https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Friday 19 April 2024

کافرکو کافر کہنا

 اگر کسی کا یہ نظریہ ہے کہ اسلام کافر کو کافر کہنے سے منع کرتا ہے اور کافر کو کافر نہیں کہہ سکتے خواہ وہ قرآن کا منکر ہو یا رسالت کا تو  یہ نظریہ درست نہیں قرآن و حدیث کے خلاف ہے کیونکہ قرآن و حدیث میں جابجا اہل کفر پر کافر اور کفار کا اطلاق آیا ہے البتہ اگر کسی خاص موقع پر کافر کو کافر کہنے میں کسی فتنے یا دینی نقصان یا ایذاء کا اندیشہ ہوتو پھر مصلحتا کافر کو صراحتا کافر نہ کہا جائے لیکن اس سے کفر کی نفی بھی نہ کی جائے جہاں تک مسئلہ ہے کافروں کے بارے میں اس بات کا عقیدہ رکھنے کا کہ یہ کافر ہے تو شرعاً اس میں کوئی حرج نہیں اور نہ ہی ایسا عقیدہ رکھنے والا آدمی دائرہ اسلام سے خارج ہوگا آدمی فی الحال کا مکلف ہے فی المآل آئندہ کا نہیں ورنہ مسلمان کے بارے میں بھی یہ احتمال نکل سکتا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ وہ آئندہ کافر ہو جائے لہٰذا اس کو بھی مسلمان کہنا درست نہ ہوگا۔ قل یا أیہا الکافرون لا أعبد ما تعبدون (القرآن) لو قال لیہودی أو مجوسي یا کافر یأ ثم إن شق علیہ کذا فی القنیة (فتاوی ہندیہ: ۵/۴۰۲، ط: اتحاد دیوبند) وکذلک انعقد إجماعہم علی أن مخالفة السمع الضروری کفر وخروج عن الاسلام (اکفار الملحدین: ۱۲۹، ط: دارالبشائر الاسلامیہ) أن کل ما یکرہہ الانسان إذا نودی بہ فلا یجوز لأجل الأدبة (تفسیر قرطبی: ۱۹/۳۹۴، ط: موسسة الرسالة) ۔

Thursday 18 April 2024

چہرے کا پردہ

 عورت کے لیے غیر محرم سے پردہ سر سے لے کر پاؤں تک تمام اعضاء کا ہے، خصوصاً چہرے  کا پردہ اس لیے کہ باعثِ کشش اور ذریعۂ فتنہ عورت کا چہرہ ہی ہے، ورنہ دوسرے بدن پر تو اس نے لباس پہن ہی رکھا ہوتا ہے!

قرآنِ کریم بھی ہمیں اس کی طرف راہ نمائی کرتا ہے کہ عورت کے چہرہ کا پردہ ہے، چنانچہ ارشاد ہے: 
{یا ایها النبی قل لازواجك و بنٰتك و نسآء المؤمنین یدنین علیهن من جلابیبهن} (الاحزاب:۵۹ )
ترجمہ: ’’اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم! اپنی ازواجِ مطہرات، اپنی بیٹیوں اور مؤمن عورتوں سے فرمادیجیے کہ اپنے (چہروں) پر پردے لٹکالیا کریں۔‘‘
اسی طرح یہ حکم بھی چہرے کے پردے کی طرف متوجہ کرتا ہے: 
{واذا سألتموهن متاعاً فاسئلوهن من وراء حجاب} (الاحزاب:۵۳)
ترجمہ: ’’جب ازواج مطہرات سے کچھ پوچھنا ہو تو پردے کے پیچھے سے پوچھا کریں۔‘‘ 

احادیثِ مبارکہ سے بھی عورت کے چہرے کے پردے کا ثبوت ملتاہے، اِحرام کے دوران جب کہ عورت کے لیے چہرے پر کپڑا لگائے رکھنا منع ہوتاہے، اس حال میں بھی صحابیات رضی اللہ عنہن اجنبی مردوں سے چہرہ چھپایا کرتی تھیں۔ صحیح بخاری میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے قافلہ سے بچھڑ جانے والے قصہ میں ان کا یہ فرمانا : قافلے سے پیچھے آنے والے صحابی کے ’’انا للہ‘‘ پڑھنے پر میں فوراً  نیند سے بیدار ہوگئی اور اپنا چہرہ چھپالیا۔ یہ بھی  اس بات کی دلیل ہےکہ عورت کے چہرے کا پردہ فرض ہے۔

جب خیر القرون میں امہات المومنین رضی اللہ عنہن جیسی پاکیزہ و مقدس ہستیوں کو یہ حکم ہوا تو  پندرہویں صدی کے اس شر و فتنہ کے دور اور مادر پدر آزاد ماحول کے آزاد خیال مردوں سے عورت کو چہرہ کے پردہ کا حکم کیوں نہ ہوگا؟

