالدين) كاف الاستقصاء لأن العين لا يمكن استيفاؤها من الرهن إلا إذا صار دينا حكما كما سيجيء (حقيقة) وهو دين واجب ظاهرا وباطنا أو ظاهرا فقط كثمن عبد أو خل وجد حرا أو خمرا (أو حكما) كالأعيان (المضمونة بالمثل أو القيمة)..قوله كالأعيان المضمونة بالمثل أو القيمة) ويقال لها المضمونة بنفسها لقيام المثل أو القيمة مقامها كالمغصوب ونحوه مما سيجيء.واحترز به عن المضمونة بغيرها كمبيع في يد البائع فإنه مضمون بغيره وهو الثمن، وعن غير المضمونة أصلا كالأمانات."

(كتاب الرهن،  ج:6، ص:478، ط:سعيد)

No comments:

Post a Comment