https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Tuesday 18 May 2021

ائمہ وموذنین اور ان کی تنخواہوں کامعیار

 مساجد کے ائمہ ،مؤذنین اور خدام کے وظائف  ان کی صلاحیتوں ، معاشی ضروریات اور مہنگائی کی شرح کو سامنے رکھتے ہوئے  طے کرنے چاہئیں اور ان ہی امور کو مدنظر رکھ کر وقتاً فوقتاً ان وظائف میں معقول اضافہ بھی کرنا چاہیے ۔

اسی نوعیت کے ایک سوال کے جواب میں مفتی عبدالرحیم لاجپوری رحمہ اللہ فتاوی رحیمیہ میں لکھتے ہیں :

امامت کی تنخواہ اور اس کا معیار:

(الجواب)اسلام میں منصب امامت کی بڑی اہمیت ہے، یہ ایک باعزت باوقار اور باعظمت اہم دینی شعبہ ہے ، یہ مصلّٰی رسول اﷲﷺکا مصلّٰی ہے ، امام نائب رسول ہوتا ہے اور امام اﷲ رب العزت اور مقتدیوں کے درمیان قاصد اور ایلچی ہوتاہے ،اس لئے جو سب سے بہتر ہو اسے امام بنانا چاہئے ، حدیث میں ہے : اگر تمہیں یہ پسند ہے کہ تمہاری نماز درجہ مقبولیت کو پہنچے تو تم میں جو بہتر اور نیک ہو وہ تمہاری امامت کر ے کہ وہ تمہارے اور تمہارے پروردگار کے درمیان قاصد ہے:"ان سرکم ان تقبل صلوتکم فلیؤ مکم علماء کم فانھم وفدکم فیما بینکم وبین ربکم، رواہ الطبرانی وفی روایۃ الحاکم فلیؤ مکم خیارکم وسکت عنہ "(شرح نقایہ ۱/۸۶ والاولی بالا مامۃ الخ )

دوسری حدیث میں ہے کہ تم میں جو سب سے بہتر ہو ا س کو امام بناؤ کیونکہ وہ تمہارے اور تمہارے پروردگار کے درمیان ایلچی ہے (حوالۂ بالا)

فقہ کی مشہور کتاب نور الا یضاح میں ہے :

"فالا علم احق بالا مامۃ ثم الا قرأ ثم الاورع ثم الا سن ثم الا حسن خلقاً ثم الا حسن وجھا ثم للاشراف نسباًثم الا حسن صوتا ثم الا نظف ثوباً "۔(۸۳،۸۴ باب الامامۃ)

 امامت کا زیادہ حق دار وہ ہے جو دین کے امور کا زیادہ جاننے والا ہو (خصوصاً نماز سے متعلق مسائل سے سب سے زیادہ واقف ہو ) پھر وہ شخص جو تجوید سے پڑھنے میں زیادہ ماہر ہو، پھر جو زیادہ متقی اور پرہیز گار ہو ، پھر وہ جو عمر میں بڑا ہو ، پھر وہ جو اچھے اخلاق والا ہو ، پھر وہ جو خوبصورت اورباوجاہت ہو ، پھر وہ جونسباً زیادہ شریف ہو پھر وہ جس کی آواز اچھی ہو پھر وہ جو زیادہ پاکیزہ کپڑے پہنتا ہو۔۔۔فی زماننا یہ ذمہ داری متولیان مساجد اور محلہ وبستی کے بااثر لوگوں کی ہے ، ان کو اس اہم مسئلہ پر توجہ دینا بہت ضروری ہے ،ائمہ مساجد کے ساتھ اعزاز و احترام کا معاملہ کریں ، ان کو اپنا مذہبی پیشوا اور سردار سمجھیں ، ان کو دیگر ملازمین اور نوکروں کی طرح سمجھنا منصب امامت کی سخت توہین ہے ، یہ بہت ہی اہم دینی منصب ہے ، پیشہ ورملازمتوں کی طرح کوئی ملازمت نہیں ہے ، جانبین سے اس عظیم منصب کے احترام، وقار، عزت اور عظمت کی حفاظت ضروری ہے۔۔۔امام مسجد اگر حقیقتاًضرورت مند اور معقول مشاہرہ کے بغیر اس کا گذر بسر مشکل ہورہا ہو تو مناسب انداز سے متولیان مسجد اور محلہ کے با اثر لوگوں کے سامنے اپنا مطالبہ بھی پیش کرسکتا ہے اور ذمہ داران مساجد اور بااثر لوگوں پر ہمدردی اور شفقت کے ساتھ اس طرف توجہ دینا بھی ضروری ہے ، اس صورت میں اماموں کو ایسا طریقہ اختیار کرنا جس سے منصب امامت کی توہین لازم آتی ہو ہرگز جائز نہ ہوگا، امام منصب امامت کے وقار عظمت اور قدرو قیمت کا محافظ اور امین ہے، ایسا طریقہ جس سے منصب امامت کی تذلیل تنقیص لازم آتی ہو ہر گز اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی .....الخ ۔

