https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Wednesday 28 August 2024

شوھر کے کومہ میں ہونے کی بنا پر فسخ نکاح

 عدالت سے رجوع کرکے بیوی شوہر  کی  کوما  میں ہونے کی کیفیت ثابت کرے، اور پھر اپنے اعذار پیش کرے، مثلاً: شوہر کے کومے  میں ہونے کی بنا پر اسے نان نفقہ نہیں مل رہا،  یا اپنے اوپر فتنے کا اندیشہ ہے وغیرہ ، اس کے بعد عدالت دونوں کے درمیان نکاح کو فسخ کردے تو نکاح ختم ہوجائے گا۔

أراء الفقهاء في التفريق لعدم الإنفاق:
للفقهاء رأيان: رأي الحنفية، ورأي الجمهور (١):
أولا ـ رأي الحنفية: لا يجوز في مذهب الحنفية والإمامية التفريق لعدم الإنفاق؛ لأن الزوج إما معسر أو موسر. فإن كان معسرا فلا ظلم منه بعدم الإنفاق، والله تعالى يقول: {لينفق ذو سعة من سعته، ومن قدر عليه رزقه، فلينفق مما آتاه الله، لا يكلف الله نفسا إلا ما آتاها، سيجعل الله بعد عسر يسرا} [الطلاق:٧/ ٦٥] وإذا لم يكن ظالما فلا نظلمه بإيقاع الطلاق عليه. 

وإن كان موسرا فهو ظالم بعدم الإنفاق، ولكن دفع ظلمه لا يتعين بالتفريق، بل بوسائل أخرى كبيع ماله جبرا عنه للإنفاق على زوجته، وحبسه لإرغامه على الإنفاق. ويجاب بأنه قد يتعين التفريق لعدم الإنفاق لدفع الضرر عن الزوجة.
ويؤكده أنه لم يؤثر عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه مكن امرأة قط من الفسخ بسبب إعسار زوجها، ولا أعلمها بأن الفسخ حق لها. ويجاب بأن التفريق بسبب الإعسار مرهون بطلب المرأة، ولم تطلب الصحابيات التفريق.
ثانيا ـ رأي الجمهور: أجاز الأئمة الثلاثة التفريق لعدم الإنفاق لما يأتي:
١ - قوله تعالى: {ولا تمسكوهن ضرارا لتعتدوا} [البقرة:٢٣١/ ٢] وإمساك المرأة بدون إنفاق عليها إضرار بها. وقوله تعالى: {فإمساك بمعروف أو تسريح بإحسان} [البقرة:٢٢٩/ ٢] وليس من الإمساك بالمعروف أن يمتنع عن الإنفاق عليها.
٢ - قال أبو الزناد: سألت سعيد بن المسيب عن الرجل لا يجد ماينفق على امرأته، أيفرق بينهما؟ قال: نعم، قلت له: سنة؟ قال: سنة. وقول سعيد: سنة، يعني سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم.
٣ - كتب عمر رضي الله عنه إلى أمراء الأجناد، في رجال غابوا عن نسائهم، يأمرهم أن يأخذوهم أن ينفقوا أو يطلقوا، فإن طلقوا بعثوا بنفقة ما مضى.
٤ - إن عدم الإنفاق أشد ضررا على المرأة من سبب العجز عن الاتصال الجنسي، فيكون لها الحق في طلب التفريق بسبب الإعسار أو العجز عن الإنفاق من باب أولى. والراجح لدي رأي الجمهور لقوة أدلتهم، ودفعا للضرر عن المرأة، ولا ضرر ولا ضرار في الإسلام.(الفقه الإسلامي وأدلته: ٩/ ٧٠٤٣-٧٠٤٥

Tuesday 27 August 2024

شوھر جیل میں تو بیوی نکاح فسخ کراسکتی ہے

 عورت کے شوہر کو بیس سال قید کی سزا ہوئی ہے، اور  اس کی جلد رہائی کی کوئی امید نہیں ہے تو  ایسی صورت میں اگر عورت کے لیے  نان ونفقہ اور گزارہ کا کچھ انتظام ہو،  اور وہ اتنی مدت تک صبروتحمل اور عفت کے ساتھ زندگی گزارسکے تو    وہ عورت صبر کرے، اور اگراس کے نان و نفقہ کا کوئی انتظام نہ ہو یا شوہر کے بغیر رہنے میں عفت وعصمت پر داغ لگنے اور گناہ اور فتنہ میں پڑنے کا قوی اندیشہ ہے تو ایسی صورت میں شوہر سے طلاق لے لے یا باہمی رضامندی سے خلع حاصل کرلے، البتہ اگر اس  کی صورت نہ  ہو تو  مجبوری میں مسلمان جج کی عدالت میں  فسخ نکاح کا دعوی دائر کرے،   اور قاضی مکمل تحقیق کے بعد  دونوں کے نکاح کو فسخ کرسکتا ہے۔

کفایت المفتی میں ہے: 

"(سوال)  ایک شخص کو کالے پانی کی سزا  بتعین ۲۰ سال کی ہوئی ہے اور اس  کی بیوی جوان ہے وہ اس  عرصہ تک نہیں رہ سکتی اور اپنی شادی کرنا چاہتی ہے تو ایسی صورت میں عقد ثانی کا کیا حکم ہے؟

(جواب ۹۹)  اگر ممکن  ہو تو اس قیدی شوہر سے طلاق حاصل کرلی جائے لیکن اگر حصول طلاق کی کوئی صورت ممکن  نہ ہو تو پھر یہ حکم ہے کہ اگر عورت اتنی طویل مدت تک صبر نہ کرسکتی ہو یا اس کے نفقہ کی کوئی صورت خاوند کی جائداد وغیرہ سے نہ ہوتو کسی مسلمان حاکم سے نکاح فسخ کرالیا جائے - اور بعد فسخ  نکاح و انقضائے عدت دوسرا نکاح کردیا جائے ۔ محمد کفایت اللہ کان اللہ لہ"

(کفایت المفتی ، کتاب الطلاق، 6/ 111، ط: دارالاشاعت)

خلع،فسخ اور طلاق

 خاوند اور بيوى ميں عليحدگى تو طريقوں سے ہوتى ہے يا تو طلاق يا پھر فسخ نكاح كے ذريعہ.

