https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Tuesday 20 August 2024

خلع طلاق ہے یافسخ

امام سرخسی حنفی رحمہ اللہ "المبسوط" (6/ 171-172، ط. دار المعرفة) میں فرماتے ہیں: [اگر عورت اپنے شوہر سے خلع کرے تو یہ خلع جائز ہے، اور خلع ہمارے نزدیک طلاقِ بائن ہے۔ اور شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے قول کے مطابق خلع فسخ ہے، اور یہی ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، اور روایت ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنھما نے اپنے اس قول سے جمہور صحابہ کرام رضي الله عنهم کے قول کی طرف رجوع کر لیا تھا۔
امام شافعی رحمہ اللہ اپنے قول کیلئے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے استنباط کرتے ہیں: ﴿الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ﴾ إلى أن قال: ﴿فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ﴾ [البقرة: 229] إلى أن قال: ﴿فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ﴾ [البقرة: 230] یعنی پہلے اللہ تعالی نے فرمایا: ''طلاق دو بار ہے''۔ پھر فرمایا: ''تو ان دونوں پر اس میں کوئی گناہ نہیں کہ عورت معاوضہ دے کر پیچھا چھڑا لے'' ۔ اور پھر فرمایا: ''پھر اگر اس نے اسے طلاق دے دی تو اس کے بعد اس کے لیے وہ حلال نہ ہوگی یہاں تک کہ وہ کسی اور خاوند سے نکاح کرے''۔ اگر ہم خلع کو طلاق قرار دتے ہیں تو اس آیت کی رو سے طلاقیں چار ہو جائیں گی حالانکہ طلاقیں تین سے زیادہ نہیں ہوتیں۔ اور دوسری دلیل یہ ہے کہ چونکہ نکاح ایک ایسا عقد جو فسخ کا احتمال رکھتا ہے اس لئے خیارِ عدمِ کفاءۃ کی وجہ سے نکاح فسخ کر دیا جاتا ہے اور خیارِ عتق کی وجہ سے اور آپ کے نزدیک اے احناف خیارِ بلوغت کی وجہ سے بھی نکاح فسخ کر دیا جاتا ہے۔ جب ایسا ہے تو نکاح رضامندی کے ساتھ فسخ کیے جانے کا بھی احتمال رکھتا ہے۔ اور یہ فسخ خلع کے ذریعے سے ہوتا ہے، اور امام شافعی رحمہ اللہ نے اس معاوضے کو خرید وفروخت پر قیاس کیا ہے جسے باہمی رضامندی سے فسخ کرنا جائز ہے۔
اور ہماری دلیل وہ حدیث پاک ہے جو سیدنا عمر، سیدنا علی ، سیدنا ابنِ مسعود رضی اللہ تعالی عنھم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم تک مرفوعا مروی ہے: «الْخُلْعُ تَطْلِيقَةٌ بَائِنَةٌ». یعنی: خلع طلاقِ بائن ہے۔ اس کے اندر یہ معنی بھی موجود ہے کہ نکاح جب مکمل ہو جائے تو اس میں فسخ ہونے کا احتمال نہیں ہوتا۔ کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ سپردگی سے پہلے ہلاک ہو جانے سےنکاح فسخ نہیں ہوتا، پس اس سے ثابت ہونے والا مِلک مِلکِ ضروری ہے جو کہ حق استیفاء (اپنا حق حاصل کرنا) کے علاوہ میں ظاہر نہیں ہوتا۔ اور یہ بات ہم نکاح کے باب میں طے کر چکے ہیں، اور وضاحت کر چکے ہیں کہ عدمِ کفاءۃ کی وجہ سے جو فسخِ نکاح ہوتا ہے وہ نکاح مکمل ہونے سے پہلے فسخ ہوتا ہے، اور یہ فسخ، نکاح کی تکمیل سے باز رہنے کے معنی میں ہے، اسی طرح خیارِ بلوغت اور خیارِ عتق میں ہے۔ جہاں تک خلع کا تعلق ہے تو وہ عقدِ نکاح کی تکمیل کے بعد ہوتا ہے۔ اور نکاح میں مکمل ہونے کے بعد فسخ کا احتمال نہیں ہوتا، لیکن یہ ممکن ہے کہ عقد فوری طور پر توڑ دیا جائے، لہٰذا عقد کو فوری طور پر ختم کر دیننے کو مجازا خلع کے لفظ سے تعبیر کر دیا جاتا ہے، اور یہ صرف طلاق کے ذریعے سے ہی ہوتا ہے۔
امام ابن عبد البر مالكي "الكافي في فقه أهل المدينة" (2/ 593، ط. مكتبة الرياض الحديثة) میں فرماتے ہیں: امام مالک کے نزدیک خلع فسخِ نکاح نہیں بلکہ طلاقِ بائن ہے۔