عورت کے چہرے کا پردہ صرف اجماع کی وجہ سے یا صرف فتنے کے زمانے کے ساتھ خاص نہیں ہے، بلکہ بہت سی نصوص سے چہرے کا پردہ ثابت ہے، اور خیر القرون میں جب ازواجِ مطہرات اور صحابیات رضوان اللہ علیہن کو چہرے کے پردے کا حکم تھا اور انہوں نے اس کا اہتمام کیا تو اس دور میں بدرجہ اولیٰ مؤمنات کو چہرے کے پردے کا اہتمام کرنا چاہیے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آیاتِ حجاب کی تفسیر میں چہرہ چھپانے اور صرف ایک یا دونوں آنکھیں کھلی رکھنے کی اجازت نقل فرمائی ہے۔

تفسیر ابن کثیر میں ہے:   

 ’’ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب عورتیں کسی ضرورت کے تحت اپنے گھروں سے نکلیں تو انہیں اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے کہ وہ بڑی چادروں کے ذریعہ اپنے سروں کے اوپر سے اپنے چہروں کو ڈھانپ لیں اور صر ف ایک آنکھ کھلی رکھیں اور محمد بن سیرین ؒ فرماتے ہیں کہ میں نے عبیدۃ السلمانی سے اللہ تعالیٰ کے ارشاد : {یدنین علیهن من جلابیبهن} کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے اپنے سر اور چہرہ کو ڈھانپ کر اور بائیں آنکھ کھول کر ا س کا مطلب  بتلایا‘‘۔

  (تفسیر ابن کثیر للإمام أبي الفداء الحافظ ابن کثیر الدمشقي ، سورة الأحزاب: تحت الآیة: {یدنین علیهن من جلابیبهن ...الخ: ۳؍۵۳۵۔ ط:قدیمی کراچی

نفاس کی زیادہ سے زیادہ مدت

 چالیس دن نفاس کی زیادہ سے زیادہ مدت ہے، نفاس کی کم سے کم کوئی مدت متعین نہیں ہے، تھوڑی دیر بھی خون آکر بند ہوسکتا ہے۔لہٰذا نفاس کی مدت میں چالیس دن کا مکمل ہونا ضروری  نہیں ، بلکہ جب  رحم سے آنے والا خون بند ہو اورعورت پاک ہوجائے  تو غسل کرکے نمازیں شروع کردے۔ خواہ پیدائش آپریشن سے ہوئی ہو یا نہیں۔

"لا حد لأقلہٖ"۔ (تنویر الابصار بیروت ۲؍۴۳۱)

"فلو ولدتہ من سرتہا إن سال الدم من الرحم فنفساء وإلا فذات جرح"۔ (درمختار بیروت ۱؍۴۳۰،)

"المرأۃ إذا ولدت ولم تر الدم ہل یجب علیہا الغسل والصحیح أنہ یجب"۔ (عالمگیری۱؍۱۶)ف

حیض کی کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ مدت

  

(۱) حیض کی کم سے کم مدت تین دن، اور زیادہ سے زیادہ مدت دس دن ہے، اگر کسی عورت کو تین سے کم یا دس دن سے زیادہ خون آیا تو وہ حیض شمار نہ ہوگا، بلکہ بیماری شمار ہوگا۔ اس میں نماز پڑھنا ضروری ہے، تلاوت بھی کرسکتی ہے اور اپنے شوہر کے ساتھ ہمبستری بھی کرسکتی ہے، مکر ہمبستری میں احتیاط کرنی چاہیے۔

Wednesday 17 April 2024

ایام حیض کونسے شمار ہوں گے

 صورتِ مسئولہ میں جس عورت کے بارے میں پوچھا جارہا ہے، اگرسوال میں  اس عورت کی ماہواری کے دنوں کی عادت بیان کردی جاتی، تو حتمی جواب دینے میں آسانی ہوتی، تاہم یہاں اصولی طور پر جواب دیا جارہا ہے۔

جس عورت کے حیض کی عام عادت  پوری ہونے کے بعد دو دن/تین دن خون آیا، اورپھر چھ/  سات دن پھر خون آیا،تو  یہ خون  استحاضہ شمار ہوگا ، استحاضہ کے دنوں میں روزہ بھی رکھے گی اور نماز بھی پڑھے گی، 

مذکورہ خاتون کا آنے والا خون اگر دس دن سے پہلے بند ہو جائے تو یہ تمام ایام ناپاکی کے شمار ہوں گے، اور خاتون کی عادت کی تبدیلی کا حکم لگایا جائے گا، لہذا ان دنوں میں نماز اور روزہ کا حکم نہیں ہو گا۔

  البتہ اگر دوبارہ آنے والا خون دس دن  کے بعد بھی جاری رہا تو اس صورت میں عادت سے زائد ایام میں آنے والا خون استحاضہ شمار ہوگا، جس کا حکم یہ ہے کہ اس حالت میں خاتون ہر نماز کے وقت کے لیے طہارت حاصل کرکے (تجدیدِ وضو کرکے )  تمام عبادات کرنے کی پابند ہوگی، اور جتنے دنوں کی نمازیں یا روزے رہ گئے تھے ان کی قضا کرنے کی پابند ہوگی۔

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"الطھر المتخلل بین الدمین والدماء فی مدۃ الحیض یکون حیضاً ولو خرج أحد الدمين عن مدة الحيض بأن رأت يوما دما وتسعة طهرا ويوما دما مثلا لا يكون حيضا لأن الدم الأخير لم يوجد في مدة الحيض."