اور ان دونوں ميں فرق يہ ہے كہ خاوند كى جانب سے ازدواجى تعلق كو ختم كرنا طلاق كہلاتا ہے، اور اس كے كچھ مخصوص اور معروف الفاظ ہيں.

اور رہا فسخ نكاح تو يہ عقد نكاح كو توڑنا اور ازدواجى ارتباط كو بالكل اصلا ختم كرنے كا نام ہے گويا كہ يہ ارتباط تھا ہى نہيں، اور يہ قاضى يا شرعى حكم كے ذريعہ ہوگا.

اور ان دونوں ميں درج ذيل فرق پايا جاتا ہے:

1 ـ طلاق صرف خاوند كے الفاظ اور اس كے اختيار و رضا سے ہوتى ہے، ليكن فسخ نكاح خاوند كے الفاظ كے بغير بھى ہو جاتا ہے، اور اس ميں خاوند كى رضا اور اختيار كى شرط نہيں.

امام شافعى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" ہر وہ جس سے تفريق اور عليحدگى كا فيصلہ كيا جائے اور خاوند اس كے الفاظ نہ بولے، اور اسے نہ چاہے... تو يہ عليحدگى طلاق نہيں كہلائيگى " انتہى

ديكھيں: الام ( 5 / 128 ).

2 ـ طلاق كے كئى ايك اسباب ہيں، اور بعض اوقات بغير كسى سبب كے بھى ہو سكتى ہے، بلكہ طلاق تو صرف خاوند كا اپنى بيوى كو چھوڑنے كى رغبت سے ہوگى.

ليكن فسخ نكاح كے ليے سبب كا ہونا ضرورى ہے جو فسخ كو واجب يا مباح كرے.

فسخ نكاح ثابت ہونے والے اسباب كى مثاليں:

ـ خاوند اور بيوى كے مابين كفؤ و مناسبت نہ ہونا ـ جنہوں نے لزوم عقد ميں اس كى شرط لگائى ہے ـ.

ـ جب خاوند يا بيوى ميں سے كوئى ايك اسلام سے مرتد ہو جائے، اور دين اسلام ميں واپس نہ آئے.

ـ جب خاوند اسلام قبول كر لے اور بيوى اسلام قبول كرنے سے انكار كر دے، اور وہ مشركہ ہو اور اہل كتاب سے تعلق نہ ركھتى ہو.

ـ خاوند اور بيوى ميں لعان ہو جائے.

ـ خاوند كا نفقہ و اخراجات سے تنگ اور عاجز ہو جانا، جب بيوى فسخ نكاح طلب كرے.

ـ خاوند يا بيوى ميں سے كسى ايك ميں ايسا عيب پايا جائے جو استمتاع ميں مانع ہو، يا پھر دونوں ميں نفرت پيدا كرنے كا باعث بنے.

3 ـ فسخ نكاح كے بعد خاوند كو رجوع كا حق حاصل نہيں اس ليے وہ اسے نئے عقد نكاح اور عورت كى رضامندى سے ہى واپس لا سكتا ہے.

ليكن طلاق رجعى كى عدت ميں وہ اسكى بيوى ہے، اور اسے پہلى اور دوسرى طلاق كے بعد اسے رجوع كرنے كا حق حاصل ہے، چاہے بيوى راضى ہو يا راضى نہ ہو.

ـ فسخ نكاح ميں مرد جن طلاقوں كى تعداد كا مالك ہے اسے شمار نہيں كيا جاتا.


امام شافعى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اور خاوند اور بيوى كے مابين جو فسخ نكاح ہو تو اس سے طلاق واقع نہيں ہوتى، نہ تو ايك اور نہ ہى اس كے بعد " انتہى

ديكھيں: كتاب الام ( 5 / 199 ).

ابن عبد البر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" فسخ نكاح اور طلاق ميں فرق يہ ہے كہ اگرچہ ہر ايك سے خاوند اور بيوى ميں عليحدگى اور تفريق ہو جاتى ہے: فسخ يہ ہے كہ جب اس كے بعد خاوند اور بيوى دوبارہ نكاح كريں تو وہ پہلى عصمت پر ہيں، اور عورت اپنے خاوند كے پاس تين طلاق پر ہو گى ( يعنى خاوند كو تين طلاق كا حق ہوگا ) اور اگر اس نے فسخ نكاح سے قبل طلاق دى اور رجوع كر ليا تو اس كے پاس دو طلاقيں ہونگى " انتہى

ديكھيں: الاستذكار ( 6 / 181 ).

5 ـ طلق خاوند كا حق ہے، اور اس ميں قاضى كے فيصلہ كى شرط نہيں، اور بعض اوقات خاوند اور بيوى دونوں كى رضامندى سے ہوتى ہے.

ليكن فسخ نكاح شرعى حكم يا پھر قاضى كے فيصلہ سے ہو گا، اور فسخ نكاح صرف خاوند اور بيوى كى رضامندى سے نہيں ہو سكتا، الا يہ كہ خلع كى صورت ميں.

ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" دونوں ( يعنى خاوند اور بيوى ) كو بغير عوض ( يعنى خلع ) كے فسخ نكاح پر راضى ہونے كا حق حاصل نہيں، اس پر اتفاق ہے " انتہى

ديكھيں: زاد المعاد ( 5 / 598 ).

6 ـ دخول سے قبل فسخ نكاح عورت كے ليے كوئى مہر واجب نہيں كرتا، ليكن دخول سے قبل طلاق ميں مقرر كردہ مہر كا نصف مہر واجب ہوتا ہے.

ليكن خلع يہ ہے كہ عورت اپنے خاوند سے مطالبہ كرے كہ وہ مالى عوض يا پھر مہر سے دستبردار ہونے كے مقابلہ ميں اس سے عليحدگى اختيار كر لے.

