https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Friday 7 January 2022

دواوقات کی نماز جمع کرکے پڑھنے کی اجازت کب ہے

 ہر نماز کو اپنے اپنے وقت میں پڑهنا فرض ہے، نمازوں کے اوقات قرآن وحدیث میں وضاحت کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں، ان میں کسی قسم کی تقدیم و تاخیر جائز نہیں ہے۔

قرآنِ مجید میں اللہ پاک نے فرمایاہے :
﴿اِنَّ الصَّلوٰةَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتَابًا مَّوْقُوْتًا ﴾ 
(النساء:۱۰۳)
ترجمہ: بے شک نماز مسلمانوں پروقتِ مقررہ کے ساتھ فرض ہے۔

ہرنماز کی ابتدا کا وقت بھی مقرر ہے، اور اس کے ختم ہونے کا بھی وقت مقرر ہے، بلکہ ایک حدیث میں نبی صلی الله عليه وسلم نے دو نمازوں کو ایک ہی وقت میں بلا عذر پڑھنے کو گناہِ کبیرہ قرار دیا ہے، ظاہر ہے کہ جو عمل گناہِ کبیرہ ہو، وہ کیسے جائز ہوسکتا ہے؟ 

لما فی الترمذی:
مَنْ جَمَعَ بَيْنَ الصَّلاَتَيْنِ مِنْ غَيْرِ عُذْرٍ فَقَدْ اَتٰى بَابًا مِنْ أَبْوَابِ الْكَبَائِرِ.‘‘
(سنن الترمذي، باب ماجاء في الجمع بین الصلاتین في الحضر:۱۸۸)
ترجمہ: جس آدمی نے بغیر عذر کے دو نمازوں کو (ایک ہی وقت میں )جمع کیا(پڑھا) وہ کبیرہ گناہوں کے دروازوں میں سے ایک دروازے پر پہنچ چکا۔

لہذا معلوم ہوا کہ دو وقتوں کی نماز کو ایک ہی وقت میں ادا کرنا جائز نہیں ہے، البتہ سفر وغیرہ میں ایک نماز اپنے وقت کے آخر میں اور دوسری نماز اپنے وقت کے شروع میں پڑهی جائے، تو اس کی گنجائش ہے۔
اب رہی وہ احادیث جن میں سفر یا کسی اور عذر کی بنا پر دو نمازوں کو جمع کرنے کا ذکر ہے، تو اس کے دو جواب ہیں:

ایک جواب یہ ہے کہ جن روایات میں صراحتاً وقت سے پہلے یا وقت کے بعد نماز ادا کرنے کا ذکر ہے، وہ قرآن مجید اور ان احادیث سے متعارض ہیں، جن میں نمازوں کے اوقات مقرر کیے گئے ہیں، کیونکہ قرآن مجید میں نماز کو اس کے وقتِ مقررہ پر ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے، اور اس حدیث میں وقت سے پہلے یا وقت کے بعد دو نمازوں کو ایک ساتھ پڑھنے کا ذکر ہے، اور ظاہر ہے کہ قرآن اور حدیث میں ٹکراؤ ہو، تو قرآن کو ترجیح دی جاتی ہے، نیز دیگر احادیث جو نمازوں کو اوقات کے علاوہ اد اکرنے کی ممانعت پر دلالت کرتی ہیں، ان سے بھی ٹکراؤ کی صورت میں ان کثیر وصحیح روایات کو ترجیح دی جائے گی، اس لیے ظہر اور عصرکی نماز کا جو وقت مقرر ہے، اور مغرب و عشاء کی نماز کا جو وقت مقرر ہے، اسی پر عمل کیاجائے گا، اور نمازیں اسی وقت میں ادا کرنا ضروری ہوگا، اور دو نمازوں کو جمع کرنے والی روایات کو ترک کردیا جائے گا۔

دوسرا جواب یہ ہے کہ ان روایات میں جمع کرنے سے صورتاً جمع کرنا مراد ہے، حقیقتاً نہیں، اس کی وضاحت یہ ہے کہ ظہر کی نماز اتنی دیر سے پڑھی جائے کہ اس کاوقت ختم ہونے لگے، جیسے ہی ظہر کی نماز سے فراغت ہو، کچھ دیر انتظار کیا جائے، پھرجب عصر کا وقت شروع ہوجائے، تو عصر بھی پڑھ لی جائے، اسی طرح مغرب اور عشاء میں کیا جائے، اس صورت میں ظہر اپنے وقت میں پڑھی جائے گی، اور عصر اپنے وقت میں پڑھی جائےگی، لیکن بظاہر ایسا محسوس ہوگا کہ دونوں ایک ہی ساتھ پڑھی گئیں ہیں۔ آپ صلی الله عليه وسلم نے دونمازوں کو اس طرح جمع فرمایا تو راویوں نے کہہ دیا کہ آپ نے دونمازوں کو جمع فرمایا ہے، جب کہ اس کی حقیقت کچھ اور ہی تھی، جیسا کہ مندرجہ ذیل تفصیلی روایات میں اس کی وضاحت ملتی ہے:

عبد اللہ ابن عمر فرماتے ہیں:
’’رَاَيْتُ رَسُوْلَ الله ﷺ إِذَا أَعْجَلَهُ السَّيْرُ فِي السَّفَرِ يُؤَخِّرُ صَلاَةَ الْمَغْرِبِ حَتّٰى يَجْمَعَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ صَلاَةِ الْعِشَاءِ.‘‘ قال سالم وکان عبداللہ بن عمر یفعلہ اذا اعجلہ السیر یقیم المغرب فیصلیھم ثلاثا ثم یسلم ثم قلما یلبث حتی یقیم العشاء۔
(صحیح بخاری، باب ہل یوذن او یقیم اذا جمع الخ، ج1، ص149)

اس میں صراحت ہے کہ حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہما نمازِ مغرب سے فارغ ہونے کے بعد کچھ دیر ٹھہر جاتے تھے، پھر اس کے بعد عشاء پڑھتے تھے، تو حضرت ابن عمر کا مغرب پڑھ کر ٹھہرنا صرف اس لیے تھا کہ عشاء کے وقت کے داخل ہونے کا یقین ہوجائے۔

عن ابن مسعود مارایت النبی صلی الله عليه وسلم صلی صلوۃ لغیر میقاتھا الا صلوتین جمع بین المغرب والعشاء ای فی المزدلفۃ و صلی الفجر قبل میقاتھا( المعتاد) 
(صحیح بخاری، ج1، ص228، باب متی یصلی الفجر بجمع) 

ابن مسعود فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے وقت کے علاوہ نماز پڑھتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا، سوائے مزدلفہ میں آپ نے مغرب اور عشاء کو جمع فرمایا اور فجر کی نماز اپنے (مقررہ) وقت سے پہلے ادا فرمائی۔

ان روایات سے پتا چلتا ہے کہ آپ ﷺ کا دونمازوں کو جمع فرمانا صورتاً تھا، حقیقتاً نہیں، چنانچہ اگر ہم ان روایات کو جمع صوری پر محمول کرتے ہیں، تو تمام آیات اور روایات میں کوئی تعارض نہیں ہوتا ہے، اور اگر حقیقت پر محمول کرتے ہیں، تو پھر آیاتِ مبارکہ اور احادیث مبارکہ کو ترک کرنا لازم آتا ہے، اس لئے اس کو جمع صوری پر محمول کیا جائے گا، تاکہ قرآن اور حدیث پر مکمل طور پر عمل ہو، اور ان میں باہم تضاد اور ٹکراؤ نہ ہو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

کذا فی الدر مع الرد: 

''(ولا جمع بين فرضين في وقت بعذر) سفر ومطر خلافاً للشافعي، وما رواه محمول على الجمع فعلاً لا وقتاً (فإن جمع فسد لو قدم) الفرض على وقته (وحرم لو عكس) أي أخره عنه (وإن صح) بطريق القضاء (إلا لحاج بعرفة ومزدلفة)۔

(قوله: وما رواه) أي من الأحاديث الدالة على التأخير كحديث أنس «أنه صلى الله عليه وسلم كان إذا عجل السير يؤخر الظهر إلى وقت العصر فيجمع بينهما، ويؤخر المغرب حتى يجمع بينها وبين العشاء»۔ وعن ابن مسعود مثله''.

