https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Saturday 22 May 2021

اسرائیل اور فلسطین کے مابین جنگ بندی کا اعلان

 اسرائیل اور فلسطین کے مابین جنگ بندی کااعلان تو ہوگیا لیکن یہ ایک ادھورا عمل ہے جن جوہات کی بناپر باربارجھڑپیں ہوتی ہیں معصوموں کاخون بہتاہے بمباری ہوتی ہے انسانیت کوشرمسارکیاجاتاہے.اب بھی گیارہ دن مسلسل جنگ چلی جس میں دوسوتیس فلسطینی خواتین بچے اور عام لوگ مارگیئے اسی طرح بارہ لوگ اسرائیل  کے مارے گھاس کے علاوہ پچاس ہزار سے زیادہ فلسطینی بے گھر ہوئے اس کے علاوہ دونوں طرف کے زخمیوں اور مالی نقصانات  کااندازہ بھی لگایاجاسکتاہے. اس کے مستقل حل کی کوشش ہونی چاہیے اور اس پرمسلسل بات ہونی چاہیے. موجودہ جنگ بندی محض وقتی عمل ہے .پوری دنیاکے لیڈران فلسطین اور اسرائیل کے درمیان جاری کشیدگی کے مستقل حل پربات کریں اور ایک پائیدار اور دیرپاامن کی کوش


ش ہوتاکہ مشرق وسطیٰ میں دیر پا امن قائم ہوسکے .

Wednesday 19 May 2021

ایک اور مسجد شہید

 بھارتی ریاست اتر پردیش کے ضلع بارہ بنکی کی تحصیل رام سنیہی گھاٹ میں حکام نے تقریباً سو برس پرانی ایک مسجد کو غیر قانونی بتا کر مسمار کر دیا ہے۔بھارتی ریاست اتر پردیش میں سنی وقف بورڈ نے 'غریب نواز مسجد' کی مسماری کو غیر قانونی بتاتے ہوئے کہا ہے کہ حکام کی یہ کارروائی ریاستی ہائی کورٹ کے احکامات و ہدایات کی بھی خلاف ورزی ہے۔ سنی وقف بورڈ نے اس کے خلاف ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ سنی وقف بورڈ کے ایک بیان میں کہا گیا ہے، ''مسجد کی پھر سے بحالی، اس معاملے کی اعلی سطح پر عدالتی تفتیش اور قانون کی خلاف ورزی کرنے والے حکام کے خلاف کارروائی کے لیے عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا گيا ہے۔‘‘ یہ واقعہ ضلع بارہ بنکی کی تحصیل رام سنیہی گھاٹ کا ہے جو مغلیہ دور کی مسمار کی جانے والی معروف بابری مسجد سے تقریباً 56 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس کا نام 'نواز غریب مسجد' تھا، جو تحصیل کے اندر ہی بنی کدہ گاؤں میں تقریبا ایک صدی سے قائم تھی۔ دو روز قبل مقامی حکام نے اس کو بلڈوزر سے ڈھانے کے بعد اس کا ملبہ پاس کی ندی میں پھینک دیا۔ 

مسلم تنظیموں کا رد عمل: یو پی وقف بورڈ کے چیئرمین ظفر فاروقی کی جانب سے اس حوالے سے میڈیا کے لیے جو بیان جاری کیا گيا ہے، اس میں، ''ضلعی انتظامیہ اور تحصیل کے حکام کی غیر قانونی اور غیر ذمہ دارانہ کارروائی کی سخت الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔ تحصیل کے احاطے میں یہ مسجد گزشتہ تقریباً سو برسوں سے قائم تھی جس پر حکام نے غیر قانونی قبضے کا الزام عائد کرتے ہوئے مسمار کر دیا۔‘‘ بیان میں مزید کہا گيا، ''یہ کارروائی پوری طرح سے غیر قانونی، طاقت کا بے جا استعمال اور گزشتہ ماہ ہائی کورٹ نے جو احکامات دیے تھے اس کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔‘‘ مسلم پرسنل لاء بورڈ اور کئی دیگر مسلم تنظیموں نے بھی اس انہدام کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کے مطابق اس مسجد کے بارے میں کسی بھی فریق سے کوئی بھی تنازعہ نہیں تھا۔ ان کا کہنا تھا،''یہ مسجد سنی وقف بوڑد کی دستاویزات میں درج ہے۔ مقامی افسران نے البتہ مارچ میں مسجد کی کمیٹی سے اس کی دستاویزات طلب کی تھیں اور اسی لیے مسجد کی منتظمہ کمیٹی نے ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ کتنی تعجب کی بات ہے کہ حکومت نے بغیر کسی نوٹس کے مسجد ڈھا دی۔‘‘ واضح رہے کہ الہ آباد ہائی کورٹ نے 24 اپریل کو اپنے ایک اہم فیصلے میں کہا تھا کہ کسی بھی جگہ سے انخلا، لوگوں کو دوسری جگہ منتقل کرنے یا پھر انہیں اجاڑنے سے متعلق کسی بھی سول یا پھر دیگر عدالتوں کی جانب سے جو فیصلے سنائے گئے ہیں اگر اس پر عمل نہیں ہوا ہے تو اس پر آئندہ 31 مئی تک عمل کرنے پر پابندی عائد کی جاتی ہے۔ لیکن سرکاری حکام نے اپنی اس کارروائی کا یہ کہہ کر دفاع کیا ہے کہ انہوں نے عدالت کے حکم کے مطابق یہ کارروائی کی ہے۔ ضلعی انتظامیہ نے اپنے ایک بیان میں مسجد کے بجائے ایک متنازعہ رہائشی عمارت کا لفظ استعمال کرتے ہوئے کہا کہ رام سنیہی گھاٹ کی تحصیل کے رہائشی کملپکس میں ایس ڈی ایم کی رہائش کے سامنے ایک غیر قانونی عمارت تھی۔ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ آدرش سنگھ کا کہنا ہے، ''متعلقہ افراد کو 15مارچ کو ایک نوٹس جاری کیا گيا تھا اور ان سے اس بارے میں اپنا نکتہ نظر پیش کرنے کا بھی کہا گیا تھا۔ لیکن وہاں رہنے والے افراد نوٹس کا جواب دینے کے بجائے فرار ہو گئے۔ حکام نے 18 مارچ کو ہی اس عمارت کو اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔‘‘ مقامی صحافیوں کا کہنا ہے کہ اس واقعے کی وجہ سے ضلع بارہ بنکی اور ایودھیا سمیت آس پڑوس میں حالات کسی  قدر کشیدہ ہیں۔ ان کے مطابق کورنا وائرس کی وجہ سے سخت بندشیں عائد ہیں اس لیے لوگ گھروں میں قید ہیں۔ تاہم حکام نے علاقے میں سکیورٹی کا زبردست پہرہ لگا رکھا ہے۔ لکھنؤ سے کئی اہم مسلم شخصیات نے متاثرہ علاقے کا دورہ کرنے کی کوشش کی ہے تاہم حکام کسی کو بھی وہاں جانے کی اجازت نہیں دے رہے ہیں۔ لکھنؤ میں ایک سینیئر صحافی کا کہنا تھا کہ ریاست میں کورونا کی ابتر صورت حال کے پیش نظر یوگی کی حکومت اس وقت شدید تنقید کی زد میں ہے اور اس طرح کی کارروائیوں کا ایک مقصد یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پہلے ہی سے مذہبی خطوط پر تقسیم ریاست میں مزید تفرقہ بازی سے لوگوں کی توجہ وبا کے بجائے دوسرے امور کی جانب مبذول کی جا سکے۔ تحصل رام سنیہی گھاٹ کے پاس ہی ایودھیا واقع ہے جہاں 25 برس قبل سخت گیر نظریات کے حامل ہندو قوم پرستوں نے تقریباً پانچ سو برس قدیم مغلیہ دور کی معروف بابری مسجد کو دن دہاڑے منہدم کر دیا تھا۔ مسلم تنظیموں نے اس مسجد کے لیے بھی طویل جد وجہد کی تاہم انہیں حکومت، حکام اور عدالت کے روپے سے مایوسی کے سوا کچھ بھی ہاتھ نہ لگا۔ بھارتی سپریم کورٹ نے تاریخی بابری مسجد کے انہدام کو غلط بتایا تھا تاہم عدالت نے اس کے باوجود اس کی جگہ رام مندر کے تعمیر کی اجازت دی جہاں اس وقت مغیلہ دور کی بابری مسجد کے مقام پر بڑے جوش و جذبے کے ساتھ رام مندر کی تعمیر کا کام جاری ہے۔