اس بارے میں آئمہ کرام رحمھم اللہ کے مابین سببِ اختلاف یہ ہے جیسا کہ امام ابو الولید بن رشد "بداية المجتهد ونهاية المقتصد" (3/ 91، ط. دار الحديث) میں فرماتے ہیں: اس تفریق کے ساتھ عوض کے ملے ہونے کی وجہ سے کیا یہ تفریق طلاق سے خارج ہو کر فسخ بن جاتی ہے یا کہ طلاق سے خارج نہیں ہوتی؟۔
امام نووي "المجموع شرح المهذب" (17/ 16، ط. دار الفكر) میں فرماتے ہیں: خلع لفطِ خلع اور لفطِ طلاق کے ساتھ صحیح ہے۔ اگر شوہر نے بیوی سے صریح طلاق یا نیتِ طلاق سے الفاظِ کنایہ سے خلع کیا تو یہ طلاق ہی ہے۔ کیونکہ خلع غیرِ طلاق کا احتمال نہیں رکھتا، اگر اس نے اسے صریح خلع کے لفظ کے ساتھ خلع کیا تو دیکھا جائیگا: اگر اس نے طلاق کا ارادہ نہیں کیا تھا تو اس کے بارے میں فقہاءِ اسلام کے تین قول ہیں:
پہلا قول: اس سے جدائی واقع نہیں ہوتی، اور یہ امام شافعی رحمہ اللہ کا قول "الام" میں موجود ہے۔ کیونکہ یہ بغیر نیت کے طلاقِ کنانہ ہے، اس لیے اس سےکوئی جدائی نہیں ہوتی، جیسا کہ اگر یہ عوض سے خالی ہو جائے۔
دوسرا قول: یہ فسخِ نکاح ہے، اور یہ امام شافعی رحمہ اللہ کا قولِ قدیم ہے۔ چونکہ یہ لفظ جدائی کے لیے بنایا گیا ہے اس لیے اس کا طلاق ہونا جائز نہیں ہے۔ کیونکہ طلاق یا تو صریح لفظ سے واقع ہوتی ہے یا کنایہ لفظ سے واقع ہوتی ہے جس کے ساتھ نیتِ طلاق بھی موجود ہو، اور خلع کا لفظ طلاق میں صریح نہیں ہے اور نہ ہی اس میں طلاق کی نیت ہوتی ہے، لہذا اسے فسخِ نکاح ہونا چاہیے۔
تیسرا قول: یہ طلاق ہے، اور یہ قول "الإملاء" میں موجود ہے، اور اسی قول کو امام مُزَنی رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہے۔ کیونکہ اس میں عورت نے علیحدگی کے لئے معاوضہ ادا کیا ہے، اور جس جدائی کو واقع کرنے کا شوہر مالک ہوتا وہ طلاق ہے نہ کہ فسخ ہے، اس لیے خلع کو طلاق ہی ہونا چاہیے۔
امام مرداوی حنبلی رحمہ اللہ "الإنصاف في معرفة الراجح من الخلاف" (8/ 392، ط. هجر للطباعة والنشر) میں فرماتے ہیں: ہمارے مذہب کا صحیح قول یہ ہے کہ خلع فسخ ہے اور اس سے طلاق کی تعداد کم نہیں ہوتی۔
مصری قانون نے عوام کی رائے پر عمل کیا۔ اس نے 2000 عیسوی کے قانون 1 کے آرٹیکل 20 میں یہ بیان کیا ہے: [تمام صورتوں میں خلع ایک طلاقِ بائن ہے]۔
رہی بات طلاقِ بائن کے معنی کی تو اس کا معنی ہے: مطلقہ عورت کا اپنے شوہر کی زوجیت سے بالکل خارج ہو جانا، اور اس کا شوہر سے ازدواجی ربط ختم ہو جانا۔ اس طرح کہ ان کے درمیان کسی قسم کا کوئی ازدواجی تعلق باقی نہ رہے۔ یعنی شوہر پر عورت کا نان ونفقہ واجب نہیں رہتا، عورت پر اس کی اطاعت واجب نہیں رہتی اور اگر دونوں میں سے ایک فوت ہو جائے تو دوسرے کو وراثت نہیں ملتی، وغیرہ۔
اس کے مطابق: خلع کے ذریعے واقع وہنے والی طلاق ایک بائن طلاق شمار ہوتی ہے، پھر اگر اس خلع سے پہلے کوئی خلع یا کوئی طلاق واقع نہ ہوئی ہو، یا اس سے پہلے ایک بار خلع یا ایک طلاق واقع ہو چکی ہو؛ تو یہ بینونتِ صغری والی طلاقِ بائن ہو گی، جس میں عورت اپنے شوہر کے پاس نئے عقد اور نئے مہر کے بغیر واپس نہیں آ سکتی۔ لیکن اگر اس خلع سے پہلے دو طلاقیں دے چکا ہو، یا ایک خلع اور ایک طلاق دے چکا ہو، وہ دو بار خلع دے چکا ہو؛ تو پھر یہ بینونتِ کبری کے ساتھ طلاق بائن ہو گی جس میں مطلقہ عورت اس وقت تک اس آدمی کیلئے حلال نہیں ہو سکتی جب تک کہ وہ عورت کسی دوسرے شوہر سے نکاح نہ کر لے اور وہ اس سے صحبت بھی کرے اور اس کے بعد اسے طلاق دے دے۔