'' ومن الأحاديث الدالة على التقديم وليس فيها صريح سوى حديث أبي الطفيل عن معاذ «أنه عليه الصلاة والسلام كان في غزوة تبوك إذا ارتحل قبل زيغ الشمس أخر الظهر إلى العصر فيصليهما جميعاً، وإذا ارتحل قبل زيغ الشمس صلى الظهر والعصر ثم سار، وكان إذا ارتحل قبل المغرب أخر المغرب حتى يصليها مع العشاء، وإذا ارتحل بعد المغرب عجل العشاء فصلاها مع المغرب» .

(قوله: محمول إلخ) أي ما رواه مما يدل على التأخير محمول على الجمع فعلاً لا وقتاً: أي فعل الأولى في آخر وقتها والثانية في أول وقتها، ويحمل تصريح الراوي بخروج وقت الأولى على التجوز كقوله تعالى :﴿ فَاِذَا بَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ ﴾ [البقرة: 234] أي قاربن بلوغ الأجل أو على أنه ظن، ويدل على هذا التأويل ما صح عن ابن عمر: « أنه نزل في آخر الشفق فصلى المغرب ثم أقام العشاء وقد توارى الشفق، ثم قال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا عجل به السير صنع هكذا.» " وفي رواية ": ثم انتظر حتى غاب الشفق وصلى العشاء "، كيف وقد قال صلى الله عليه وسلم: «ليس في النوم تفريط، إنما التفريط في اليقظة، بأن تؤخر صلاة إلى وقت الأخرى». رواه مسلم، وهذا قاله وهو في السفر. وروى مسلم أيضاً عن ابن عباس «أنه صلى الله عليه وسلم جمع بين الظهر والعصر والمغرب والعشاء بالمدينة من غير خوف ولا مطر، لئلا تحرج أمته». وفي رواية: «ولا سفر». والشافعي لا يرى الجمع بلا عذر، فما كان جوابه عن هذا الحديث فهو جوابنا. وأما حديث أبي الطفيل الدال على التقديم فقال الترمذي فيه: إنه غريب، وقال الحاكم: إنه موضوع، وقال أبو داود: ليس في تقديم الوقت حديث قائم، وقد أنكرت عائشة على من يقول بالجمع في وقت واحد. وفي الصحيحين عن ابن مسعود : « والذي لا إله غيره ما صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاة قط إلا لوقتها إلا صلاتين جمع بين الظهر والعصر بعرفة، وبين المغرب والعشاء بجمع». " ويكفي في ذلك النصوص الواردة بتعيين الأوقات من الآيات والأخبار، وتمام ذلك في المطولات، كالزيلعي وشرح المنية. وقال سلطان العارفين سيدي محيي الدين نفعنا الله به: والذي أذهب إليه أنه لا يجوز الجمع في غير عرفة ومزدلفة؛ لأن أوقات الصلاة قد ثبتت بلا خلاف، ولا يجوز إخراج صلاة عن وقتها إلا بنص غير محتمل؛ إذ لاينبغي أن يخرج عن أمر ثابت بأمر محتمل، هذا لا يقول به من شم رائحة العلم، وكل حديث ورد في ذلك فمحتمل أنه يتكلم فيه مع احتمال أنه صحيح، لكنه ليس بنص اهـكذا نقله عنه سيدي عبد الوهاب الشعراني في كتابه الكبريت الأحمر في بيان علوم الشيخ الأكبر''.

(ج:1،ص:382-381،ط:سعید،کراچی)

Thursday 6 January 2022

براؤن کلر کاخضاب لگاناجائز ہے یانہیں

 بالوں کو کلر کرنا جائز ہے، البتہ خالص کالے رنگ کاخضاب لگاناجائز نہیں  ہے، احادیثِ مبارکہ میں اس کی ممانعت اور سخت وعیدآئی ہے، صرف حالتِ جہاد میں دشمن کو مرعوب رکھنے اور اس کے سامنے جوانی اور طاقت کے اظہار کے لیے کالا خضاب استعمال کرنے کی  اجازت دی گئی ہے۔ ابوداودشریف کی روایت میں ہے:"حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہماارشادفرماتے ہیں: جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:آخری زمانہ میں کچھ لوگ ہوں گے جوسیاہ خضاب لگائیں گے،جیسے کبوترکاسینہ،ان لوگوں کوجنت کی خوش بوبھی نصیب نہ ہوگی"۔

البتہ خالص کالے رنگ کے علاوہ دیگر رنگوں کے خضاب لگانا جائز ہے۔

یہی حکم آج کل بازار میں دست یاب بالوں کے  جدید کلر (رنگ)  کا بھی ہے یعنی خالص سیاہ (کالا) کلر  بالوں پر لگاناتو جائز نہیں ہے، البتہ  کالے رنگ کے علاوہ دوسرے کلر مثلاً خالص براؤن ،  سیاہی مائل براؤن یا سرخ(لال) کلر لگانا جائز ہے، خلاصہ یہ ہے کہ کالے رنگ کے علاوہ کوئی بھی کلر لگانا جائز ہے چاہے کوئی بھی نمبر ہو ، بس رنگ خالص کالا نہیں ہونا چاہیے۔
سنن النسائي (8/ 138):

" أخبرنا عبد الرحمن بن عبيد الله الحلبي، عن عبيد الله وهو ابن عمرو، عن عبد الكريم، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس، رفعه أنه قال: «قوم يخضبون بهذا السواد آخر الزمان كحواصل الحمام، لايريحون رائحة الجنة»".

صحيح مسلم (3/ 1663):

" وحدثني أبو الطاهر، أخبرنا عبد الله بن وهب، عن ابن جريج، عن أبي الزبير، عن جابر بن عبد الله، قال: أتي بأبي قحافة يوم فتح مكة ورأسه ولحيته كالثغامة بياضاً، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «غيروا هذا بشيء، واجتنبوا السواد»".

