https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Saturday 3 August 2024

احلام فاطمہ نام رکھنا

 احلام کے عربی زبان میں کئی معانی آتے ہیں ،مثلا اگر اس کی اصل حُلماً وحُلُماً ہو تو ،اس کا معنی ہوگا:خواب دیکھنا۔

اگر اس کی اصل حِلماً ہو،تو معنی ہے:بردبار ہونا۔

لہذا اگر بیٹی کا نام احلام(ہمزہ پر زبر)  فاطمہ رکھنا چاہتے ہیں ت  بمعنی بردبار ہونا ہوگا ،اس طرح نام رکھنے میں کوئی حرج نہیں ،معنی کے اعتبار سے یہ نام درست ہوگا۔

قرآن کریم میں ہے :

"اَمْ تَاْمُرُھُمْ اَحْلاَمُھُمْ بِھٰذَا"(سورة الطور،32)

القاموس الوحید میں ہے:

"حَلَمَ یَحلُمُ حُلما وحُلُما :خواب دیکھنا۔

حَلُمَ یَحلُمُ حِلما :بردبار ہونا،یعنی ناگواری اور غصہ کے اظہار پر قدرت کے باوجود نرمی سے کام لینا،متحمل مزاج ہونا،سلیم الطبع ہونا ،دور اندیش ہونا ،دانشمند ہونا۔"

(ص:371، ط:ادارۂ اسلامیات)

خرگوش کو حیض آتا ہے پھر بھی یہ حلال کیوں ہے

 خرگوش کھانا حلال ہے،اور   نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں خرگوش پیش کیا گیا، آپ ﷺ نے اسے قبول فرمایا،باقی رہی یہ بات کہ اس کے حلال ہونے کی وجہ کیا ہے تو جہاں واضح نص موجود ہو وہاں علتو ں سے بحث نہیں کی جاتی۔

سنن ترمذی میں ہے:

" عن هشام بن زيد بن أنس قال : سمعت أنساً يقول : أنفجنا أرنباً بمر الظهران فسعى أصحاب النبي صلى الله عليه و سلم خلفهتا فأدركتها فأتيت بها أبوطلحة فذبحها بمروة فبعث معي بفخذها أو بوركها إلى النبي صلى الله عليه و سلم فأكله، قال: قلت: أكله ؟ قال: قبله"۔

(أبواب الأطمعة، باب في أكل الأرنب،ج:4، س؛251۔ ط:داراحياء التراث)

عصر کے بعد سونا

 عصر سے مغرب تک کے وقت میں سونا   مکروہ ہے، اور عصر سے مغرب کے درمیان سونے کا معمول بنالینا  ممنوع  ہے،لہذا اس سے احتراز کیا جائے، البتہ کبھی کبھار کسی عذر (بیماری، تھکن یا بے خوابی وغیرہ) کی وجہ سے اگر عصر اور مغرب کے درمیان سونے کا تقاضہ  ہو تو  پھر اس وقت سونے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

ملحوظہ: عصر کے بعد سونے سے ایک روایت  میں منع آیا ہے،جس میں عقل کی فتور کو سبب قررارد یاہے، اگر چه يه روايت سنداً ضعیف  ہے(1)،لیکن  کسی نے بھی اس روایت کو  موضوع نہیں کہاہے(2)، ترغیبات و ترهیبات  میں ضعیف احادیث سے استدلال کرنا سلف سے منقول ہے(3)، دوئم  اس حدیث کو تلقی بالقبول حاصل ہے،جو حديث ضعيف كي ضعف كو ختم كرديتا هے(4)،  سلف  صالحين نے عصر کے بعد سونا کو مکروہ قراردیا ہے ان کے سامنے بظاہر یہی حدیث تھی(5)۔

حوالہ جات ملاحظہ ہو:

(1)

"مسند أبي يعلى " میں ہے:

"4918 - حدثنا عمرو بن حصين، حدثنا ابن علاثة، حدثني الأوزاعي، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «من نام بعد العصر فاختلس عقله فلا يلومن إلا نفسه» ۔"

ترجمہ:نبی کریم ﷺ سے روایت ہے جوعصر کے بعد سویا تواس کی عقل ميں فتور پیدا ہو ا توصرف اپنے آپ کو ہی ملا مت کرے ۔