تفویض طلاق کے بعد بھی شوہر کے پاس طلاق دینے کا حق رھتاہے

 طلاق کا حق تفویض کرنے کے بعد بھی طلاق دینے کا حق شوہر کو ہوتا ہے،  تاہم طلاق کا حق تفویض کرنے کے بعد اس ( تفویض) سے رجوع کا حق شوہر کو نہیں ہوتا۔

سنن ابن ماجہ میں ہے:

"عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: أَتَى النَّبِىَّ صلى الله عليه وسلم رَجُلٌ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ سَيِّدِى زَوَّجَنِى أَمَتَهُ، وَهُوَ يُرِيدُ أَنْ يُفَرِّقَ بَيْنِى وَبَيْنَهَا. قَالَ: فَصَعِدَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم: الْمِنْبَرَ فَقَالَ: «يَا أَيُّهَا النَّاسُ مَا بَالُ أَحَدِكُمْ يُزَوِّجَ عَبْدَهُ أَمَتَهُ ثُمَّ يُرِيدُ أَنْ يُفَرِّقَ بَيْنَهُمَا إِنَّمَا الطَّلاَقُ لِمَنْ أَخَذَ بِالسَّاقِ»". (سنن ابن ماجه، كتاب الطلاق، باب طلاق العبد، رقم: 2072)

شرح سنن ابن ماجہ للسیوطی میں ہے:

"2081 - إنما الطلاق لمن أخذ بالساق كناية عن الجماع أي إنما يملك الطلاق من يملك الجماع فليس للسيد جبر على عبده إذا أنكح أمته إنجاح". ( ١ / ١٩١، ط: قدیمی)

2۔  تفویضِ طلاق کی مختلف صورتیں ہیں، اور ان میں سے بعض صورتوں کے حکم میں فرق  ہے، لہٰذا تفویضِ طلاق کے لیے جو الفاظ استعمال کیے گئے اور جس موقع پر (مثلاً بوقتِ نکاح، نکاح نامے میں لکھے گئے یا اس کے بعد) استعمال کیے گئے

طلاق بذریعہ وکیل


الَّذِي بِيَدِهِ عُقْدَةُ النِّكَاحِ.

وہ (شوہر) جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے۔

البقرة، 2: 237

یعنی طلاق دینے کا اصل اختیار شوہر کے ہاتھ میں ہوتا ہے لیکن وہ اپنا یہ اختیار کسی اور کو بھی سونپ سکتا ہے۔ شوہر چاہے تو طلاق دینے کے لیے اپنی طرف سے وکیل مقرر کر سکتا ہے، بذریعہ قاصد طلاق بھیج سکتا ہے یا طلاق دینے کا حق بیوی کو تفویض کر سکتا ہے۔ آج کل کے دور میں بذریعہ ای میل، واٹس ایپ، ٹیکسٹ میسج، وائس میسج یا دیگر تمام جدید ذرائع خود بھی طلاق دے سکتا ہے اور کسی دوسرے شخص کو بھی طلاق دینے کا اختیار سونپ سکتا ہے۔ بذریعہ وکیل طلاق دینے کی مثال درج ذیل حدیث مبارکہ میں ہے:

عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ، أَنَّ أَبَا عَمْرِو بْنَ حَفْصٍ طَلَّقَهَا الْبَتَّةَ، وَهُوَ غَائِبٌ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهَا وَكِيلُهُ بِشَعِيرٍ، فَسَخِطَتْهُ، فَقَالَ: وَاللهِ مَا لَكِ عَلَيْنَا مِنْ شَيْءٍ، فَجَاءَتْ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ: لَيْسَ لَكِ عَلَيْهِ نَفَقَةٌ.

حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضرت ابو عمرو بن حفص نے انہیں طلاق بتہ (نکاح ختم کرنے والی طلاق) دے دی، جبکہ وہ ان کے پاس موجود نہیں تھے، اس لیے انہوں نے اپنی طرف سے ایک وکیل اُن کی طرف کچھ جو دے کر بھیجا، حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا اس پر ناراض ہوئیں تو ان کے وکیل نے کہا بخدا، ہم پر تمہارا کوئی حق واجب نہیں ہے۔ حضرت فاطمہ بنت قیس، رسول اللہ a کے پاس گئیں اور اس بات کا ذکر کیا، آپ a نے فرمایا: تمہارا اس پر کوئی نفقہ (کھانے اور رہائش کا خرچہ) واجب نہیں ہے۔

  1. مسلم، الصحيح، كتاب الطلاق، باب المطلقة ثلاثا لا نفقة لها، 2: 1114، الرقم: 1480، بيروت: دارإحياء التراث
  2. أبو داود، السنن، كتاب الطلاق، باب في نفقة المبتوتة، 2: 285، الرقم: 2284، بيروت: دار الفكر

یہ ایک طویل حدیث ہے جس میں سے متعلقہ حصہ نقل کیا گیا ہے۔ اس حدیث مبارکہ کے مطابق حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کا شوہر اُن کے پاس موجود نہیں تھے، انہوں نے وکیل کے ذریعہ سے طلاق دی ساتھ کچھ جو بھی بھیجے اور رسول اللہ a نے اس طلاق کو نافذ العمل قرار دے کر عدت پوری کرنے کا حکم فرمایا جیسا کہ حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:

أَرْسَلَ إِلَيَّ زَوْجِي بِطَلَاقِي، فَشَدَدْتُ عَلَيَّ ثِيَابِي ثُمَّ أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: كَمْ طَلَّقَكِ؟ فَقُلْتُ: ثَلَاثًا، قَالَ: لَيْسَ لَكِ نَفَقَةٌ، وَاعْتَدِّي فِي بَيْتِ ابْنِ عَمِّكِ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ.

