https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Sunday 28 July 2024

مثقال کاوزن اور چاندی کی انگوٹھی

 مثقال دراصل وزن کی ایک اکائی ہے اور اس کو اکثرطلائی دینار اور چاندی کے درہم کے وزن کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اور ایک مثقال کا وزن 100جَو(جو) کے دانوں کے وزن کے برابر ہوتا ہے۔ ایک طلائی دینار کا وزن ایک مثقال ہوتا ہے، جو 25۔4 گرام ہوتا ہے۔ جبکہ ایک درہم کا وزن 7/10 مثقال ہوتا ہے یعنی 975۔2 گرام۔

ایک مثقال  سے کم  وزن چاندی کی انگوٹھی مردوں کے لیے حلال اور جائز ہے، البتہ بلاضرورت نہ پہننا اولیٰ ہے۔ بعض حضرات کے نزدیک مثقال ساڑھے چار ماشے  یعنی۴گرام،۳۷۴ملی گرام (4.374 gm) ہوتا ہے۔ 

روایت میں آتا ہے کہ ایک  شخص نے دریافت کیاکہ یارسول اللہ! میں کس دھات کی انگوٹھی پہنوں؟تو آپ نے فرمایا: چاندی کی، مگر ایک مثقال تک اس کا وزن نہ پہونچے۔

باقی حدیث شریف میں چوں کہ ایک مثقال تک کی اجازت ہے؛ اس لیے اگر کوئی شخص ایک ہی انگوٹھی پہنتا ہے تو  ایک مثقال سے زائد وزن کی انگوٹھی کی اجازت نہیں ہو گی،  اور اگر ایک سے زائد انگوٹھی پہنتا ہے تو اس کا مجموعی وزن ایک مثقال سے زائد ہونا منع ہو گا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 358):

"(ولايتحلى) الرجل (بذهب وفضة)  مطلقاً (إلا بخاتم ومنطقة وجلية سيف منها) أي الفضة .. (ولايتختم) إلا بالفضة؛ لحصول الاستغناء بها، فيحرم (بغيرها كحجر) ... ولايزيده على مثقال.

 (قوله: ولايتختم إلا بالفضة) هذه عبارة الإمام محمد في الجامع الصغير، أي بخلاف المنطقة، فلايكره فيها حلقة حديد ونحاس كما قدمه، وهل حلية السيف كذلك؟ يراجع! قال الزيلعي: وقد وردت آثار في جواز التختم بالفضة وكان للنبي صلى الله تعالى عليه وسلم خاتم فضة، وكان في يده الكريمة، حتى توفي صلى الله تعالى عليه وسلم ، ثم في يد أبي بكر رضي الله تعالى عنه إلى أن توفي، ثم في يد عمر رضي الله تعالى عنه إلى أن توفي، ثم في يد عثمان رضي الله تعالى عنه إلى أن وقع من يده في البئر، فأنفق مالاً عظيماً في طلبه فلم يجده، ووقع الخلاف فيما بينهم والتشويش من ذلك الوقت إلى أن استشهد رضي الله تعالى عنه. (قوله: فيحرم بغيرها إلخ)؛ لما روى الطحاوي بإسناده إلى عمران بن حصين وأبي هريرة قال: «نهى رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم عن خاتم الذهب» ، وروى صاحب السنن بإسناده إلى عبد الله بن بريدة عن أبيه: «أن رجلاً جاء إلى النبي صلى الله تعالى عليه وسلم وعليه خاتم من شبه، فقال له: مالي أجد منك ريح الأصنام! فطرحه، ثم جاء وعليه خاتم من حديد، فقال: مالي أجد عليك حلية أهل النار! فطرحه، فقال: يا رسول الله من أي شيء أتخذه؟ قال: اتخذه من ورق ولا تتمه مثقالاً»". فعلم أن التختم بالذهب والحديد والصفر حرام ؛ فألحق اليشب بذلك؛ لأنه قد يتخذ منه الأصنام ، فأشبه الشبه الذي هو منصوص معلوم بالنص، إتقاني، والشبه محركاً: النحاس الأصفر، قاموس۔ وفي الجوهرة: والتختم بالحديد والصفر والنحاس والرصاص مكروه للرجل والنساء ... (قوله: ولايزيده على مثقال)، وقيل: لايبلغ به المثقال، ذخيرة. أقول: ويؤيده نص الحديث السابق من قوله عليه الصلاة والسلام : «ولا تتممه مثقالاً»