علماء كرام كا اختلاف ہے كہ آيا يہ فسخ نكاح ہے يا كہ طلاق ؟ اقرب يہى ہے كہ يہ فسخ ہے

طلاق اور فسخ نكاح ميں فرق كے ليے درج ذيل كتب سے استقادہ كيا گيا:

المنثور فى القواعد ( 3 / 24 ) الفقہ الاسلامى و ادلتہ ( 4 / 595 ) الموسوعۃ الفقھيۃ الكويتيۃ ( 32 / 107 - 113 ) فقہ السنۃ ( 2 / 

خلع طلاق ہے کہ نہیں 

راجح قول يہى ہے كہ خلع طلاق شمار نہيں ہوتى چاہے وہ طلاق كے الفاظ ميں ہى ہو، اس كى تفصيل ذيل ميں پيش كى جاتى ہے:

1 ـ جب خلع طلاق كے الفاظ ميں نہ ہو اور نہ ہى اس سے طلاق كى نيت كى گئى ہو تو اہلم علم كى ايك جماعت كے ہاں يہ فسخ نكاح ہے، اور قديم مذہب ميں امام شافعى كا يہى قول ہے اور حنابلہ كا بھى مسلك يہى ہے، اس كے فسخ ہونے كى بنا پر اسے طلاق شمار نہيں كيا جائيگا، اس ليے جس نے بھى اپنى بيوى سے دو بار خلع كر ليا تو اسے نيا نكاح كر كے رجوع كا حق حاصل ہے اور وہ طلاق شمار نہيں ہو گى.

اس كى مثال يہ ہے كہ: خاوند بيوى كو كہے ميں نے اتنى رقم كے عوض تجھ سے خلع كيا، يا اتنے مال پر ميں نے نكاح فسخ كيا.

2 ـ ليكن اگر خلع طلاق كے الفاظ كے ساتھ ہو مثلا ميں نے اپنى بيوى كو اتنے مال كے عوض ميں طلاق دى تو جمہور اہل علم كے قول ميں يہ طلاق شمار ہوگى "

ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 19 / 237 ).

اور بعض علماء كہتے ہيں كہ يہ بھى فسخ نكاح ہى ہوگا، اور اسے طلاق شمار نہيں كيا جائيگا، يہ ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے، اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ نے اسے ہى اختيار كيا اور كہا ہے:

يہ قدماء صحابہ كرام رضى اللہ تعالى عنہم اور امام احمد رحمہ اللہ سے بيان كردہ ہے "

ديكھيں: الانصاف ( 8 / 393 ).

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" ليكن راجح قول يہ ہے كہ: يہ ( يعنى خلع ) طلاق نہيں چاہے يہ خلع صريح طلاق كے الفاظ سے واقع ہو، اس كى دليل قرآن مجيد كى آيت ہے فرمان بارى تعالى ہے:

يہ طلاقيں دو مرتبہ ہيں پھر يا تو اچھائى سے روكنا يا پھر عمدگى كے ساتھ چھوڑ دينا ہے البقرۃ ( 229 ).

يعنى دونوں بار يا تو اسے ركھيں يا پھر چھوڑ ديں يہ معاملہ آپ كے ہاتھ ميں ہے.

اس كے بعد فرمايا:

اور تمہيں حلال نہيں كہ تم نے انہيں جو ديا ہے اس ميں سے كچھ بھى لو، ہاں يہ اور بات ہے كہ دونوں كو اللہ كى حديں قائم نہ ركھ سكنے كا خوف ہو، اس ليے اگر تمہيں ڈر ہو كہ يہ دونوں اللہ كى حديں قائم نہ ركھ سكيں گےتو عورت رہائى پائے كے ليے كچھ دے ڈالے، اس ميں ان دونوں پر گناہ نہيں يہ اللہ كى حدود ہيں خبردار ان سے آگے مت نہ بڑھنا اور جو لوگ اللہ كى حدود سے تجاوز كر جائيں وہ ظالم ہيں البقرۃ ( 229 ).

تو يہ تفريق فديہ شمار ہو گى پھر اللہ سبحانہ و تعالى نے فرمايا:

پھر اگر اس كو ( تيسرى ) طلاق دے دے تو اب اس كے ليے حلال نہيں جب تك كہ وہ عورت اس كے سوا دوسرے سے نكاح نہ كرے البقرۃ ( 230 ).

اس ليے اگر ہم خلع كو طلاق شمار كريں تو فرمان بارى تعالى: " اگر وہ اسے طلاق دے دے " يہ چوتھى طلاق ہوگى، اور يہ اجماع كے خلاف ہے، اس ليے فرمان بارى تعالى: اگر اس نے اسے طلاق دے دى يعنى تيسرى طلاق تو " اس كے ليے حلال نہيں جب تك وہ عورت كسى دوسرے سے نكاح نہ كر لے "

اس آيت سے دلالت واضح ہے، اسى ليے ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما كا كہنا ہے: ہر وہ تفريق جس ميں عوض و معاوضہ ہو وہ خلع ہے طلاق نہيں، چاہے وہ طلاق كے الفاظ سے ہى ہو، اور راجح قول بھى يہى ہے " انتہى

ديكھيں: الشرح الممتع ( 12 / 467 - 470 ).

اور شيخ رحمہ اللہ كا كہنا ہے:

" چنانچہ ہر وہ لفظ جو معاوضہ كے ساتھ تفريق پر دلالت كرتا ہو وہ خلع ہے چاہے وہ طلاق كے الفاظ سے ہى ہو، مثلا خاوند كہے ميں نے اپنى بيوى كو ايك ہزار ريال كے عوض طلاق دى، تو ہم كہيں گے يہ خلع ہے، اور عبد اللہ بن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے يہى مروى ہے:

ہر وہ جس ميں معاوضہ ہو وہ طلاق نہيں "

امام احمد كے بيٹے عبد اللہ كہتے ہيں:

ميرے والد صاحب خلع ميں وہى رائے ركھتے جو عبد اللہ بن عباس رضى اللہ تعالى عنہ كى رائے تھى، يعنى يہ فسخ نكاح ہے چاہے كسى بھى لفظ ميں ہو، اور اسے طلاق شمار نہيں كيا جائيگا.

اس پر ايك اہم مسئلہ مرتب ہوتا ہے:

اگر كوئى انسان اپنى بيوى كو دو بار علحيدہ عليحدہ طلاق دے اور پھر طلاق كے الفاظ كے ساتھ خلع واقع ہو جائے تو طلاق كے الفاظ سے خلع كو طلاق شمار كرنے والوں كے ہاں يہ عورت تين طلاق والى يعنى بائنہ ہو جائيگى، اور اس كے ليے اس وقت تك حلال نہيں ہو گى جب تك وہ كسى دوسرے سے نكاح نہيں كر ليتى.

ليكن جو علماء خلع كو طلاق شمار نہيں كرتے چاہے وہ طلاق كے الفاظ ميں ہى ہوا ہو تو يہ عورت اس كے ليے نئے نكاح كے ساتھ حلال ہوگى حتى كہ عدت ميں بھى نكاح كر سكتى ہے، اور راجح بھى يہى ہے.

