https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Tuesday 6 August 2024

شرط فاسد کے ساتھ بیع

 خرید و فروخت کا معاملہ کرتے وقت ایسی شرط لگانا جس شرط کا یہ عقد نہ تقاضا  کرتا ہو  اور نہ ہی یہ شرط اس معاملہ کے مناسبات میں سے ہو  اور اس شرط میں بیچنے والے یا خریدنے والے کا کوئی فائدہ ہو (یا مبیع کا فائدہ ہو، بشرطیکہ مبیع اس کا اہل ہو، مثلاً: غلام ہو) تو یہ شرط خرید و فروخت کے معاملہ کو فاسد کردیتی ہے، شرعی اعتبار سے  شرطِ فاسد کی صورت میں  فروخت کنندہ اور خریدار کے لیے حکم یہ ہے کہ اس معاملہ کو ختم  کر کے نئے سرے سے معاملہ کریں۔ شرطِ فاسد کی موجودگی میں مشتری کے لیے مبیع سے استفادہ جائز نہیں ہوتا، فقہاءِ کرام نے بیوعِ فاسدہ کو سود کے حکم میں شامل کیا ہے۔

شروطِ فاسدہ کی بنا پر شریعت نے جب بیع کو فاسد قرار دیا ہے تو اس میں عاقدین کی رضا وعدم رضا کا اعتبار نہیں، بلکہ اس عقد میں موجود اس خرابی (شرط فاسد) کو جب تک دور نہ کیاجائے اس وقت تک شریعت کی نگاہ میں وہ بیع درست نہیں ہے، ایسی بیع کو ختم کرکے شرطِ فاسد کے بغیر بیع کرنا لازم ہے۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق - (5 / 32(

"فالحاصل أن كل جهالة تفضي إلى المنازعة مبطلة فليس يلزم أن ما لايفضي إليها يصح معها بل لا بد مع عدم الإفضاء إليها في الصحة من كون المبيع على حدود الشرع ألا ترى أن المتبايعين قد يتراضيا على شرط لا يقتضيه العقد وعلى البيع بأجل مجهول كقدوم الحاج ونحوه ولايعتبر ذلك مصحّحًا، كذا في فتح القدير."

الهداية شرح البداية - (3 / 48):

"وكل شرط لا يقتضيه العقد وفيه منفعة لأحد المتعاقدين أو للمعقود عليه وهو من أهل الاستحقاق يفسده كشرط أن لا يبيع المشتري العبد المبيع لأن فيه زيادة عارية عن العوض فيؤدي إلى الربا أو لأنه يقع بسببه المنازعة فيعري العقد عن مقصوده."

مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر - (3 / 90):

"ولو كان البيع بشرط لايقتضيه العقد وفي نفع لأحد المتعاقدين أي البائع والمشتري أو  لمبيع يستحق النفع بأن يكون آدميًّا فهو أي هذا البيع فاسد لما فيه من زيادة عرية عن العوض فيكون ربا وكل عقد شرط فيه الربا يكون فاسدًا."

سرکاری یوجنا کے تحت ملے فلیٹ کو کرایہ پر دینا

 کیا فرماتے ہیں علماء دین درج ذیل سوال کے جواب میں۔

احقر ایک مسجد کے امام ہے مالی حالت ٹھیک نہ ہونے کی وجہ سےسرکاری آواس یوجنا کے تحت ۵۰گزپرمشتمل ایک نامکمل فلاٹ احقرکوملاہےجسےاحقر اپنی ذاتی رقم سے مکمل کرتولیامگر مسجدسےکافی دوراورایسی ابادی میں جہاں موجودہ حالات میں اسلامی تشخص کےساتھ رہنااورجان ومال کی حفاظت کرنا ایک مستقل مسئلہ بنگیاہے۔

 سرکار کی طرف سے اس طرح کی فلاٹ کوفروخت کر نے یاکریاپراٹھانے کی اجازت نہیں ہے، البتہ سرکاری ادھکاریوں کے من پسند کسی افراد کے حوالے کردیں تو کوکوئ اعتراض نہیں ہے ۔اب سوال یہ ہےکیااس صورت میں فلاٹ کاقبضہ کسی اور کو دےکراس سے  جومیری ذاتی رقم فلاٹ کومکمل کرنےمیں خرچ ہواہےوہ یااس کی موجودہ جوقیمت ہے وہ حاصل کر سکتے ہیں یانہی۔

