أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله علیه وآله وسلم جَعَلَ الْخُلْعَ تَطْلِيقَةً بَائِنَةً.
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خلع کو طلاق بائن قرار دیا۔
- دار قطنی، السنن، 4: 45، رقم: 134، بیروت: دارالمعرفة
- أبو یعلى، معجم، 1: 196، رقم: 230، فیصل آباد: ادارة العلوم الأثریة
- بیهقی، السنن الکبریٰ، 7: 316، رقم: 18339، مکة المکرمة: مکتبة دار الباز
اور حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
الْخُلْعُ تَطْلِيقَةٌ بَائِنٌ وَالإِيلاَءُ وَالْمُبَارَأَةُ كَذَلِكَ.
خلع طلاق بائن ہے ، ایلاء اور لاتعلقی (کے الفاظ بولنےسےبھی طلاق بائن ہے)۔
ابن أبي شیبة، المصنف، 4: 109، رقم: 18339، ریاض: مکتبة الرشد
اور مصنف عبدالرزاق میں بھی حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ سے ایک روایت نقل کی گئی ہے:
الْخُلْعُ تَطْلِيقَةٌ بَائِنَةٌ وَالْخُلْعُ مَا دُونَ عِقَاصِ الرَّأْسِ وَإِنَّ الْمَرْأَةَ لَتَفْتَدِيَ بِبَعْضِ مَالِهَا.
خلع طلاق بائن ہے اور خلع سر کے جوڑے سے بھی کم تر ہو سکتی ہے اور عورت بعض مال دے کر جان چھڑوا سکتی ہے۔
عبد الرزاق، المصنف، 6: 481، رقم: 11752، بیروت: المکتب الاسلامی
صاحب ہدایہ فرماتے ہیں:
فَإِذَا فَعَلَا ذَلِكَ وَقَعَ بِالْخُلْعِ تَطْلِيقَةٌ بَائِنَةٌ وَلَزِمَهَا الْمَالُ.
جب ایسا کر لیا تو خلع سے ایک طلاق بائن واقع ہو گی اور عورت پر مال دینا لازم ہو گا۔
- مرغیانی، الهدایة شرح البدایة، 2: 113، المکتبة الاسلامیة
- ابن همام، شرح فتح القدیر، 4: 211، بیروت: دار الفکر
جب شوہر بیوی کے حقوق پورے کرنے سے قاصر ہو اور طلاق بھی نہ دے تو ایسی صورت میں عورت علیحدگی کے لئے عدالت سے رجوع کرسکتی ہے، جیسے صاحب ہدایہ بیان کرتے ہیں:
فَإِذَا امْتَنَعَ نَابَ الْقَاضِي مَنَابَهُ فَفَرَّقَ بَيْنَهُمَا وَلَا بُدَّ مِنْ طَلَبِهَا لِأَنَّ التَّفْرِيقَ حَقُّهَا "وَتِلْكَ الْفُرْقَةُ تَطْلِيقَةٌ بَائِنَةٌ."
جب خاوند اس پر آمادہ نہ ہو قاضی خود اس (خاوند) کا قائمقام ہوکر دونوں میں تفریق کردے چونکہ یہ بیوی کا حق ہے، لہٰذا اس کا مطالبہ کرنا ضروری ہے''اور یہ تفریق و تنسیخ طلاق بائن ہوگی۔''
مرغیناني، الهدایة شرح البدایة، 2: 26، المکتبة الإسلامیة
فتاویٰ ہندیہ میں بھی عدالتی تنسیخ کو طلاق بائن قرار دیا گیا ہے:
إنْ اخْتَارَتْ الْفُرْقَةَ أَمَرَ الْقَاضِي أَنْ يُطَلِّقَهَا طَلْقَةً بَائِنَةً فَإِنْ أَبَى فَرَّقَ بَيْنَهُمَا... وَالْفُرْقَةُ تَطْلِيقَةٌ بَائِنَةٌ.