وائے ناکامی متاع کارواں جاتارہا

کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتارہا 

اسرائیلی جارحیت کوامریکی پشت پناہی

 غزہ پراسرائیلی بمباری جاری ہے. دوسو سے زیادہ خواتین بچے اور عام لوگ شہید ہوچکے ہیں. اقوام متحدہ اور امریکا جنگ بند کرانے میں مکمل طور سے ناکام ہوچکے ہیں امریکی اتحادی بالخصوص سعودی عرب  اور مصر کی خاموشی معنی خیز ہے. یہ اسرائیلی اورامریکی  موقف  کی عملاََ تائید ہے.   جسے عالم اسلام ہمیشہ رد کرتارہاہے. .اسرائیل اور امریکا کے حلیف عرب حکمرانوں  کی یہ خاموشی ظالموں کی تائید  میں ہے .لیکن عرب عوام ان سب  کا بہت جلد وہی حال کرنے والے ہیں جو معمرقذافی کاکیاتھا حقیقتاً یہ  اسی کے حقدار ہیں. 


طلاق اور خلع کی عدت

خلع یاطلاق کے بعد عورت کے ذمہ تین ماہواری کی عدت گزارنا ضروری ہے، بشرطیکہ حاملہ نہ ہو، حمل سے ہونے کی صورت میں بچہ جننے تک عدت شمار ہوگی، اور اگر کسی کو ماہواری آتی ہی نہ ہو تو اس صورت میں اس کی عدت تین ماہ ہوگی، ۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"إذَا طَلَّقَ الرَّجُلُ امْرَأَتَهُ طَلَاقًا بَائِنًا أَوْ رَجْعِيًّا أَوْ ثَلَاثًا أَوْ وَقَعَتْ الْفُرْقَةُ بَيْنَهُمَا بِغَيْرِ طَلَاقٍ وَهِيَ حُرَّةٌ مِمَّنْ تَحِيضُ فَعِدَّتُهَا ثَلَاثَةُ أَقْرَاءٍ سَوَاءٌ كَانَتْ الْحُرَّةُ مُسْلِمَةً أَوْ كِتَابِيَّةً، كَذَا فِي السِّرَاجِ الْوَهَّاجِ.وَالْعِدَّةُ لِمَنْ لَمْ تَحِضْ لِصِغَرٍ أَوْ كِبَر أَوْ بَلَغَتْ بِالسِّنِّ وَلَمْ تَحِضْ ثَلَاثَةَ أَشْهُرٍ، كَذَا فِي النُّقَايَةِ."

( كتاب الطلاق، الْبَابُ الثَّالِثَ عَشَرَ فِي الْعِدَّةِ، ١ / ٥٢٦، ط: دار الفكر)

فجر کی نمازاداکئے بغیر ظہر پڑھنا

  غیرصاحب ترتیب  (پانچ سے زائد قضاء نمازیں جس کے ذمہ ہوں وہ) تو فجر کی قضاء نماز ادا کیے بغیر ظہر کی نماز پڑھ سکتا ہے۔ اور اگر وہ صاحب ترتیب ہے (پانچ یا اس سے کم قضاء نمازیں اس کے ذمہ ہیں) تو پہلے فجرکی نماز  ادا کرنا ضروری ہے، اگر پہلے ظہر پڑھ لی تو فجر ادا کرنے کے بعد ظہر کی نماز دوبارہ پڑھنی پڑے گی۔ ہاں اگر صاحب ترتیب نے بھولے سے ظہر کی نماز پہلے پڑھ لی یا وقت میں قضاء پڑھنے کی گنجائش نہ رہنے کی وجہ سے ظہر پہلے پڑھ لی تو ظہر ادا ہوگئی بعد میں دہرانے کی ضرورت نہیں، لیکن پھر قضاء فجر کو مغرب سے پہلے پہلے پڑھ لے۔ الترتیب بین الفائتة القلیلة وہی مادون ست صلوات، وبین الوقتیة وکذا التّرتیب بین نفس الفوائت القلیلة مستحق أي لازم ․․․․․ والأصل في لزوم الترتیب قولہ صلی اللہ علیہ وسلم: من نام عن صلاة أو نسیہا فلم یذکرہا إلاّ وہو یصلّي مع الإمام فلیصلّ الّتي ہو فیہا ثمّ لیقض التي تذکر ثمّ لیعد الّتي صلّی مع الإمام ․․․․․ ویسقط الترتیب بأحد ثلاثة أشیاء: الأوّل: ضیق الوقت المستحبّ في الأصحّ ، والثّاني: النّسیان، والثّالث: إذا صار الفوائت ستّا ۔ (مراقي الفلاح، کتاب الصّلاة ، باب قضاء الفوائت، ص: ۴۴۰تا ۴۴۳، دارالکتاب دیوبند)