نابالغ کے مال پر زکوۃ

 والد نے اگر ڈیڑھ تولہ سونا اپنی نابالغ اولاد کی ملکیت میں دیدیا، تو وہ شرعا اسی اولاد کی ملکیت شمار ہوگا اور جب تک وہ اولاد بالغ نہیں ہوجاتی اس پر اس سونے کی زکات واجب نہیں ہوگی، بالغ ہونے کے بعد اگر اُس کی ملکیت میں اس سونے کے علاوہ کچھ چاندی، نقدی یا مالِ تجارت ہوا تو سال گزرنے کے بعد صرف اسی سال کی زکات واجب ہوگی، گزشتہ سالوں کی زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی۔نیز سونا اولاد کی ملکیت میں دیدینے کے بعد والدین کے لیے اس کو فروخت کرنا یا اس کو استعمال کرنا جائز نہیں ہے؛ کیوں کہ وہ اب اُس اولاد کی ذاتی ملکیت ہے ۔

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"( ومنها العقل والبلوغ ) فليس الزكاة علي صبي ومجنون".

( الهندية : كتاب الزكاة، (1171)مكتبه رشيديه )

زکوٰۃ کی رقم سے گھر تعمیر کرنا

 اگر آپ    زکوۃ کے مستحق ہیں ،یعنی آپ کی ملکیت میں ضرورتِ  اصلیہ سے زائد  نصاب   یعنی  ساڑھے سات تولہ سونا،یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر  رقم یا مالِ تجارت نہیں ہے، اور نہ ہی  اس  قدر ضرورت سے زائد  سامان ہے کہ جس کی مالیت نصاب کے برابر بنتی ہے اور نہ  ہی  سید ، ہاشمی ہیں   ، تو آ پ کا زکوۃ لینادرست ہے ،اور آپ اس رقم کے مالک بن جائیں گے ،اور پھر اپنے مال کو جہاں چاہیں خرچ کر سکتے ہیں ،لہذامکان  تعمیر کرنا بھی اس زکوۃ کے مال سے جائز ہوگا۔ 

ملحوظ رہے کہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر رقم آپ کی ملکیت میں موجود ہونے کی صورت میں  آپ کے لیے مزید زکات لینے کی  اس وقت تک اجازت نہیں ہوگی جب تک رقم خرچ ہوکر نصاب سے کم نہ رہ جائے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"(منها الفقير) وهو من له أدنى شيء وهو ما دون النصاب أو قدر نصاب غير نام وهو مستغرق في الحاجة فلا يخرجه عن الفقير ملك نصب كثيرة غير نامية إذا كانت مستغرقة بالحاجة كذا في فتح القدير."

(الباب السابع في المصارف ،ج:1،ص:187 ،ط:المطبعة الكبرى الأميرية ببولاق مصر)

در ر الحکام میں ہے:

"كل يتصرف في ملكه كيفما شاء."

(الفصل الاول فی بیان بعض القواعد المتعلقۃ باحکام الاملاک،ج:3،ص:201،ط:دار الجيل)

Saturday 27 July 2024

یمین لغو

 یمینِ لغو کا حکم یہ ہے کہ اس میں  نہ کفارہ لازم آتاہے اور نہ اس سے کسی کا ایمان جاتاہے البتہ   چوں کہ قسم اٹھانا ایک  بہت بڑی ذمہ داری ہے اس وجہ سے   کھیل کھود اور لغو امور میں  ربِ لم یزل،شہنشاہِ مطلق، مالک ارض وسماء  کے مبارک نام کی قسم اٹھانا سراسر بے ادبی اور گستاخی ہے جس سے ہرکلمہ گو مسلمان کو   بصد درجہ   احتیاط  برتنی   چاہیے۔

 فتاویٰ شامی میں ہے:

"و) ثانيها (لغو) لا مؤاخذة فيها إلا في ثلاث طلاق وعتاق ونذر أشباه، فيقع الطلاق على غالب الظن إذا تبين خلافه، وقد اشتهر عن الشافعية خلافه (إن حلف كاذبا يظنه صادقا) في ماض أو حال فالفارق بين الغموس واللغو تعمد الكذب، وأما في المستقبل فالمنعقدة وخصه الشافعي بما جرى على اللسان بلا قصد، مثل لا والله وبلى والله ولو لآت

قوله وخصه الشافعي إلخ) اعلم أن تفسير اللغو بما ذكره المصنف هو المذكور في المتون والهداية وشروحها. ونقل الزيلعي أنه روي عن أبي حنيفة كقول الشافعي. وفي الاختيار أنه حكاه محمد عن أبي حنيفة، وكذا نقل في البدائع الأول عن أصحابنا. ثم قال: وما ذكر محمد على أثر حكايته عن أبي حنيفة أن اللغو ما يجري بين الناس من قولهم لا والله وبلى والله فذلك محمول عندنا على الماضي أو الحال، وعندنا ذلك لغو. فيرجع حاصل الخلاف بيننا وبين الشافعي في يمين لا يقصدها الحالف في المستقبل. فعندنا ليست بلغو وفيها الكفارة. وعنده هي لغو ولا كفارة فيها اهـ"

(کتاب الأیمان: ج:3، ص:706، ط:ایچ ایم سعید)

قسم کا کفارہ

 قسم کا کفارہ یہ ہے کہ  دس مسکینوں کو دو وقت کا کھانا کھلا دے یا دس مسکینوں میں سے ہر ایک کو صدقۃ الفطر کی مقدار کے بقدر گندم یا اس کی قیمت دے دے( یعنی پونے دو کلو گندم یا اس کی رقم )اور اگر جو دے تو اس کا دو گنا (تقریباً ساڑھے تین کلو) دے،  یا دس فقیروں کو  ایک ایک جوڑا کپڑا پہنا دے۔ اور اگر  کوئی ایسا غریب ہے کہ نہ تو کھانا کھلا سکتا ہے اور نہ کپڑا دے سکتا ہے تو مسلسل تین روزے رکھے ،اگر الگ الگ کر کے تین روزے پورے کر لیے  تو کفارہ ادا نہیں ہوگا۔ اگر دو روزے رکھنے کے بعد درمیان میں کسی عذر کی وجہ سے ایک روزہ چھوٹ گیا تو اب دوبارہ تین روزے رکھے۔

﴿ لا يُؤاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمانِكُمْ وَلكِنْ يُؤاخِذُكُمْ بِما عَقَّدْتُمُ الْأَيْمانَ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعامُ عَشَرَةِ مَساكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيامُ ثَلاثَةِ أَيَّامٍ ذلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمانِكُمْ إِذا حَلَفْتُمْ وَاحْفَظُوا أَيْمانَكُمْ كَذلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آياتِهِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ﴾ (المائدة: 89)۔

یمین منعقدہ

 مستقبل میں کسی کام کرنے یا نہ کرنے کی قسم کھانے والا شخص اگر عادت  کی بنا  پر بھی قسم کے الفاظ استعمال کرے گا تو قسم منعقد ہوجائے  گی اور  خلاف  ورزی کی صورت میں کفارہ لازم ہوگا۔ عادت والے شخص کے حق میں جو قسم لغو ہوتی ہے،  وہ صرف زمانه ماضی اور حال کے ساتھ خاص ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولو قال: أشهد أن لا أفعل كذا، أو أشهد بالله، أو قال: أحلف، أو أحلف بالله، أو أقسم، أو أقسم بالله، أو أعزم، أو أعزم بالله، أو قال: عليه عهد، أو عليه عهد الله أن لا يفعل كذا، أو قال: عليه ذمة الله أن لا يفعل كذا يكون يمينا"