ليكن اس كے ساتھ ساتھ ہم خلع كرنے والوں كو يہ نصيحت كرتے ہيں كہ وہ يہ نہ كہيں كہ ميں نے اپنى بيوى كو اتنى رقم كے عوض طلاق دى، بلكہ وہ كہيں ميں نے اپنى بيوى سے اتنى رقم كے عوض خلع كيا؛ كيونكہ ہمارے ہاں اكثر قاضى اور ميرے خيال ميں ہمارے علاوہ بھى يہى رائے ركھتے ہيں كہ يہ خلع اگر طلاق كے الفاظ كے ساتھ ہو تو يہ طلاق ہوگى.

تو اس طرح عورت كو نقصان اور ضرر ہوگا، اگر اسے آخرى طلاق تھى وہ بائن ہو جائيگى، اور اگر آخرى نہ تھى تو اسے طلاق شمار كر ليا جائيگا " انتہى

ديكھيں: الشرح الممتع ( 12 / 450 ).

اس بنا پر اگر آپ اپنى بيوى سے رجوع كرنا چاہتے ہيں تو پھر نيا نكاح ضرورى ہے، اور آپ دونوں پر طلاق شمار نہيں كى جائيگى.

وکیل بالاجرت

 وکالت جس طرح بغیر اجرت کے جائز   ہے ، اسی طرح وکالت کے بدلہ اجرت  لینا  بھی جائز ہے، لہذا   اگر  سائل اپنے انویسٹر سے پہلے سے اپنی  اجرت طے کر لے  کہ میں آپ کے لیے گاڑی خریدکر آگے فروخت کروں گا اور  اس کے عوض اتنی اجرت لوں گا اور پھر وہ جو رقم انویسٹر سے  لیتا ہے اور  بطور وکیل اس  رقم سے  گاڑی خرید کر آگے لوگوں کو ادھاری پر بیچتا ہے ، اور اپنی  طے شدہ اجرت   لیتا ہے تو یہ جائز ہے اس میں شرعا کوئی قباحت نہیں۔ 

درر الحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"(إذا شرطت الأجرة في الوكالة وأوفاها الوكيل استحق الأجرة، وإن لم تشترط ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعا. فليس له أن يطالب بالأجرة) يستحق في الإجارة الصحيحة الأجرة المسمى. وفي الفاسدة أجر المثل ...لكن إذا لم يشترط في الوكالة أجرة ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعا، وليس له أن يطلب أجرة. أما إذا كان ممن يخدم بالأجرة يأخذ أجر المثل ولو لم تشترط له أجرة".

(الکتاب الحادی عشر الوکالة، الباب الثالث،الفصل االاول،المادة:۱۴۶۷ ،ج:۳؍۵۷۳،ط:دارالجیل)

خیار بلوغ سے ہونے والی فرقت فسخ ہے یا طلاق

 امام ابو یوسف رحمہ اللہ کے نزدیک میاں بیوی کی ایسی فرقت، جو دونوں کی طرف سے ہونا ممکن ہو، ایسی فرقت طلاق  نہیں ہوتی، بلکہ فسخِ نکاح ہوتی ہے، جب کہ امام ابوحنیفہ اور امام محمد رحمہما اللہ کے نزدیک میاں بیوی کی فرقت میں چوں کہ اصل طلاق ہے؛ لہذا جس فرقت کو طلاق پر محمول کیا جاسکتا ہو، اسے فسخِ نکاح نہیں کہا جائے گا۔

خیارِ بلوغ شرعی طور پر نابالغ لڑکے اور نابالغ لڑکی، دونوں کے لیے ثابت ہوتا ہے۔ اگر خیارِ بلوغ کے ذریعہ لڑکی کی طرف سے فرقت واقع ہوئی ہو تو وہ بالاتفاق فسخِ نکاح  کے حکم میں ہے؛ اس لیے کہ لڑکی طلاق کی مالک نہیں ہوتی۔ البتہ اگر خیارِ بلوغ لڑکے کی طرف سے ہو تو یہ اختلافی صورت ہے، طرفین رحمہما اللہ  کے نزدیک  یہ فرقت طلاق  کے حکم میں ہے، جب کہ امام ابو یوسف رحمہ اللہ کے نزدیک یہ فرقت فسخِ نکاح کے حکم میں ہے۔

علامہ شامی رحمہ اللہ  نے امام ابو یوسف رحمہ اللہ کے اصول کو اختیار کرتے ہوئے یہ ضابطہ بیان کیا ہے کہ جو فرقت لڑکی کی جانب سے ممکن ہو، وہ فرقت  فسخِ نکاح کے حکم میں ہے، نہ کہ طلاق کے حکم میں۔

فسخِ نکاح کا اثر یہ ہے کہ اگر مذکورہ لڑکا دوبارہ مذکورہ لڑکی سے شادی کرلے تو اسے تین طلاقوں کا اختیار ہوگا۔ نیز اگر لڑکے کی طرف سے دخول سے پہلے خیارِ بلوغ کی وجہ سے فرقت حاصل کی گئی ہو تو لڑکے پر مہر واجب نہیں ہوگا، جب کہ دخول سے پہلے طلاق کی صورت میں نصف مہر واجب ہوتا ہے۔

 لہذا  صورتِ  مسئولہ میں خیارِ بلوغ سے واقع ہونے والی فرقت  ہر حال میں فسخ ہے، نہ کہ طلاق۔


تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (2 / 174):