فجر کی نماز اداکئے بغیرعید کی نماز پڑھی توکونسی اداہوئی

   فجر کی نماز فرض ہے، جب کہ عیدین کی نماز واجب ہے، عیدین کی نماز کے وجوب اور صحیح ہونے کا مدار فجر کی نماز پر نہیں ہے ؛ لہذا اگر کسی شخص نے فجر کی نماز ادا کیے بغیر عیدین کی نماز ادا کرلی تو اس کی نمازِ عید  ادا ہوجائے گی، البتہ فجر کی قضا اس کے ذمہ لازم  ہے ، جس کی ادائیگی یاد آتے ہی کرنا ہوگی، بلاعذر قضا کرنے اور یاد آنے کے بعد بھی قضا میں تاخیر پر گناہ ہوگا۔

انسانی اعضاء کاعطیہ اور پیوندکاری

  کسی چیز کو ہبہ کرنے یا عطیہ کے طور پر دینے کے لیے یہ شرط ہے کہ وہ شے  مال ہو ، اور دینے  والے کی ملکیت ہو ، اور یہی شرط وصیت کے لیے بھی ہے۔ جیساکہ "فتاوی عا لمگیری" میں ہے:

"وَأَمَّا مَا يَرْجِعُ إلَى الْوَاهِبِ، فَهُوَ أَنْ يَكُونَ الْوَاهِبُ مِنْ أَهْلِ الْهِبَةِ، وَكَوْنُهُ مِنْ أَهْلِهَا أَنْ يَكُونَ حُرًّا عَاقِلًا بَالِغًا مَالِكًا لِلْمَوْهُوبِ حَتَّى لَوْ كَانَ عَبْدًا أَوْ مُكَاتَبًا أَوْ مُدَبَّرًا أَوْ أُمَّ وَلَدٍ أَوْ مَنْ فِي رَقَبَتِهِ شَيْءٌ مِنْ الرِّقِّ أَوْ كَانَ صَغِيرًا أَوْ مَجْنُونًا أَوْ لَا يَكُونُ مَالِكًا لِلْمَوْهُوبِ لَا يَصِحُّ، هَكَذَا فِي النِّهَايَةِ. وَأَمَّا مَا يَرْجِعُ إلَى الْمَوْهُوبِ فَأَنْوَاعٌ، مِنْهَا: أَنْ يَكُونَ مَوْجُودًا وَقْتَ الْهِبَةِ فَلَا يَجُوزُ هِبَةُ مَا لَيْسَ بِمَوْجُودٍ وَقْتَ الْعَقْدِ ... ومِنْهَا: أَنْ يَكُونَ مَالًا مُتَقَوِّمًا فَلَا تَجُوزُ هِبَةُ مَا لَيْسَ بِمَالٍ أَصْلًا كَالْحُرِّ وَالْمَيْتَةِ وَالدَّمِ وَصَيْدِ الْحَرَمِ وَالْخِنْزِيرِ وَغَيْرِ ذَلِكَ، وَلَا هِبَةُ مَا لَيْسَ بِمَالٍ مُطْلَقٍ كَأُمِّ الْوَلَدِ وَالْمُدَبَّرِ الْمُطْلَقِ وَالْمُكَاتَبِ، وَلَا هِبَةُ مَا لَيْسَ بِمَالٍ مُتَقَوِّمٍ كَالْخَمْرِ، كَذَا فِي الْبَدَائع"۔ (4 / 374، کتاب الھبہ، ط؛رشیدیہ)

علامہ  شامی لکھتے ہیں  :

"(وَشَرَائِطُهَا: كَوْنُ الْمُوصِي أَهْلًا لِلتَّمْلِيكِ) فَلَمْ تَجُزْ مِنْ صَغِيرٍ وَمَجْنُونٍ وَمُكَاتَبٍ إلَّا إذَا أَضَافَ لِعِتْقِهِ كَمَا سَيَجِيءُ (وَعَدَمُ اسْتِغْرَاقِهِ بِالدَّيْنِ) لِتَقَدُّمِهِ عَلَى الْوَصِيَّةِ كَمَا سَيَجِيءُ (وَ) كَوْنُ (الْمُوصَى لَهُ حَيًّا وَقْتَهَا) تَحْقِيقًا أَوْ تَقْدِيرًا لِيَشْمَلَ الْحَمْلَ الْمُوصَى لَهُ فَافْهَمْهُ فَإِنَّ بِهِ يَسْقُطُ إيرَادُ الشُّرُنْبُلَالِيُّ (وَ) كَوْنُهُ (غَيْرَ وَارِثٍ) وَقْتَ الْمَوْتِ (وَلَا قَاتِلٍ) وَهَلْ يُشْتَرَطُ كَوْنُهُ مَعْلُومًا. قُلْت: نَعَمْ كَمَا ذَكَرَهُ ابْنُ سُلْطَانٍ وَغَيْرُهُ فِي الْبَابِ الْآتِي (وَ) كَوْنُ (الْمُوصَى بِهِ قَابِلًا لِلتَّمَلُّكِ بَعْدَ مَوْتِ الْمُوصِي)"۔ (6/649، کتاب الوصایا،سعید)

 انسان کو اپنے اعضاء میں حقِ منفعت تو حاصل ہے، مگر حقِ ملکیت حاصل نہیں ہے، جن اموال و منافع پر انسان کو حقِ مالکانہ حاصل نہ ہو  انسان  ان اموال یا منا فع کی مالیت کسی دوسرے انسان کو منتقل نہیں کرسکتا۔

(4) انسانی اعضاء و جوارح انسان کے پاس امانت ہیں  اور انسان ان کا نگران اور محافظ ہے، اور امین کو  ایسے تصرفات کا اختیار نہیں ہوتا جس کی اجازت امانت رکھنے والے نے نہ دی ہو،  جیساکہ فتاوی عالمگیری میں ہے:

"وَأَمَّا حُكْمُهَا فَوُجُوبُ الْحِفْظِ عَلَى الْمُودَعِ وَصَيْرُورَةُ الْمَالِ أَمَانَةً فِي يَدِهِ وَوُجُوبُ أَدَائِهِ عِنْدَ طَلَبِ مَالِكِهِ، كَذَا فِي الشُّمُنِّيِّ". (4/338، کتاب الودیعہ، ط؛رشیدیہ)

(5) انسان قابلِ احترام اور مکرم ہے، اس کے اعضاء میں سے کسی عضو کو  اس کے بدن سے  الگ کرکے  دوسرے انسان کو دینے میں انسانی تکریم کی خلاف ورزی لازم آتی ہے، یہی وجہ ہے کہ فقہاء نے علاج ومعالجہ  اور شدید مجبوری کے موقع پر بھی انسانی اعضاء کے استعمال کو ممنوع قرار دیا ہے، چناچہ شرح سیر الکبیر میں ہے:

"وَالْآدَمِيُّ مُحْتَرَمٌ بَعْدَ مَوْتِهِ عَلَى مَا كَانَ عَلَيْهِ فِي حَيَاتِهِ. فَكَمَا يَحْرُمُ التَّدَاوِي بِشَيْءٍ مِنْ الْآدَمِيِّ الْحَيِّ إكْرَامًا لَهُ فَكَذَلِكَ لَا يَجُوزُ التَّدَاوِي بِعَظْمِ الْمَيِّتِ. قَالَ  صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : «كَسْرُ عَظْمِ الْمَيِّتِ كَكَسْرِ عَظْمِ الْحَيِّ»" . ( شرح السیر الکبیر(1 /89)

 نیز جس طرح کسی زندہ آدمی کے کسی عضو کو لے کر علاج کرنا درست نہیں ہے ،اسی طرح کسی مردہ انسان کے عضو سے بھی علاج کرنا جائز نہیں ہے۔جیساکہ "فتاوی ہندیہ " میں ہے:

"الِانْتِفَاعُ بِأَجْزَاءِ الْآدَمِيِّ لَمْ يَجُزْ، قِيلَ: لِلنَّجَاسَةِ، وَقِيلَ: لِلْكَرَامَةِ، هُوَ الصَّحِيحُ، كَذَا فِي جَوَاهِرِ الْأَخْلَاطِيِّ". (5 / 354، الباب الثامن عشر فی التداوی والمعالجات، ط: رشیدیہ)

      یعنی آدمی کے تمام اعضاء سے فائدہ اٹھانے کی حرمت اس کی تکریم و احترم کے پیش ِ نظر ہے، تاکہ جس ہستی کو اللہ تعالی نے مکرم ومحترم بنایا ہے لوگ اس کے اعضاء و جوارح کو استعمال کرنے کی جسارت نہ کریں۔

(6)  اگر انسانی اعضاء کی پیوندکاری کو جائز قرار دیا جائے تویہ پوری انسانیت کے لیے ایک بڑاخطرہ اورتباہی  کاذریعہ بنےگا،کیوں کہموجودہ زمانہ کے حالات و ماحول اورمعاشرہ میں پھیلی ہوئی بددیانتی کودیکھتےہوئےکوئی بعیدنہیں کہ لوگ اعضاءکی منتقلی کےجواز کے فتووں کابےجااستعمال کرتے ہوئےاسےباقاعدہ ایک کاروبار کی شکل دے دیں اورانہی اعضاءکواپنا ذریعۂ معاش بنالیں۔اس کا نتیجہ یہ ہوگاکہ:

1..بازار میں دیگراشیاءکی طرح انسانی اعضاءکی بھی علانیہ ورنہ خفیہ خرید و فروخت شروع ہوجائےگی، جو بلاشبہ انسانی شرافت  کے خلاف  اورناجائز ہے۔

۲..غربت زدہ لوگ  اپنا اور بچوں کاپیٹ پالنے  کے لیے اور اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے اپنے اعضاءفروخت کرناشروع کردیں گے۔

۳.. مُردوں کی بے حرمتی اوراُن کے ساتھ  ظالمانہ رویّہ شروع ہوجائے گا ،  بالخصوص لاوارث مُردےاپنے بہت سے اعضاء سے محروم ہوکر دنیا سے جایا کریں گے، اور یہ بھی بعید نہیں کہ مال و دلت کے لالچی اور پُجاری مدفون لاشوں کو اکھاڑکر اپنی ہوس پوری کرنے لگیں،جیسا کہ مختلف ذرائع سے سننے میں آتا رہتا ہے۔

۴.. خدا نخواستہ یہ معاملہ بڑھتا رہا تو صرف اپنی موت مرنے والوں تک ہی یہ سلسلہ محدود نہیں رہے گا ، بلکہ اس کام کے لیے  بہت سے معصوم انسانوں کے قتل کا بازار گرم ہوجانا اور اس مقصد  کے لیے اغوا کا شروع ہونا ممکن ہے جو پورے انسانی معاشرے کی تباہی کا اعلان ہے۔

            مذکورہ بالا  دلائل کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب قدس اللہ سرہ تحریر فرماتے ہیں:

” انسان کے اعضاء و اجزاء انسان کی اپنی ملکیت نہیں ہیں جن میں وہ مالکانہ تصرفات کرسکے، اسی لیے ایک انسان اپنی جان یا اپنے اعضاء و جوارح کو نہ بیچ سکتا ہےنہ کسی کو ہدیہ اور ہبہ کے طور پر دے سکتا ہے،اور نہ ان چیزوں کو اپنے اختیار سے ہلاک و ضائع کرسکتا ہے۔ شریعتِ اسلامیہ کے اصول میں تو خود کشی کرنا اور اپنی جان یا اعضاء رضاکارانہ طور پر یا بقیمت کسی کو دے دینا قطعی طور حرام ہی ہے جس پر قرآن و سنت کی نصوصِ صریحہ موجود ہیں، تقریباً دنیا کے ہر مذہب و ملت اور عام حکومتوں کے قوانین میں اس کی گنجائش نہیں، اس لیے کسی زندہ انسان کا کوئی عضو کاٹ کر دوسرے انسان میں لگادینا اس کی رضامندی سے بھی جائز نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔شریعتِ اسلام نے صرف زندہ انسان کے کارآمد اعضاء ہی کا نہیں بلکہ قطع شدہ بے کار اعضاء و اجزاء کا استعمال بھی حرام قرار دیا ہے، اور مردہ انسان کے کسی عضو کی قطع و برید کو بھی ناجائز کہا ہے، اور اس معاملہ میں کسی کی اجازت اور رضامندی سے بھی اس کے اعضاء و اجزاء کے استعمال کی اجازت نہیں دی، اور اس میں مسلم و غیرمسلم سب کا حکم یکساں ہے؛ کیوں کہ یہ انسانیت کا حق ہےجو سب میں برابر ہے۔تکریمِ انسانی کو شریعتِ اسلام نے وہ مقام عطا کیا ہے کہ کسی وقت کسی حال کسی کو انسان کے اعضاء و اجزاء حاصل کرنے کی طمع دامن گیر نہ ہو، اور اس طرح یہ مخدومِ کائنات اور اس کے اعضاء عام استعمال کی چیزوں سے بالاتر ہیں جن کو کاٹ چھانٹ کر یا کوٹ پیس کر غذاؤں اور دواؤں اور دوسرے مفادات میں استعمال کیا جاتا ہے، اس پر ائمہ اربعہ اور پوری امت کے فقہاء متفق ہیں، اور نہ صرف شریعتِ اسلام بلکہ شرائعِ سابقہ اور تقریباً ہر مذہب و ملت میں یہی قانون ہے"۔     (انسانی اعضاء کی پیوندکاری، ص: ۳۶، مصدقہ مجلسِ تحقیقِ مسائلِ حاضرہ)