الفتاوى الهندية (5/ 359):

"اتفق المشايخ رحمهم الله تعالى أن الخضاب في حق الرجال بالحمرة سنة وأنه من سيماء المسلمين وعلاماتهم وأما الخضاب بالسواد فمن فعل ذلك من الغزاة ليكون أهيب في عين العدو فهو محمود منه، اتفق عليه المشايخ رحمهم الله تعالى ومن فعل ذلك ليزين نفسه للنساء وليحبب نفسه إليهن فذلك مكروه وعليه عامة المشايخ"

اکثر علماء کے نزدیک یہ حکم مرد اور عورت دونوں کے لیے ہے؛ سیاہ خضاب  خواہ کالی منہدی کا ہو یا کسی اور کلر سے؛ ہاں خالص سیاہ کے علاوہ دیگر رنگ کا خضاب استعمال کیاجاسکتا ہے۔ اختضب لأجل التزین للنّساء الجواري جاز في الأصحّ ویکرہ بالسواد․․․ ومذہبنا أن الصبغ بالحناء والوسمة حسن کما في الخانیة، قال النووي:ومذہبنا استحباب خضاب الشیب للرّجل والمرأة بصفرة أو حُمرة وتحریم خضابہ بالسواد علی الأصحّ لقولہ علیہ السلام: غیّروا ہذا الشیب واجتنبوا السّواد اھ قال الحموي وہذا في حق غیر الغزاة ولا یحرم في حقّہم للإرہاب ولعلّہ محمل من فعل ذلک من الصحابة ط․ (درمختار مع رد المحتار: ۱۰/ ۴۸۸، ط: زکریا)

Wednesday 5 January 2022

اسلام اوراحترام انسانیت

 رسول اﷲ ﷺ کا آخر ی خطبہ احترام انسانیت کا عالمی منشور اور ایک مکمل نصاب ہے۔ اس تاریخی خطبے میں آپ ﷺ نے انسانیت کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا جس کا مفہوم یہ ہے کہ تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ ایک ہے، تم سب آدمؑ کی اولاد ہو اور آدمؑ مٹی سے بنے تھے، کسی عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں، کسی گورے کو کالے پر اور کالے کو گورے پر بزرگی حاصل نہیں۔ آپ ﷺ نے انسانیت کا احترام سکھایا کہ جب بھی کسی سے بات کرو اچھے انداز سے کرو، اچھی گفت گو کرو اور دوسروں کو اپنے شر سے بچاؤ۔

آپؐ اس قدر دوسروں کا خیال رکھتے تھے کہ کسی کو تکلیف نہ پہنچے۔ حدیث پاک کا مفہوم ہے۔ سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ میں لیٹی ہوئی تھی اچانک میری آنکھ کھلی، میں نے دیکھا کہ حضور ﷺ بڑے آہستہ آہستہ بستر سے نیچے اترے اور دبے قدموں سے پاؤں رکھتے ہوئے چلنے لگتے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ اے اﷲ کے رسول ﷺ! آپ کیوں اس طرح کر رہے ہیں تو آپؐ نے فرمایا: تم سوئی ہوئی تھی میں تہجد کے لیے اٹھ رہا تھا، میں نے چاہا میرے اٹھنے کی وجہ سے کہیں تمہاری نیند میں خلل نہ آجائے۔

مخلوق خدا پر رحم کرنے کی تعلیم اسلام ہی دے رہا ہے۔ حضرت عمرو بن العاص ؓ سے مروی ہے کہ آپؐ نے ارشاد فرمایا، مفہوم : ’’رحم کرنے والوں پر اﷲ رحم فرماتے ہیں، تم زمین والوں پر رحم کرو تو آسمان والا تم پر رحم فرمائے گا۔‘‘ ایک اور حدیث میں ہے کہ تم اس وقت مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ تم رحم کرنے والے نہ بن جاؤ۔ آپ ﷺ نے دفع شر اور نفع رسانی کی تعلیم دی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’تُو روک لے اپنے شر کو دوسرے انسانوں سے۔،، یعنی ہر بندے کے اندر خیر بھی ہے اور شر بھی، تو فرمایا کہ اپنا شر دوسرے انسانوں تک نہ پہنچاؤ اس کو اپنے تک ہی روک لو۔ مثلا کئی مرتبہ انسان چاہتا ہے کہ دوسرے بندے کا مذاق اڑائے، شریعت کہتی ہے کہ تمہارے اندر جو خواہش پیدا ہورہی ہے اسے روک لو، اگر تم کسی دوسرے کا مذاق اڑا کر اس کو ایذا پہنچاؤ گے تو یہ مناسب نہیں۔

Tuesday 4 January 2022

Rubbish directives of the UGC

 The University Grants Commission on December 29 had issued a circular, asking three lakh students in 30,000 institutes across the country to perform Surya Namaskar in front of the Tricolour under the Amrit Mahotsav celebrations to mark India's 75th year of Independence. "To commemorate the Amrit Mahotsav celebrations, the 75th anniversary of Independence Day, the federation has decided to run a project of 750 million surya Namaskar in 30 states, involving 30,000 institutes and 3 lakh students from January 1 to February 7," the circular signed by UGC Secretary Rajnish Jain said.

"The government is trying to impose the traditions and culture of the majority on others. This is unconstitutional," General Secretary of the organisation Maulana Khaled Rahmani said.

"The government must immediately roll back the diktat and promote secular values in the country," he said. Instead of issuing such directives, the government needs to focus on real issues such as inflation unemployment, etc, he added.

Monday 3 January 2022

مساجدکی اہمیت قرآن و حدیث کی روشنی میں


ارشاد باری تعالی ہے :

إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللّهِ مَنْ آمَنَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلاَةَ {التوبہ18}

خدا کی مسجدوں کو تو وہ لوگ آباد کرتے ہیں جو خدا پر اور روز قیامت پر ایمان لاتے ہیں اور نماز پڑھتے

1 : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ آنے کے بعد سب سے پہلئے مسجد کا کام شروع کیا ہے:

قبامیں آپ چنددن ٹھرے اور وہاں مسجد کی بنیاد رکھی ۔

پھر جب مدینہ منورہ منتقل ہوئے تو اپنے لئے گھر کی تعمیر سے قبل مسجد کی بنیاد رکھی ۔

اور صحابہ کے ساتھ آپ خود بھی اسکی تعمیر میں شریک رہے ۔

2 : مسجد کو شریعت میں اللہ تعالی کا گھر کہا گیا اور اسکی نسبت اللہ کی طرف کی گئی :

وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا{الجن18}

اور یہ کہ مسجدیں (خاص) خدا کی ہیں تو خدا کے ساتھ کسی اور کی عبادت نہ کرو

ومااجتمع قوم فی بیت من بیوت اللہ یتلون کتاب اللہ ۔۔۔۔ الحدیث

{ مسلم عن ابی ھریرۃ}

اس حدیث میں مسجد کو اللہ کے گھر سے تعبیر کیا گیا ہے ۔

3 : آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو مساجد بنانے کا حکم دیتے :

امرنا رسول ببناء المساجد فی الدور وان تنظف وتطیب

{ احمد ابوداود عن عائشہ}

“ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ہم محلات میں مسجد تعمیر کریں اور اسے پاک وصاف اور معطر رکھیں ” ۔

آپ کے پاس وفود آتے تو آپ انہیں بھی مساجد کی بناء کا حکم دیتے ۔

حضرت طلق بن علی بیان کرتے ہیں کہ

4 : کسی علاقے میں مسجد کا نہ ہونا اور وہاں سے آذان کی آواز کا نہ آنا اس بات کی دلیل تھی کہ یہ بستی مسلمانوں کی نہیں ہے :

ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم اذاغزا بنا قوم لم یکن یغزو بنا حتی یصبح وینظر الیھم فان سمع الآذان کف عنہم وان لم یسمع اغار علیہم الحدیث

{ متفق علیہ عن انس}

5 : مساجد کا تاکیدی حکم :

مامن ثلاثۃ فی ضربۃ ولاتقام فیہم الصلاۃ الا قد استحوذ علیہم الشیطان فعلیکم با لجماعۃ فان الذئب یاکل من الغنم الفاصبۃ

{احمد ابوداود عن ابی الدرداء}

مسجد کی فضیلت :

۱- مسجد بنانے کی فضیلت :

من بنا للہ مسجدا یبتغی بہ وجہ اللہ بنی اللہ لہ بیتا فی الجنۃ

“جس نے اللہ تعالی کی رضا مندی چاہتے ہوئے مسجد کی تعمیر کی اللہ تعالی اس کے لئے جنت میں گھر کی تعمیر فرماتا ہے ”

{متفق علیہ عن عثمان}

۲- مسجد صدقہ جاریہ ہے :

ان مما یلحق المئومن من عملہ وحسناتہ بعد موتہ علما علم ونشرہ او ولد ا صالحا ترکہ اومصحفا ورثہ اومسجدا بناہ اوبیتالابن السبیل بناہ اونہر ا اجراہاوصدقۃ اخرجہا من مالہ فی صحتہ وحیاتہ تلحق من بعد موتہ ۔

{ابن ماجہ ۔ ابن خزیمہ عن ابی ھریرۃ}

++ مذکورہ حدیث میں وجہ استشہاد ہے کہ مسجد کی تعمیر صدقہ جاریہ میں سے ہے ۔

۳- مسجد کی محبت عظیم نیکی ہے :

کیونکہ مسجد سے محبت اللہ سے محبت کی دلیل ہے اور اللہ سے محبت لاالہ الاللہ کے شرائط میں سے ہے ،

سبعۃ یظلہم اللہ فی ظلہ یو م لاظل الاظلہ ، الامام العادل ، وشاب نشا فی عبادۃ اللہ عزوجل ،ورجل قلبہ معلق بالمساجد۔۔۔ الحدیث

{ البخاری مسلم عن ابی ھریرۃ}

+++ اس حدیث سے مطلوب یہ کہ مسجد کی محبت دل میں بسانے والے کے لئے قیامت والے دن عرش کا سایہ نصیب ہوگا ۔

۴- مسجد کی طرف جانا گویا اللہ کی ضیافت میں جانا ہے :

من غدا الی المسجد اوراح اعد اللہ لہ نزلا من الجنۃ کلماغدا اوراح

” جو کوئی صبح یا شام میں مسجد کی طرف جاتا ہے تو اللہ تعالی اس کے لئے جنت کی مہمانی تیار فرماتا ہے ”

{ متفق علیہ عن ابی ھریرۃ}

۵- مسجد کا قصد کرنے والوں کی قیامت کے نرالی شان :

بشر المشائین فی الظلم الی المساجد بالنور التام یوم القیامۃ

“خوشخبری ہو تاریکی میں مسجد کی جانب چلنے والوں کے لئے قیامت کے دن مکمل روشنی کی ”

{ ابوداود، الترمذی عن بریدۃ}

۶- مسجد کی طرف جانا گناہ کاکفارہ اور درجات کی بلندی ہے:

صلاۃ الرجل فی الجماعۃ تضعف علی صلاتہ فی بیتہ وفی سوقہ خمساوعشرون درجۃ وذلک انہ اذا توضا فاحسن الوضوء ، ثم خرج الی المسجد لایخرجہ الا الصلاۃ لم یحط خطوۃ الا رفعت لہ درجۃ وحط عنہ بہا خطیئۃ ۔۔۔۔الحدیث

{البخاری ، مسلم عن ابی ھریرۃ}

++ اس حدیث کا وجہ ذکر یہ کہ مسجد کی طرف قدم بڑھانے والے کے گناہ معاف اور درجات بلند ہوتے ہیں ۔

۷-مسجد میں جانے والوں کی ایک اہم فضیلت :

بما تو طن رجل المساجد للصلاۃ والذکر الاتبشبش اللہ تعالی الیہ کمایتبشبش اھل الغائب بغائبہم اذا قدم علیہم ۔

” جو شخص بھی مسجدمیں نماز اور ذکر کیلئے کوئی جگہ بنالیتا ہے تو اللہ تبارک وتعالی اسکی آمد پر اسی طرح خشی اور استقبال کا اظہار کرتا ہے جس طرح کسی کا عزیز ایک مدت غائب رہنے کے بعد اسکے پاس آئے۔”

{ ابن ماجہ ، ابن خزیمہ عن ابی ھریرۃ}

۸- مسجدمیں چھاڑو دینے کی فضیلت :

ان امرۃ سوداء ۔۔۔۔۔۔ {متفق علیہ عن عائشہ}

مذکور ہ حدیث میں اس عورت کا ذکر ہے جو غریب اور کالی کلوٹی تھی اور مسجد نبوی کی صفائی کا اہتمام کرتی تھی ، اس کی وفات ہوجاتی ہے اور لوگ اس کی تدفین کا انتظام فرمادیتے ہیں اور اس عورت کوغیر اہم جانتے ہوئے اس کی اطلاع بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں پہنچاتے ، بعدمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے استفسار پر اس عورت کی وفات کا علم ہوتا ہے ، آپ افسوس ظاہر کرتے ہوئے عدم اطلاع کی شکایت کرتے ہیں اور قبرستان پہنچ کر اس گمنام عورت کی نماز جنازہ ادا فرماتے ہیں ۔

اس واقعہ سے اس بات کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مسجد نبوی کی صفائی کرنے والی ایک گمنام عورت کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قدر اہمیت دی اور اہمیت کی اہم وجہ یہی تھی کہ وہ عورت مسجدکی صفائی کا خیال رکھتی تھی ۔

Saturday 1 January 2022

شیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی نصیرالدین قاسمی کی رحلت

 مفتی نصیرالدین سرولی رحمہ اللہ کے انتقال کی خبرسن کر سخت صدمہ پہنچامرحوم کی پوری عمردرس وتدریس ,قال اللہ وقال الرسول میں گذری مدرسہ حسین بخش مٹیامحل جامع مسجددہلی میں شیخ الحدیث تھے. اس سے پہلے مدرسہ عبدالرب دہلی میں بھی آپ اسی منصب جلیل پرفائز رہ چکے تھے .اس سے پہلے میوات کے مدارس میں آپ نے تدریسی خدمات انجام دیں . مرحوم کی شخصیت نہاں خانۂ دل میں جب آپ دارالعلوم محمدیہ میل کھیڑ لا میں مدرس تھے اور راقم الحروف  درجۂ حفظ کامبتدی طالب علم  تھاکچھ اس طرح نقش ہیکہ ایک سانولے رنگ کا چالیس پینتالیس سالہ  عالم میانہ قد,مائل بہ فربہی  ,موسم سرماکی دھوپ میں سرمیں تیل بسائے تپائی پر کوئی ضخیم کتاب رکھے مصروف مطالعہ ہے.

