https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Wednesday 17 April 2024

مفادکے لئے اپنے آپ کو غیر مسلم ظاہر کرنا

 فرمان باری تعالی ہے:

مَنْ كَفَرَ بِاللَّهِ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ وَلَكِنْ مَنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِنَ اللَّهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ

ترجمہ: جس شخص نے ایمان لانے کے بعد اللہ سے کفر کیا، الّا یہ کہ وہ مجبور کر دیا جائے اور اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو [تو یہ معاف ہے] مگر جس نے کھلے دل سے کفر قبول کیا تو ایسے لوگوں پر اللہ کا غضب ہے اور انہی کے لئے بہت بڑا عذاب ہے [النحل: 106]

اس آیت کی تفسیر میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ آیت جہم بن صفوان اور اس کے پیروکاروں کے موقف کو غلط قرار دیتی ہے؛ کیونکہ اس آیت کی رو سے جس نے بھی کلمہ کفر کہا اسے وعیدی کافروں میں شمار کیا گیا ہے، ماسوائے ایسے شخص کے جسے مجبور کیا گیا اور اس کا دل ایمان پر مطمئن تھا۔
اگر اس پر اعتراض کرتے ہوئے کہا جائے کہ: اللہ تعالی نے تو یہ فرما دیا ہے کہ:

 وَلَكِنْ مَنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا [یعنی جس نے شرح صدر کے ساتھ کفر کیا تو وہ کافر ہے] تو اس کے جواب میں کہا جائے گا: آیت کا یہ حصہ بھی پہلے حصے کے عین مطابق ہے؛ لہذا اگر کوئی شخص جبر کے بغیر ہی کفر کرے تو اس نے کھلے دل سے کفر کا ارتکاب کیا۔ [اس کا یہ مطلب نہ لیا جائے تو] وگرنہ آیت کا اول اور آخری حصہ آپس میں متضاد ہو جائیں گے۔ اگر یہاں کفر کرنے والے سے مراد وہ شخص ہو جو بلا اکراہ شرح صدر کے ساتھ کھلے دل سے کفر کرے تو محض مجبور شخص کو مستثنی نہیں کیا جائے گا، بلکہ پھر عدم شرح صدر کی صورت میں مجبور اور غیر مجبور دونوں کو لازمی طور پر مستثنی قرار دینا ضروری ہو گا۔ تاہم اگر اپنی مرضی سے کوئی شخص کلمۂ کفر کہتا ہے تو یہ کھلے دل سے کفریہ کلمہ کہنا ہے جو کہ کفر ہے۔

اس بات کی دلیل اللہ تعالی کے اس فرمان میں موجود ہے:

يَحْذَرُ الْمُنَافِقُونَ أَنْ تُنَزَّلَ عَلَيْهِمْ سُورَةٌ تُنَبِّئُهُمْ بِمَا فِي قُلُوبِهِمْ قُلِ اسْتَهْزِئُوا إِنَّ اللَّهَ مُخْرِجٌ مَا تَحْذَرُونَ (64) وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ إِنَّمَا كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ قُلْ أَبِاللَّهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ (65) لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ إِنْ نَعْفُ عَنْ طَائِفَةٍ مِنْكُمْ نُعَذِّبْ طَائِفَةً بِأَنَّهُمْ كَانُوا مُجْرِمِينَ

ترجمہ: منافقوں کو ہر وقت اس بات کا کھٹکا لگا رہتا ہے کہ کہیں مسلمانوں پر کوئی سورت اترے جو ان کے دلوں کی باتیں انہیں بتلا دے۔ کہہ دیجئے کہ مذاق اڑاتے رہو، یقیناً اللہ تعالی اسے ظاہر کرنے والا ہے جس کا تمہیں خدشہ ہے۔ [64] اگر آپ ان سے پوچھیں تو صاف کہہ دیں گے کہ ہم تو صرف شغل کی بات کر رہے تھے اور دل لگی کر رہے تھے۔ کہہ دیجئے کہ اللہ اس کی آیتیں اور اس کا رسول ہی تمہارے ہنسی مذاق کے لئے رہ گئے ہیں [65] تم بہانے نہ بناؤ یقیناً تم اپنے ایمان کے بعد بے ایمان ہوگئے اگر ہم تم میں سے کچھ لوگوں سے درگزر بھی کر لیں تو کچھ لوگوں کو ان کے جرم کی سنگین سزا بھی دیں گے [التوبۃ: 64 - 66]
تو یہاں اللہ تعالی نے بتلا دیا کہ ان منافقین نے ایمان لانے کے بعد اپنی کہی ہوئی باتوں کی وجہ سے کفر کر لیا ؛ حالانکہ منافقین کا کہنا تھا کہ: "ہم نے کفریہ باتیں کفر کا نظریہ رکھے بغیر کہی ہیں، ہم تو صرف شغل کی بات کر رہے تھے اور دل لگی کر رہے تھے۔" اللہ تعالی نے یہ بھی واضح کر دیا کہ اللہ تعالی کی آیات سے مذاق کرنا بھی کفر ہے؛ [کیونکہ] کفر کا حکم اسی پر لگے گا جو کفریہ بات کو شرح صدر کے ساتھ کہے، اگر منافق کے دل میں ایمان ہوتا تو اس کا ایمان اسے ایسی بات کرنے سے لازمی روکتا۔"
ماخوذ از: " مجموع الفتاوى " ( 7 / 220 ) ، مزید دیکھیں: "الصارم المسلول" صفحہ نمبر: (524)