بندر کاجھوٹا پانی پاک ہے یا ناپاک؟

 بندر کا جھوٹا ناپاک ہے: وسوٴر خنزیر و کلب وسبع بھائم نجس (الدر المختار مع الشامي، ط زکریا : ج۱ ص۳۸۹)  ٹنکیوں  کاپانی چوں کہ عموماً ماء راکد قلیل (ٹھہرا ہوا تھوڑا پانی) ہوتا ہے اس لیے بندر کے منھ ڈالنے سے ایسا پانی ناپاک ہوجائے گا۔ اور اس کے پاک کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ٹنکی میں ایک طرف سے پانی داخل کیا جائے اور دوسری طرف سے نکالا جائے، دوسری طرف سے پانی نکلتے ہی ٹنکی اور پائپ وغیرہ سب پاک ہوجائیں گے۔ پاک کرنے کے لیے پانی کی کوئی خاص مقدار نکالنا ضروری نہیں۔ البتہ احتیاط یہ ہے کہ بندر کے پیتے وقت جتنا پانی ٹنکی میں موجود رہا ہو اتنا پانی نکال دیا جائے: وقال أبوجعفر الھندواني: یطھر بمجرد الدخول من جانب والخروج من جانب وإن لم یخرج مثل ما کان فیہ، وھو أي قول الھندواني اختار الصدر الشھید حسام الدین لأنہ حینئذ یصیر جاریًا والجاري لا ینجس ما لم یتغیر بالنجاسة (شرح منیة بحوالہ آلاتِ جدیدہ کے شرعی احکام: ص۱۸۵) 

Tuesday 18 May 2021

کورونا ویکسین لگوانا شرعی طور پر درست ہے

 موجودہ حالات میں کرونا وائرس کا جو  انجیکشن مرض سے  بچاؤ کے لیے بطور ویکسین  لگایا جارہا  ہے ، چوں کہ  یہ ویکسین  احتیاط کے طور پر مبینہ بیماری سے بچاؤ اور پیشگی علاج کے طور پر  لگائی  جارہی ہے ، یقینی بیماری  کا علاج مقصود نہیں ؛اس لیے اس کا شرعی حکم یہ ہے کہ اگر کوئی ماہر دین دار ڈاکٹر اس بات کی تصدیق کردے کہ  یہ مضر صحت نہیں اور تجربے سے اس کا مفید ہونا ثابت ہوجائے ، نیز  اس میں کوئی  حرام  یا ناپاک چیز  ملی ہوئی ہونے کا یقین یا ظن غالب نہ ہو تو اس کا لگانا جائز ہے متعدد ممالک کے علماء نے کوروناویکسین کے جواز کافتوی ڈھائے نیز حرام اشیاء کی آمیزش سے بالکل پاک ہونے کی معتبر سائنسدانوں نے تصدیق کی ہے،حرام چیز کی آمیزش کے صرف شک وشبہ کی وجہ سے اس کو حرام نہیں کہا جائے گا ، اور اگر حرام اجزاء یا ناپاک چیز ملی ہوئی  ہونے کا یقین یا ظن غالب ہو  تو اس صورت میں پیشگی علاج کے طور پر اس کا استعمال اس وقت تک  جائز نہیں جب تک کہ ماہردین دارڈاکٹر اس کی تصدیق نہ کردے کہ اسی سے علاج ممکن ہے ۔

البتہ اگر  کرونا کے کسی مریض کو بطورِ  دوا  یہ انجیکشن لگایا جائے تو اس صورت میں اگر اس میں حرام اجزاء کی آمیزش کا یقین یا غالب گمان  نہیں تو استعمال جائز ہے،  لیکن اگر حرام کی آمیزش کا قرائن سے معلوم ہوجائے تو یقینی بیماری کی صورت  میں بھی  اس کا استعمال  اس وقت تک جائز نہیں جب تک  مسلمان  ماہر دین دار طبیب یہ نہ  کہہ دے کہ   اس بیماری کا علاج کسی بھی حلال چیز سے ممکن نہیں ہے،  بلکہ یہی حرام اجزاء ملی دوا ضروری ہے  اور تجربے سے اس کا مفید ہونا ثابت ہوجائے تو مجبوراً بطورِ دوا و علاج بقدرِ ضرورت حرام اجزاء ملی انجیکشن  استعمال کی گنجائش ہوگی۔

" فتاوی شامی" میں ہے:

"الْأَصْلُ فِي الْأَشْيَاءِ الْإِبَاحَةُ، وَأَنَّ فَرْضَ إضْرَارِهِ لِلْبَعْضِ لَا يَلْزَمُ مِنْهُ تَحْرِيمُهُ عَلَى كُلِّ أَحَدٍ، فَإِنَّ الْعَسَلَ يَضُرُّ بِأَصْحَابِ الصَّفْرَاءِ الْغَالِبَةِ، وَرُبَّمَا أَمْرَضَهُمْ مَعَ أَنَّهُ شِفَاءٌ بِالنَّصِّ الْقَطْعِيِّ، وَلَيْسَ الِاحْتِيَاطُ فِي الِافْتِرَاءِ عَلَى اللَّهِ تَعَالَى بِإِثْبَاتِ الْحُرْمَةِ أَوْ الْكَرَاهَةِ اللَّذَيْنِ لَا بُدَّ لَهُمَا مِنْ دَلِيلٍ، بَلْ فِي الْقَوْلِ بِالْإِبَاحَةِ الَّتِي هِيَ الْأَصْلُ".