ان دنوں ان کی خدمت میں موضع کارینڈامیوات کےدولڑکے رہتے تھے میں سمجھتاتھاکہ ان کے بیٹے ہوں گےبعد میں پتہ چلا کہ وہ آپ کے برادرنسبتی تھے.حضرت مہتمم صاحب مولانامحمدقاسم رحمہ اللہ اکثر ان دنوں عصرکے بعد ہم عمرطلباء کے مابین کشتی کامقابلہ کراتے تھے. مفتی صاحب کے برادر نسبتی کشتی میں اپنے ہم عمر طلباءکے سینے پر اپنی ٹھوڑی کچھ اس اندازمیں گاڑتے کہ مقابل طالب علم چت جاگرتا.اس وقت مفتی صاحب دارالعلوم محمدیہ میل کھیڑ لا کے ان کچے قطار در قطار حجروں میں سے ایک حجرے میں رہتے تھے جوروڈ سے مدرسہ کی طرف جانے والے راستے پر واقع تھے. وہاں آئے دن کیڑے مکوڑے نکلتے رہتے تھے .چوہے بھی طلباء کے ساتھ غالباً  اتنی ہی مقدار میں چھپر کے ان حجروں میں بسیراکیے ہوئے تھے جتنی طلباء کی تعداد ہوگی.جن کے سامنے شاہوں کے محل ہیچ بلکہ احترام وعقیدت میں آج بھی جھک جاتے ہیں .

آپ  کاحجرہ حافظ منشی صاحب کےحجرے کےبرابرتھا. اسی کے برابر ہماراحجرہ تھاوہی درجۂ حفظ کی درسگاہ بھی تھی. کبھی کبھی مجھے مفتی صاحب کی خدمت کاموقع ملتاتھامفتی صاحب آواز دیکر بلا لیتے تھے اگرچہ میرے بچکانہ ذہن کواس وقت اساتذہ کی خدمت ناپسند تھی .پہلی بار مجھے کسی کام کیلئے  بلایااورنام دریافت کیاتوفرمایاتمہارانام توبہت شاندار ہے اس کامطلب تومیواتی نہیں ہے ؟حافظ منشی صاحب مدظلہ نے انہیں بتایاکہ ان کے والدعالم ہیں میرے ساتھی ہیں اسی لئے ان کانام اتنااچھاہے.  دوسری مرتبہ جب دارالعلوم محمدیہ میل کھیڑ لا میں ہدایۃ النحو کافیہ وغیرہ میں میراداخلہ ہواتومفتی صاحب مدرسہ میں مدرس نہیں تھے, کسی دیگر مدرسہ میں تدریسی خدمات انجام دینے لگے تھے. مدرسہ عبدالرب میں بھی آپ نے تدریسی فرائض انجام دیئے. شاید مدرسہ رحیمیہ مہندیان دہلی میں میری آپ سے ملاقات ہوئی تھی  انہیں دنوں میں نے دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخلہ لیاتھا .

مدرسہ حسین بخش دہلی میں جب آپ نئے نئے مدرس ہوئے تو میرے والد مرحوم کبھی کبھی ان سے ملاقات کرنے جاتے تھے .کیونکہ والد مرحوم دریاگنج کوچہ ناہر خاں میں رہتے تھے .ایک مرتبہ مفتی نصیر الدین قاسمی صاحب رحمہ اللہ کی مجلس میں  دوران گفتگو ایک دیگر مفتی صاحب سے والد  صاحب کسی مسئلہ میں بات ہوئی, انہوں نے کہا:میں مفتی ہوں والد صاحب نے اس پرفرمایا :میں مفتی کاباپ ہوں, اس پروہ صاحب ناراض ہو گئے .مفتی نصیرالدین قاسمی صاحب رحمہ اللہ نے پھرانہیں سمجھایاکہ یہ جملہ مولانانے غصہ میں نہیں کہا بلکہ اظہارواقعہ ہے .ان کے بیٹے عامر دارالعلوم دیوبند سے افتاء کئے ہوئے ہیں اب علی گڑھ میں زیر تعلیم ہیں .

مفتی صاحب مرحوم سے مجھے باقاعدہ شرف تلمذ حاصل نہ ہو سکا .تاہم بچپن میں ان کی خدمت وہم سائیگی  کاشرف میرے لئے مایہ افتخار ہے .ابھی چند سالوں میں میوات ہی نہیں بلکہ ہندوستان بھر کی کئ عظیم شخصیات ہمارے بیچ سے  چلی گئیں :

اٹھ گئی ہیں سامنے سے کیسی کیسی صورتیں

روئیے کس کے لیے کس کس کا ماتم کیجئے

Friday 31 December 2021

سانپ اور مگرمچھ کی کھال کے جوتے پہننا جائز ہے کہ نہیں

  شرعی طور پر مذبوح حلال جانور کی کھال سے بننے والی مصنوعات کا استعمال بلا شبہ جائز ہے۔ 

اسی طرح حرام یا مردار جانور کی کھال کی اگر دباغت ہو جائے تو وہ پاک ہو جاتی ہے، اور دباغت کے بعد اس سے بنی ہوئی مصنوعات کا خارجی استعمال جائز ہوتا ہے۔

البتہ خنزیر کی کھال دباغت سے بھی پاک نہیں ہوتی ہے، لہذا اس کی کھال سے بنی ہوئی اشیاء کا استعمال جائز نہیں ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

کما فی الشامیۃ:

(وكل إهاب) ومثله المثانة والكرش. قال القهستاني: فالأولى وما (دبغ) ولو بشمس (وهو يحتملها طهر) فيصلى به ويتوضأ منه۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(خلا) جلد (خنزير) فلا يطهر۔

(ج: 1، ص: 203,204، ط: دار الفکر)

وفی الھندیۃ:

كل إهاب دبغ دباغة حقيقية بالأدوية أو حكمية بالتتريب والتشميس والإلقاء في الريح فقد طهر وجازت الصلاة فيه والوضوء منه إلا جلد الآدمي والخنزير. هكذا في الزاهدي.

(ج: 1، ص: 25، ط: دار الفکر)

Thursday 30 December 2021

نیاسال منانا

 کسی تاریخی مذہبی یا قومی ا ہم اقعہ کی وجہ سے اس دن کو بطور یادگار منانا اسلام میں نہیں ہے، حضرت امیر ا لموٴمنین عمر بن الخطاب نے یہودیوں سے کہا کہ اگر کسی دن کو بطور یادگار منانے کا کوئی جواز یا اس میں کوئی عمدگی ہوتی تو ہم اس دن کو بطور یادگار مناتے جس میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر سب سے بڑا انعام تکمیل دین اور اتمام نعمت کا فرمایا اور قرآن میں اس انعام کا ذکر الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا کی آیت کریمہ میں فرمایا گیا ہے۔ جب اتنے بڑے دینی اور روحانی انعام پر بطور یادگار اسے منانے کا حکم نہیں ہوا جو دوسرے ا نعامات پر یادگار منانے کی اجازت کیسے ہوگی۔ انعام خواہ دینی ہو یا دنیوی قومی ہو یا انفرادی بس اسے فضل خداوندی سمجھ کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا جائے اس کے لیے اجتماع کی بھی ضرورت نہیں نہ ہی پارٹی کرنے کی، کہ یہ سب غیروں کا طریقہ اور نقالی ہے، نئے سال کے ذریعہ ہمیں مزید اعمال صالحہ کرنے کا موقعہ ملا اس پر اللہ کا شکر ادا کیا جائے اور اپنے سابقہ اعمال کا جائزہ لے کر برے اعمال سے توبہ اور اچھے اعمال میں اضافہ کی کوشش کی جائے۔