(کتاب الایمان فصل اول ج نمبر ۲ ص نمبر ۵۳،دار الفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"و) ثانيها (لغو) لا مؤاخذة فيها إلا في ثلاث طلاق وعتاق ونذر أشباه، فيقع الطلاق على غالب الظن إذا تبين خلافه، وقد اشتهر عن الشافعية خلافه (إن حلف كاذبا يظنه صادقا) في ماض أو حال فالفارق بين الغموس واللغو تعمد الكذب، وأما في المستقبل فالمنعقدة وخصه الشافعي بما جرى على اللسان بلا قصد، مثل لا والله وبلى والله ولو لآت

قوله وخصه الشافعي إلخ) اعلم أن تفسير اللغو بما ذكره المصنف هو المذكور في المتون والهداية وشروحها. ونقل الزيلعي أنه روي عن أبي حنيفة كقول الشافعي. وفي الاختيار أنه حكاه محمد عن أبي حنيفة، وكذا نقل في البدائع الأول عن أصحابنا. ثم قال: وما ذكر محمد على أثر حكايته عن أبي حنيفة أن اللغو ما يجري بين الناس من قولهم لا والله وبلى والله فذلك محمول عندنا على الماضي أو الحال، وعندنا ذلك لغو. فيرجع حاصل الخلاف بيننا وبين الشافعي في يمين لا يقصدها الحالف في المستقبل. فعندنا ليست بلغو وفيها الكفارة. وعنده هي لغو ولا كفارة فيها اهـ"

(کتاب الایمانج نمبر ۳ ص نمبر ۷۰۶،ایچ ایم سعید)

یمین غموس

 مذکورہ بندے نے جو جھوٹی قسم کھائی ہے وہ فقہی اصطلاح میں یمین غموس کہلاتی ہے، اس جھوٹی قسم کا حکم یہ ہے کہ قسم کھانے والا شدید گناہ گار ہوتا ہے، کیوں کہ ایسا شخص  اللہ رب العزت کا نام استعمال کرکے اور اللہ تعالیٰ کو گواہ بناکر جھوٹ کہتاہے ،لہذا مذکورہ بندے کو چاہیے کہ سچے دل سے توبہ کرے اور آئندہ جھوٹی قسم کھانے سے بچے، جھوٹی قسم کھانے کی وجہ سے اس پر کوئی کفارہ ادا کرنا لازم نہیں ہے، البتہ اگر اللہ تعالیٰ کی رضا کے واسطے حسبِ استطاعت کچھ صدقہ دے دے تو بہتر ہے،تا کہ اللہ پاک کی ناراضگی ا ور غضب کو صدقہ ٹھنڈا کر دے ، کم کر دے،نیز آئندہ  نا محرم لڑکیوں کے ساتھ تعلقات نہ رکھے یہ کبیرہ گناہ ہے

حدیث شریف میں ہے:

"حدثنا محمد بن مقاتل، أخبرنا النضر، أخبرنا شعبة، حدثنا فراس،، قال: سمعت الشعبي، عن عبد الله بن عمرو، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " الكبائر: الإشراك بالله، وعقوق الوالدين، وقتل النفس، واليمين الغموس".

(صحيح البخاري،  كتاب الأيمان والنذور، باب اليمين الغموس، 8/ 137، ط:   دار طوق النجاة)

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

" أما يمين الغموس فهي الكاذبة قصدا في الماضي والحال على النفي أو على الإثبات وهي الخبر عن الماضي أو الحال فعلا أو تركا متعمدا للكذب في ذلك مقرونا بذكر اسم الله تعالى نحو أن يقول: والله ما فعلت كذا وهو يعلم أنه فعله، أو يقول: والله لقد فعلت كذا وهو يعلم أنه لم يفعله، أو يقول: والله ما لهذا علي دين وهو يعلم أن له عليه دينا فهذا تفسير يمين الغموس."