(6 / 459، کتاب الاشربہ، ط: سعید)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 210):

"اختلف في التداوي بالمحرم، وظاهر المذهب المنع كما في رضاع البحر، لكن نقل المصنف ثمة وهنا عن الحاوي: وقيل: يرخص إذا علم فيه الشفاء ولم يعلم دواء آخر كما رخص الخمر للعطشان، وعليه الفتوى."

مطلب في التداوي بالمحرم: (قوله: اختلف في التداوي بالمحرم) ففي النهاية عن الذخيرة: يجوز إن علم فيه شفاء ولم يعلم دواء آخر. وفي الخانية في معنى قوله عليه الصلاة والسلام: «إن الله لم يجعل شفاءكم فيما حرم عليكم»، كما رواه البخاري: أن ما فيه شفاء لا بأس به كما يحل الخمر للعطشان في الضرورة، وكذا اختاره صاحب الهداية في التجنيس فقال: لورعف فكتب الفاتحة بالدم على جبهته وأنفه جاز للاستشفاء، ... وهذا؛ لأن الحرمة ساقطة عند الاستشفاء كحل الخمر والميتة للعطشان والجائع. اهـ من البحر. وأفاد سيدي عبدالغني أنه لايظهر الاختلاف في كلامهم لاتفاقهم على الجواز للضرورة، واشتراط صاحب النهاية العلم لاينافيه اشتراط من بعده الشفاء ولذا قال والدي في شرح الدرر: إن قوله: لاللتداوي محمول على المظنون وإلا فجوازه باليقيني اتفاق كما صرح به في المصفى. اهـ. أقول: وهو ظاهر موافق لما مر في الاستدلال، لقول الإمام: لكن قد علمت أن قول الأطباء لايحصل به العلم. والظاهر أن التجربة يحصل بها غلبة الظن دون اليقين إلا أن يريدوا بالعلم غلبة الظن وهو شائع في كلامهم، تأمل. (قوله: وظاهر المذهب المنع) محمول على المظنون كما علمته (قوله: لكن نقل المصنف إلخ) مفعول نقل قوله: وقيل: يرخص إلخ والاستدراك على إطلاق المنع، وإذا قيد بالمظنون فلا استدراك. ونص ما في الحاوي القدسي: إذا سال الدم من أنف إنسان ولاينقطع حتى يخشى عليه الموت وقد علم أنه لو كتب فاتحة الكتاب أو الإخلاص بذلك الدم على جبهته ينقطع فلايرخص له فيه؛ وقيل: يرخص كما رخص في شرب الخمر للعطشان وأكل الميتة في المخمصة، وهو الفتوى. اهـ (قوله: ولم يعلم دواء آخر) هذا المصرح به في عبارة النهاية كما مر وليس في عبارة الحاوي، إلا أنه يفاد من قوله: كما رخص إلخ؛ لأن حل الخمر والميتة حيث لم يوجد ما يقوم مقامهما أفاده ط. قال: ونقل الحموي أن لحم الخنزير لايجوز التداوي به وإن تعين، والله تعالى أعلم".

ائمہ وموذنین اور ان کی تنخواہوں کامعیار

 مساجد کے ائمہ ،مؤذنین اور خدام کے وظائف  ان کی صلاحیتوں ، معاشی ضروریات اور مہنگائی کی شرح کو سامنے رکھتے ہوئے  طے کرنے چاہئیں اور ان ہی امور کو مدنظر رکھ کر وقتاً فوقتاً ان وظائف میں معقول اضافہ بھی کرنا چاہیے ۔

اسی نوعیت کے ایک سوال کے جواب میں مفتی عبدالرحیم لاجپوری رحمہ اللہ فتاوی رحیمیہ میں لکھتے ہیں :

امامت کی تنخواہ اور اس کا معیار:

(الجواب)اسلام میں منصب امامت کی بڑی اہمیت ہے، یہ ایک باعزت باوقار اور باعظمت اہم دینی شعبہ ہے ، یہ مصلّٰی رسول اﷲﷺکا مصلّٰی ہے ، امام نائب رسول ہوتا ہے اور امام اﷲ رب العزت اور مقتدیوں کے درمیان قاصد اور ایلچی ہوتاہے ،اس لئے جو سب سے بہتر ہو اسے امام بنانا چاہئے ، حدیث میں ہے : اگر تمہیں یہ پسند ہے کہ تمہاری نماز درجہ مقبولیت کو پہنچے تو تم میں جو بہتر اور نیک ہو وہ تمہاری امامت کر ے کہ وہ تمہارے اور تمہارے پروردگار کے درمیان قاصد ہے:"ان سرکم ان تقبل صلوتکم فلیؤ مکم علماء کم فانھم وفدکم فیما بینکم وبین ربکم، رواہ الطبرانی وفی روایۃ الحاکم فلیؤ مکم خیارکم وسکت عنہ "(شرح نقایہ ۱/۸۶ والاولی بالا مامۃ الخ )

دوسری حدیث میں ہے کہ تم میں جو سب سے بہتر ہو ا س کو امام بناؤ کیونکہ وہ تمہارے اور تمہارے پروردگار کے درمیان ایلچی ہے (حوالۂ بالا)

فقہ کی مشہور کتاب نور الا یضاح میں ہے :

"فالا علم احق بالا مامۃ ثم الا قرأ ثم الاورع ثم الا سن ثم الا حسن خلقاً ثم الا حسن وجھا ثم للاشراف نسباًثم الا حسن صوتا ثم الا نظف ثوباً "۔(۸۳،۸۴ باب الامامۃ)