عبدالقدوس علی گڑھ 

۵اگست ۲۰۲۴

الجواب وباللہ التوفیق ومنہ المستعان 

عقدِ اجارہ یا بیع تام ہونے کے بعد کرایہ داریامشتری منافع کا مالک بن جاتا ہے اور اس کو منافع حاصل کرنے کا اختیار حاصل ہو جاتا ہے اب چاہے وہ خود منافع حاصل کرے یا کسی اور کو منافع کا مالک بنائے۔ بشرطیکہ کسی ایسے شخص کو نہ دے جو اس میں ایسا کام شروع کرے جس کی وجہ سے مکان کو نقصان پہنچتا ہو، لہذا اگر حکومت نے کرایہ داریامشتری پر یہ شرط لگائی کہ آپ یہ مکان کسی اور کو کرایہ پر نہیں دیں گے تو یہ شرط باطل ہوگی اور کرایہ داریامشتری وہ مکان  کسی اور کو کرائے پر دینا چاہےتو دے سکتاہے  

لھذا صورت مسئولہ میں 

فلیٹ کاقبضہ کسی اور کو دےکراس سے  جو رقم فلیٹ کومکمل کرنےمیں خرچ ہویی ہےیااس کی موجودہ جوقیمت ہے وہ حاصل کر سکتے ہیں ۔

    ۔البتہ

حکومتی ضوابط وحدود کی پاسداری کرتے ہویے اپنی جان مال کی حفاظت کرنا بھی لازم ہے ۔

وقد اختلف أهل العلم في بطلان البيع إذا كان مصحوبا بشرط ينافي مقتضى العقد، فذهب المالكية والشافعية وهو رواية عن أحمد إلى بطلان البيع، وذهب الحنفية إلى بطلان البيع إذا كان في الشرط منفعة لأحد المتعاقدين، وذهب الحنابلة إلى صحة البيع وبطلان الشرط وهو قول في مذهب الشافعية، وإليك بعض نصوص الفقهاء في ذلك.

وله السكنى بنفسه وإسكان غيره بإجارة وغيرها) وكذا كل ما لا يختلف بالمستعمل يبطل التقييد لانه غير مفيد۔  (الدر المختار على صدر رد المحتار، كتاب الإجارة، باب ما يجوز من الإجارة وما يكون خلافا فيها، ج:9، ص:38)

فتاوی شامی میں ہے:

"ولو آجر بأكثر تصدق بالفضل إلا في مسألتين: إذا ‌آجرها ‌بخلاف ‌الجنس أو أصلح فيها شيئا ..... قال ابن عابدين:(قوله بخلاف الجنس) أي جنس ما استأجر به وكذا إذا آجر مع ما استأجر شيئا من ماله يجوز أن تعقد عليه الإجارة فإنه تطيب له الزيادة كما في الخلاصة. (قوله أو أصلح فيها شيئا) بأن جصصها أو فعل فيها مسناة وكذا كل عمل قائم؛ لأن الزيادة بمقابلة ما زاد"

(كتاب الإجارة،‌‌باب ما يجوز من الإجارة وما يكون خلافا فيها،29/6،ط:سعيد)

Monday 5 August 2024

فوتگی کے اعلان سے پہلے تلاوت

  اس طر ح کے اعلانات سے پہلے قرآن مجید کے کسی بھی حصے کی تلاوت کرنا مکروہ ہے ۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وعن هذا يمنع ‌إذا ‌قدم ‌واحد من العظماء إلى مجلس فسبح أو صلى على النبي صلى الله عليه وآله وأصحابه إعلاما بقدومه حتى ينفرج له الناس أو يقوموا له يأثم هكذا في الوجيز للكردري"۔

(كتاب الكراهية،الباب الرابع في الصلاة والتسبيح ورفع الصوت عند قراءة القرآن،ج:5،ص:315،ط:دار الفكر بيروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"وقد كرهوا والله أعلم ونحوه … لإعلام ختم الدرس حين يقرر،(قوله لإعلام ختم الدرس).....فإنه استعمله آلة للإعلام ونحوه إذا قال الداخل: يا الله مثلا ليعلم الجلاس بمجيئه ليهيئوا له محلا، ويوقروه وإذا قال الحارس: لا إله إلا الله ونحوه ليعلم باستيقاظه."