مجھے میرے خاوند نے طلاق کہلا بھیجی، اور بعد ازاں میں نے اپنے کپڑے اوڑھ لیے، اور میں حضور نبی اکرم a کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئی۔ نبی کریم a نے دریافت فرمایا کہ آپ کو کتنی طلاقیں دی گئی ہیں۔ میں نے عرض کیا تین۔ آپ a نے فرمایا: تجھے عدت بیٹھنے کے لیے تیرے خاوند کی طرف سے خرچہ نہ ملے گا اور آپ نے ارشاد فرمایا کہ آپ اپنے چچا کے بیٹے کے گھر میں ایام عدت پورے کریں یعنی ابن ام مکتوم کے پاس۔

النسائي، السنن، 6: 150، كتاب الطلاق، باب إرسال الرجل إلى زوجته بالطلاق، الرقم: 3418، حلب، شام: مكتب المطبوعات

طلاق کا حق کسی دوسرے شخص کو سونپنے کے حوالے سے ابن ابی شیبہ نے ایک روایت نقل کی ہے:

عَنِ الْحَسَنِ، فِي الرَّجُلِ يَجْعَلُ أَمْرَ امْرَأَتِهِ بِيَدِ رَجُلٍ، قَالَ: هُوَ كَمَا قَالَ.

حضرت حسن فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کا معاملہ کسی دوسرے آدمی کے سپرد کر دے، پھر وہ دوسرا آدمی جو کرے وہی نافذ ہو گا۔

ابن أبي شيبة، المصنف، 4: 85، الرقم: 18070، الرياض: مكتبة الرشد

کسی دوسرے شخص کی طرح شوہر بیوی کو طلاق کا حق دے تو وہ بھی اپنے آپ کو طلاق دے سکتی ہے حضرت ابوالحلال کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عثمان g سے سوال کیا کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کا معاملہ اسی کے سپرد کر دے تو کیا حکم ہے؟ انہوں نے فرمایا:

الْقَضَاءُ مَا قَضَتْ.

جو فیصلہ وہ کرے وہی نافذ ہو گا۔

ابن أبي شيبة، المصنف، 4: 86، الرقم: 18078

مذکورہ بالا تصریحات سے معلوم ہوا کہ شوہر طلاق دینے کا حق کسی ادارے یا فردِ واحد کو سونپ سکتا ہے یا قاصد کے ذریعے طلاق کا پیغام اپنی بیوی کو بھیج سکتا ہے یا بیوی کو حقِ طلاق تفویض کر سکتا ہے۔

پیدائشی اندھےبھرےگونگےشخص پر نماز فرض ہے کہ نہیں

 ایسا شخص جب قرأۃ پر قادر نہیں تو قرأت اس پر فرض نہیں او رجن ارکان یعنی قیام قعود وغیرہ پر قادر ہے ان کو سب لوگوں کی طرح ادا کرتا رہے، اگر اس کو اتنی سمجھ ہے کہ نماز فرض ہے اور پھر نماز کو بقدر طاقت کے ادا نہ کرے گا تو گناہ گار ہو گا۔

"(شرط لفرضيتها الإسلام، والعقل، والبلوغ) لما تقرر في الأصول أن مدار التكليف بالفروع هذه الثلاثة".(كتاب الصلاة،درر الحكام شرح غرر الأحكام :1/ 50)

"وفسر في الحواشي السعدية التكليف بالإسلام والعقل والبلوغ".(الدر المختار مع رد المحتار:3/ 704).فقط واللہ اعلم بالصواب

گونگے کا ذبیحہ

  گونگا شخص"بسم اللہ اللہ اکبر" کو ترک کردینے میں معذور ہے، اور جانور کو ذبح کرنےمیں اس کا مسلمان ہونا ہی کافی ہے، لہذا مسلمان گونگے کا ذبح کیا ہوا جانور حلال ہے اور اس کا گوشت کھاناجائز ہے۔

مجمع الأنهر شرح ملتقی الابحر میں ہے:

(وَتَحِلُّ ذَبِيحَةُ مُسْلِمٍ... أَمَّا الْمُسْلِمُ فَلِقَوْلِهِ تَعَالَى {إِلا مَا ذَكَّيْتُمْ} [المائدة: 3] وَالْخِطَابُ لِلْمُسْلِمِينَ...(أَوْ) كَانَ الذَّابِحُ (أَخْرَسَ) لِأَنَّ الْأَخْرَسَ عَاجِزٌ عَنْ الذِّكْرِ مَعْذُورٌ وَتَقُومُ الْمِلَّةُ مَقَامَ تَسْمِيَتِهِ كَالنَّاسِي بَلْ أَوْلَى.

(كتاب الذبائح، ج:2، ص:507، ط:داراحياءالتراث العربى)

گونگے کی بیع

 جو شخص زبان کے ذریعہ بولنے سے عاجز ہو ایسے شخص کے لیے اشارے اور تحریر کے ذریعہ معاملات سرانجام دینے کی اجازت ہے اور ایسے گونگے شخص کے حق میں اشارہ کرنا یا لکھ کر دینا یہ زبانی بات چیت (ایجاب وقبول)کے قائم مقام ہے ۔ لہذا گونگا آدمی اپنی زمین اشاروں میں اجازت کے ذریعہ یا تحریری طورپر لکھ دینے کے ذریعہ فروخت کرسکتا ہے، اور اس کے حق میں یہی اشارہ کرنا اور لکھنا گویائی (بولنے) کے قائم مقام ہوگا، چنانچہ فقہاء نے طلاق وغیرہ کے احکام میں اشارے کے ذریعہ گونگے کے تصرفات کو نافذ قرارد یا ہے۔

العناية شرح الهداية - (16 / 271):
قال: ( وإذا كان الأخرس يكتب كتابًا أو يومئ إيماءً يعرف به فإنه يجوز نكاحه وطلاقه وعتاقه وبيعه وشراؤه ويقتص له ومنه ، ولا يحد ولا يحد له ) أما الكتابة فلأنها ممن نأى بمنزلة الخطاب ممن دنا ؛ ألا ترى أن النبي عليه الصلاة والسلام أدى واجب التبليغ مرة بالعبارة وتارة بالكتابة إلى الغيب ، والمجوز في حق الغائب العجز وهو في حق الأخرس أظهر وألزم .