Wednesday 29 December 2021

نانی کادودھ پینے والے لڑکوں کاخالہ کی لڑکی سے نکاح کاحکم

  جس طرح سے سگے ماموں کا نکاح اپنی بھانجی سے جائز نہیں ہوتا بالکل اسی طرح سے رضاعی ماموں کا نکاح بھی رضاعی بھانجی سے جائز  نہیں ہوتا، پس جن دو لڑکوں نے اپنی نانی کا دودھ پیا ہے، ان دو لڑکوں کا اپنی خالہ کی کسی بھی لڑکی سے نکاح جائز نہیں؛ کیوں کہ مذکورہ دونوں لڑکے نانی کا دودھ پینے کی وجہ سے  اپنی حقیقی خالہ کی اولاد کے رضاعی ماموں  ہیں،  البتہ ان دو لڑکوں کے علاوہ مذکورہ بہنوں کی  باقی اولاد کا آپس میں نکاح جائز ہوگا۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"أَمَّا تَفْسِيرُ الْحُرْمَةِ فِي جَانِبِ الْمُرْضِعَةِ فَهُوَ أَنَّ الْمُرْضِعَةَ تَحْرُمُ عَلَى الْمُرْضَعِ؛ لِأَنَّهَا صَارَتْ أُمًّا لَهُ بِالرَّضَاعِ فَتَحْرُمُ عَلَيْهِ لِقَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: {وَأُمَّهَاتُكُمُ اللاتِي أَرْضَعْنَكُمْ} [النساء: 23] مَعْطُوفًا عَلَى قَوْله تَعَالَى: {حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ وَبَنَاتُكُمْ} [النساء: 23] فَسَمَّى سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى الْمُرْضِعَةَ أُمَّ الْمُرْضَعِ وَحَرَّمَهَا عَلَيْهِ، وَكَذَا بَنَاتُهَا يَحْرُمْنَ عَلَيْهِ سَوَاءٌ كُنَّ مِنْ صَاحِبِ اللَّبَنِ أَوْ مِنْ غَيْرِ صَاحِبِ اللَّبَنِ مَنْ تَقَدَّمَ مِنْهُنَّ وَمَنْ تَأَخَّرَ؛ لِأَنَّهُنَّ أَخَوَاتُهُ مِنْ الرَّضَاعَةِ وَقَدْ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: {وَأَخَوَاتُكُمْ مِنَ الرَّضَاعَةِ} [النساء: 23] أَثْبَتَ اللَّهُ تَعَالَى الْأُخُوَّةَ بَيْنَ بَنَاتِ الْمُرْضِعَةِ وَبَيْنَ الْمُرْضَعِ وَالْحُرْمَةَ بَيْنَهُمَا مُطْلَقًا مِنْ غَيْرِ فَصْلٍ بَيْنَ أُخْتٍ وَأُخْتٍ، وَكَذَا بَنَاتُ بَنَاتِهَا وَبَنَاتُ أَبْنَائِهَا وَإِنْ سَفَلْنَ؛ لِأَنَّهُنَّ بَنَاتُ أَخِ الْمُرْضَعِ وَأُخْتُهُ مِنْ الرَّضَاعَةِ، وَهُنَّ يَحْرُمْنَ مِنْ النَّسَبِ كَذَا مِنْ الرَّضَاعَةِ". ( كِتَابُ الرَّضَاعِ، فَصْلٌ فِي الْمُحْرِمَات بِالرَّضَاعِ، ٤ / 

Tuesday 28 December 2021

عمامہ کی شرعی حیثیت ,کیایہ بدعت ہے.

 (۱)عمامہ پہننا مسنون ہے ؛ لیکن یہ سنن عادیہ میں سے ہے ،یعنی اس کا اختیار کرنا بہتر ہے اور اس کے ترک پر نکیر کرنا صحیح نہیں ہے ؛ لہٰذا اگر کوئی شخص ٹوپی اوڑھتا ہے ، تو اس پر نکیر نہیں کی جاسکتی، ہمارے اَکابر رحمہم اللہ میں سے اکثر حضرات عمامہ کا استعمال فرماتے تھے اور اِس وقت بھی اکثر اکابر عمامہ استعمال فرماتے ہیں، بعض مستقل پہنتے ہیں اور بعض کبھی کبھی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی صرف ٹوپی کا پہننا ثابت ہے اور جو حضرات زیادہ تر ٹوپی استعمال فرماتے ہیں، وہ بھی عمامہ کی مخالفت نہیں فرماتے ، عمامہ کی ترغیب دینے کی اِجازت ہے ؛ لیکن اُسے واجب یا لازمی قرار دینا اور تشدد اختیار کرنااور جو عمامہ نہ پہنے اُس کی تحقیر کرنا صحیح نہیں ہے ۔ (۲)سنت کی دو قسمیں ہیں: (۱) سننِ ہدیٰ (۲) سنن زوائد۔ سننِ ہدیٰ یعنی عبادات وغیرہ سے متعلق موٴکدہ سنتوں کا ترک موجب موٴاخذہ ہے اورسننِ زوائد یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لباس وغیرہ سے متعلق سنتیں استحباب کے درجہ کی ہیں، اُن کو اختیار کرنا بہتر ہے ؛ لیکن اُن کے ترک پر نکیر نہیں کی جائے گی۔

السنة نوعان: سنة الہدیٰ وترکہا یوجب إساء ة وکراہیة کالجماعة والأذان والإقامة ونحوہا وسنة الزوائد وترکہا لا یوجب ذٰلک کسیر النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی لباسہ وقیامہ وقعودہ۔ (شامی، کتاب الطہارة / مطلب فی السنة وتعریفہا:۱/۲۱۸زکریا) وکان یلبسہا ویلبس تحتہا القلنسوة، وکان یلبس القلنسوة بغیر عمامة ویلبس العمامة بغیر قلنسوة۔ (زاد المعاد ۱/۱۳۵)

   آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے فتحِ  مکہ کے علاوہ بھی عمامہ باندھنا ثابت ہے۔  چند روایات ملاحظہ فرمائیے: 

1-   حضرت عمرو بن حُریث  رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ حضورِ  اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے لوگوں کو خطبہ دیا تو آپ کے (سر کے) اوپرکالا عمامہ تھا۔  (صحیحمسلم)
2-   حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضورِ  اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے (مرض الوفات) میں خطبہ دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  (کے سر ) پر کالا عمامہ تھا۔  (صحیح بخاری وشمائل ترمذی)