(كتاب الحظر والإباحة،‌‌فصل في البيع،ج:6،ص:431،ط:دار الفكر - بيروت)

منھا نام رکھنا

 معنی کے اعتبار سے منھا   نام رکھنا درست نہیں ، سائل اپنی  بیٹئ کا نام ’’منہا‘‘ کے بجائے  ’’منحہ‘‘  منتخب کرلے  اور اس کا درست تلفظ ’’منحہ‘‘ (مِنْحَہ)ہے، اور  ’’مِنحہ‘‘  کے معنی گفٹ، تحفہ کے ہیں۔

المعجم الوسیط  میں ہے:

"المنحة: العطية". ( ج:۲، صفحہ:  ۸۸۸، ط:  دار الدعوة)

یا اس کے علاوہ صحابیات کے ناموں  سے یا  کسی اچھے معنی والے لفظ کا انتخاب کرلے۔ف

سبحان نام رکھنا

 سبحان‘‘  کے معنی  کسی کو تمام عیوب اور نقائص سے پاک ٹھہرانا یا بتانا ہے،سبحان، اللہ تعالیٰ کے لائقِ شان ہے، اللہ کی ذات کے علاوہ کسی اور  کے بارے میں  ’’سبحان‘‘  نہیں کہا جاسکتا؛ لہٰذا "سبحان" یا "محمد سبحان" نام رکھنا درست نہیں ہے، "عبدالسبحان" نام رکھ سکتے ہیں، لیکن بہتر ہے کہ اس  کےبجائے  کوئی دوسرا نام تجویز کرلیں۔

انبیائے کرام علیہم  الصلاۃ والسلام، صحابہ کرام رضوان  اللہ علیہم اجمعین یا اولیاءِ کرام رحمہم اللہ کے ناموں میں سے یا کوئی اچھا بامعنی نام  کا انتخاب کرلیا جائے۔ (السعایۃ فی کشف مافی شرح الوقایۃ،2/164،ط:سہیل اکیڈمی –فتاوی محمودیہ 19/386، ط:فاروقیہ کراچی)

تفسير القرطبي میں ہے:

"قوله تعالى: (سبحان) " سبحان" اسم موضوع موضع المصدر، وهو غير متمكن، لأنه لايجري بوجوه الإعراب، ولاتدخل عليه الألف واللام، ولم يجر منه فعل، ولم ينصرف لأن في آخره زائدتين، تقول: سبحت تسبيحاً وسبحاناً، مثل كفرت اليمين تكفيراً وكفراناً. ومعناه التنزيه والبراءة لله عز وجل من كل نقص. فهو ذكر عظيم لله تعالى لايصلح لغيره، فأما قول الشاعر: أقول لما جاءني فخره ... سبحان من علقمة الفاخر فإنما ذكره على طريق النادر. وقد روى طلحة بن عبيد الله الفياض أحد العشرة أنه قال للنبي صلى الله عليه وسلم: ما معنى سبحان الله؟ فقال:" تنزيه الله من كل سوء". والعامل فيه على مذهب سيبويه الفعل الذي من معناه لا من لفظه، إذ لم يجر من لفظه فعل، وذلك مثل قعد القرفصاء، واشتمل الصماء، فالتقدير عنده: أنزه الله تنزيها، فوقع" سبحان الله" مكان قولك تنزيه"۔ ( 10 / 204 )

ابروؤں کے درمیان کے بال صاف کرنا

 اگر بھنویں اتنی  زیادہ پھیلی ہوئی ہوں  کہ   معتاد بناوٹ سے مختلف ہوں اوردیکھنے میں  بد نما معلوم ہورہی ہوں  تو عیب دور کرنے کے لیےمرد  وعورت دونوں کے لیے ابروؤں  کو درست کرکے انہیں  عام حالت کے مطابق   معتدل کرنے کی گنجائش ہے۔