(كتاب الأيمان،في أنواع اليمين،3/ 3 ،ط: دار الكتب العلمية)

Friday 26 July 2024

فاسق کو سلام میں پہل کرنا

 اگر کوئی شخص اعلانیہ یعنی کھلم کھلا   فسق (کبیرہ گناہوں )کا ارتکاب کرتا ہے تو ایسے شخص کو  سلام کرنے میں پہل کرنا  مکروہ ہے، لیکن اگر وہ سلام میں پہل کرے تو جواب دینے میں کوئی حرج نہیں ہے، البتہ اگر کوئی اعلانیہ فسق کا اظہار نہ کرتا ہو تو اسے سلام کرنے میں پہل کرنا مکروہ  نہیں ہے، اسی طرح اگر سلام میں پہل کرنے سے فاسق کو فسق سے ہٹاکر صلہ رحمی اور دین کی طرف لانا مقصود ہو تو بھی  فاسق کو سلام کرنا مکروہ نہیں ہوگا، اس ساری تفصیل میں رشتہ دار اور اجنبی کا ایک ہی حکم ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 412)

 فلا يسلم ابتداء على كافر لحديث «لا تبدءوا اليهود ولا النصارى بالسلام فإذا لقيتم أحدهم في طريق فاضطروه إلى أضيقه» رواه البخاري وكذا يخص منه الفاسق بدليل آخر، وأما من شك فيه فالأصل فيه البقاء على العموم حتى يثبت الخصوص، ويمكن أن يقال إن الحديث المذكور كان في ابتداء السلام لمصلحةالتأليف ثم ورد النهي اهـ فليحفظ.ولو سلم يهودي أو نصراني أو مجوسي على مسلم فلا بأس بالرد (و) لكن (لا يزيد على قوله وعليك) كما في الخانية

 (قوله وكذا يخص منه الفاسق) أي لو معلنا وإلا فلا يكره كما سيذكره (قوله وأما من شك فيه) أي هل هو مسلم أو غيره وأما الشك بين كونه فاسقا أو صالحا فلا اعتبار له بل يظن بالمسلمين خيرا ط (قوله على العموم) أي المأخوذ من قوله صلى الله تعالى عليه وسلم «سلم على من عرفت ومن لم تعرف» ط (قوله إن الحديث) أي الأول المفيد عمومه شمول الذمي (قوله لمصلحة التأليف ) أي تأليف قلوب الناس واستمالتهم باللسان والإحسان إلى الدخول في الإسلام (قوله ثم ورد النهي) أي في الحديث الثاني لما أعز الله الإسلام (قوله فلا بأس بالرد) المتبادر منه أن الأولى  عدمه ط لكن في التتارخانية، وإذا سلم أهل الذمة ينبغي أن يرد عليهم الجواب وبه نأخذ.(قوله ولكن لا يزيد على قوله وعليك) لأنه قد يقول: السام عليكم أي الموت كما قال بعض اليهود للنبي - صلى الله عليه وسلم - فقال له " وعليك " فرد دعاءه عليه وفي التتارخانية قال محمد: يقول المسلم وعليك ينوي بذلك السلام لحديث مرفوع إلى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أنه قال: «إذا سلموا عليكم فردوا عليهم» "

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 415)

ويكره السلام على الفاسق لو معلنا وإلا لا

 (قوله لو معلنا) تخصيص لما قدمه عن العيني؛ وفي فصول العلامي: ولا يسلم على الشيخ المازح الكذاب واللاغي؛ ولا على من يسب الناس أو ينظر وجوه الأجنبيات، ولا على الفاسق المعلن، ولا على من يغني أو يطير الحمام ما لم تعرف توبتهم ويسلم على قوم في معصية وعلى من يلعب بالشطرنج ناويا أن يشغلهم عما هم فيه عند أبي حنيفة وكره عندهما تحقيرا لهم

زکوٰۃ کی رقم سے مریض کا علاج کرانا

 زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے مستحق ِ زکوٰۃ  شخص  (یعنی  ایسا  غریب آدمی  جو نصاب  کے بقدر رقم یا ضرورت و استعمال سے زائد اتنے سامان کا  مالک نہ ہو  اور  نہ ہی سید، ہاشمی اور عباسی ہو )  کو بغیر عوض کے مالک بنانا  ضروری ہے، مستحق زکوٰۃ شخص کو  مالک بنائے  بغیر  زکوۃ ادا نہیں ہوتی، لہذا  صورتِ مسئولہ میں زکاۃ کی رقم سے کسی مریض کو مالک بنائے بغیراس کا  علاج کروانا جائز نہیں ہے،تاہم زکاۃ کی رقم سے دوائی وغیرہ خرید کر مریض کو دینا یا مستحق کو رقم کا مالک بنانے کے بعد اس رقم  سے علاج کروانا جائز ہوگا۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"وكذلك إذا اشترى بالزكاة طعاما فأطعم الفقراء غداء وعشاء ولم يدفع عين الطعام إليهم لا يجوز لعدم التمليك."