‌‌[حكم حسين سليم أسد] : إسناده ضعيف۔"

(مسند أبي يعلى لأبی يعلى أحمد بن علي بن المثُنى بن يحيى بن عيسى بن هلال التميمي، الموصلي (ت ٣٠٧ هـ)، ج:8، ص:316،رقم:4918،  ط: دار المأمون للتراث - دمشق)

(2)

"اللآلىء المصنوعة في الأحاديث الموضوعة للسيوطي"میں ہے:

‌‌كتاب الأدب والزهد

"(ابن حبان) حدثنا أحمد بن يحيى بن زهير حدثنا عيسى بن أبي حرب الصفار حدثنا خالد بن القاسم عن الليث بن سعد عن عقيل عن الزمري عن عروة عن عائشة قالت قال رسول الله: من نام بعد العصر فأختلس عقله فلا يلومن إلا نفسه.لا يصح......"

(اللآلىء المصنوعة في الأحاديث الموضوعة لعبد الرحمن بن أبي بكر، جلال الدين السيوطي (ت ٩١١هـ)، ج:2، ص:237، ط: دار الكتب العلمية - بيروت)

خواتین کی اصلاح کے لیے دینی جلسے

 خواتین  کی  اصلاح اور دینی تربیت کے لیے علاقہ کے کسی گھر میں باپردہ اہتمام کے ساتھ مستند متدین عالم کی وعظ و نصیحت کی مجلس رکھی جا سکتی ہے،  جس میں خواتین شرکت کرسکتی ہیں،  ایسا کرنا خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے بھی ثابت ہے کہ خواتین نے حضور صلی اللہ علیہ سلم  کی خدمت میں درخواست کی تھی تو ان کے لیے مخصوص دن اور مخصوص جگہ میں اجتماع تجویز فرما دیا گیا تھا۔

لہذا صورتِ مسئولہ  میں عورتوں کے لیے وعظ اور نصیحت کے لیے کوئی دن اور وقت مقرر کرلیا جائے،اور عورتیں اس وقت میں کسی جگہ پردے کے اہتمام کے ساتھ شریک ہوجائیں، تو ایسا کرنا درست ہے،تاہم خواتین کو مسجد شرعی میں جمع کرنے سے اجتناب کیا جائے:

1:اس لیے کہ خواتین مسائل کے ناواقفیت کے باعث ممکن ہے کہ  ناپاکی کے ایام میں ہوں،جب کہ حیض ونفاس والی عورت کا مسجد میں آنا جائز نہیں ۔

2:خواتین عموماً جب جمع ہوں، تو دنیوی باتوں میں مشغول ہوجاتی ہے،یہ مسجد کے آداب کے خلاف ہے۔

3:نیز عموماً خواتین کے ساتھ چھوٹے بچے بھی ہوتے ہیں،گندگی کرسکتے ہیں،اس سے مسجد کی تلویث کا اندیشہ ہے۔

4:مسجد میں مرد حضرات کی آمد ورفت مستقل رہتی ہے،بے پردگی کا اندیشہ ہے۔

5:تجربہ اور مشاہدہ یہی ہے ،کہ ایک ہی جگہ مرد وزن کا  مستقل جمع ہونا،اگر چہ الگ الگ اوقات میں ہو، فتنے کا باعث بن ہی جاتا ہے۔

لہذا عورتوں کے لیے مسجد سے ہٹ کر کوئی علیحدہ جگہ مقرر کی جائے۔

صحیح بخاری میں روايت  ہے :

"عن أبي سعيد الخدري: قال النساء للنبي صلى الله عليه وسلم: غلبنا عليك الرجال، فاجعل لنا يوما من نفسك، فوعدهن يوما لقيهن فيه، فوعظهن وأمرهن، فكان فيما قال لهن: (ما منكن امرأة تقدم ثلاثة من ولدها، إلا كان لها حجابا من النار). فقالت امرأة: واثنين؟ فقال: (واثنين)."