(كتاب الطهارة ، الفصل الاول في الحيض ج : 1 ص : 36 ط : رشيدية)

وفیه أیضاً:

"فان لم یجاوز العشرۃ فالطھر والدم کلاھما حیض سواء کانت مبتدأۃ او معتادۃ وان جاوز العشرۃ ففی المبتدأۃ حیضھا عشرۃ ایام وفی المعتادۃ معروفتھا فی الحیض حیض والطھر طھر."

(كتاب الطهارة ، الفصل الاول في الحيض ج : 1 ص  :37 ط : رشيدية)

اجماع کاانکار کیسا ہے

 اجماع کی بنیادی طور پر تین قسمیں ہیں(۱) اجماع قولی (۲) اجماع عملی (۳) اجماع سکوتی اور پھر اجماع کرنے والوں کے اعتبار سے اجماع کے حسبِ ذیل تین درجات ہیں:

۱۔سب سے قوی درجہ کا اجماع وہ ہے جو تمام صحابہ کرام نے عملی یا زبانی طور پر صراحتاً کیا ہو،اس کے حجت ِ قطعیہ ہونے پر پوری امت کا اتفاق ہے ۔

۲۔دوسرا درجہ صحابہ کرام کے ”اجماع سکوتی“ کا ہے یہ بھی اگر چہ حنفیہ سمیت بہت سے فقہاء کے نزدیک حجت قطعیہ ہے ،مگر اس کا منکر کافر نہیں۔

۳۔تیسرے درجہ کا وہ اجماع ہے جو صحابہ کرام کے بعد کسی زمانے کے تمام فقہاء نے کیا ہو یہ جمہور کے نزدیک حجت ہے مگر حجتِ قطعیہ نہیں اور اس کا منکر بھی کافر نہیں۔تین طلاق کا مسئلہ اگرچہ اجماع صحابہ سے ثابت ہے مگر اجماعِ سکوتی سے ثابت ہے ؛اس لیے اس کے منکر کو کافر نہیں کہیں گے ۔

وَقَوْلُ بَعْضِ الْحَنَابِلَةِ الْقَائِلِینَ بِہَذَا الْمَذْہَبِ: تُوُفِّیَ رَسُولُ اللَّہِ - صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ - عَنْ مِائَةِ أَلْفِ عَیْنٍ رَأَتْہُ فَہَلْ صَحَّ لَکُمْ عَنْ ہَؤُلَاءِ أَوْ عَنْ عُشْرِ عُشْرِ عُشْرِہِمْ الْقَوْلُ بِلُزُومِ الثَّلَاثِ بِفَمٍ وَاحِدٍ بَلْ لَوْ جَہَدْتُمْ لَمْ تُطِیقُوا نَقْلَہُ عَنْ عِشْرِینَ نَفْسًا بَاطِلٌ، أَمَّا أَوَّلًا فَإِجْمَاعُہُمْ ظَاہِرٌ، فَإِنَّہُ لَمْ یُنْقَلْ عَنْ أَحَدٍ مِنْہُمْ أَنَّہُ خَالَفَ عُمَرَ - رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ - حِینَ أَمْضَی الثَّلَاثَ، وَلَیْسَ یَلْزَمُ فِی نَقْلِ الْحُکْمِ الْإِجْمَاعِیِّ عَنْ مِائَةِ أَلْفٍ أَنْ یُسَمَّی کُلٌّ لِیَلْزَمَ فِی مُجَلَّدٍ کَبِیرٍ حُکْمٌ وَاحِدٌ عَلَی أَنَّہُ إجْمَاعٌ سُکُوتِیٌّ․ (فتح القدیر:3/470،الناشر: دار الفکر)

مفادکے لئے اپنے آپ کو غیر مسلم ظاہر کرنا

 فرمان باری تعالی ہے:

مَنْ كَفَرَ بِاللَّهِ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ وَلَكِنْ مَنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِنَ اللَّهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ

ترجمہ: جس شخص نے ایمان لانے کے بعد اللہ سے کفر کیا، الّا یہ کہ وہ مجبور کر دیا جائے اور اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو [تو یہ معاف ہے] مگر جس نے کھلے دل سے کفر قبول کیا تو ایسے لوگوں پر اللہ کا غضب ہے اور انہی کے لئے بہت بڑا عذاب ہے [النحل: 106]