(وإباؤه طلاق لا إباؤها)، وقال أبو يوسف إباؤه أيضا لايكون طلاقا؛ لأنه يتصور وجوده من المرأة وبمثله لا يقع الطلاق كالفرقة بسبب الملك والمحرمية وخيار البلوغ، وهذا لأن الطلاق ليس إليها فكل سبب تشاركه المرأة فيه على معنى أنه يتحقق وجوده منها لا يكون طلاقا إذا وجد منه كما لا يكون طلاقا فيما إذا وجد منها ولهما أنه فات الإمساك بالمعروف من جانبه فتعين التسريح بالإحسان فإن طلق وإلا ناب القاضي منابه ولهذا المعنى صارت الفرقة بسبب  الجب والعنة طلاقا بخلاف إبائها؛ لأن الطلاق لا يكون منها حتى ينوب القاضي منابها وبخلاف ما استشهد به من الأحكام فإن الفرقة فيه لا لهذا المعنى وبخلاف ردته أيضا عند أبي حنيفة؛ لأن الفرقة فيها للتنافي، وهذا لأن الردة تنافي النكاح ابتداء فكذا تنافيه بقاء ولهذا لا يحتاج فيه إلى حكم الحاكم وفي الإباء يحتاج إليه، ولو كان الزوج صغيرا أو مجنونا يكون طلاقا عندهما لما ذكرنا من المعنى وهي من أغرب المسائل حيث يقع الطلاق منهما ونظيره إذا كانا مجنونين أو كان المجنون عنينا فإن القاضي يفرق بينهما ويكون طلاقا اتفاقا، ثم إذا وقعت الفرقة بالإباء فإن كان بعد الدخول بها فلها المهر كله؛ لأنه تأكد به وإن كان قبل الدخول فإن كان بإبائه فلها نصف المهر؛ لأنه قبل الدخول وإن كان بإبائها فلا مهر لها؛ لأنها فوتت المبدل قبل تأكد البدل فأشبه الردة والمطاوعة.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3 / 71):


فالصواب أن يقال وإن كانت الفرقة من قبله ولا يمكن أن تكون من قبلها فطلاق كما أفاده شيخنا طيب الله تعالى ثراه، وإليه أشار في البحر حيث قال: وإنما عبر بالفسخ ليفيد أن هذه الفرقة فسخ لا طلاق، فلا تنقص عدده لأنه يصح من الأنثى ولا طلاق إليها اهـ ومثله في الفتاوى الهندية وعبارته: ثم الفرقة بخيار البلوغ ليست بطلاق لأنها فرقة يشترك في سببها المرأة والرجل، وحينئذ يقال في الأول ثم إن كانت الفرقة من قبلها لا بسبب منه أو من قبله ويمكن أن تكون منها ففسخ فاشدد يديك عليه فإنه أجدى من تفاريق العصا. اهـ. ح.

قلت: لكن يرد عليه إباء الزوج عن الإسلام فإنه طلاق مع أنه يمكن أن يكون منها، وكذا اللعان فإنه من كل منهما وهو طلاق وقد يجاب عن الأول بأنه على قول أبي يوسف إن الإباء فسخ ولو كان من الزوج، وعن الثاني بأن اللعان لما كان ابتداؤه منه صار كأنه من قبله وحده فيتأمل.

الهداية في شرح بداية المبتدي (1 / 194):

" ثم الفرقة بخيار البلوغ ليست بطلاق " لأنها تصح من الأنثى ولا طلاق إليها وكذا بخيار العتق لما بينا بخلاف المخيرة لأن الزوج هو الذي ملكها وهو مالك للطلاق.

تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (2 / 124):

(قوله: فلا مهر لها قبل الدخول) ، وهذا فائدة كون الفرقة فسخا اهـ. كاكي (قوله: فلها المهر كاملا) أي لأن العقد المفسوخ لا يوجب شيئا قبل الاستيفاء وبعد الاستيفاء يجب المسمى؛ لأنه استوفى بعقد صحيح، وأثر الفسخ لايظهر في المستوفى ويستوي في ذلك اختياره واختيارها اهـ. كاكي.

تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (2 / 125):

(قوله: ثم الفرقة بخيار البلوغ لا تكون طلاقا) أي بل فسخ لاينقص عدد الطلاق فلو جدد بعده ملك الثلاث.

Monday 26 August 2024

تین سے زائد بارطلاق دینا

 جب آپ نے اپنی بیوی کوتین سے زائد بار طلاق ان الفاظ میں دی  کہ "  طلاق ،طلاق"تو اس سے تینوں  طلاقیں آپ کی بیوی پر  واقع ہوگئیں ، نکاح ختم ہوگیااور آپ کی بیوی آپ پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوگئی،اب رجوع جائز نہیں اور دوبارہ نکاح بھی نہیں ہوسکتا۔

قرآن کریم میں ارشاد ہے:

الطلاق مرتان، فإمساك بمعروفٍ أو تسريح بإحسان...... فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتىتنكح زوجاً غيره.( البقرة. ٢٢٩،٢٣٠)

ترجمہ:  طلاق (زیادہ سے زیادہ) دو بار ہونی چاہیئے، اس کے بعد  یاقاعدے کے مطابق (بیوی کو) روک رکھےیا خوش اسلوبی سے چھوڑ دے۔۔۔۔ پھر اگر شوہر(تیسری ) طلاق دیدے تو وہ(مطلقہ عورت) اس کے لئےاسوقت تک حلال نہیں ہوگی جب تک وہ کسی اور شوہر سے نکاح نہ کرے۔

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية. (١/٤٧٣، رشيديه).

Sunday 25 August 2024

مسجد کی پہلی دوسری منزل خالی ہونے کے باوجود تیسری منزل پر امام کی اقتداء کرنے کا حکم

  امام کی اقتدا  درست ہونے کے  لیے امام و مقتدی کا  متحد المکان ہونا ضروری ہوتا ہے، مسجد ،صحن مسجد ، مضافات مسجد،  اسی طرح سے مسجد کی تمام منزلیں متحد المکان شمار ہوتی ہیں، یعنی اگر کسی شخص نے مسجد کے صحن یا مسجد کی کسی منزل میں کھڑے ہوکر امام کی اقتدا کی تو اس کی اقتدا  درست ہوجائے گی، خواہ صفوں کا اتصال بالفعل ہو یا نہ ہو، اگر چہ صفوں کے درمیان خلا  رکھنا مکروہ ہوگا، تاہم جماعت سے  نماز  ادا ہوجائے گی لھذا صورت   مسئولہ میں اگر وہ عمارت مسجد ہے یابطور مسجد استعمال ہوتی ہے تو اقتداء درست ہے ۔البتہ بلاوجہ شرعی صفوں کے مابین خلاء چھوڑنا مکروہ ہے ۔


551/1، ط: دار الفکر)
صلاة المؤتم بالإمام بشروط عشرة: نية المؤتم الاقتداء واتحاد مكانهما....وعلمه بانتقالاته.
(قوله: وعلمه بانتقالاته) : أي بسماع أو رؤية للإمام أو لبعض المقتدين رحمتي وان لم يتحد المكان.