3-   حضرت ابو سعید الخدری  رضی اللہ عنہ کی روایت ہے  کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  جب نیا کپڑا پہنتے تو اس کا نام عمامہ یا قمیص یا چادر رکھتے،  پھر یہ دعا پڑھتے: اے میرے اللہ! تیرا شکر ہے کہ تو نے مجھے یہ پہنایا، میں اس کپڑے کی خیر اور جس کے لیے یہ بنایا گیا ہے اس کی خیر مانگتا ہوں اور اس کی اور جس کے  لیے یہ بنایا گیا ہے اس کے شر سے پناہ مانگتا ہوں۔ (سنن ترمذی) 
4-   حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو وضو کرتے دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  پر قطری عمامہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے عمامہ کے نیچے اپنا ہاتھ داخل فرمایا اور سر کے اگلے حصہ کا مسح فرمایا اور عمامہ کو نہیں کھولا۔ (سنن ابو داؤد) 
5-   حضرت عبد اللہ بن عمر  رضی اللہ عنہما کی روایت ہے کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: محرم (یعنی حج یا عمرہ کا احرام باندھنے والا) کرتا، عمامہ، پائجامہ اور ٹوپی نہیں پہن سکتا ۔  (صحیح بخاری وصحیح مسلم)

محرم کے لیے عمامہ کی ممانعت سے معلوم ہوتا ہے کہ عمامہ باندھنا اس زمانے کا عام رواج تھا۔

6- حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ جب عمامہ باندھتے تھے تو اسے (یعنی شملہ کو) دونوں کاندھوں کے درمیان لٹکا (چھوڑ) دیتے تھے۔ (ترمذی)

7- حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے میرے سر پر عمامہ باندھا، اور اس کی ایک جانب میرے سامنے اور ایک پچھلی جانب چھوڑی۔ (ابوداؤد)

8- کتبِ حدیث، سیرت وشمائل میں رسول اللہ ﷺ کے عماموں اور ان کی لمبائی وغیرہ کا بھی ذکر ہے۔

9- صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سیرت کا مطالعہ کیا جائے تو کئی روایات میں ان کے عمامے کا استعمال ملتاہے، بلکہ جنگوں کے دوران بھی عمامہ پہننا بہت سے صحابہ سے ثابت ہے۔ 

 لہذا یہ کہنا کہ عمامہ باندھنا بدعت ہے، درست نہیں۔ 

رہا یہ کہ کہنا کہ عرب میں اب  بالکل رواج نہیں رہا تو عرض ہے کہ اول تو عرب کی موجودہ تہذیب کو دورِ نبوی کا نمونہ قرار نہیں دیا جاسکتا اور نہ ہی اس بدلے ہوئے کلچر کو شرعی دلیل بنایا جاسکتا ہے۔  نیز یہ کہنا بھی درست نہیں کہ اب عرب میں بالکل رواج نہیں،  بلکہ عرب دنیا کے بہت سے قابلِ  قدر  اہلِ علم اور بعض خطوں کے لوگ اب بھی عمامہ باندھنے کا اہتمام کرتے ہیں۔  لہذا عمامہ کو برصغیر کی بدعت شمار کرنا  نااںصافی، اور لاعلمی پر مبنی بات ہے۔ 

Monday 27 December 2021

میسیج کے ذریعہ طلاق

 اگر شوہر اپنی بیوی کو مخاطب بناکر موبائل کے ذریعہ تین طلاق لکھ کر بیوی کے پاس بھیج دے اور شوہر میسیج بھیجنے کا اقرار کرتا ہو تو اس سے طلاق پڑجائے گی خواہ طلاق کی نیت کرے یا نہ کرے۔ جتنی طلاق لکھی ہوگی اتنی پڑے گی۔ الکتابة المرسومة أما إن أرسل الطلاق بأن کتب أما بعد فأنت طالق یقع الطلاق بأن کتب أما بعد فأنت طالق یقع الطلاق (الفتاوی الہندیة: ۱/۳۷۸)

والد کو غلط کام سے روکنے کاحکم

  والد  قابلِ احترام اور  معظم ہستی ہیں، اسی وجہ سے اولاد  پر ان تمام امور میں والد کی  اطاعت فرض ہے جن کی اطاعت میں شریعت کے کسی حکم سے ٹکراؤ  لازم نہ آئے، جائز امور میں ان کی نافرمانی اور ان کی ایذا  رسانی  سخت حرام اورکبیرہ گناہ  ہے، قرآنِ کریم اور متعدد احادیثِ نبویہ  میں والدین کی فرمان برداری اور ان کے  ساتھ حسنِ سلوک و خدمت کی بڑی تاکید آئی ہے،  والدین میں سے کسی کی بھی نافرمانی یا ان کی ایذا رسانی  پر  بہت وعیدیں آئی  ہیں،  جیسے کہ قرآن مجید میں ہے:

{وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا ً وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَارَبَّيَانِي صَغِيرًا} [الإسراء: 23، 24]

 ترجمہ: اور تیرے رب  نے حکم دیا ہے کہ بجز اس کے کسی کی  عبادت مت کرو، اور تم (اپنے)  ماں  باپ کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرو،  اگر  تیرے پاس ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جاویں، سو ان کو کبھی (ہاں سے) ہوں  بھی مت کرنا اور نہ ان کو جھڑکنا ، اور ان سے خوب اَدب سے بات کرنا، اور ان کے سامنے شفقت سے، انکساری کے ساتھ جھکے رہنا اور یوں دعا کرتے رہنا  کہ اے  پروردگار ان دونوں پر رحمت فرمائیں جیساکہ انہوں  نےمجھ کو بچپن میں پالا پرورش کیا ہے۔

(سورۃ الاسراء، رقم الآیۃ:23،24، ترجمہ:بیان القرآن)

حدیث شریف میں ہے:

"عن ابن عباس قال: قال رسول الله ﷺ: من أصبح مطیعاً لله في والدیه أصبح له بابان مفتوحان من الجنة وإن کان واحداً فواحداً، ومن أصبح عاصیاً لله في والدیه أصبح له بابان مفتوحان من النار، إن کان واحداً فواحداً، قال رجل: وإن ظلماه؟ قال: وإن ظلماه وإن ظلماه وإن ظلماه. رواه البیهقي في شعب الإیمان".

(مشکاة المصابیح، کتاب الآداب، باب البر والصلة، رقم الحديث:4943، ج:3، ص:1382، ط:المكتب الاسلامى)

ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ  نے ارشاد فرمایا: جو شخص اس حال میں صبح کرے کہ وہ اپنے والدین کا مطیع وفرماں بردار ہو تو اس کے لیے جنت کے دو دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اور اگر والدین میں سے کوئی ایک (حیات) ہو  (اور وہ اس کا مطیع ہو) تو ایک دروازہ کھول دیا جاتاہے۔ اور جو شخص اس حال میں صبح کرے کہ وہ اپنے والدین کا نافرمان ہو تو اس کے لیے صبح کے وقت جہنم کے دو دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اور اگر والدین میں سے کسی ایک کا نافرمان ہو تو ایک دروازہ جہنم کا کھول دیا جاتاہے۔ ایک شخص نے سوال کیا: اگرچہ والدین ظلم کریں؟ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگرچہ وہ دونوں اس پر ظلم کریں، اگرچہ وہ اس پر ظلم کریں، اگرچہ وہ اس پر ظلم کریں۔ 

حدیث شریف میں ہے:

 " عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، أَنَّ رَجُلًا قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا حَقُّ الْوَالِدَيْنِ عَلَى وَلَدِهِمَا؟ قَالَ: «هُمَا جَنَّتُكَ وَنَارُكَ»".