(كتاب الزكاة،فصل في ركن الزكاة، ج:2، ص:39، ط: دار الكتب العلمية)

البحر الرائق میں ہے:

"لو أطعم يتيما بنيتها لا يجزئه لعدم التمليك إلا إذا دفع له الطعام كالكسوة."

(كتاب الزكاة،باب مصرف الزكاة،بناء المسجد وتكفين ميت وقضاء دينه وشراء قن من الزكاة، ج:2، ص:261، ط: دار الكتاب الاسلامي

بکرے کا صدقہ

 صدقہ کے لیے شریعت نے کوئی خاص صورت مقرر نہیں کی، جس صورت میں فقراء کا زیادہ فائدہ ہو،  اسے اختیار کرلیا جائے۔ اور یہ ضرورت مندوں کے احوال کے اعتبار سے ہے، اسی طرح اوقات کے اعتبار سے بھی مختلف ہوسکتاہے۔ 

عام حالات میں نقد رقم ہی بہتر ہےتاکہ وہ اپنی ضرورت پوری کر سکے،   تاہم اگر کسی جگہ کھانے کی ضرورت ہو اور وہاں جانورذبح کرکے کھلادیا جائے، تب بھی درست ہے۔ 

جانور کو ذبح کرکے لوگوں پر صدقہ کرنے کے بارے حدیث شریف میں آتا ہے کہ: 

"عن أبي قلابة، عن أبي المليح، قال: قال نبيشة: نادى رجل رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم إنا كنا نعتر عتيرة في الجاهلية في رجب فما تأمرنا؟ قال: اذبحوا لله في أي شهر كان، وبروا اللہ عز وجل، وأطعموا".

(سنن أبي داود ، کتاب الضحایا، باب في العتیرۃ،ت: محيي الدين عبد الحميد3/ 104ط:المکتبۃ العصریۃ،بیروت)

ترجمہ:"  ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو آواز لگائی  کہ ہم جاہلیت میں رجب میں قربانی کرتے تھے، اب آپ کا کیا حکم ہے؟ آپ نے فرمایا: کسی بھی مہینے میں اللہ کے نام پر جانور ذبح کرو، اللہ تعالی کی اطاعت کرو اور لوگوں کو کھلاؤ۔"

اگر جانور کو اللہ کے نام پر ذبح کر کے اس کا گوشت غریبوں کو دے دے ، تب بھی مقصد حاصل ہوجاتا ہے، اور اس میں کالے  رنگ کو کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے،  مگرجانور کی قیمت کا صدقہ کرنے میں  زیادہ فضیلت ہے؛ کیوں کہ اس صورت میں مال سے فقیر کی ہر قسم کی حاجت پوری ہوتی ہے۔

 ملحوظ رہے کہ   اگر جانور کے ذبح سے مقصود فقط خون بہاناہو اور یہ نیت ہو کہ جان کے بدلہ جان چلی جائے یہ رواج درست نہیں، البتہ ذبح کرکے اس کا گوشت فقراء ومساکین میں تقسیم کرنامقصود ہوتویہ درست ہے۔لیکن صدقہ کی یہ صورت بھی لازم نہیں، لہذا ذبح کے بدلہ نقدرقم یادیگر اشیائے ضرورت فقراء ومساکین کو دینابھی جائز ہے۔

Thursday 25 July 2024

بیٹی سے زناکرنےوالے کا نکاح باقی رہاکہ نہیں

  اگر باپ بیٹی سے زنا کرے تو  اس سے حرمتِ مصاہرت ثابت ہو گی، شوہر پر اپنی بیوی   ہمیشہ کے   لیے حرام ہوجائے گی ، اور میاں بیوی میں ازدواجی تعلق قائم کرنا حلال نہیں رہے گا ، لیکن نکاح نہیں ٹوٹے گا، برقرار ہوگا۔ اس  لیے یہ عورت اس واقعہ کے بعد اس وقت تک دوسری جگہ نکاح نہیں کرسکتی  جب تک کہ درج ذیل دو باتوں میں سے کوئی ایک بات نہ پائی جائے :