الاختيار لتعليل المختار - (2 / 124):

ويستحلف الأخرس فيقول له القاضي : عليك عهد الله إن كان لهذا عليك هذا الحق ، ويشير الأخرس برأسه : أي نعم .

وفیه أیضاً: (3 / 140):

( ويقع طلاق الأخرس بالإشارة ) والمراد إذا كانت إشارته معلومة.

البحر الرائق شرح كنز الدقائق (9 / 151):

فإن كان الأخرس لايكتب وكان له إشارة تعرف في طلاقه ونكاحه وشرائه وبيعه فهو جائز .

گونگے کی گواہی

  گواہ میں جن شرائط کا پایا جانا ضروری ہے، اس میں سے ایک یہ ہے کہ اسے قوت گویائی حاصل ہو، گونگا نہ ہو، لہذا اگر کسی شخص میں گواہ کی تمام شرائط موجود ہوں، لیکن قوت گویائی کی شرط موجود نہ ہو، تو ایسا شخص گواہی کا اہل نہیں ہے اور اس کی اشارے سے گواہی دینے پر عدالت فیصلہ صادر کرنے کی مجاز نہیں ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

الفقہ الاسلامی و ادلته: (شروط اداء الشھادۃ، 564/6، ط: دار الفکر)
النطق: اشترط الحنفیۃ والشافعیۃ والحنابلۃ ان یکون الشاھد ناطقًا فلاتقبل شھادۃ الاخرس وان فہمت اشارتہ لان الاشارۃ لاتعتبر فی الشھادات لانھا تتطلب الیقین وانما المطلوب التلفظ بالشھادۃ۔

گونگے کی طلاق

 گونگے شخص کی طلاق اشارہ سے  چند شرائط کے ساتھ واقع ہوگی، اگر ان شرائط میں سے کوئی ایک بھی شرط مفقود ہوئی تو طلاق واقع نہیں ہوگی، وہ شرائط مندرجہ ذیل ہیں:

۱) اشارہ سے طلاق دینے والا گونگا شخص  پیدائشی گونگا ہو ، پیدائشی گونگا نہ ہونے کی صورت میں اس کے گونگے پن پر کم از کم ایک سال گزر گیا ہو۔

۲)  اس کے اشارے اور اشاروں کا مطلب لوگوں میں معروف (جانا پہچانا) ہو، اور وہ ایسے اشارہ سے طلاق دے جس کا طلاق کے اشارہ کے طور پر استعمال ہونا معروف و مشہور ہو۔

۳) اشارہ کرتے وقت اس کے منہ سے کچھ آواز بھی نکلے جیسا کہ گونگوں کی عادت ہوتی ہے۔

۴) اشارہ سے طلاق دینے والا گونگا شخص لکھنے پر قادر نہ ہو؛ جو گونگا لکھنے پر قادر ہو اس کی طلاق لکھنے سے ہی ہوگی، اشارہ کرنے سے نہیں ہوگی۔

واضح رہے کہ گونگا شخص اشارہ سے طلاق دیتے وقت جتنے عدد کا اشارہ کرے گا اتنی ہی طلاقیں واقع ہوں گی اور اگر اشارہ سے تین سے کم (ایک یا دو) طلاق دے گا تو وہ طلاقِ  رجعی ہی شمار کی جائے گی۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 241):

"(أو أخرس) ولو طارئاً إن دام للموت، به يفتى، وعليه فتصرفاته موقوفة. واستحسن الكمال اشتراط كتابته (بإشارته) المعهودة؛ فإنها تكون كعبارة الناطق استحساناً.

 (قوله: إن دام للموت) قيد في طارئاً فقط ح. قال في البحر: فعلى هذا إذا طلق من اعتقل لسانه توقف، فإن دام به إلى الموت نفذ، وإن زال بطل. اهـ. قلت: وكذا لو تزوج بالإشارة لايحل له وطؤها؛ لعدم نفاذه قبل الموت، وكذا سائر عقوده، ولايخفى ما في هذا من الحرج (قوله: به يفتى) وقدر التمرتاشي الامتداد بسنة، بحر. وفي التتارخانية عن الينابيع: ويقع طلاق الأخرس بالإشارة، ويريد به الذي ولد وهو أخرس أو طرأ عليه ذلك ودام حتى صارت إشارته مفهومة وإلا لم يعتبر (قوله: واستحسن الكمال إلخ) حيث قال: وقال بعض الشافعية: إن كان يحسن الكتابة لايقع طلاقه بالإشارة؛ لاندفاع الضرورة بما هو أدل على المراد من الإشارة وهو قول حسن، وبه قال بعض مشايخنا اهـ. قلت: بل هذا القول تصريح بما المفهوم من ظاهر الرواية.