اگر بیوی جدائی چاہتی ہے تو قاضی (عدالت) اس کے خاوند کو طلاق بائن دینے کا حکم دے۔ اگر انکار کرے تو قاضی دونوں میں تفریق کردے یہ فرقت طلاق بائن ہوگی۔
الشیخ نظام وجماعة من علماء الهند، الفتاوی الهندیة، 1: 524، دار الفکر
مذکورہ بالا تصریحات سے معلوم ہوا کہ خلع و تنسیخ نکاح سے طلاق بائن واقع ہوتی ہے اور فوراً نکاح ٹوٹ جاتا ہے، لہٰذا خلع وتنسیخ کے بعد بغیر تجدید ِنکاح رجوع نہیں ہو سکتا۔ اگر کوئی جوڑا از سرِ نو بطورِ زن و شو تعلقات قائم کرنا چاہے تو باہمی رضا مندی سے دوران عدت یا عدت کے بعد تجدید نکاح کرسکتے ہیں مگر یاد رہے کسی اور سے نکاح کرنے کے لئے عورت پر عدت گزارنا لازم ہوگی اور عدت کے بعد وہ جہاں چاہے دستور کے مطابق نکاح کرسکتی ہے۔
- ہے کہ خلع کی وجہ سے میاں بیوی میں جدائی سے طلہور فقہاء عظام یعنی مذہبِ احناف، مذہبِ مالکیہ، اور شافعیہ کے قولِ جدید کے مطابق خلع طلاق ہے اور اسے طلاق کی تعداد میں شمار کیا جائے گا۔ اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما سے جو مروی ہے اس کے مکے قولِ قدیمار نہیں کیا جائے گا۔
امام سرخسی حنفی رحمہ اللہ "المبسوط" (6/ 171-172، ط. دار المعرفة) میں فرماتے ہیں: [اگر عورت اپنے شوہر سے خلع کرے تو یہ خلع جائز ہے، اور خلع ہمارے نزدیک طلاقِ بائن ہے۔ اور شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے قول کے مطابق خلع فسخ ہے، اور یہی ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، اور روایت ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنھما نے اپنے اس قول سے جمہور صحابہ کرام رضي الله عنهم کے قول کی طرف رجوع کر لیا تھا۔
امام شافعی رحمہ اللہ اپنے قول کیلئے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے استنباط کرتے ہیں: ﴿الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ﴾ إلى أن قال: ﴿فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ﴾ [البقرة: 229] إلى أن قال: ﴿فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ﴾ [البقرة: 230] یعنی پہلے اللہ تعالی نے فرمایا: ''طلاق دو بار ہے''۔ پھر فرمایا: ''تو ان دونوں پر اس میں کوئی گناہ نہیں کہ عورت معاوضہ دے کر پیچھا چھڑا لے'' ۔ اور پھر فرمایا: ''پھر اگر اس نے اسے طلاق دے دی تو اس کے بعد اس کے لیے وہ حلال نہ ہوگی یہاں تک کہ وہ کسی اور خاوند سے نکاح کرے''۔ اگر ہم خلع کو طلاق قرار دتے ہیں تو اس آیت کی رو سے طلاقیں چار ہو جائیں گی حالانکہ طلاقیں تین سے زیادہ نہیں ہوتیں۔ اور دوسری دلیل یہ ہے کہ چونکہ نکاح ایک ایسا عقد جو فسخ کا احتمال رکھتا ہے اس لئے خیارِ عدمِ کفاءۃ کی وجہ سے نکاح فسخ کر دیا جاتا ہے اور خیارِ عتق کی وجہ سے اور آپ کے نزدیک اے احناف خیارِ بلوغت کی وجہ سے بھی نکاح فسخ کر دیا جاتا ہے۔ جب ایسا ہے تو نکاح رضامندی کے ساتھ فسخ کیے جانے کا بھی احتمال رکھتا ہے۔ اور یہ فسخ خلع کے ذریعے سے ہوتا ہے، اور امام شافعی رحمہ اللہ نے اس معاوضے کو خرید وفروخت پر قیاس کیا ہے جسے باہمی رضامندی سے فسخ کرنا جائز ہے۔