اس آیت کی تفسیر میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ آیت جہم بن صفوان اور اس کے پیروکاروں کے موقف کو غلط قرار دیتی ہے؛ کیونکہ اس آیت کی رو سے جس نے بھی کلمہ کفر کہا اسے وعیدی کافروں میں شمار کیا گیا ہے، ماسوائے ایسے شخص کے جسے مجبور کیا گیا اور اس کا دل ایمان پر مطمئن تھا۔
اگر اس پر اعتراض کرتے ہوئے کہا جائے کہ: اللہ تعالی نے تو یہ فرما دیا ہے کہ:

 وَلَكِنْ مَنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا [یعنی جس نے شرح صدر کے ساتھ کفر کیا تو وہ کافر ہے] تو اس کے جواب میں کہا جائے گا: آیت کا یہ حصہ بھی پہلے حصے کے عین مطابق ہے؛ لہذا اگر کوئی شخص جبر کے بغیر ہی کفر کرے تو اس نے کھلے دل سے کفر کا ارتکاب کیا۔ [اس کا یہ مطلب نہ لیا جائے تو] وگرنہ آیت کا اول اور آخری حصہ آپس میں متضاد ہو جائیں گے۔ اگر یہاں کفر کرنے والے سے مراد وہ شخص ہو جو بلا اکراہ شرح صدر کے ساتھ کھلے دل سے کفر کرے تو محض مجبور شخص کو مستثنی نہیں کیا جائے گا، بلکہ پھر عدم شرح صدر کی صورت میں مجبور اور غیر مجبور دونوں کو لازمی طور پر مستثنی قرار دینا ضروری ہو گا۔ تاہم اگر اپنی مرضی سے کوئی شخص کلمۂ کفر کہتا ہے تو یہ کھلے دل سے کفریہ کلمہ کہنا ہے جو کہ کفر ہے۔

اس بات کی دلیل اللہ تعالی کے اس فرمان میں موجود ہے:

يَحْذَرُ الْمُنَافِقُونَ أَنْ تُنَزَّلَ عَلَيْهِمْ سُورَةٌ تُنَبِّئُهُمْ بِمَا فِي قُلُوبِهِمْ قُلِ اسْتَهْزِئُوا إِنَّ اللَّهَ مُخْرِجٌ مَا تَحْذَرُونَ (64) وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ إِنَّمَا كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ قُلْ أَبِاللَّهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ (65) لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ إِنْ نَعْفُ عَنْ طَائِفَةٍ مِنْكُمْ نُعَذِّبْ طَائِفَةً بِأَنَّهُمْ كَانُوا مُجْرِمِينَ

ترجمہ: منافقوں کو ہر وقت اس بات کا کھٹکا لگا رہتا ہے کہ کہیں مسلمانوں پر کوئی سورت اترے جو ان کے دلوں کی باتیں انہیں بتلا دے۔ کہہ دیجئے کہ مذاق اڑاتے رہو، یقیناً اللہ تعالی اسے ظاہر کرنے والا ہے جس کا تمہیں خدشہ ہے۔ [64] اگر آپ ان سے پوچھیں تو صاف کہہ دیں گے کہ ہم تو صرف شغل کی بات کر رہے تھے اور دل لگی کر رہے تھے۔ کہہ دیجئے کہ اللہ اس کی آیتیں اور اس کا رسول ہی تمہارے ہنسی مذاق کے لئے رہ گئے ہیں [65] تم بہانے نہ بناؤ یقیناً تم اپنے ایمان کے بعد بے ایمان ہوگئے اگر ہم تم میں سے کچھ لوگوں سے درگزر بھی کر لیں تو کچھ لوگوں کو ان کے جرم کی سنگین سزا بھی دیں گے [التوبۃ: 64 - 66]
تو یہاں اللہ تعالی نے بتلا دیا کہ ان منافقین نے ایمان لانے کے بعد اپنی کہی ہوئی باتوں کی وجہ سے کفر کر لیا ؛ حالانکہ منافقین کا کہنا تھا کہ: "ہم نے کفریہ باتیں کفر کا نظریہ رکھے بغیر کہی ہیں، ہم تو صرف شغل کی بات کر رہے تھے اور دل لگی کر رہے تھے۔" اللہ تعالی نے یہ بھی واضح کر دیا کہ اللہ تعالی کی آیات سے مذاق کرنا بھی کفر ہے؛ [کیونکہ] کفر کا حکم اسی پر لگے گا جو کفریہ بات کو شرح صدر کے ساتھ کہے، اگر منافق کے دل میں ایمان ہوتا تو اس کا ایمان اسے ایسی بات کرنے سے لازمی روکتا۔"
ماخوذ از: " مجموع الفتاوى " ( 7 / 220 ) ، مزید دیکھیں: "الصارم المسلول" صفحہ نمبر: (524)


لہذا جو شخص بھی جان بوجھ کر اپنی مکمل مرضی سے واضح طور پر کفر کرے تو وہ کافر ہو جائے گا، چاہے اس کا یہ کفر دنیاوی مفادات کے حصول کے لئے ہو، اس دنیا کی خاطر ہی لوگوں سے کفریہ عمل زیادہ ہوتا ہے، تاہم اس سے ایسے شخص کو مستثنی قرار دیا جائے گا جسے واقعی مجبور کیا گیا ہو اس کے لئے مجبور کرنے کی شرائط کو بھی مد نظر رکھا جائے گا۔