ففي كافي الحاكم الشهيد ما نصه: فإن كان الأخرس لايكتب وكان له إشارة تعرف في طلاقه ونكاحه وشرائه وبيعه فهو جائز، وإن كان لم يعرف ذلك منه أو شك فيه فهو باطل. اهـ. فقد رتب جواز الإشارة على عجزه عن الكتابة، فيفيد أنه إن كان يحسن الكتابة لاتجوز إشارته، ثم الكلام كما في النهر إنما هو في قصر صحة تصرفاته على الكتابة، وإلا فغيره يقع طلاقه بكتابة كما يأتي آخر الباب، فما بالك به (قوله: بإشارته المعهودة) أي المقرونة بتصويت منه؛ لأن العادة منه ذلك، فكانت الإشارة بياناً لما أجمله الأخرس، بحر عن الفتح. وطلاقه المفهوم بالإشارة إذا كان دون الثلاثة فهو رجعي، كذا في المضمرات ط عن الهندية". 

پیدائشی گونگا بھرا شخص احکام شرعیہ کا مکلف ہے کہ نہیں

 احکاماتِ شرعیہ کے مکلف ہونے کا مدار یہ ہے کہ بالغ ہو اور عاقل ہو، یعنی تکلیف کا مدار عقل پر ہے، لہٰذا اگر کوئی انسان نابالغ یا مجنون وغیرہ نہیں ہے اور اس کی عقل صحیح ہے تو  وہ مکلف ہے،اگرچہ اس کے بعض حواس صحیح نہ ہوں، لیکن اس کا مکلف ہونا اس کی وسعت کے مطابق ہے، اللہ تعالیٰ نے کسی انسان کو اس کی وسعت اور طاقت سے زیادہ کا مکلف نہیں بنایا ہے، لہذا ایسا شخص جو اندھا، بہرا اور گونگا بھی ہو لیکن اس کی عقل کا ادراک درست ہو تو وہ ذاتِ باری تعالیٰ کی توحید اور صفاتِ باری تعالیٰ پر ایمان کا مکلف ہوگا، نیز اگر ایسے شخص کو کسی طرح کوئی سمجھا سکتا ہے تو وہ اس کو سمجھائے گا، اور جس قدر وہ سمجھ سکے گا اسی قدر وہ مکلف ہوگا، اس سے زیادہ نہیں ہے۔

اور بعض روایات میں ہے کہ ایسے لوگ جن تک کسی وجہ سے دعوت یا احکامات نہیں پہنچ سکے یا وہ معذور تھے مثلاً اندھے ، بہرے وغیرہ تو ایسے لوگ  قیامت کے دن اپنا عذر پیش کریں گے، تو اللہ تعالیٰ ان سے اسی وقت امتحان لیں گے، اور اس کے مطابق فیصلہ کریں گے، الغرض دنیاوی اَحکام میں ایسےلوگ اپنی طاقت اور وسعت کے بقدر مکلف ہیں۔

ہمارے ملک میں بعض ایسے لوگ موجود ہیں، بلکہ وہ تبلیغی جماعت میں بھی چلتے ہیں، جو بصارت، سماعت، اور قوتِ گویائی تینوں سے محروم ہیں، لیکن وہ نماز بھی پڑھتے ہیں، بلکہ یہاں تک وہ بیان بھی اشاروں سے کرلیتے ہیں، یہ مشاہدہ کی چیز ہے، اور ان کے مخصوص اشارے ہوتے ہیں  جو وہ ہاتھ وغیرہ کو چھو کر معلوم کرتے ہیں۔

موسوعة القواعد الفقهية (6/ 212):
"والمراد بالأفعال التى يؤاخذ بها الصبي ما يتعلق بحقوق العباد المالية، وأما حقوق الله تعالى فهو لايؤاخذ بها ولاتجب عليه، ولكن يؤمر بفعل الطاعات للتعود عليها كالصلاة والصيام.
والمؤاخذة عليه بأفعاله ليست من باب التكليف - لأنه غير مكلف -؛ لأن مدار التكليف على البلوغ عاقلاً، وإنما هذا من باب ربط الأحكام بأسبابها، فهو من باب الأحكام الشرعية الوضعية لا التكليفية".
نظم الدرر في تناسب الآيات والسور (20/ 237):
"ولما كان السمع أعظم مدارك العقل الذي هو مدار التكليف قالوا: {نسمع} أي سماعاً ينفع بالقبول للحق والرد للباطل {أو نعقل} أي بما أدته إلينا حاسة السمع وغيرها عقلاً ينجي وإن لم يكن سمع".

الأساس في التفسير (10/ 6027):
"قال النسفي: وفيه دليل على أن مدار التكليف على أدلة السمع والعقل، وأنهما حجتان ملزمتان. قال ابن كثير: (أي: لو كانت لنا عقول ننتفع بها، أو نسمع ما أنزل الله من الحق لما كنا على ما كنا عليه من الكفر بالله والاغترار به، ولكن لم يكن لنا فهم نعي به ما جاءت به الرسل، ولا كان لنا عقل يرشدنا إلى اتباعهم)".
درر الحكام شرح غرر الأحكام (1/ 50):
"(كتاب الصلاة) (شرط لفرضيتها الإسلام، والعقل، والبلوغ) لما تقرر في الأصول أن مدار التكليف بالفروع هذه الثلاثة". 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 704):
"وفسر في الحواشي السعدية التكليف بالإسلام والعقل والبلوغ"

الاشباہ والنظائر لجلال الدین السیوطی ص٣١٢ میں ہے:

ص: 312 ] القول في الإشارة .