فقط واﷲ اعلم بالصواب ۔احقر الا نام سید عبدالرحیم لا جپوری ثم راندیری غفرلہ‘ ۱ شوال المکرم۱۴۱۵؁ھ۔(فتاوی رحیمیہ 9/292دارالاشاعت)"

نیز ایک اور سوال کے جواب میں لکھتے ہیں :

امام کی ذمہ داریاں کیا ہیں اور اس کی تنخواہ کتنی ہونی چاہئے ؟

(الجواب)اقول وباﷲ التوفیق۔

حدیث شریف میں ہے :اعطوا الا جیر قبل ان یجف عرقہ (ابن ماجہ ،مشکوٰۃ شریف ص: ۲۵۸ ،باب الاجارۃ )

یعنی مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے دے دو۔آنحضرتﷺنے فرمایا قیامت کے روز جن تین آدمیوں کے خلاف میں مدعی ہوں گا،ا ن میں سے ایک ’’رجل استاجراجیراً فاستوفی منہ ولم یعطہ اجرہ‘‘ وہ شخص ہے جو کسی کو مزدوررکھے اور اس سے پور اکام لے لے مگر مزدوری پوری نہ دے (بخاری شریف ، بحوالہ مشکوٰۃ شریف ص ۲۵۸ ایضاً)

مزدوری پوری نہ دینے کا مطلب صرف اتنا ہی نہیں کہ اس کی مزدوری مار لے اور پوری نہ دے بلکہ اس میں یہ بھی شامل ہے کہ جتنی اجرت اس کا م کی ملنی چاہئے اتنی نہ دے اور اس کی مجبوری سے فائدہ اٹھائے کہ کم سے کم اجرت پر کام لے لے۔فقہاء کرام رحمہم اﷲ نے تصرح کی ہے ۔" ویعطی بقدر الحاجۃ والفقہ والفضل ان قصر کان اﷲ علیہ حسیباً"۔ یعنی متولی اور مدرسہ کے مہتمم کو لازم ہے کہ خادمان مساجد و مدارس کو ان کی حاجت کے مطابق اور ان کی علمی قابلیت اور تقویٰ وصلاح کو ملحوظ رکھتے ہوئے وظیفہ و مشاہرہ (تنخواہ) دیتے رہیں ۔ باوجود گنجائش کے کم دینا بری بات ہے ۔ اور متولی و مہتمم خدا کے جواب دہ ہوں گے 

دارالعلوم دیوبند  کافتوی حسب ذیل ہے:

بسم الله الرحمن الرحيم

  • Fatwa:872-762/sd=11/1440

    امام کی تنخواہ اتنی ہونی چاہیے کہ جس سے اُس کی ضروریات تنگی اور محتاجگی کے بغیر پوری ہوجائیں اور اس کو یکسوئی حاصل رہے، علاقے کی نوعیت کے اعتبار سے اس کی مقدار مختلف ہوسکتی ہے اورتنخواہ کے نظم کی ذمہ داری جس طرح مسجد کمیٹی کی ہے، اسی طرح مصلیوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ تنخواہ کے اخراجات کے لیے حسب وسعت تعاون کریں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند


No comments:

Post a Comment