الف :                       شوہر بیوی کو متارکت کے ذریعہ علیحدہ نہ کرے یعنی:  شوہر اپنی زبان سے کہہ دے کہ : ’’ میں نے تجھے چھوڑدیا ‘‘   اس کے بعد پھر عدت ( تین ما ہواری ) گزر جائے تو اب وہ دوسری جگہ نکاح کی مجاز ہوگی ۔

ب :                                  اگر شوہر نہ چھوڑے ،  لیکن عورت مسلمان عدالت میں مقدمہ دائر کرے اور گواہوں کے ذریعہ واقعہ کے ثبوت پر عدالت ان میں تفریق کا فیصلہ کردے تو  عدت کے بعد وہ عورت دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے ۔ اس کارروائی کے بغیر اس عورت کے  لیے دوسرا نکاح کبھی بھی حلال نہ ہوگا ۔

اور  باپ بیٹی کا اگرچہ رشتہ برقرار ہے، تاہم مذکورہ شخص کے ساتھ بیٹی کا رہنا اب  درست نہیں۔

الدر المختار  میں ہے:

"(و) حرم أيضا بالصهرية (أصل مزنيته) أراد بالزنا في الوطء الحرام."

(الدر المختار مع رد المحتار: كتاب النكاح، فصل في المحرمات (3/ 32)، ط.  سعيد)

الدر المختار مع رد المحتار میں ہے:

"و بحرمة المصاهرة لا يرتفع النكاح حتى لا يحل لها التزوج بآخر إلا بعد المتاركة وانقضاء العدة."

حاملہ بیوی سے صحبت کرنے کی مقدار

 حاملہ بیوی سے صحبت کرنے کی ممانعت نہیں ہے اور نہ اس کی کوئی مدت متعین ہے، البتہ اگر کوئی  طبیب یا ڈاکٹر    حالت حمل میں صحبت کرنے سے منع کرے تو پھر اجتناب کرنا بہتر ہے۔

شرح مسند أبي حنيفةمیں ہے:

"(عن نافع عن ابن عمر قال نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم أن توطأ الحبالى) بفتح أي عن مجامعة الحوامل من الأسارى أو غيرهن (حتى يضعن ما في بطونهن) أي من أولادهن فإن الاستبراء والعدة لا تحصل إلا بوضعهن، وأما ‌أزواجهن فيجوز لهم جماعهن، والنهي لئلا يسقي ماءه زرع غيره."

(حديث وطء الحامل، ج:1، ص:190، ط:دار الكتب العلمية، بيروت)

عورت کے لیے چاندی کی انگوٹھی کی مقدار

 عورت کے لیے سونے چاندی کی انگوٹھی اور زیورات کا استعمال جائز ہے،اس میں وزن کی کوئی قید نہیں ہے ،البتہ  مرد کےلیے  سونا ،چاندی کےکسی بھی قسم کے زیورات استعمال کرنا شرعاً جائز نہیں ،مرد صرف چاندی کی انگوٹھی استعمال کرسکتا ہے اور ایک مثقال  سے کم  وزن چاندی کی انگوٹھی مردوں کے لیے حلال اور جائز ہے۔ایک مثقال  ساڑھے چار ماشے  یعنی۴گرام،۳۷۴ملی گرام (4.374 gm) ہوتا ہے۔ 

فتاوی شامی میں ہے :

"(ولا يتحلى) الرجل (بذهب وفضة)  مطلقاً (إلا بخاتم ومنطقة وجلية سيف منها) أي الفضة ۔۔۔ (ولا يتختم) إلا بالفضة؛ لحصول الاستغناء بها، فيحرم (بغيرها كحجر) ۔۔۔ ولا يزيده على مثقال."

(کتاب الحظر والاباحۃ،فصل فی اللبس،ج؛6،ص:358،سعید)