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"وعن عبد الله بن مسعود قال: لعن الله الواشمات، والمستوشمات، والمتنمصات) : بتشديد الميم المكسورة هي التي تطلب ‌إزالة ‌الشعر ‌من الوجه بالمنماص أي المنقاش، والتي تفعله نامصة، قال النووي: وهو حرام إلا إذا نبت للمرأة لحية أو شوارب (والمتفلجات) : بكسر اللام المشددة، وهي التي تطلب الفلج، وهو بالتحريك فرجة ما بين الثنايا والرباعيات... والمراد بهن النساء اللاتي تفعل ذلك بأسنانهن رغبة في التحسين... واللام في قوله: (للحسن) : للتعليل... قال النووي: فيه إشارة إلى أن الحرام هو المفعول لطلب الحسن، أما لو احتاجت إليه لعلاج أو عيب في السن ونحوه فلا بأس به."

(كتاب اللباس، باب الترجل، الفصل الأول، ج:7، ص:2819، ط؛دارالفكر)

بذل ُالمجہود میں ہے:

"قال أبو داود: وتفسير الواصلة: التي تصل الشعر بشعر النساء. والمستوصلة: المعمول بها. والنامصة: التي تنقش ‌الحاجب، ‌حتى ‌ترقه."

(أول كتاب الترجل، باب: في صلة الشعر، ج:12، ص:199، ط:مركز الشيخ أبي الحسن الندوي للبحوث والدراسات الإسلامية، الهند)

البحر الرائق میں ہے:

"ولعن في الحديث «النامصة والمتنمصة» ‌والنامصة هي التي تنقص الحاجب لتزينه، والمتنمصة هي التي يفعل بها ذلك."

(كتاب البيع، ‌‌باب البيع الفاسد، ج:6، ص:88، ط:دارالكتاب الإسلامي)

خواتين كا مرد حضرات سے ناک کان چھدوانا

 خواتین کے لیے  شدید ضرورت کی بنا  پر یعنی کسی بیماری کی علاج کی غرض سے نامحرم کے سامنے متاثرہ بدن کھولنے کی بقدرِ ضرورت اجازت ہے،  لیکن ضرورت کے بغیر یعنی بیماری سے علاج کے بغیر بدن دکھاناجائز نہیں ہے، لہذا کسی بھی خاتون کے  لیے نامحرم مرد سے ناک کان چھیدوانا جائز نہیں ہے؛ کیوں کہ  ناک کان چھیدنا  ایسی ضرورت نہیں ہے جس کی وجہ سے نامحرم مرد سے کروانے کی اجازت دی جائے، البتہ  اگر بچپن ہی میں (یعنی بچی کے حدِّ شہوت  تک پہنچنے سے پہلے پہلے)  کسی مرد سے بچی کے کان چھدوائے جائیں تو  جائز ہے۔  

فتاوی شامی (الدر المختار ورد المحتار) میں ہے:

"ولا بأس بثقب أذن البنت والطفل استحسانا ملتقط. قلت: وهل يجوز الخزام في الأنف، لم أره.

(قوله: و الطفل) ظاهره أن المراد به الذكر مع أن ثقب الأذن لتعليق القرط، وهو من زينة النساء، فلايحل للذكور، والذي في عامة الكتب، وقدمناه عن التتارخانية: لا بأس بثقب أذن الطفل من البنات وزاد في الحاوي القدسي: و لايجوز ثقب آذان البنين فالصواب إسقاط الواو (قوله: لم أره) قلت: إن كان مما يتزين النساء به كما هو في بعض البلاد فهو فيها كثقب القرط اهـ ط وقد نص الشافعية على جوازه مدني".