(كتاب العلم،  باب: هل يجعل للنساء يوم على حدة في العلم، ج:1، ص:50، رقم:101، ط:دار ابن كثير)

شیخ کی تعریف

 مختلف دایرہ کار کےلوگوں کی اصطلاح  میں شیخ کے مختلف معانی اور مصداق ہیں، اہل لغت کے نزدیک شیخ وہ شخص ہے جس میں بڑھاپا ظاہر ہوگیاہو یا پچاس سال کی عمر سے  زیادہ ہو، نیز کبھی اس شخص کو بھی شیخ کہا جاتا ہے جس کا علم زیادہ ہو اس کے وسیع تجربہ اور پہچان کی وجہ سے،  اور محدثین جس سے حدیثیں روایت کی جائیں اس کو شیخ کہتے ہیں، صوفیاء کے نزدیک شیخ وہ شخص ہے جو خود بھی سیدھے راستے پر چلے، اور دین کے اعتبار سے مہلکات اور مضر چیزوں کو پہچانے،نیز مریدوں کی رہنمائی کرے اور ان کو ان کے نفع و نقصان کی چیزوں کا بتائے۔ با الفاظ دیگر شیخ وہ ہے جو مریدین اور طالبین کے دلوں میں دین اور شریعت کو راسخ کرے۔لہذا کسی عام آدمی کو ادب کی وجہ سے یا اس کی عمر کے زیادہ ہونے کی وجہ سے، یا اس کے علم اور تجربہ زیادہ ہونے کی وجہ سے شیخ کہنے میں کوئی حرج نہیں۔  

لسان العرب میں ہے:

"الشيخ: الذي استبانت فيه السن وظهر عليه الشيب؛ وقيل: هو شيخ من خمسين إلى آخره؛ وقيل: هو من إحدى وخمسين إلى آخر عمره؛ وقيل: هو من الخمسين إلى الثمانين".

(خا، فصل الشين المعجمة، ج:3، ص:31، ط:دار صادر)

کشاف اصطلاحات الفنون میں ہے:

"وقد يعبّر به عمّا يكثر علمه لكثرة تجاربه ومعارفه.

والمحدّثون يطلقون الشيخ على من يروى عنه الحديث كما يستفاد من كتب علم الحديث، وقد سبق في المقدمة أنّ المحدّث هو الأستاذ الكامل وكذا الشيخ والإمام. والشيخ عند السّالكين هو الذي سلك طريق الحقّ وعرف المخاوف والمهالك، فيرشد المريد ويشير إليه بما ينفعه وما يضرّه. وقيل الشيخ هو الذي يقرّر الدين والشّريعة في قلوب المريدين والطالبين. وقيل الشيخ الذي يحبّ عباد الله إلى الله ويحبّ الله إلى عباده وهو أحبّ عباد الله إلى الله". 

(حرف الشين، ج:1، ص:1049، ط:مكتبة لبنان)

سحروافطار کے لیے مسجد کی حدود میں سایرن بجانا

 مسجد کی حدود میں یاحدودمسجدسےباہر رکھے ہوئے ساؤنڈسسٹم سے سحری وافطاری کے اوقات میں ایسا سائرن بجانا جس میں میوزک  ہوقطعاجائزنہیں،البتہ سادہ سائرن کی بقدرضرورت گنجائش ہے،تاہم بہتریہ ہے کہ سائرن کومسجدکی حدودسے باہربجایاجائےتاکہ مسجدکوشوروشغب سےپاک رکھاجاسکےہےاورضرورت بھی پوری ہو۔

المبسوط میں ہے:

"ولا يقام الحد في المسجد، ولا قود، ولا تعزير لما فيه من وهم تلويث المسجد، ولأن المجلود قد يرفع صوته، وقد نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن رفع الصوت في المسجد بقوله صلى الله عليه وسلم «جنبوا مساجدكم صبيانكم ومجانينكم ورفع أصواتكم»، ولكن القاضي يخرج من المسجد إذا أراد إقامة الحد بين يديه".

(کتاب الحدود،باب الاقراربالزنا،ج:9،ص:102/101،ط:دارالمعرفة)

فتاوی شامی میں ہے:

"وينبغي أن يكون ‌بوق ‌الحمام يجوز كضرب النوبة. وعن الحسن لا بأس بالدف في العرس ليشتهر. وفي السراجية هذا إذا لم يكن له جلاجل ولم يضرب على هيئة التطرب اهـ.أقول: وينبغي أن يكون طبل المسحر في رمضان لإيقاظ النائمين للسحور كبوق الحمام تأمل".