الإشارة من الأخرس معتبرة ، وقائمة مقام عبارة الناطق ، في جميع العقود ، كالبيع والإجارة والهبة ، والرهن ، والنكاح ، والرجعة ، والظهار . والحلول : كالطلاق ، والعتاق ، والإبراء ، وغيرهما ، كالأقارير ; والدعاوى ، واللعان ، والقذف والإسلام .

ويستثنى صور : الأولى : شهادته لا تقبل بالإشارة في الأصح .

الثانية : يمينه لا ينعقد بها ، إلا اللعان .

الثالثة : إذا خاطب بالإشارة في الصلاة لا تبطل على الصحيح .

الرابعة : حلف لا يكلمه ، فأشار إليه ، لا يحنث .

الخامسة : لا يصح إسلام الأخرس بالإشارة في قول ، حتى يصلي بعدها والصحيح صحته . وحمل النص المذكور على ما إذا لم تكن الإشارة مفهمة .

وإذا قلنا باعتبارها ، فمنهم من أراد الحكم على إشارته المفهومة ، نوى أم لا ، وعليه البغوي .

وقال الإمام ، وآخرون : إشارته منقسمة إلى صريحة مغنية عن النية ، وهي التي يفهم منها المقصود كل واقف عليها ، وإلى كناية مفتقرة إلى النية ، وهي التي تختص بفهم المقصود بها المخصوص بالفطنة ، والذكاء ، كذا حكاه في أصل الروضة : والشرحين من غير تصريح بترجيح .

وجزم بمقالة الإمام في المحرر ، والمنهاج . قال الإمام : ولو بالغ في الإشارة ، ثم ادعى أنه لم يرد الطلاق ، وأفهم هذه الدعوى فهو كما لو فسر اللفظ الشائع في الطلاق بغيره ، وسواء في اعتبارها : قدر على الكتابة أم لا كما أطلقه الجمهور ، وصرح به الإمام . وشرط المتولي عجزه عن كتابة مفهمة ، فإن قدر عليها ، فهي المعتبرة ; لأنها أضبط .

گونگے کا نکاح

 اگر گونگا لکھنا پڑھنا جانتا ہو، تو اس کے سامنے ایک کاغذ پر ایجاب لکھ دیا جائے اور وہ جواب میں "مجھے قبول ہے" لکھ دے، تو اس کا نکاح منعقد ہوجائے گا اور اگر وہ لکھنا پڑھنا  نہ جانتاہوتو پھر اشارہ سے "مجھے قبول ہے" بتادے، نکاح منعقد ہوجائے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

رد المحتار: (21/3، ط: دار الفکر)
وفي الفتح ينعقد النكاح من الأخرس إذا كانت له إشارة معلومة ۔

و فیہ ایضا: (241/3، ط: دار الفکر)
قلت بل هذا القول تصريح بما هو المفهوم من ظاهر الرواية ففي كافي الحاكم الشهيد ما نصه فإن كان الأخرس لا يكتب وكان له إشارة تعرف في طلاقه ونكاحه وشرائه وبيعه فهو جائز وإن كان لم يعرف ذلك منه أو شك فيه فهو باطل اھ فقد رتب جواز الإشارة على عجزه عن الكتابة فيفيد أنه إن كان يحسن الكتابة لا تجوز إشارته ۔الخ۔

الفتاوی الھندیۃ: (270/1، ط: دار الفکر)
وكما ينعقد بالعبارة ينعقد بالإشارة من الأخرس إن كانت إشارته معلومة كذا في البدائع۔

Wednesday 14 August 2024

دو طلاق کاحکم

 سائل نے اپنی بیوی کو یہ الفاظ کہےکہ" طلاق دے دی طلاق دے دی " تو ان الفاظ سے اس کی بیوی پر  دو طلاق رجعی واقع ہوگئی ہیں، جس کا حکم یہ ہے کہ عدت کے دوران شوہر اگر رجوع کرنا چاہے تو کر سکتا ہے، اور رجوع کا طریقہ یہ ہے کہ زبان سے کہہ دے کہ "میں نے رجوع کرلیا" تو رجوع ہوجائے گا، اور اگر زبان سے کچھ نہ کہے، مگر آپس میں میاں بیوی کا تعلق قائم کرلے یا خواہش اور رغبت سے اس کو ہاتھ لگالے، تب بھی رجوع ہو جائے گا، البتہ اگر عدت گزر گئی تو نکاح ٹوٹ جائے گاپھر باہمی رضامندی سے نیا مہر مقرر کرکے گواہوں کی موجودگی میں دوبارہ نکاح کرنا ہوگا، لیکن واضح رہے کہ رجوع یا نکاح جدید کرنے کے بعد اب شوہر کو صرف ایک طلاق دینے کا اختیار باقی ہوگا ۔۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"روى ابن سماعة عن محمد - رحمه الله تعالى - فيمن قال لامرأته: كوني طالقًا أو اطلقي، قال: أراه واقعًا و لو قال لها: أنت طالق طالق أو أنت طالق أنت طالق أو قال: قد طلقتك قد طلقتك أو قال: أنت طالق و قد طلقتك تقع ثنتان إذا كانت المرأة مدخولًا بها، و لو قال: عنيت بالثاني الإخبار عن الأول لم يصدق في القضاء و يصدق فيما بينه وبين الله تعالى."