(کتاب الحظر والإباحة، فصل فی البیع، ج:6، ص:420، ط:ایج ایم سعید)

Sunday 4 August 2024

لڑکی والوں کی طرف سے رخصتی کی دعوت

 نکاح کے موقع پر لڑکی والوں کی طرف سے کھانے کا انتظام کرنا  ولیمہ کی طرح سنت نہیں  ہے، ہاں اگر کوئی نمود ونمائش سے بچتے ہوئے،  کسی قسم کے زبردستی اور خاندانی دباؤ کے بغیر اپنی خوشی ورضا  سے اپنے اعزاء اور مہمانوں کوکھانا کھلائے تو  یہ مہمانوں کا اکرام ہے، اور اس طرح کی دعوت کا کھانا کھانا بارات والوں کے لیے جائز ہے، اور اگر  لڑکی والے   خوشی سے نہ کھلائیں تو زبردستی کرکے کھانا کھانا جائز نہیں ہوگا۔

صحیح بخاری میں ہے:

"وقال أنس: «إذا دخلت على مسلم لا يتهم، فكل من طعامه واشرب من شرابه»". (7/ 82،  کتاب الأطعمة، باب  الرجل يدعى إلى طعام ، ط:دارطوق النجاة)

صحیح  مسلم میں ہے:

" عن جابر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا دعي أحدكم إلى طعام، فليجب، فإن شاء طعم، وإن شاء ترك»".(2/ 1054، کتاب الحج، باب  زواج زینب بنت جحش، برقم: 1430، ط:دار احیاء التراث)

      وفیہ أیضاً:

"عن نافع، قال: سمعت عبد الله بن عمر، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أجيبوا هذه الدعوة إذا دعيتم لها»، قال: «وكان عبد الله بن عمر يأتي الدعوة في العرس، وغير العرس، ويأتيها وهو صائم»".(2/ 1053، کتاب الحج، باب  زواج زینب بنت جحش، برقم: 1430، ط:دار احیاء التراث)

سنن أبی داود میں ہے:

" عن أبي شريح الكعبي، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: «من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليكرم ضيفه، جائزته يومه وليلته، الضيافة ثلاثة أيام وما بعد ذلك فهو صدقة، ولا يحل له أن يثوي عنده حتى يحرجه»".(3/ 342، کتاب الاطعمۃ، باب ما جاء فی الضیافۃ، رقم الحدیث:3738، ط: المكتبة العصرية، صيدا - بيروت)

     شرح المجلۃ میں ہے:

" لایجوز لأحد  أن یاخذ  مال أحد  بلا سبب شرعي".(1/264،  مادۃ: 97، ط؛ رشیدیہ)

مصنوعی دانت لگوانا

 ضرورت کے وقت  مصنوعی دانت لگوانا جائز ہے، اور مصنوعی دانت لگانے کے بعد اگر وہ آسانی سے الگ نہ ہوسکتا ہو  تو  غسل میں اس کو اتارنا ضروری نہیں ہوگا، اور اگر آسانی سے الگ ہوسکتا ہو تو غسل کے لیے اس کو نکالنا ضروری ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے: 

"لما قال الكرخي: إذا سقطت ثنية رجل فإن أبا حنيفة يكره أن يعيدها، ويشدها بفضة أو ذهب، ويقول: هي كسن ميتة، ولكن يأخذ سن شاة ذكية يشد مكانها، وخالفه أبو يوسف، فقال: لا بأس به، ولايشبه سنّه سنّ ميتة، استحسن ذلك، وبينهما فرق عندي وإن لم يحضرني اهـ إتقاني. زاد في التتارخانية: قال بشر: قال أبو يوسف: سألت أبا حنيفة عن ذلك في مجلس آخر فلم ير بإعادتها بأسًا". 

