https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Tuesday 18 May 2021

لاک ڈاؤن یاایام تعطیل میں قاضی ,ائمہ اورمدرسین کی تنخواہ کامسئلہ

  مدارس کے مدرسین کے ساتھ تدریس کا جو معاہدہ  عموماً ہوتا ہے، اس کی تین ممکنہ صورتیں ہوتی ہیں: الف:… معاہدہ میں یہ طے ہواہو کہ مدرسین کے ساتھ یہ عقد سالانہ بنیادوں پر ہے، اس صورت میں حکم واضح ہے کہ انہیں ایامِ تعطیلات یعنی شعبان ورمضان کی تنخواہ بھی ملے گی، کیوں کہ ایامِ تعطیلات، ایامِ پڑھائی کے تابع ہیں۔ مدرسین کو اُن میں آرام کا موقع دیاجاتاہے، تاکہ اگلے سال پورے نشاط کے ساتھ تعلیم وتدریس کا سلسلہ برقرار رکھ سکیں۔

ب:… معاہدہ میں کسی بات کی وضاحت نہ ہو کہ اس عقد کی مدت کتنی ہے! تو ایسی صورت میں عرف کا اعتبار کرتے ہوئے اس معاہدہ کو  سال بھر کے لئے شمار کیا جائے گا، کیوں کہ مدارس کے عرف میں تدریس کا معاہدہ سالانہ  ہوتا ہے۔

ج:… معاہدہ میں اس بات کی شرط ہو کہ یہ معاملہ شوال سے رمضان تک ہوگا، اگلے سال معاہدہ کی تجدید ہوگی، اور مدرسین بھی اس بات پر راضی ہوں تو ایسی صورت میں یہ معاملہ سالانہ نہیں ہوگا، بلکہ تصریح کے مطابق شوال سے رمضان تک شمار ہوگا اور مذکورہ مدرسین رمضان کی تنخواہ کے مستحق نہ ہوں گے۔

الاشباہ والنظائرمیں ہے:

 " ومنها البطالة في المدارس کأیام الأعیاد ویوم عاشوراء وشهر رمضان في درس الفقه لم أرها صریحة في کلامهم. والمسألة علٰی وجهین: فإن کانت مشروطةً لم یسقط من المعلوم شیئ وإلا فینبغي أن یلحق ببطالة القاضي وقد اختلفوا في أخذ القاضي مارتب له من بیت المال في یوم بطالته ، فقال في المحیط: إنه یأخذ یوم البطالة لأنه یستریح للیوم الثاني، وقیل: لایأخذ، انتهى. وفي المنیة: القاضي یستحق الکفایة من بیت المال في یوم البطالة في الأصح، واختاره في منظومة ابن وهبان وقال: إنه الأظهر، فینبغي أن یکون کذلک في المدارس؛ لأن یوم البطالة للاستراحة، وفي الحقیقة یکون للمطالعة والتحریر عند ذی المهمة". (الأشباه والنظائر، الفن الأول، القاعدة السادسة: العادة محکمة، ص:۹۶،ط:قدیمی

اس سلسلے میں  دارالعلوم دیوبند  فتوی درج ذیل ہے

بسم الله الرحمن الرحيم

Fatwa : 792-657/D=10/1441
اگر وہ لوگ مدرسہ کے مستقل ملازم ہیں تو وہ ایام رخصت کی تنخواہ کے حق دار ہوتے ہیں اسی طرح لاک ڈاوٴن کی وجہ سے جو پابندی عاید ہوگئی جس کی وجہ سے ملازمین اور مدرسین مدرسہ کا کام نہ کر سکے تو اجارہ کا معاملہ برقرار رہنے کی وجہ سے وہ تنخواہ کے حقدار ہوں گے؛ البتہ مہینہ پورا ہونے پر فوری مطالبہ تنخواہ کا نہ کیا جائے بلکہ مدرسہ میں رقم فراہم ہونے تک مہلت دیدی جائے تاکہ اہل مدرسہ کو بھی ادا کرنے میں گنجائش اور سہولت حاصل رہے۔
ہاں اگر مدرسہ کے ذمہ داروں نے مدرسہ میں پیسہ نہ ہونے کی وجہ سے ملازم کو اجارہ ختم کرنے کی اطلاع کردی ہوتو پھر آئندہ دنوں کی تنخواہ بذمہ مدرسہ لازم نہ ہوگی۔
قال فی الدر: تفسخ بالقضا او الرضا ․․․․․․ وبعذر افلاس مستاجر دکان لیتجر الخ (الدر مع الرد: ۹/۱۱۲)
اس عبارت سے واضح ہے کہ مستاجر کا مفلس ہو جانا اجارہ کے ختم ہونے کے اعذار میں سے ہے۔


واللہ تعالیٰ اعلم


دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند

No comments:

Post a Comment