جیسے کہ امام قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ جس شخص کو کفر پر اتنا مجبور کیا جائے کے اسے اپنی جان کا خطرہ لاحق ہو جائے اور وہ اس طرح کفر کرے کہ اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ " ختم شد
ماخوذ از: " الجامع لأحكام القرآن " ( 12 / 435 )

لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جبر اور زبردستی کی حد کیا ہے؟

تو جبر کی حد بندی کے متعلق اہل علم کے مختلف اقوال ہیں، تاہم سب کے سب اجمالی طور پر اس چیز میں مشترک ہیں کہ انسان کو حقیقی معنوں میں قتل یا کسی عضو کو تلف کرنے کی دھمکی دی جائے، یا عورت کو زنا کی دھمکی ملے یا مرد کو لواطت کی یا اس طرح کی سنگین قسم کی دھمکی دی جائے۔

جیسے کہ موسوعہ فقہیہ کویتیہ: ( 6 / 101 – 102 ) میں جبر اور زبردستی واقع ہونے کی شرائط بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
"قتل یا کسی عضو کو تلف کرنے کی دھمکی دی جائے، چاہے اس میں عضو باقی رہے لیکن اس کی کارکردگی جاتی رہے مثلاً: بینائی سلب کر لی جائے، یا ہاتھ سے پکڑنے اور پاؤں سے چلنے کی صلاحیت باقی نہ رہے لیکن ہاتھ اور پاؤں باقی رہیں، یا کوئی ایسا نقصان کرنے کی دھمکی ملے جس کا غم دائمی ہو ، مثلاً: عورت کو زنا کی دھمکی دینا اور مرد  کو لواطت کی دھمکی دینا۔

جبکہ بھوکے رکھنے کی دھمکی دونوں طرح کی ہو سکتی ہے، شرعی طور پر جبر اور زبردستی اسی وقت متصور ہو گی جب  بھوک انسان کو مرنے کے قریب کر دے۔۔۔" ختم شد

جبکہ اپنی مالی حالت اچھی کرنے کے لئے صراحت کے ساتھ کفر کرنا تو بالکل بھی جبر اور زبردستی میں شامل نہیں ہو گا۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"میں نے [حنبلی] مذہب میں غور و فکر کیا تو معلوم ہوا کہ زبردستی اور جبر کی نوعیت مجبور شخص کے اعتبار سے الگ الگ ہوتی ہے؛ لہذا کلمہ کفر کرنے کے لئے کیے جانے والے معتبر جبر کا حکم وہ نہیں ہے جو تحفہ دینے یا کسی ایسے ہی کام پر کیے جانے والے جبر کا ہے۔ امام احمد نے کئی جگہوں پر صراحت کے ساتھ واضح کیا ہے کہ کفر کرنے کے لئے کیا جانے والا معتبر جبر مارنے یا قیدی کرنے جیسی سخت سزا سے ہی ہو گا، محض زبانی باتوں سے معتبر جبر واقع نہیں ہوتا" ختم شد
ماخوذ از: " المستدرك على مجموع الفتاوى" (5/8) ، اسی طرح دیکھیں: " مجموع الفتاوى " ( 1 / 372 – 373 )

معتبر جبر کی شرائط میں یہ بھی شامل ہے کہ: مجبور آدمی جابر شخص کے تسلط سے بھاگنے اور نکلنے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو، چنانچہ اگر اس کے اندر جابر شخص کے تسلط سے بھاگنے کی صلاحیت تھی لیکن وہ نہیں بھاگا، بلکہ وہیں پر ٹکا رہا حتی کہ اسے مجبور ہو کر کفریہ عمل کرنا پڑا تو وہ شرعی طور پر مجبور آدمی نہیں ہے۔ جب معاملہ ایسا ہے تو اس آدمی کا کیا حکم ہو گا جو بہ ذات خود ایسی جگہ پر جا رہا ہے جہاں اسے اپنے دین کی وجہ سے آزمائش میں مبتلا ہونا پڑے گا؟!