(كتاب الحظر والإباحة، فصل فی اللبس، ج: 6، صفحہ: 362، ط: ایچ، ایم، سعید)

فال نکالنا یانکلوانا

   فال نکالنا یانکلوانا درست نہیں ۔رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فال نکالنے والوں کے پاس جانے اور ان سے مستقبل کے بارے میں دریافت کرنے سے بھی منع فرمایا اور پوچھنے کی صورت میں اخروی نقصان سے آگاہ کیا ہے، جیساکہ ایک روایت میں ہے کہ "جس نے فال نکالنے والے سے سوال کیا تو اس کی چالیس راتوں تک نماز قبول نہیں کی جاتی"۔ ایک اور روایت میں ہے کہ "جو شخص فال نکانے والے کی پاس گیا اور اس کی بات کی تصدیق کری تو اس نے ان تمام امور کا انکار (کفر) کردیا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئے"۔ سنن ابی داؤد کی روایت میں ہے کہ "وہ بری (آزاد) ہو گیا ان سب سے جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا"۔۔

"لقول النبي صلى الله عليه وسلم: من أتى كاهناً أو عرافاً فصدقه بما يقول فقد كفر بما أنزل على محمد صلى الله عليه وسلم. رواه أحمد. وفي حديث أحمد والترمذي عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من أتى كاهناً فصدقه بما يقول فقد كفر بما أنزل على محمد. ورواه أبو داود بلفظ: فقد برئ مما أنزل على محمد".

في المشکاة: "عن صفية عن بعض أزواج النبي صلى الله عليه وسلم عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: « من أتى عرافاً فسأله عن شيء لم تقبل له صلاة أربعين ليلةً». رواه مسلم". (٢/ ٤١١)

شرح النووي على مسلم:

"والعراف هو الذي يدعي معرفة الشيء المسروق ومكان الضالة ونحوهما من الأمور، هكذا ذكره الخطابي في معالم السنن في كتاب البيوع، ثم ذكره في آخر الكتاب أبسط من هذا فقال: إن الكاهن هو الذي يدعي مطالعة علم الغيب ويخبر الناس عن الكوائن، قال: وكان في العرب كهنة يدعون أنهم يعرفون كثيراً من الأمور، فمنهم من يزعم أن له رفقاء من الجن وتابعة تلقي إليه الأخبار، ومنهم من كان يدعي أنه يستدرك الأمور بفهم أعطيه، وكان منهم من يسمى عرافاً وهو الذي يزعم أنه يعرف الأمور بمقدمات أسباب يستدل بها على مواقعها كالشيء يسرق، فيعرف المظنون به السرقة، وتتهم المرأة بالريبة، فيعرف من صاحبها ونحو ذلك من الأمور، ومنهم من كان يسمي المنجم كاهناً، قال: وحديث النهي عن إتيان الكهان يشتمل على النهي عن هؤلاء كلهم وعلى النهي عن تصديقهم والرجوع إلى قولهم، ومنهم من كان يدعو الطبيب كاهناً، وربما سموه عرافاً، فهذا غير داخل في النهي. هذا آخر كلام الخطابي. قال الإمام أبو الحسن الماوردي من أصحابنا في آخر كتابه الأحكام السلطانية: ويمنع المحتسب من يكتسب بالكهانة واللهو، ويؤدب عليه الآخذ والمعطي، والله أعلم. (١٠ / ٢٣٢، ط: داراحیاء التراث العربی) فقط

قتل وزناکے ثبوت کےلیے ڈی این اے ٹیسٹ کی حیثیت

 1۔شرعی طور پر محض ڈی این اے ٹیسٹ کی بنا پر کسی کو قاتل نہیں قرار دیا جاسکتا، جب تک کہ اقرار یا  شرعی گواہوں کے ذریعے  کسی کا قاتل ہونا ثابت نہ ہو۔

2۔ زنا کے ثبوت میں بھی ڈی این اے ٹیسٹ  کا کوئی اعتبار نہیں، اگر چار چشم دید نیک مسلمانوں کی گواہی یا اقرار سے ثابت ہوجائے تو ثابت ہوگا ورنہ نہیں۔

3۔قاضی معاملہ کی تفتیش کے لئے ڈی این اے ٹیسٹ کرانے پر مجبور نہیں کرسکتا کیوں کہ یہ شرعی چیز نہیں، باقی اگر ڈی این اے ٹیسٹ کے بعد ملزم خود اقرار کرلے تو جرم ثابت ہوجائے گا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"أما أقسام الشهادة فمنها الشهادة على الزنا وتعتبر فيها أربعة من الرجال، ومنها الشهادة ببقية الحدود والقصاص تقبل فيها شهادة رجلين، ولا تقبل في هذين القسمين شهادة النساء هكذا في الهداية....الخ"