اور ہماری دلیل وہ حدیث پاک ہے جو سیدنا عمر، سیدنا علی ، سیدنا ابنِ مسعود رضی اللہ تعالی عنھم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم تک مرفوعا مروی ہے: «الْخُلْعُ تَطْلِيقَةٌ بَائِنَةٌ». یعنی: خلع طلاقِ بائن ہے۔ اس کے اندر یہ معنی بھی موجود ہے کہ نکاح جب مکمل ہو جائے تو اس میں فسخ ہونے کا احتمال نہیں ہوتا۔ کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ سپردگی سے پہلے ہلاک ہو جانے سےنکاح فسخ نہیں ہوتا، پس اس سے ثابت ہونے والا مِلک مِلکِ ضروری ہے جو کہ حق استیفاء (اپنا حق حاصل کرنا) کے علاوہ میں ظاہر نہیں ہوتا۔ اور یہ بات ہم نکاح کے باب میں طے کر چکے ہیں، اور وضاحت کر چکے ہیں کہ عدمِ کفاءۃ کی وجہ سے جو فسخِ نکاح ہوتا ہے وہ نکاح مکمل ہونے سے پہلے فسخ ہوتا ہے، اور یہ فسخ، نکاح کی تکمیل سے باز رہنے کے معنی میں ہے، اسی طرح خیارِ بلوغت اور خیارِ عتق میں ہے۔ جہاں تک خلع کا تعلق ہے تو وہ عقدِ نکاح کی تکمیل کے بعد ہوتا ہے۔ اور نکاح میں مکمل ہونے کے بعد فسخ کا احتمال نہیں ہوتا، لیکن یہ ممکن ہے کہ عقد فوری طور پر توڑ دیا جائے، لہٰذا عقد کو فوری طور پر ختم کر دیننے کو مجازا خلع کے لفظ سے تعبیر کر دیا جاتا ہے، اور یہ صرف طلاق کے ذریعے سے ہی ہوتا ہے۔
امام ابن عبد البر مالكي "الكافي في فقه أهل المدينة" (2/ 593، ط. مكتبة الرياض الحديثة) میں فرماتے ہیں: امام مالک کے نزدیک خلع فسخِ نکاح نہیں بلکہ طلاقِ بائن ہے۔
اس بارے میں آئمہ کرام رحمھم اللہ کے مابین سببِ اختلاف یہ ہے جیسا کہ امام ابو الولید بن رشد "بداية المجتهد ونهاية المقتصد" (3/ 91، ط. دار الحديث) میں فرماتے ہیں: اس تفریق کے ساتھ عوض کے ملے ہونے کی وجہ سے کیا یہ تفریق طلاق سے خارج ہو کر فسخ بن جاتی ہے یا کہ طلاق سے خارج نہیں ہوتی؟۔
امام نووي "المجموع شرح المهذب" (17/ 16، ط. دار الفكر) میں فرماتے ہیں: خلع لفطِ خلع اور لفطِ طلاق کے ساتھ صحیح ہے۔ اگر شوہر نے بیوی سے صریح طلاق یا نیتِ طلاق سے الفاظِ کنایہ سے خلع کیا تو یہ طلاق ہی ہے۔ کیونکہ خلع غیرِ طلاق کا احتمال نہیں رکھتا، اگر اس نے اسے صریح خلع کے لفظ کے ساتھ خلع کیا تو دیکھا جائیگا: اگر اس نے طلاق کا ارادہ نہیں کیا تھا تو اس کے بارے میں فقہاءِ اسلام کے تین قول ہیں:
پہلا قول: اس سے جدائی واقع نہیں ہوتی، اور یہ امام شافعی رحمہ اللہ کا قول "الام" میں موجود ہے۔ کیونکہ یہ بغیر نیت کے طلاقِ کنانہ ہے، اس لیے اس سےکوئی جدائی نہیں ہوتی، جیسا کہ اگر یہ عوض سے خالی ہو جائے۔
دوسرا قول: یہ فسخِ نکاح ہے، اور یہ امام شافعی رحمہ اللہ کا قولِ قدیم ہے۔ چونکہ یہ لفظ جدائی کے لیے بنایا گیا ہے اس لیے اس کا طلاق ہونا جائز نہیں ہے۔ کیونکہ طلاق یا تو صریح لفظ سے واقع ہوتی ہے یا کنایہ لفظ سے واقع ہوتی ہے جس کے ساتھ نیتِ طلاق بھی موجود ہو، اور خلع کا لفظ طلاق میں صریح نہیں ہے اور نہ ہی اس میں طلاق کی نیت ہوتی ہے، لہذا اسے فسخِ نکاح ہونا چاہیے۔
تیسرا قول: یہ طلاق ہے، اور یہ قول "الإملاء" میں موجود ہے، اور اسی قول کو امام مُزَنی رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہے۔ کیونکہ اس میں عورت نے علیحدگی کے لئے معاوضہ ادا کیا ہے، اور جس جدائی کو واقع کرنے کا شوہر مالک ہوتا وہ طلاق ہے نہ کہ فسخ ہے، اس لیے خلع کو طلاق ہی ہونا چاہیے۔
امام مرداوی حنبلی رحمہ اللہ "الإنصاف في معرفة الراجح من الخلاف" (8/ 392، ط. هجر للطباعة والنشر) میں فرماتے ہیں: ہمارے مذہب کا صحیح قول یہ ہے کہ خلع فسخ ہے اور اس سے طلاق کی تعداد کم نہیں ہوتی۔
مصری قانون نے عوام کی رائے پر عمل کیا۔ اس نے 2000 عیسوی کے قانون 1 کے آرٹیکل 20 میں یہ بیان کیا ہے: [تمام صورتوں میں خلع ایک طلاقِ بائن ہے]۔
رہی بات طلاقِ بائن کے معنی کی تو اس کا معنی ہے: مطلقہ عورت کا اپنے شوہر کی زوجیت سے بالکل خارج ہو جانا، اور اس کا شوہر سے ازدواجی ربط ختم ہو جانا۔ اس طرح کہ ان کے درمیان کسی قسم کا کوئی ازدواجی تعلق باقی نہ رہے۔ یعنی شوہر پر عورت کا نان ونفقہ واجب نہیں رہتا، عورت پر اس کی اطاعت واجب نہیں رہتی اور اگر دونوں میں سے ایک فوت ہو جائے تو دوسرے کو وراثت نہیں ملتی، وغیرہ۔
اس کے مطابق: خلع کے ذریعے واقع وہنے والی طلاق ایک بائن طلاق شمار ہوتی ہے، پھر اگر اس خلع سے پہلے کوئی خلع یا کوئی طلاق واقع نہ ہوئی ہو، یا اس سے پہلے ایک بار خلع یا ایک طلاق واقع ہو چکی ہو؛ تو یہ بینونتِ صغری والی طلاقِ بائن ہو گی، جس میں عورت اپنے شوہر کے پاس نئے عقد اور نئے مہر کے بغیر واپس نہیں آ سکتی۔ لیکن اگر اس خلع سے پہلے دو طلاقیں دے چکا ہو، یا ایک خلع اور ایک طلاق دے چکا ہو، وہ دو بار خلع دے چکا ہو؛ تو پھر یہ بینونتِ کبری کے ساتھ طلاق بائن ہو گی جس میں مطلقہ عورت اس وقت تک اس آدمی کیلئے حلال نہیں ہو سکتی جب تک کہ وہ عورت کسی دوسرے شوہر سے نکاح نہ کر لے اور وہ اس سے صحبت بھی کرے اور اس کے بعد اسے طلاق دے دے۔
No comments:
Post a Comment