و فيه أيضا: (باب الإمامة، 586/1، ط: دار الفکر)
(والحائل لا يمنع) الاقتداء (وان لم يشتبه حال إمامه) بسماع أو رؤية ولو من باب مشبك يمنع الوصول في الأصح (ولم يختلف المكان) حقيقة كمسجد وبيت في الأصح. قنية.
(قوله: بسماع) اي من الإمام أو المكبر تتاخانية.
(قوله كمسجد وبيت): فان المسجد مكان واحد، ولذا لم يعتبر فيه الفصل بالخلاء الا اذا كان المسجد كبيرا جدا وكذا البيت حكمه حكم المسجد في ذلك لا حكم الصحراء كما قدمناه عن القهستاني.

امداد الاحکام: (541/1، ط: دار العلوم کراتشي)

Thursday 22 August 2024

زبردستی کا نکاح

 شریعت مطہرہ نکاح کے معاملہ میں عاقلہ بالغہ لڑکی کے ولی کو اس بات کا حکم دیتی ہے کہ اس کا نکاح اس کی مرضی کے بغیر نہ کرے ، بلکہ اس کے نکاح کے لیے اس سے اجازت اور رضامندی حاصل کرے ، اگر لڑکی نکاح پر راضی نہ ہو تو ولی کے لیے اس کا زبردستی نکاح کرنا جائز نہیں ہے ، لہذا صورت مسئولہ میں اگر واقعی سائلہ نے نکاح کے وقت نہ ہی ایجاب و قبول کی  اجازت دی  تھی اورنہ ہی خاموشی اختیار کر کے اپنی رضامندی ظاہر کی  تھی،بلکہ وہ نکاح سے انکار کرتی رہی تو اس کی رضامندی کے بغیر زبردستی نکاح نامہ میں اس کے انگوٹھا لگوانے سے یہ نکاح شرعاً منعقد نہیں ہوا ۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"لا يجوز نكاح أحد على بالغة صحيحة العقل من أب أو سلطان بغير إذنها بكرا كانت أو ثيبا فإن فعل ذلك فالنكاح موقوف على إجازتها فإن أجازته؛ جاز، وإن ردته بطل، كذا في السراج الوهاج."

(الفتاوى الهندية، كتاب النكاح، الباب الرابع في الأولياء في النكاح، ج:1 / ص:287، ط:رشيدية)

خیار بلوغ

 اگر کسی نابالغہ کا نکاح بچپن میں اس کے والد اور دادا کے علاوہ کوئی اور فردکروائے تو بلوغت کے بعد عورت کو اس نکاح کے فسخ کااختیار ہوتاہے،البتہ اگر والد یادادا بچپن میں کسی کا نکاح کروادیں تو شرعی طور پرلڑکی کو خیارِ بلوغ (یعنی بلوغت کے بعد اس نکاح کے فسخ کااختیار)حاصل نہیں ہوتا، اگرچہ والد، یادادا کاانتقال ہوجائے۔ 

رشتہ کے سلسلہ میں اولاد کو چاہیے کہ والدین کو اپنا خیرخواہ سمجھتے ہوئے ان کی پسند کو  اپنی پسند پر ترجیح دیں، اس لیے کہ عموماً والدین اور بزرگوں کے طے کردہ رشتے آگے چل کر خوش گوار ثابت ہوتے ہیں، ممکن ہے کہ ایک چیز فی الحال ناپسند ہو، لیکن بعد میں وہ خیر اور محبت کا ذریعہ بن جائے، اور جو رشتے وقتی جذبات سے مغلوب ہوکر کیے جاتے ہیں تجربہ شاہد ہے کہ عموماً وہ ناپائیدار ہوتے ہیں، وقتی پسند بعد میں ناپسندیدگی میں تبدیل ہوجاتی ہے۔

البتہ اگر باپ دادا  فاسق، فاجر، لالچی ہوں اور معاشرے میں اچھی شہرت کے حامل نہ ہوں اور انہوں نے ایسے مرد سے نکاح کروایا جو لڑکی کا  کفو (ہم پلہ)نہ ہو تو ان صورتوں میں لڑکی کو شرعاً فسخ کااختیار حاصل ہوگا۔اور اس صورت میں یہ شرط ہے کہ بلوغت یاسمجھ داری کے فوراً بعد لڑکی زبان سے اس نکاح کو فسخ کردے اور اس پر گواہ بھی بنالے۔اور پھر کسی مسلمان جج کی عدالت میں دعویٰ دائر کرکے گواہوں کے ذریعہ مذکورہ نکاح کو فسخ کرادے۔

البحرالرائق میں ہے :

"( قوله: ولهما خيار الفسخ بالبلوغ في غير الأب والجد بشرط القضاء) أي للصغير والصغيرة إذا بلغا وقد زوجا، أن يفسخا عقد النكاح الصادر من ولي غير أب ولا جد بشرط قضاء القاضي بالفرقة، وهذا عند أبي حنيفة ومحمد رحمهماالله ... بخلاف ما إذا زوجها الأب والجد؛ فإنه لا خيار لهما بعد بلوغهما؛ لأنهما كاملا الرأي وافرا الشفقة فيلزم العقد بمباشرتهما كما إذا باشراه برضاهما بعد البلوغ". (8/123)

فتاوی شامی میں ہے :

"( ولزم النكاح ولو بغبن فاحش ) بنقص مهرها وزيادة مهره ( أو ) زوجها ( بغير كفء إن كان الولي ) المزوج بنفسه بغبن ( أباً أو جدًا) وكذا المولى وابن المجنونة ( لم يعرف منهما سوء الاختيار ) مجانةً وفسقًا  ( وإن عرف لا) يصح النكاح اتفاقًا، وكذا لو كان سكران فزوجها من فاسق أو شرير أو فقير أو ذي حرفة دنيئة؛ لظهور سوء اختياره فلاتعارضه شفقته المظنونة، بحر". (3/66


خیارِ بلوغ شرعی طور پر نابالغ لڑکے اور نابالغ لڑکی، دونوں کے لیے ثابت ہوتا ہے۔ اگر خیارِ بلوغ کے ذریعہ لڑکی کی طرف سے فرقت واقع ہوئی ہو تو وہ بالاتفاق فسخِ نکاح  کے حکم میں ہے؛ اس لیے کہ لڑکی طلاق کی مالک نہیں ہوتی۔ البتہ اگر خیارِ بلوغ لڑکے کی طرف سے ہو تو یہ اختلافی صورت ہے، طرفین رحمہما اللہ  کے نزدیک  یہ فرقت طلاق  کے حکم میں ہے، جب کہ امام ابو یوسف رحمہ اللہ کے نزدیک یہ فرقت فسخِ نکاح کے حکم میں ہے۔