 (كتاب الشهادات ،الباب الثاني في بيان تحمل الشهادة وحد أدائها والامتناع عن ذلك،3/ 451،ط:رشيدية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ويثبت الزنا عند الحاكم ظاهرا بشهادة أربعة يشهدون عليه بلفظ الزنا لا بلفظ الوطء والجماع كذا في التبيين.....الخ"

 (كتاب الحدود ،الباب الثاني في الزنا،2/ 143،ط:رشيدية)

حشرات الارض بطور علاج کھانا

 حشرات الارض کا کھانا  ، جمہور فقہاء کے نزدیک حرام ہے، الا یہ کہ: بطورِ علاج ہو اور کسی بھی طب میں اس کے علاوہ کوئی اور علاج نہ ہو ،اس میں شفا یقینی ہو اور  ماہر مسلمان باعمل  طبیب  کی رائے اس کے استعمال کی ہو تو اس صورت میں حرام سے بھی علاج کی گنجائش ہے 

  • اختلف فی التداوی بالمحرم  وظاہر المذہب المنع ۔۔۔۔۔وقیل یرخص اذا علم فیہ الشفاء ولم یعلم دواء اخر کما رخص الخمر للعطشان وعلیہ الفتوی (شامی، ج  : ۱، ص: ۲۱۰)
  • بدائع الصنائع (ج: ۵، ص: ۳۶، ط:دار الکتب العلمیہ)
  • الفقہ الاسلامی وادلتہ، ج: ۴ص: ۳۲۵، ط: دارالفکر دمشق

کچرابیچنا

 جب کچرے والا اس کچرے کو اپنے لئے اٹھا کر محفوظ کر لیتا ہے اور اس سے قیمتی اور فالتو چیزوں کو ڈھونڈھ کر الگ کر لیتا ہے ، تو اس صورت میں اس کی ملکیت ان اشیاء میں ثابت ہو جاتی ہے ،اب اس کے  لیے ان اشیاء کو آگے فروخت کرناجائز ہے۔

درر الحكام في شرح مجلة الأحكام میں ہے:

"(كما أن الكلأ النابت في الأراضي التي لا صاحب لها مباح كذلك الكلأ النابت في ملك شخص بدون تسببه مباح أيضا. أما إذا تسبب ذلك الشخص في هذا الخصوص بأن أعد أرضه وهيأها بوجه ما لأجل الإنبات كسقيه أرضه أو إحاطتها بخندق من أطرافها فالنباتات الحاصلة في تلك الأرض تكون ماله فلا يسوغ لآخر أن يأخذ منها شيئا فإذا أخذ شيئا واستهلكه يكون ضامنا) . .......وبيع هذا الكلأ قبل إحرازه باطل. " 

(الباب الرابع فی بیان شرکہ الاباحة،الفصل الاول فی الاشیاء المباحة وغیرالمباحة، ج:3، ص:254، ط:دار الکتب العلمیة)

بدائع الصنائع میں ہے:

 "و أما الكلأ الذي ينبت في أرض مملوكة، فهو مباح، غير مملوك، إلا إذا قطعه صاحب الأرض، و أخرج فيملكه، هذا جواب ظاهر الرواية عن أصحابنا. و قال بعض المتأخرين من مشايخنا  رحمهم الله: أنه إذا سقاه، و قام عليه، ملكه، و الصحيح جواب ظاهر الرواية؛ لأنّ الأصل فيه هو الإباحة، لقوله  صلى الله علیه و سلّم: الناس شركاء في ثلاث: الماء، و الكلأ، و النار. و الكلأ:اسم لحشيش ينبت من غير صنع العبد، و الشركة العامة هي الإباحة، إلا إذا قطعه و أحرزه؛ لأنه استولى على مال مباح غير مملوك، فيملكه كالماء المحرز في الأواني ،والظروف ،وسائر المباحات التي هي غير مملوكة لأحد." 

(کتاب الاراضی، انواع الاراضی وبیان حکم کل نوع منھا،ج:6،  ص:193، ط:دارالجیل)