(کتاب الحظروالاباحة،ج:6،ص:350،ط:دارالفکر)

گدھاحرام ہے

  گدھا حرام جانوروں میں داخل ہے ، گدھے کا گوشت کھانا حرام ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"وأما الحمار الأهلي فلحمه حرام، وكذلك لبنه وشحمه، واختلف المشايخ في شحمه من غير وجه الأكل فحرمه بعضهم قياسا على الأكل وأباحه بعضهم وهو الصحيح، كذا في الذخيرة".

(کتاب الذبائح ،الباب الثانی فی بیان ما یؤکل من الحیوان،ج:5،ص:290،دارالفکر)

یاقوت کی انگوٹھی ثواب کی نیت سے پہننا

 ثواب کی نیت کے ساتھ  یا قوت پہننا درست نہیں ہے  ،کیوں کہ پتھر  کے پہننے کے ساتھ کسی  قسم كا کوئی ثواب مشروط نہیں ہے ، البتہ  ثواب کی نیت کے  بغیر نگینہ والی چاندی کی انگوٹھی پہن لے تو درست ہے ،بعض ضعیف روایتوں میں  بعض پتھروں کے بارے میں  بركت كا ذکر ہے ۔

فتاویٰ شامی میں ہے :

"(ولا يتختم) إلا بالفضة لحصول الاستغناء بها فيحرم (بغيرها كحجر) وصحح السرخسي جواز اليشب والعقيق وعمم منلا خسرو (وذهب وحديد وصفر) ورصاص وزجاج وغيرها لما مر فإذا ثبت كراهة لبسها للتختم ثبت كراهة بيعها وصيغها لما فيه من الإعانة على ما لا يجوز وكل ما أدى إلى ما لا يجوز لا يجوز وتمامه في شرح الوهبانية (والعبرة بالحلقة) من الفضة (لا بالفص) فيجوز من حجر وعقيق وياقوت وغيرها وحل مسمار الذهب في حجر الفص ۔۔۔(قوله فيحرم بغيرها إلخ) لما روى الطحاوي بإسناده إلى عمران بن حصين وأبي هريرة قال: نهى رسول الله - صلى الله تعالى عليه وسلم عن خاتم الذهب ، وروى صاحب السنن بإسناده إلى عبد الله بن بريدة عن أبيه: أن رجلا جاء إلى النبي صلى الله تعالى عليه وسلم وعليه خاتم من شبه فقال له: مالي أجد منك ريح الأصنام فطرحه ثم جاء وعليه خاتم من حديد فقال: مالي أجد عليك حلية أهل النار فطرحه فقال: يا رسول الله من أي شيء أتخذه؟ قال: اتخذه من ورق ولا تتمه مثقالا " فعلم أن التختم بالذهب والحديد والصفر حرام ۔۔۔وفي الجوهرة والتختم بالحديد والصفر والنحاس والرصاص مكروه للرجل والنساء۔۔۔فالحاصل: أن التختم بالفضة حلال للرجال بالحديث وبالذهب والحديد والصفر حرام عليهم بالحديث۔۔۔ولا يتختم إلا بالفضة الذي هو لفظ محرر المذهب الإمام محمد رحمه الله تعالى فافهم."

(‌‌كتاب الحظر والإباحة ، فصل في اللبس ، ج : 6 ، ص : 359/60 ، ط : سعيد كراچي)

ٹرین میں نماز

 ٹرین میں فرض واجب سنت اور نفل نماز پڑھنا جائز ہے، خواہ کوئی عذر ہو یا نہ ہو، ٹرین چل رہی ہو یا رکی ہوئی ہو، البتہ ٹرین میں نماز ادا کرنے میں بھی استقبالِ قبلہ اور قیام شرط ہے، ان دو شرطوں میں سے کوئی ایک شرط اگر عذر کے بغیر فوت ہوجائے تو فرض اور واجب نماز ادا نہیں ہوگی، البتہ سنن ونوافل قیام کے بغیر بھی ادا ہوجاتی ہیں۔

