https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Thursday 22 August 2024

نابالغ کا نکاح

 اگر نابالغہ لڑکی کا نکاح باپ یا دادا کردے تو اس صورت میں لڑکی کو بالغ ہونے کے بعد نکاح فسخ کروانے کا  حق نہیں ہوتا الّا یہ کہ باپ دادا کا سئی الاختیار ہونا معروف ہو یعنی باپ دادا نے  کسی نابالغہ   بیٹی یاپوتی کا نکاح کسی لالچ وغیرہ  میں  آکر  نا مناسب جگہ کردیا ہو،اور باپ دادا کے علاوہ کوئی اور شخص اگر   نابالغہ لڑکی کا نکاح کسی سے  کردے تو بالغ ہونے کے بعد لڑکی کو نکاح فسخ کروانے کا اختیار ہوتا ہےبشرط یہ کہ لڑکی نے بالغ ہونے کے بعد اس نکاح پر رضامندی کا اظہار نہ کیا ہو۔

 نابالغہ لڑکی کا نکاح چوں کہ اس کے باپ نے کروایا ہے اور اس سے پہلے باپ نے کسی بچی کا نامناسب جگہ نکاح  بھی نہیں کیا ہے،اس لیے  یہ نکاح شرعاً منعقد ہوگیا ہے اور اب لڑکی  کو نکاح کے ختم کرنا کا اختیار بھی  نہیں ہے، البتہ اگر بیٹی اور اس کی والدہ یہ سمجھتی ہیں کہ وہ مرد ظالم ہے اور اس کے ساتھ لڑکی کا رہنا دشوار ہے تو ایسی صورت میں اس سے کسی طرح  طلاق یا اس کی رضامندی سے خلع لے  لیں۔

الدر المختار و حاشیۃ ابن عابدین میں ہے:

"(وللولي) الآتي بيانه (‌إنكاح ‌الصغير والصغيرة)جبرا (ولو ثيبا) كمعتوه ومجنون شهرا (ولزم النكاح ولو بغبن فاحش) بنقص مهرها وزيادة مهره (أو) زوجها (بغير كفء إن كان الولي) المزوج بنفسه بغبن (أبا أو جدا) وكذا المولى وابن المجنونة (لم يعرف منهما سوء الاختيار) مجانة وفسقا(وإن عرف لا) يصح النكاح اتفاقا وكذا لو كان سكران فزوجها من فاسق، أو شرير، أو فقير، أو ذي حرفة دنية لظهور سوء اختياره فلا تعارضه شفقته المظنونة

و في الرد: أن المانع هو كون الأب مشهورا بسوء الاختيار قبل العقد فإذا لم يكن مشهورا بذلك ثم زوج بنته من فاسق صح وإن تحقق بذلك أنه سيئ الاختيار واشتهر به عند الناس، فلو زوج بنتا أخرى من فاسق لم يصح الثاني لأنه كان مشهورا بسوء الاختيار قبله، بخلاف العقد الأول لعدم وجود المانع قبله۔"

(کتاب النکاح، باب الولی: 3 / 65، 66، ط: سعید)

No comments:

Post a Comment