 امامت کا زیادہ حق دار وہ ہے جو دین کے امور کا زیادہ جاننے والا ہو (خصوصاً نماز سے متعلق مسائل سے سب سے زیادہ واقف ہو ) پھر وہ شخص جو تجوید سے پڑھنے میں زیادہ ماہر ہو، پھر جو زیادہ متقی اور پرہیز گار ہو ، پھر وہ جو عمر میں بڑا ہو ، پھر وہ جو اچھے اخلاق والا ہو ، پھر وہ جو خوبصورت اورباوجاہت ہو ، پھر وہ جونسباً زیادہ شریف ہو پھر وہ جس کی آواز اچھی ہو پھر وہ جو زیادہ پاکیزہ کپڑے پہنتا ہو۔۔۔فی زماننا یہ ذمہ داری متولیان مساجد اور محلہ وبستی کے بااثر لوگوں کی ہے ، ان کو اس اہم مسئلہ پر توجہ دینا بہت ضروری ہے ،ائمہ مساجد کے ساتھ اعزاز و احترام کا معاملہ کریں ، ان کو اپنا مذہبی پیشوا اور سردار سمجھیں ، ان کو دیگر ملازمین اور نوکروں کی طرح سمجھنا منصب امامت کی سخت توہین ہے ، یہ بہت ہی اہم دینی منصب ہے ، پیشہ ورملازمتوں کی طرح کوئی ملازمت نہیں ہے ، جانبین سے اس عظیم منصب کے احترام، وقار، عزت اور عظمت کی حفاظت ضروری ہے۔۔۔امام مسجد اگر حقیقتاًضرورت مند اور معقول مشاہرہ کے بغیر اس کا گذر بسر مشکل ہورہا ہو تو مناسب انداز سے متولیان مسجد اور محلہ کے با اثر لوگوں کے سامنے اپنا مطالبہ بھی پیش کرسکتا ہے اور ذمہ داران مساجد اور بااثر لوگوں پر ہمدردی اور شفقت کے ساتھ اس طرف توجہ دینا بھی ضروری ہے ، اس صورت میں اماموں کو ایسا طریقہ اختیار کرنا جس سے منصب امامت کی توہین لازم آتی ہو ہرگز جائز نہ ہوگا، امام منصب امامت کے وقار عظمت اور قدرو قیمت کا محافظ اور امین ہے، ایسا طریقہ جس سے منصب امامت کی تذلیل تنقیص لازم آتی ہو ہر گز اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی .....الخ ۔

فقط واﷲ اعلم بالصواب ۔احقر الا نام سید عبدالرحیم لا جپوری ثم راندیری غفرلہ‘ ۱ شوال المکرم۱۴۱۵؁ھ۔(فتاوی رحیمیہ 9/292دارالاشاعت)"

نیز ایک اور سوال کے جواب میں لکھتے ہیں :

امام کی ذمہ داریاں کیا ہیں اور اس کی تنخواہ کتنی ہونی چاہئے ؟

(الجواب)اقول وباﷲ التوفیق۔

حدیث شریف میں ہے :اعطوا الا جیر قبل ان یجف عرقہ (ابن ماجہ ،مشکوٰۃ شریف ص: ۲۵۸ ،باب الاجارۃ )

یعنی مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے دے دو۔آنحضرتﷺنے فرمایا قیامت کے روز جن تین آدمیوں کے خلاف میں مدعی ہوں گا،ا ن میں سے ایک ’’رجل استاجراجیراً فاستوفی منہ ولم یعطہ اجرہ‘‘ وہ شخص ہے جو کسی کو مزدوررکھے اور اس سے پور اکام لے لے مگر مزدوری پوری نہ دے (بخاری شریف ، بحوالہ مشکوٰۃ شریف ص ۲۵۸ ایضاً)

مزدوری پوری نہ دینے کا مطلب صرف اتنا ہی نہیں کہ اس کی مزدوری مار لے اور پوری نہ دے بلکہ اس میں یہ بھی شامل ہے کہ جتنی اجرت اس کا م کی ملنی چاہئے اتنی نہ دے اور اس کی مجبوری سے فائدہ اٹھائے کہ کم سے کم اجرت پر کام لے لے۔فقہاء کرام رحمہم اﷲ نے تصرح کی ہے ۔" ویعطی بقدر الحاجۃ والفقہ والفضل ان قصر کان اﷲ علیہ حسیباً"۔ یعنی متولی اور مدرسہ کے مہتمم کو لازم ہے کہ خادمان مساجد و مدارس کو ان کی حاجت کے مطابق اور ان کی علمی قابلیت اور تقویٰ وصلاح کو ملحوظ رکھتے ہوئے وظیفہ و مشاہرہ (تنخواہ) دیتے رہیں ۔ باوجود گنجائش کے کم دینا بری بات ہے ۔ اور متولی و مہتمم خدا کے جواب دہ ہوں گے 

دارالعلوم دیوبند  کافتوی حسب ذیل ہے:

بسم الله الرحمن الرحيم

  • Fatwa:872-762/sd=11/1440

    امام کی تنخواہ اتنی ہونی چاہیے کہ جس سے اُس کی ضروریات تنگی اور محتاجگی کے بغیر پوری ہوجائیں اور اس کو یکسوئی حاصل رہے، علاقے کی نوعیت کے اعتبار سے اس کی مقدار مختلف ہوسکتی ہے اورتنخواہ کے نظم کی ذمہ داری جس طرح مسجد کمیٹی کی ہے، اسی طرح مصلیوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ تنخواہ کے اخراجات کے لیے حسب وسعت تعاون کریں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند


لاک ڈاؤن یاایام تعطیل میں قاضی ,ائمہ اورمدرسین کی تنخواہ کامسئلہ

  مدارس کے مدرسین کے ساتھ تدریس کا جو معاہدہ  عموماً ہوتا ہے، اس کی تین ممکنہ صورتیں ہوتی ہیں: الف:… معاہدہ میں یہ طے ہواہو کہ مدرسین کے ساتھ یہ عقد سالانہ بنیادوں پر ہے، اس صورت میں حکم واضح ہے کہ انہیں ایامِ تعطیلات یعنی شعبان ورمضان کی تنخواہ بھی ملے گی، کیوں کہ ایامِ تعطیلات، ایامِ پڑھائی کے تابع ہیں۔ مدرسین کو اُن میں آرام کا موقع دیاجاتاہے، تاکہ اگلے سال پورے نشاط کے ساتھ تعلیم وتدریس کا سلسلہ برقرار رکھ سکیں۔

ب:… معاہدہ میں کسی بات کی وضاحت نہ ہو کہ اس عقد کی مدت کتنی ہے! تو ایسی صورت میں عرف کا اعتبار کرتے ہوئے اس معاہدہ کو  سال بھر کے لئے شمار کیا جائے گا، کیوں کہ مدارس کے عرف میں تدریس کا معاہدہ سالانہ  ہوتا ہے۔