اگر ٹرین میں اس قدر رش ہو کہ قبلہ رو کھڑے ہوکر نماز ادا کرنا ممکن نہ ہو اور وقت کے اندر کسی اسٹیشن پر اتر کر استقبالِ قبلہ اور قیام کے ساتھ نماز پڑھنا بھی ممکن نہ ہو  اور ٹرین مشرق یا مغرب کی سمت جارہی ہو تو دو سیٹوں کے درمیان قبلہ رو ہو کر قیام اور  رکوع کر کے نماز ادا کرے اور سجدہ کے لیے  پچھلی سیٹ پر کرسی کی طرح بیٹھ جائے، یعنی پاؤں نیچے ہی رکھے اور سامنے سیٹ پر سجدہ کرے، اس عذر کی صورت میں سجدے کے لیے  گھٹنے کسی چیز پر ٹیکنے کی ضرورت نہیں، اور اس کی وجہ سے سجدہ سہو بھی لازم نہیں ہوگا۔ البتہ اگر ٹرین شمال یا جنوب کی جانب جارہی ہو تو اس صورت میں مذکورہ طریقہ کار کے مطابق نماز ادا کرنا جائز نہ ہوگا۔

اور اگر  مذکورہ صورتوں کے مطابق نماز ادا نہ کی جاسکتی ہو (مثلاً قیام ہی ممکن نہ ہو، یا قیام تو ممکن ہو لیکن قبلہ رخ نہ ہوسکے، یا سجدہ نہ کیا جاسکتاہو) اور نماز کا وقت نکل رہا ہو تو فی الحال "تشبہ بالمصلین" (نمازیوں کی مشابہت اختیار) کرلے، پھر جب گاڑی سے اتر جائے تو فرض اور وتر کی ضرور قضا کرے۔

"وفي الخلاصة: وفتاوی قاضیخان وغیرهما: الأیسر في ید العدو إذا منعه الکافر عن الوضوء والصلاة یتیمم ویصلي بالإیماء، ثم یعید إذا خرج … فعلم منه أن العذر إن کان من قبل الله تعالیٰ لا تجب الإعادة، وإن کان من قبل العبد وجبت الإعادة". (البحر الرائق، الکتاب الطهارة، باب التیمم، رشیديه ۱/ ۱۴۲

Friday 2 August 2024

رشوت دیکر لائسنس بنوانا

 رشوت لینے اور دینے والے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت  فرمائی ہے، چنانچہ رشوت لینا اور دینا دونوں ناجائز ہیں،  اور  گاڑی چلانے کی مطلوبہ اہلیت کے بغیر یا حکومت کی طرف سے ڈرائیونگ لائسنس کے حصول کے  لیے مقرر  کیے گئے قانونی تقاضوں (ٹیسٹ وغیرہ) کو مکمل  کیے بغیر محض رشوت کی بنیاد پر  ڈرائیونگ لائسنس (Driving License)  حاصل کرنا بھی ناجائز ہے۔

البتہ اگر کوئی شخص   گاڑی چلانے کی مطلوبہ اہلیت بھی رکھتا ہو اور حکومت کی طرف سے ڈرائیونگ لائسنس کے حصول کے  لیے مقرر  کیے گئے قانونی تقاضوں (ٹیسٹ وغیرہ) کو  بھی پورا کر چکا ہو لیکن اس کے باوجود  متعلقہ ادارہ  یا لوگ رشوت کے بغیر اسے ڈرائیونگ لائسنس (Driving License)  دینے پر راضی نہ ہوں تو پھر بھی اسے  چاہیے کہ  وہ اپنی پوری کوشش کرے کہ رشوت دیے بغیر کسی طرح (مثلا حکام بالا کے علم میں لاکر یا متعلقہ ادارے میں کوئی واقفیت نکال کر)  اسے  ڈرائیونگ لائسنس (Driving License)   مل جائے۔

لیکن اگر ڈرائیونگ لائسنس کی شدید ضرورت ہونے اور  کوئی دوسرا متبادل راستہ نہ ہونے کی بنا پر اسے ڈرائیونگ لائسنس کے حصول کے لیے  مجبورا  رشوت دینی ہی پڑے تو  وہ گناہ گار نہ ہوگا،  کیوں کہ اپنے جائز حق کی وصولی کے  لیے اگر مجبورًا  رشوت دی جائے تو اس پر رشوت دینے کا گناہ نہیں ملتا، البتہ رشوت لینے والے شخص کے حق میں رشوت کی وہ رقم ناجائز ہی رہے گی اور اسے اس رشوت لینے کا سخت گناہ ملے گا۔

بہرحال! رشوت دے کر لائسنس بنانے پر توبہ و استغفار کیا جائے۔

1. جب آپ کو موٹر سائیکل اور گاڑی چلانا آتی ہے اور آپ نے کسی طرح لائسنس حاصل کر لیا ہے تو اب اس لائسنس کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔

2. ابتداءً ہی قانونی تقاضوں کو پورا کیے بغیر لائسنس کا حصول درست نہیں۔

جس وقت یہ رقم دی جا رہی تھی اس وقت اگر معلوم نہ تھا کہ یہ رقم کس مد میں دی جا رہی ہے تو بھی حکم یہی رہے گا۔

مرقاة المفاتيح  میں ہے:

"وعن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما، قال: «لعن رسول الله ‌الراشي والمرتشي» رواه أبو داود، وابن ماجه."

ــ (وعن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما) : بالواو (قال: «لعن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - ‌الراشي والمرتشي» ) : أي: معطي الرشوة وآخذها، وهى الوصلة إلى الحاجة بالمصانعة."

(کتاب الامارۃ و القضاء، باب رزق الولاۃ و هدایاهم، جلد: 6،  صفحہ: 2437، طبع: دار الفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"دفع المال للسلطان الجائر لدفع الظلم عن  نفسه وماله ولاستخراج حق له ليس برشوة يعني في حق الدافع."

(کتاب الحظر والإباحة، فصل في البیع، جلد:

جانورکو خصی کرنا

 جانور کو موٹا اور فربہ بنانے یا کسی منفعت کی نیت سے خصی کرنا جائز ہے،اس میں شرعاً کچھ حرج نہیں، بس یہ خیال رہے کہ اس عمل کے دوران جانور کو کم از کم تکلیف ہو۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) جاز (‌خصاء ‌البهائم) حتى الهرة، وأما خصاء الآدمي فحرام قيل والفرس وقيدوه بالمنفعة وإلا فحرام. قال ابن عابدین: (قوله وقيدوه) أي جواز ‌خصاء ‌البهائم بالمنفعة وهي إرادة سمنها أو منعها عن العض بخلاف بني آدم فإنه يراد به المعاصي فيحرم."

(‌‌كتاب الحظر والإباحة‌‌، فصل في البيع: 6/ 388، ط: سعید)

بھانجی کا خالہ اور خالو کے ساتھ سفر

 بھانجی کے لیے اس کی خالہ کے شوہر محرم نہیں ہیں، لہذا محرم کے بغیر سفر کرنے کی شرعاً اجازت نہیں ہے۔

بخاری شریف میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد منقول ہے کہ عورت اپنے محرم رشتہ دار کے بغیر سفر نہ کرے۔

صحیح بخاری میں ہے:

"1862 - حدثنا ‌أبو النعمان: حدثنا ‌حماد بن زيد، عن ‌عمرو، عن ‌أبي معبد، مولى ابن عباس ، عن ‌ابن عباس رضي الله عنهما قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: «لا تسافر المرأة إلا مع ذي محرم، ولا يدخل عليها رجل ‌إلا ‌ومعها محرم، فقال رجل: يا رسول الله، إني أريد أن أخرج في جيش كذا وكذا وامرأتي تريد الحج؟ فقال: اخرج معها".

(‌‌‌‌كتاب الحج، باب حج النساء، 3/ 19، ط :  المطبعة الكبرى الأميرية)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وفيه إشارة إلى أن الحرة لا تسافر ثلاثة أيام بلا محرم. واختلف فيما دون الثلاث وقيل: إنها تسافر مع الصالحين، والصبي والمعتوه غير محرمين كما في المحيط قهستاني".

(‌‌‌‌كتاب الحظر والإباحة، فصل في البيع، 6/ 390، ط: سعيد)

پروٹین کے کیڑوں کا کاروبار

 پروٹین یعنی غذا کےطور پر استعمال ہونے والے کیڑوں کا کھانا حرام ہے، لہذا مذکورہ کیڑوں کا کاروبار کرنا بھی ناجائز ہے۔

فتاویٰ شامی (حاشية ابن عابدين ) میں ہے:

"قال في الحاوي: ولا يجوز بيع الهوام كالحية والفأر والوزغة والضب والسلحفاة والقنفذ وكل ما لا ينتفع به ولا بجلده".

(کتاب البیوع، باب البیع الفاسد، مطلب فی بیع دودۃ القز، ج:5، ص:68، ط:ایچ ایم سعید)