منکر حدیث کا حکم

 قرآن کو ماننا اور احادیث کا انکار کرنا کفر ہے جو شخص حدیث کا منکر ہے وہ قرآن کا بھی منکر ہے۔ قرآن پاک میں صاف طور پر فرمایا گیا ہے مَنْ یُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّہَ یعنی جو شخص اللہ کے رسول کی اطاعت کرے گا وہی اللہ کی اطاعت کرے گا۔ معلوم یہ ہوا کہ قرآن کو ماننے کے لیے حدیث کا ماننا ضرور ی ہے۔ دوسری جگہ ارشاد ہے أَطِیعُوا اللَّہَ وَأَطِیعُوا الرَّسُولَ یعنی اللہ کی اطاعت کرو اور اللہ کے رسول کی اطاعت کرو۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ دونوں کی اطاعت ضروری ہے۔ صرف قرآن ماننے والا نماز کیسے پڑھے گا۔ قرآن میں صرف وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوة کا حکم ہے یعنی نماز قائم کرو، اب نماز کس طرح پڑھی جائے، کیسے قرأت کی جائے اور کیسے رکوع وسجدہ کیا جائے کوئی سی نماز کَےْ رکعت پڑھی جائے، کیسے سلام پھیرا جائے یہ سب چیزیں قرآن میں نہیں ہیں، اسی طرح اگر مسلمان کا انتقال ہوجائے تو اس کو کیسے غسل دیا جائے، کس طرح کفن دیا جائے اور کس طرح نماز جنازہ پڑھی جائے اور کس طرح دفن کیا جائے یہ سب تفصیلات قرآن میں نہیں آئی ہیں اس لیے حدیث کے بغیر قرآن پر عمل کرنا ممکن نہیں

ھمزاد کی حقیقت

 حدیث میں ہے کہ: ”ہر آدمی کے ساتھ ایک فرشتہ اور ایک شیطان پیدا ہوتا ہے ۔فرشتہ اس کو خیر کا مشورہ دیتا ہے اور شیطان شر کا حکم کرتا ہے“۔ اسی کو عوام الناس ”ہمزاد“ کہتے ہیں، ورنہ اس کے علاوہ ہمزاد کا کوئی شرعی ثبوت نہیں۔ عن عبد اللہ بن مسعود، قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ما منکم من أحد، إلا وقد وکل بہ قرینہ من الجن قالوا: وإیاک؟ یا رسول اللہ قال: وإیای، إلا أن اللہ أعاننی علیہ فأسلم، فلا یأمرنی إلا بخیر (صحیح مسلم :1/107،باب الوسوسة ) عن عبد اللہ بن مسعود، قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: إن للشیطان لمة بابن آدم وللملک لمة فأما لمة الشیطان فإیعاد بالشر وتکذیب بالحق، وأما لمة الملک فإیعاد بالخیر وتصدیق بالحق.(سنن الترمذی: )

صحابہ کو کافر کہنے والے کا حکم

  اللہ نے صحابہ کرام کے ایمان کو معیارِ حق قرار دیتے ہوئے بعد میں آنے والوں کی کامیابی کو ان پاکیزہ نفوس کی طرح ایمان لانے سے مشروط کیا ہے، ارشاد ہے:

﴿ فَإِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَآ اٰمَنْتُمْ بِهٖ فَقَدِ اهْتَدَوْا ﴾(البقرۃ:137)

اگر وہ  ایمان لائے جیسا کہ تم (اصحاب رسول) ایمان لائے ہو تو  وہ ہدایت پالیں گے۔

پس صحابہ کرام میں سے کسی کی تنقیص کرنا یا  ان کو کافر قرار دینا جب کہ اللہ رب العزت نے ان کے بارے میں ﴿رضی الله عنهم  ورضواعنه﴾ کا فرمان صادر کیا ہے، اہلِ سنت و الجماعت کے اجماعی عقیدے سے منحرف ہونا  ہے، اور شیخین کے علاوہ دیگر صحابہ کو کافر قرار دینے والا شخص اہلِ ضلال میں سے  اور گمراہ ہے، جب کہ حضراتِ شیخین(خلیفہ اول حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور خلیفہ ثانی حضرت عمر رضی اللہ عنہ)  کو گالی دینا اور حضرت ابوبکر صدیقِ رضی اللہ عنہ کی صحابیت کا انکار کفر ہے۔ جیساکہ ''فتاوی شامی'' میں ہے:

'' نقل عن البزازية عن الخلاصة: أن الرافضي إذا كان يسب الشيخين و يعلنها فهو كافر... و سب أحد من الصحابة و بغضه لا يكون كفراً لكن يضلل''. (مطلب مهم في حكم سب الشيخين ٤/ ٢٣٧، ط: سعيد)۔ ف

چالیس ابدال والی روایت

    "مسند احمد"  کی روایت میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے  فرمایا : میں نے  جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ملک شام میں چالیس ابدال ہوتے ہیں، جب ان میں سے کسی ایک کی وفات ہوجاتی ہے توان کی جگہ دوسرے کو قائم مقام کر دیا جاتا ہے، اور انہیں کی برکت اور دعاوٴں سے اللہ تعالیٰ بارش برساتا ہے اور کفار اور دشمنوں کے خلاف اہلِ شام کی مدد کرتا ہے اور انہیں کی برکت سے اہلِ شام کے اوپر سے عذاب کو دور فرماتا ہے۔ ایک اور روایت میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا زمین کسی وقت بھی چالیس ابدال سے خالی نہیں ہوتی ، جب ان میں سے کسی ایک کا انتقال ہوجاتا ہے تو اللہ اس کی جگہ دوسرے کو مقرر کردیتے ہیں ۔