لہذا جو شخص بھی جان بوجھ کر اپنی مکمل مرضی سے واضح طور پر کفر کرے تو وہ کافر ہو جائے گا، چاہے اس کا یہ کفر دنیاوی مفادات کے حصول کے لئے ہو، اس دنیا کی خاطر ہی لوگوں سے کفریہ عمل زیادہ ہوتا ہے، تاہم اس سے ایسے شخص کو مستثنی قرار دیا جائے گا جسے واقعی مجبور کیا گیا ہو اس کے لئے مجبور کرنے کی شرائط کو بھی مد نظر رکھا جائے گا۔

جیسے کہ امام قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ جس شخص کو کفر پر اتنا مجبور کیا جائے کے اسے اپنی جان کا خطرہ لاحق ہو جائے اور وہ اس طرح کفر کرے کہ اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ " ختم شد
ماخوذ از: " الجامع لأحكام القرآن " ( 12 / 435 )

لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جبر اور زبردستی کی حد کیا ہے؟

تو جبر کی حد بندی کے متعلق اہل علم کے مختلف اقوال ہیں، تاہم سب کے سب اجمالی طور پر اس چیز میں مشترک ہیں کہ انسان کو حقیقی معنوں میں قتل یا کسی عضو کو تلف کرنے کی دھمکی دی جائے، یا عورت کو زنا کی دھمکی ملے یا مرد کو لواطت کی یا اس طرح کی سنگین قسم کی دھمکی دی جائے۔

جیسے کہ موسوعہ فقہیہ کویتیہ: ( 6 / 101 – 102 ) میں جبر اور زبردستی واقع ہونے کی شرائط بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
"قتل یا کسی عضو کو تلف کرنے کی دھمکی دی جائے، چاہے اس میں عضو باقی رہے لیکن اس کی کارکردگی جاتی رہے مثلاً: بینائی سلب کر لی جائے، یا ہاتھ سے پکڑنے اور پاؤں سے چلنے کی صلاحیت باقی نہ رہے لیکن ہاتھ اور پاؤں باقی رہیں، یا کوئی ایسا نقصان کرنے کی دھمکی ملے جس کا غم دائمی ہو ، مثلاً: عورت کو زنا کی دھمکی دینا اور مرد  کو لواطت کی دھمکی دینا۔

جبکہ بھوکے رکھنے کی دھمکی دونوں طرح کی ہو سکتی ہے، شرعی طور پر جبر اور زبردستی اسی وقت متصور ہو گی جب  بھوک انسان کو مرنے کے قریب کر دے۔۔۔" ختم شد

جبکہ اپنی مالی حالت اچھی کرنے کے لئے صراحت کے ساتھ کفر کرنا تو بالکل بھی جبر اور زبردستی میں شامل نہیں ہو گا۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"میں نے [حنبلی] مذہب میں غور و فکر کیا تو معلوم ہوا کہ زبردستی اور جبر کی نوعیت مجبور شخص کے اعتبار سے الگ الگ ہوتی ہے؛ لہذا کلمہ کفر کرنے کے لئے کیے جانے والے معتبر جبر کا حکم وہ نہیں ہے جو تحفہ دینے یا کسی ایسے ہی کام پر کیے جانے والے جبر کا ہے۔ امام احمد نے کئی جگہوں پر صراحت کے ساتھ واضح کیا ہے کہ کفر کرنے کے لئے کیا جانے والا معتبر جبر مارنے یا قیدی کرنے جیسی سخت سزا سے ہی ہو گا، محض زبانی باتوں سے معتبر جبر واقع نہیں ہوتا" ختم شد
ماخوذ از: " المستدرك على مجموع الفتاوى" (5/8) ، اسی طرح دیکھیں: " مجموع الفتاوى " ( 1 / 372 – 373 )

معتبر جبر کی شرائط میں یہ بھی شامل ہے کہ: مجبور آدمی جابر شخص کے تسلط سے بھاگنے اور نکلنے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو، چنانچہ اگر اس کے اندر جابر شخص کے تسلط سے بھاگنے کی صلاحیت تھی لیکن وہ نہیں بھاگا، بلکہ وہیں پر ٹکا رہا حتی کہ اسے مجبور ہو کر کفریہ عمل کرنا پڑا تو وہ شرعی طور پر مجبور آدمی نہیں ہے۔ جب معاملہ ایسا ہے تو اس آدمی کا کیا حکم ہو گا جو بہ ذات خود ایسی جگہ پر جا رہا ہے جہاں اسے اپنے دین کی وجہ سے آزمائش میں مبتلا ہونا پڑے گا؟!

No comments:

Post a Comment