(کتاب الطلاق ، ص: 355، ج:1 ،ط:دارالفکر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

طلاق السكران واقع إذا سكر من الخمر أو النبيذ. وهو مذهب أصحابنا رحمهم الله تعالى كذا في المحيط

(فتاوی ہندیہ، جلد1، کتاب الطلاق، الباب الاول، فصل فیمن یقع طلاقہ و فیمن لا یقع طلاقہ، ص: 353، ط: مکتبہ رشیدیہ)

فتاوی شامی میں ہے:

وبه ظهر أن المختار قولهما في جميع الأبواب فافهم. وبين في التحرير حكمه أنه إن كان سكره بطريق محرم لا يبطل تكليفه فتلزمه الأحكام وتصح عبارته من الطلاق والعتاق، والبيع والإقرار، وتزويج الصغار من كفء، والإقراض والاستقراض لأن العقل قائم، وإنما عرض فوات فهم الخطاب بمعصيته، فبقي في حق الإثم ووجوب القضاء

(فتاوی شامی، جلد3، کتاب الطلاق، مطلب فی تعریف السکران و حکمہ، ص: 239، ط: ایچ ایم سعید)


خاتون قاضی بن سکتی ہے کہ نہیں

  خاتون اگر حدود وقصاص کے علاوہ کسی اور معاملہ میں قاضی بن کر فیصلہ دیتی ہے تو فیصلہ نافذ ہوجائے گا تاہم خاتون کو قاضی بنانا گناہ ہے،  کیوں  ایسے تمام مناصب جن میں ہرکس و ناکس کے ساتھ اختلاط اور میل جول کی ضرورت پیش آتی ہے(جیسے قاضی اور  جج بننے کی ذمہ داری وغیرہ ) شریعتِ اسلامی نے ان کی ذمہ داری مردوں پر عائد کی ہے،خود اسلام کے ابتدائی ادوار میں بڑی فاضل خواتین موجود تھیں، مگر کبھی کسی خاتون کو مذکورہ ذمہ داری نہیں دی گئی۔

فتاویٰ شامی (الدر المختار ورد المحتار) میں ہے:

"(والمرأة تقضي في غير حد وقود وإن أثم المولي لها) لخبر البخاري «لن يفلح قوم ولوا أمرهم امرأة»

 (قوله: في غير حد وقود) لأنها لا تصلح شهادة فيهما فلا تصلح حاكمة.

(کتاب القضاء، باب التحکیم، مطلب في جعل المرأة شاهدة في الوقف، ج:5، ص:440، ط:ایچ ایم سعید)

Tuesday 13 August 2024

غسل کے دوران کلی کرنا یاناک میں پانی ڈالنا بھول گیا بعد میں یاد آنے پر کرلیا غسل ہوا کہ نہیں

 غسل شروع کرنے سے پہلے وضو کرنا سنت ہے، اسی وضو میں کلی بھی کرلینی چاہیے اور ناک میں پانی بھی ڈال لینا چاہیے، لیکن اگر غسل شروع کرنے سے پہلے یا غسل کے دوران کلی نہیں کی یا ناک میں پانی نہیں ڈالا تو غسل کے بعد جب بھی یاد آجائے اس وقت کلی کرلینی چاہیے اور ناک میں پانی ڈال لینا چاہیے چاہے جتنی بھی دیر گزر چکی ہو۔

  غسل کرلینے کے بعد جس وقت بھی یاد آئے کہ کلی نہیں کی یا ناک میں پانی نہیں ڈالا تو  چاہے جتنی دیر گزر چکی ہو تب بھی صرف کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا کافی ہوگا، مکمل غسل دوبارہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہوگی۔ البتہ اگر یہ غسل فرض تھا اور اس میں کلی کرنا یا ناک میں پانی ڈالنا بھول گیا تھا، اور کلی کرنے یا ناک میں پانی ڈالنے سے پہلے اگر کوئی نماز پڑھ لی تو کلی کرنے یا ناک میں پانی ڈالنے کے بعد اس نماز کا اعادہ کرنا ہوگا۔

اللباب في الجمع بين السنة والكتاب (1/ 129):
"وعنه: عن ابن عباس رضي الله عنه قال: " إذا نسي المضمضة والاستنشاق إن كان جنباً أعاد المضمضة والاستنشاق واستأنف الصلاة ". وكذلك قال ابن عرفة، وإلى هذا ذهب الثوري رحمه الله تعالى".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 155):
"فروع] نسي المضمضة أو جزءاً من بدنه فصلى ثم تذكر، فلو نفلا لم يعد لعدم صحة شروعه.

(قوله: لعدم صحة شروعه) أي والنفل إنما تلزم إعادته بعد صحة الشروع فيه قصدا، وسكت عن الفرض لظهور أنه يلزمه الإتيان به مطلقاً".

الأصل للشيباني ط قطر (1/ 32):
"قلت: أرأيت رجلاً  توضأ ونسي المضمضة والاستنشاق أو كان جُنُباً فنسي المضمضة والاستنشاق ثم صلى؟ قال: أمّا ما كان في الوضوء فصلاته  تامة، وأمّا ما كان في غُسل الجنابة أو طُهر حيض فإنه يتمضمض ويستنشق ويعيد الصلاة. قلت: من أين اختلفا؟ قال: هما في القياس سواء، إلا أنّا نَدَعُ القياس للأثر الذي جاء عن ابن عباس". 
 فقط