فتاویٰ دارالعلوم زکریا 1/377میں ابدال سے متعلق احادیث کے بارے میں لکھا ہے:
"خلاصہ یہ ہے کہ حدیثِ ابدال ثابت ہے اگر چہ اس کے اکثر طرق ضعیف  ہیں، مگر بعض صحیح بھی ہیں، جیساکہ حاکم کاطریق ، امام ذہبی نے فرمایا: صحیح ہے۔  اس کے علاوہ بھی بہت سارے طرق کتبِ حدیث میں موجود ہیں،اختصار کی وجہ سے ترک کیا گیا ، تفصیل کے لیے( الحاوی للفتاوی۲/۲۹۱ـ۳۰۷)کو بھی دیکھا جاسکتا ہے، اس میں علامہ سیوطی ؒ نے ابدال کی حدیث پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے ۔فقط واللہ علم

"المقاصدالحسنۃ" میں ہے :

"حدیث الأبدال له طرق عن أنس رضي اللّه عنه مرفوعاً بألفاظ مختلفة کلها ضعیفة، منها …الأبدال أربعون رجلاً. ومنها… لن تخلوالأرض من أربعین رجلاً …ومنها… البدلاء أربعون… ومنها…لایزال أربعون رجلاً من أمتي… ومنها… أن بدلاء أمتي. ومنها … البدلاء یکونون بالشام وهم أربعون رجلاً… ومنها… لاتسبوا أهل الشام جماً غفیراً، فان فیها الأبدال… ومنها: أین بدلاء أمتک؟ فأومأ بیده بنحو الشام…". (المقاصد الحسنة ص۲۳رقم۸)
"مسند احمد بن حنبل" میں ہے :
"حدثنا أبو المغیرة حدثنا صفوان حدثني شریح یعني ابن عبید قال:ذکر أهل الشام عند علي بن أبي طالب وهو بالعراق فقالو: العنهم یا أمیر المؤمنین: قال: لا، إني سمعت رسول اللّه صلی اللّه علیه وسلم یقول: الأبدال یکونون بالشام، وهم أربعون رجلاً، کلما مات رجل أبدل اللّه مکانه رجلاً، یسقي بهم الغیث، وینصر بهم علی الأعداء، ویصرف عن أهل الشام بهم العذاب…
قال أحمد محمد شاکر في شرح هذا الحدیث: إسناده ضعیف؛ لانقطاعه. شریح بن عبید الحضرمي الحمصي:لم یدرک علیاً، بل لم یدرک الابعض متأخري الوفاة من الصحابة وقدسبقت له روایة منقطعة أیضاً عن عمر بهذا الإسناد ۱۰۷، وسیأتي في شانهم حدیث آخر في مسند عبادة بن الصامت۵:۳۲۲قال فیه أحمد هناک:وهومنکر". (المسند للإمام أحمد بن حنبل۲/۱۷۱/۸۹۶)
مستدرک حاکم میں ہے :
"أخبرني أحمد بن محمد بن سلمة العنزي ثنا عثمان بن سعید الدارمي ثنا سعید بن أبي مریم أنبأ نافع بن یزید حدثني عیاش بن عباس أن الحارث بن یزید حدثه أنه سمع عبد اللّه بن زریرالغفقی یقول: سمعت علي بن أبي طالب رضي الله عنه ستکون فتنة یحصل الناس منها کما یحصل الذهب في المعدن، فلاتسبوا أهل الشام، وسبوا ظلمتهم، فإن فیهم الأبدال…الخ وقال: هذا حدیث صحیح الإسناد ولم یخرجاه، ووافقه الذهبي، فقال: صحیح". (المستدرک للحاکم ۴/۵۵۳

كیاگوتم بدھ اور زردشت نبی تھے

   :

گوتم بدھ اور زردشت کے نبی ہونے کی کؤیی دلیل موجود نہیں ۔بدھ ازم کی تعلیمات نیز مجوسیت متصادم ہیں : قرآن کریم یا ، احادیث صحیحہ میں اس  سلسلے میں  کوئی صراحت موجود نہیں 

فلا دليل على نبوة أي منهما! وإنما هما من أصحاب الأديان الوضعية.

أما زرادشت فإمام المجوسية، ادعى النبوة بالباطل، قال سبط ابن الجوزي في مرآة الزمان: قال علماء السير: هو زرادشت بن أسبيمان، من ولد منوجهر، ادعى أنه نبي المجوس، وظهر بأذربيجان، فكان يخبر بالعجائب، فيقول: يموت فلان في اليوم الفلاني، ويولد فلان في الوقت الفلاني، وأشباه هذا. وقيل: كان ساحرا ...

 ويقال: إن زرادشت كان خادما لبعض تلامذة العزير، أو إرميا، فسرق من علوم بني إسرائيل، فدعا عليه أستاذه، فبرص، ولحق بأذربيجان، ثم سار منها إلى بشتاسف، وهو ببلخ، فادعى النبوة وجاء بهذا الكتاب، وقال: أوحي إلي به، فصدقه بشتاسب. اهـ.