علامہ شامی رحمہ اللہ  نے امام ابو یوسف رحمہ اللہ کے اصول کو اختیار کرتے ہوئے یہ ضابطہ بیان کیا ہے کہ جو فرقت لڑکی کی جانب سے ممکن ہو، وہ فرقت  فسخِ نکاح کے حکم میں ہے، نہ کہ طلاق کے حکم میں۔

فسخِ نکاح کا اثر یہ ہے کہ اگر مذکورہ لڑکا دوبارہ مذکورہ لڑکلی سے شادی کرلے تو اسے تین طلاقوں کا اختیار ہوگا۔ نیز اگر لڑکے کی طرف سے دخول سے پہلے خیارِ بلوغ کی وجہ سے فرقت حاصل کی گئی ہو تو لڑکے پر مہر واجب نہیں ہوگا، جب کہ دخول سے پہلے طلاق کی صورت میں نصف مہر واجب ہوتا ہے۔

 لہذا  صورتِ  مسئولہ میں خیارِ بلوغ سے واقع ہونے والی فرقت  ہر حال میں فسخ ہے، نہ کہ طلاق۔

تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (2 / 174):

(وإباؤه طلاق لا إباؤها)، وقال أبو يوسف إباؤه أيضا لايكون طلاقا؛ لأنه يتصور وجوده من المرأة وبمثله لا يقع الطلاق كالفرقة بسبب الملك والمحرمية وخيار البلوغ، وهذا لأن الطلاق ليس إليها فكل سبب تشاركه المرأة فيه على معنى أنه يتحقق وجوده منها لا يكون طلاقا إذا وجد منه كما لا يكون طلاقا فيما إذا وجد منها ولهما أنه فات الإمساك بالمعروف من جانبه فتعين التسريح بالإحسان فإن طلق وإلا ناب القاضي منابه ولهذا المعنى صارت الفرقة بسبب  الجب والعنة طلاقا بخلاف إبائها؛ لأن الطلاق لا يكون منها حتى ينوب القاضي منابها وبخلاف ما استشهد به من الأحكام فإن الفرقة فيه لا لهذا المعنى وبخلاف ردته أيضا عند أبي حنيفة؛ لأن الفرقة فيها للتنافي، وهذا لأن الردة تنافي النكاح ابتداء فكذا تنافيه بقاء ولهذا لا يحتاج فيه إلى حكم الحاكم وفي الإباء يحتاج إليه، ولو كان الزوج صغيرا أو مجنونا يكون طلاقا عندهما لما ذكرنا من المعنى وهي من أغرب المسائل حيث يقع الطلاق منهما ونظيره إذا كانا مجنونين أو كان المجنون عنينا فإن القاضي يفرق بينهما ويكون طلاقا اتفاقا، ثم إذا وقعت الفرقة بالإباء فإن كان بعد الدخول بها فلها المهر كله؛ لأنه تأكد به وإن كان قبل الدخول فإن كان بإبائه فلها نصف المهر؛ لأنه قبل الدخول وإن كان بإبائها فلا مهر لها؛ لأنها فوتت المبدل قبل تأكد البدل فأشبه الردة والمطاوعة.

خیار بلوغ کب رھتا ھے 

والد یادادا کے بچپن میں کرائے گئے نکاح میں بالغ ہونے کے بعد خیار بلوغ نہیں رہتا ،بشرطیکہ والدیادادا کی طرف سے سوء خیار نہ پایاجائے، اور سوء خیار ہونے کی صورت میں حکم میں درج ذیل تفصیل ہے:

۱۔عموما چونکہ اس میں سوء خیار کی بناء پرصالحہ کا غیر کفویعنی فاسق کے ساتھ نکاح ہوتا ہے،لہذا ایسا نکاح منعقد ہی نہیں ہوگا۔

۲۔اوراگروالدنے نابالغ بچی کانکاح بدوں شرط کفوکیا ہواور بعد میں معلوم ہوا کہ شوہر کفو نہیں تو اس بارے میں راجح یہ ہے کہ نکاح صحیح ہے اور لڑکی کو خیار بلوغ حاصل نہ ہوگا۔

۳۔اور اگروالدنے نابالغ بچی کا نکاح مہر مثل کے ساتھ کفومیں کیاہو،البتہ سوء خیار کی وجہ سے اس میں باپ کی طمع اور ذاتی غرض کی وجہ سے بچی کے حقوق زوجیت کی مصلحت ورعایت کا نہ پایاجانا یقینی ہو ،مثلا عمرمیں بہت زیادہ  فرق ہو یا شوہر دائم المرض ہو یا معتوہ ہو یا اپاہج ہو تو اس بارے میں  نکاح تو باطل نہ ہوگا ،لیکن لڑکی کو سوء خیار کی وجہ سے خیار بلوغ دیا جائے گا،لہذا وہ خیار بلوغ کی شرائط معہودہ کے ساتھ عدالت میں  مقدمہ پیش کر ے اور حاکم اہل رائے سے حالات کی تحقیق کرکے مناسب سمجھے تو نکاح فسخ کردے(ماخوذ ازاحسن الفتاوی:ج۵،ص۱۱۸ تا ۱۲۴)

والد کے علاوہ کسی دوسرے ولی کے بچپن کے نکاح میں بالغ ہونے کے بعد خیار بلوغ رہتا ہے بشرطیکہ بالغ ہونے کے فورا بعدمجلس علم انکار کرے ،سکوت کرنے سے خیار باطل ہوجائے گا اور خیار بلوغ استعمال کرتے ہوئے نکاح رد کردیا تو نکاح باطل ہوجائے گا۔



گواہی کی شرائط

 گواہی کے لیے شرط   یہ ہے کہ گواہ عاقل، بالغ، آزاد، مسلمان، عادل، قادر الکلام اور بینا ہو۔

نیز مندرجہ بالا شرائط کے علاوہ بعض معاملات میں چند دیگر وجوہات کی بنا پر بھی بعض لوگوں کی گواہی قبول نہیں کی جاتی جس کی تفصیل درج ذیل ہے:

  1. اولاد کی گواہی ماں، باپ، دادا وردادی کے حق میں، اور ان کی گواہی اولاد کے حق میں۔
  2. شوہر اور بیوی کی گواہی ایک دوسرے کے حق میں قبول نہیں، البتہ ایک دوسرے کے خلاف ہو تو مقبول  ۔
  3. جن لوگوں کی آپس میں دشمنی ہو، ان کی گواہی ایک دوسرے کے خلاف قبول نہیں کی جائے گی۔
  4. گواہی سے فائدہ حاصل کرنے والا شخص۔
  5. اسی مقدمے میں فریق سمجھا جانے والا۔
  6. جس پر حد قذف قائم کی گئی ہو۔
  7. کسی کی سرپرستی (کفالت) میں رہنے یا کام کرنے والے کی گواہی اپنے سرپرست (کفیل) کے حق میں۔
  8. جھوٹ کے حوالے سے مشہور شخص یا جو اس سے پہلے جھوٹی گواہی دے چکے ہوں۔
  9. فاسق شخص اور دیگر قبیح (غیر شرعی اورغیر مہذب) افعال میں مشغول رہنے والا شخص اگر صاحب مروت ہے تو اس کی گواہی قبول کی جائے گی، ورنہ نہیں۔
حوالہ جات
درر الحكام في شرح مجلة الأحكام (4/ 341)
القسم الثاني - شرط الأداء وهذا ثلاثة أصناف: الصنف الأول: ما يرجع على الشاهد
(1)وهو البلوغ فلذلك لا تقبل شهادة الصبي.
(2) الحرية فلذلك لا تقبل شهادة العبد.
(3) البصر.
(4) النطق فلذلك لا تقبل الشهادة الوارد ذكرها في المادة (1686) .
(5) العدالة فلذلك لا تقبل شهادة الفاسق انظر المادة (1705) .
(6) أن لا يكون محدودا بحد القذف فلذلك لا تقبل شهادة المحدود بالقذف.
(7) أن لا يكون للشاهد جر مغنم أو دفع مغرم فلذلك لا تقبل الشهادة الوارد ذكرها في المادة (1700) .
(8) أن لا يكون الشاهد خصما فلذلك لا تصح شهادة الوصي لليتيم والوكيل للموكل انظر المادة (3 170) .

نابالغ کا نکاح

 اگر نابالغہ لڑکی کا نکاح باپ یا دادا کردے تو اس صورت میں لڑکی کو بالغ ہونے کے بعد نکاح فسخ کروانے کا  حق نہیں ہوتا الّا یہ کہ باپ دادا کا سئی الاختیار ہونا معروف ہو یعنی باپ دادا نے  کسی نابالغہ   بیٹی یاپوتی کا نکاح کسی لالچ وغیرہ  میں  آکر  نا مناسب جگہ کردیا ہو،اور باپ دادا کے علاوہ کوئی اور شخص اگر   نابالغہ لڑکی کا نکاح کسی سے  کردے تو بالغ ہونے کے بعد لڑکی کو نکاح فسخ کروانے کا اختیار ہوتا ہےبشرط یہ کہ لڑکی نے بالغ ہونے کے بعد اس نکاح پر رضامندی کا اظہار نہ کیا ہو۔

 نابالغہ لڑکی کا نکاح چوں کہ اس کے باپ نے کروایا ہے اور اس سے پہلے باپ نے کسی بچی کا نامناسب جگہ نکاح  بھی نہیں کیا ہے،اس لیے  یہ نکاح شرعاً منعقد ہوگیا ہے اور اب لڑکی  کو نکاح کے ختم کرنا کا اختیار بھی  نہیں ہے، البتہ اگر بیٹی اور اس کی والدہ یہ سمجھتی ہیں کہ وہ مرد ظالم ہے اور اس کے ساتھ لڑکی کا رہنا دشوار ہے تو ایسی صورت میں اس سے کسی طرح  طلاق یا اس کی رضامندی سے خلع لے  لیں۔

الدر المختار و حاشیۃ ابن عابدین میں ہے:

"(وللولي) الآتي بيانه (‌إنكاح ‌الصغير والصغيرة)جبرا (ولو ثيبا) كمعتوه ومجنون شهرا (ولزم النكاح ولو بغبن فاحش) بنقص مهرها وزيادة مهره (أو) زوجها (بغير كفء إن كان الولي) المزوج بنفسه بغبن (أبا أو جدا) وكذا المولى وابن المجنونة (لم يعرف منهما سوء الاختيار) مجانة وفسقا(وإن عرف لا) يصح النكاح اتفاقا وكذا لو كان سكران فزوجها من فاسق، أو شرير، أو فقير، أو ذي حرفة دنية لظهور سوء اختياره فلا تعارضه شفقته المظنونة

و في الرد: أن المانع هو كون الأب مشهورا بسوء الاختيار قبل العقد فإذا لم يكن مشهورا بذلك ثم زوج بنته من فاسق صح وإن تحقق بذلك أنه سيئ الاختيار واشتهر به عند الناس، فلو زوج بنتا أخرى من فاسق لم يصح الثاني لأنه كان مشهورا بسوء الاختيار قبله، بخلاف العقد الأول لعدم وجود المانع قبله۔"

(کتاب النکاح، باب الولی: 3 / 65، 66، ط: سعید)

نابالغ کی طلاق

 جب تک شوہر نابالغ ہے تب تک وہ یا اس کا والد اس کی بیوی کو طلاق نہیں دے سکتا، شوہر کے بالغ ہونے کا انتظار کرنا پڑے گا۔ 

فتاوی شامی میں ہے:

" وأهله زوج عاقل بالغ مستيقظ.

(قوله: وأهله زوج عاقل إلخ) احترز بالزوج عن سيد العبد ووالد الصغير، وبالعاقل ولو حكما عن المجنون والمعتوه والمدهوش والمبرسم والمغمى عليه، بخلاف السكران مضطرا أو مكرها، وبالبالغ عن الصبي ‌ولو ‌مراهقا، وبالمستيقظ عن النائم. "

(كتاب الطلاق، 3/ 230، ط: سعيد)

’’بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع ‘‘میں ہے:

" ومنها أن يكون بالغا فلا يقع طلاق الصبي وإن كان عاقلا لأن الطلاق لم يشرع إلا عند خروج النكاح من أن يكون مصلحة وإنما يعرف ذلك بالتأمل والصبي لاشتغاله باللهو واللعب لا يتأمل فلا يعرف."

(كتاب الطلاق، فصل في شرائط ركن الطلاق، 3/ 100، ط: سعيد)