ج:… معاہدہ میں اس بات کی شرط ہو کہ یہ معاملہ شوال سے رمضان تک ہوگا، اگلے سال معاہدہ کی تجدید ہوگی، اور مدرسین بھی اس بات پر راضی ہوں تو ایسی صورت میں یہ معاملہ سالانہ نہیں ہوگا، بلکہ تصریح کے مطابق شوال سے رمضان تک شمار ہوگا اور مذکورہ مدرسین رمضان کی تنخواہ کے مستحق نہ ہوں گے۔

الاشباہ والنظائرمیں ہے:

 " ومنها البطالة في المدارس کأیام الأعیاد ویوم عاشوراء وشهر رمضان في درس الفقه لم أرها صریحة في کلامهم. والمسألة علٰی وجهین: فإن کانت مشروطةً لم یسقط من المعلوم شیئ وإلا فینبغي أن یلحق ببطالة القاضي وقد اختلفوا في أخذ القاضي مارتب له من بیت المال في یوم بطالته ، فقال في المحیط: إنه یأخذ یوم البطالة لأنه یستریح للیوم الثاني، وقیل: لایأخذ، انتهى. وفي المنیة: القاضي یستحق الکفایة من بیت المال في یوم البطالة في الأصح، واختاره في منظومة ابن وهبان وقال: إنه الأظهر، فینبغي أن یکون کذلک في المدارس؛ لأن یوم البطالة للاستراحة، وفي الحقیقة یکون للمطالعة والتحریر عند ذی المهمة". (الأشباه والنظائر، الفن الأول، القاعدة السادسة: العادة محکمة، ص:۹۶،ط:قدیمی

اس سلسلے میں  دارالعلوم دیوبند  فتوی درج ذیل ہے

بسم الله الرحمن الرحيم

Fatwa : 792-657/D=10/1441
اگر وہ لوگ مدرسہ کے مستقل ملازم ہیں تو وہ ایام رخصت کی تنخواہ کے حق دار ہوتے ہیں اسی طرح لاک ڈاوٴن کی وجہ سے جو پابندی عاید ہوگئی جس کی وجہ سے ملازمین اور مدرسین مدرسہ کا کام نہ کر سکے تو اجارہ کا معاملہ برقرار رہنے کی وجہ سے وہ تنخواہ کے حقدار ہوں گے؛ البتہ مہینہ پورا ہونے پر فوری مطالبہ تنخواہ کا نہ کیا جائے بلکہ مدرسہ میں رقم فراہم ہونے تک مہلت دیدی جائے تاکہ اہل مدرسہ کو بھی ادا کرنے میں گنجائش اور سہولت حاصل رہے۔
ہاں اگر مدرسہ کے ذمہ داروں نے مدرسہ میں پیسہ نہ ہونے کی وجہ سے ملازم کو اجارہ ختم کرنے کی اطلاع کردی ہوتو پھر آئندہ دنوں کی تنخواہ بذمہ مدرسہ لازم نہ ہوگی۔
قال فی الدر: تفسخ بالقضا او الرضا ․․․․․․ وبعذر افلاس مستاجر دکان لیتجر الخ (الدر مع الرد: ۹/۱۱۲)
اس عبارت سے واضح ہے کہ مستاجر کا مفلس ہو جانا اجارہ کے ختم ہونے کے اعذار میں سے ہے۔


واللہ تعالیٰ اعلم


دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند

فلسطین پراسرائیلی مظالم, امریکہ, اقوام متحدہ اورعالم اسلام کی بے بسی


 فلسطینی شہر غزہ پراسرائیل کی جانب سے مسلسل بمباری جاری ہے. جس میں دوسو سے زیادہ بے گناہ لوگ معصوم بچے اورخواتین ہلاک ہوچکے ہیں زخمیوں کی تعداد ہزاروں میں ہے. مسلم ممالک بالخصوص عرب  خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں. ان کی رگ حمیت قومی وملی پنجۂ اسرائیل وامریکہ میں اس طرح جکڑی ہوئی ہے کہ وہ صرف دبے الفاظ میں مذمت کررہے ہیں صرف ایک ایران ہے جس کے تعاون کااعتراف فلسطینی اتھارٹی نے کیا ہے.سعودی عرب یمن میں تو حوثیوں سےبے مقصدجنگ لڑرہاہے.لیکن مسئلۂ فلسطین پر بولنے کے لئے اس  میں ہمت نہیں کیونکہ اس کاسب سے قریبی حلیف امریکہ ہی اسرائیل اور سعودی عرب کاحقیقی سرپرست ہے. حالاں کہ پوری دنیا جانتی ہے کہ اسرائیل امریکہ کاپروردہ ہے اور اس کی دوغلی پالیسیوں کی وجہ سے ہی مسئلۂ فلسطین اب تک حل نہ ہوسکا. عالم اسلام کو چاہئے کہ وہ اپنی فوج تشکیل دے فلسطین کوبھی اس کارکن بنائے  جس کامقصد عالم اسلام کی حفاظت ہو اور کسی بھی رکن ملک پرحملہ کی صورت میں یہ فوج دفاع کرے .

آج اسرائیل و امریکہ نے اقوام متحدہ, بین الاقوامی قوانین ,اور انسانیت کو شرمسارہی نہیں بلکہ بے معنی کردیا ہے. فلسطینی اپنے دفاع کے لئے راکٹ داغیں تو دہشت گردی اوراسرائیل بمباری کرے تواپنادفاع. ببیں تفاوت رہ ازکجا ست تابکجا . 

Monday 17 May 2021

کورونا وائرس کی وجہ سے ماسک لگاکر نماز پڑھنا

 بغیر کسی عذرکے  ناک اور منہ  کپڑے وغیرہ میں لپیٹ کر نماز پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے، لہذا عام حالات میں فیس ماسک لگا کر نماز پڑھنا مکروہ ہے،  البتہ اگر کسی عذر کی وجہ سے نماز میں چہرہ کو ڈھانپا جائے یا ماسک پہنا جائے تو  نماز بلاکراہت درست ہو گی، کرونا وائرس کی وبا کے دنوں میں حفظانِ صحت کے اصولوں کی رو سے حکومتی احکامات  اور مسلمان دین دار، تجربہ کا رڈاکٹر وں کے مشوروں کے مطابق اگر اس پر عمل کیا جائے تو نماز بلاکراہیت درست ہے ۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 652):

"يكره اشتمال الصماء والاعتجار والتلثم والتنخم وكل عمل قليل بلا عذر".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 652):

"(قوله: والتلثم) وهو تغطية الأنف والفم في الصلاة؛ لأنه يشبه فعل المجوس حال عبادتهم النيران، زيلعي. ونقل ط عن أبي السعود: أنها تحريمية".