وذكره الطبري في تاريخه أثناء ذكر الملك بشتاسب، وقال: ظهر بعد ثلاثين سنة من ملكه، فادعى النبوة، وأراده على قبول دينه، فامتنع من ذلك ثم صدقه، وقبل ما دعاه إليه، وأتاه به من كتاب ادعاه وحيا. اهـ. وانظر الفتويين: 19363، 129859.

وأما بوذا فتعاليمه وإن كانت إصلاحية، أو أخلاقية، إلا إنها لا تقوم على دعوى النبوة، وهي أبعد ما يكون عن عقائد التوحيد، وإثبات الألوهية لله وحده. وانظر الفتويين: 34579، 682.

وقال اللواء محمود شيت خطاب في كتاب: قادة فتح السند وأفغانستان: وخلاصة القول: إن بوذا كان مصلحا قبل أن يكون كاهنا ... ولم يحفل بالكتب المقدسة، ولم يدع الناس إلى عبادة الآلهة، ونهى عن التفريق بين الطبقات ... وكان يدعو الناس إلى ترك الشر قولا وعملا، وأن يتحابوا، ويعطف بعضهم على بعض، وألا يكون للحقد سبيل إلى نفوسهم. اهـ.

حیض میں مباشرت کرنے والے شوھر سے طلاق کا مطالبہ

 اگر  خاوند اپنی بیوی کے ساتھ ماہواری کے ایام میں ہم بستری کرتا ہے، تو وہ سخت گناہ کا مرتکب ہے، اس پر سچے دل سے توبہ و استغفار کرنا لازم ہے، بیوی کو چاہیے کہ اپنے شوہر کو منع کرے اور سمجھائے، اگر بیوی کے سمجھانے سے نہ سمجھے تو خاندان کے معزز افراد اور بزرگوں کے ذریعے سے شوہر کو سمجھایا جائے اور اگر شوہر منع کرنے کے باوجود اپنی اس قبیح حرکت سے باز نہیں آتا تو پھر بیوی کو اس بات کا اختیار حاصل ہوگا کہ طلاق یا خلع کے مطالبہ کے  ذریعے اپنے شوہر سے چھٹکارا حاصل کرلے، لیکن اگر شوہر اسے طلاق یا خلع نہ دے تو بیوی عدالت سے تنسیخِ نکاح کراسکتی ہے۔

قرآن کریم میں ہے:

’’وَيَسْـَٔلُونَكَ عَنِ ٱلْمَحِيضِ ۖ قُلْ هُوَ أَذًۭى فَٱعْتَزِلُوا۟ ٱلنِّسَآءَ فِى ٱلْمَحِيضِ ۖ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّىٰ يَطْهُرْنَ ۖ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ ٱللَّهُ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ يُحِبُّ ٱلتَّوَّٰبِينَ وَيُحِبُّ ٱلْمُتَطَهِّرِينَ.‘‘ (سورة البقرة:۲۲۲)

ترجمہ: ’’اور لوگ آپ سے حیض کا حکم پوچھتے ہیں، آپ فرمادیجیے کہ وہ گندی چیز ہے، تو حیض میں تم عورتوں سے علیحدہ رہا کرو، اور ان سے قربت مت کیا کرو جب تک کہ وہ پاک نہ ہوجائیں۔ پھر جب وہ اچھی طرح پاک ہوجائیں تو ان کے پاس آؤ جاؤ جس جگہ سے تم کو اللہ تعالیٰ نے اجازت دی ہے (یعنی آگے سے) یقیناً اللہ تعالیٰ محبت رکھتے ہیں توبہ کرنے والوں سے اور محبت رکھتے ہیں پاک صاف رہنے والوں سے۔‘‘ (بیان القرآن)

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وعن النواس بن سمعان قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «‌لا ‌طاعة لمخلوق في معصية الخالق». رواه في شرح السنة."

(كتاب الإمارة والقضاء، الفصل الثاني، ج: 2، ص: 1092، ط: المكتب الإسلامي بيروت)

شرح الکبیر للدردیر میں ہے:

"(ولها) أي للزوجة (التطليق) على الزوج (بالضرر) وهو ما لا يجوز شرعا كهجرها بلا موجب شرعي وضربها كذلك وسبها وسب أبيها، نحو يا بنت الكلب يا بنت الكافر يا بنت الملعون كما يقع كثيرا من رعاع الناس ويؤدب على ذلك زيادة على التطليق كما هو ظاهر وكوطئها في دبرهالا بمنعها من حمام وفرجة وتأديبها على ترك صلاة أو تسر أو تزوج عليها ومتى شهدت بينة بأصل الضرر فلها اختيار الفراق."

(باب في النكاح ومايتعلق به، الكلام على أحكام النشوز، ج: 2، ص: 345، ط: دار الفكر بيروت)