(مشکوٰۃ المصابيح، باب البر والصلة، رقم الحديث:4941، ج:3، ص:1382، ط:المكتب الاسلامى)

         ترجمہ:  حضرت ابو  امامہ رضی  اللہ  تعالی عنہ سے روایت ہے ، فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے پوچھا ،  اے  اللہ کے رسول! والدین کا اولاد کے ذمہ کیا حق ہے؟ فرمایا : وہ تیری جنت یا دوزخ ہیں ، (یعنی ان کی خدمت کروگے تو  جنت میں جاؤ گے ،  ان نافرمانی کروگے  تو دوزخ میں جاؤگے)        

 اگر والد کسی بات اورمعاملہ میں غلطی پر ہوں تو ان  کو حکمت اور مصلحت سے سمجھائیں، تاہم اس دوران لہجہ سے امتیازی سلوک، یا بدکلامی کا احساس نہ ہو، اور نہ ہی ان کی غلطی ثابت کرنا مقصود ہو، اللہ تعالیٰ سے دعا مانگ کر اخلاص سے ان کو سمجھاجایا جائے تو کوئی گناہ بھی نہ ہوگا، 

تحفة الأحوذي شرح جامع الترمذي میں ہے:

"عن عبد الرحمن بن أبي بكرة عن أبيه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "ألا أحدثكم بأكبر الكبائر؟ قالوا: بلى يا رسول الله، قال: الإشراك بالله، وعقوق الوالدين، قال: وجلس وكان متكئا، قال: وشهادة الزور أو قول الزور، فما زال رسول الله صلى الله عليه وسلم يقولها حتى قلنا ليته سكت".

(وعقوق الوالدين) بضم العين المهملة مشتق من العق وهو القطع والمراد به صدور ما يتأذى به الوالد من ولده من قول أو فعل إلا في شرك أو معصية ما لم يتعنت الوالد، وضبطه ابن عطية بوجوب طاعتهما في المباحات فعلا وتركا، واستحبابها في المندوبات وفروض الكفاية كذلك، ومنه تقديمهما عند تعارض الأمرين، وهو كمن دعته أمه ليمرضها مثلا بحيث يفوت عليه فعل واجب إن أستمر عندها ويفوت ما قصدته من تأنيسه لها وغير ذلك أن لو تركها وفعله وكان مما يمكن تداركه مع فوات الفضيلة كالصلاة أول الوقت أو في الجماعة (قالً وجلس) أي للاهتمام بهذا الأمر وهو يفيد تأكيد تحريمه وعظم قبحه (وكان متكئاً) جملة حالية، وسبب الاهتمام بذلك كون قول الزور أو شهادة الزور، أسهل وقوعاً على الناس والتهاون بها أكثر، فإن الإشراك ينبو عنه قلب المسلم. والعقوق يصرف عنه الطبع، وأما الزور فالحوامل عليه كثيرة كالعداوة والحسد وغيرهما فاحتيج إلى الاهتمام بتعظيمه، وليس ذلك لعظمهما بالنسبة إلى ما ذكر معها من الإشراك قطعاً، بل لكون مفسدة الزور متعدية إلى غير الشاهد بخلاف الشرك فإن مفسدته قاصرة غالباً. وهذا الحديث يأتي أيضاً بسنده ومتنه في الشهادات."

(باب ما جاء في عقوق الوالدين، ج:6، ص:23، ط:دارالكتب العلمية)

Sunday 26 December 2021

دجالی معاونین کی سبزچادروںوالی روایت کی تحقیق

 دجال کے متبعین کے بارے میں تین طرح کی احادیث مذکور ہیں،  دو روایات مصنف عبدالرزاق میں، جب کہ ایک روایت مسلم میں موجود ہے۔

امام مسلم رحمہ اللہ نے اس روایت کو ان الفاظ کے ساتھ نقل کیا ہے:

1- "حدثنا منصور بن أبي مزاحم قال: حدثنا يحیی بن حمزة، عن الأوزاعي، عن إسحاق بن عبدالله عن عمّه أنس بن مالك أنّ رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: يتبع الدجال من يهود أصبهان سبعون ألفًا عليهم الطيالسة". (الصحيح لمسلم، كتاب الفتن، باب يتبع الدجال من يهود أصبهان سبعون ألفًا: ۱۳۹۴، رقم الحديث : ۲٠۹۴، ط: دارالتاصيل)

ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: " اصبہان کے ستر ہزار  یہودی دجال کی اطاعت وپیروی اختیار کریں گے جن کے سروں پر طیلسان ہوں گی"۔

"طیالسه": یہ ’’طَیْلَسَان‘‘  کی جمع ہے جو عرب میں ایک مشہور کپڑے کا نام ہے اور چادر کی صورت میں استعمال ہوتا ہے۔

2-  مصنف عبدالرزاق میں روایت ان الفاظ کے ساتھ مروی ہے:

"أخبرنا عبدالرزاق عن معمر عن أبي هارون عن أبي سعيد قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: يتبع الدجال من أمّتي سبعون ألفًا عليهم السيجان". (مصنف عبدالرزاق، كتاب الفتن، باب الدجال: ۱۱/۳۹۳، ط: المجلس العلمي)

اس روایت میں ’’سِیْجَان‘‘  کا لفظ ہے جو ’’ساج‘‘  کی جمع ہے،  اور ساج بھی طیلسان کی طرح چادر کو کہا جاتا ہے،  ’’ہدایۃ الرواۃ‘‘  کے حاشیہ میں مذکور ہے: ”السيجان جمع ساج، وهو الطيلسان الأخضر“. (هداية الرواة، الفتن، باب العلامات بين يدي الساعة: ۵/۱۳٦، ط: دارابن قيم )یعنی ’’سیجان‘‘  سے مراد سبز رنگ کی چادر ہے۔

اس روایت میں الفاظ ہیں ’’میری امت کے‘‘ جب کہ صحیح مسلم کی روایت میں ہے ’’یہود ‘‘ میں سے، ’’ہدایۃ الرواۃ‘‘  میں مذکور ہے کہ اس حدیث (یعنی مصنف عبدالرزاق والی اس روایت) میں ابوہارون متروک راوی ہیں، نیز محشی نے یہ بھی لکھا ہے کہ ان کی یہ حدیث صحیح مسلم کی روایت کے مخالف ہے؛  لہذا اس کا اعتبار نہیں ہے ۔

تقریب التہذیب میں ابوہارون کا تذکرہ ان الفاظ کے ساتھ مذکور ہے:

 ”عمارة بن جزء بن لحیم مصغر، أبو هارون العبدي، مشهور بكنيته، "متروك"، ومنهم من كذّبه، شيعي من الرابعة، مات سنة أربع وثلاثين‘‘. (تقريب التهذيب:۴۳٦، مكتبه رشيديه)

3- مصنف عبدالرزاق میں دوسری روایت ان الفاظ کے ساتھ منقول ہے:

”أخبرنا عبدالرزاق عن معمر عن يحيى بن أبي كثير يرويه، قال: عامّة من يتبع الدجال يهود أصبهان“. (مصنف عبدالرزاق، الفتن، باب الدجال: ۱۱/۳۹۳،۳۹۴، ط: المجلس العلمي)

یہ حدیث متصل نہ ہونے کی وجہ سے صحیح مسلم والی روایت کے معارض نہیں،  لہذا مسلم والی روایت کو ترجیح حاصل ہوگی ، اور اسی کو درست قرار دیا جائے گا ۔

خلاصہ  یہ ہے کہ مذکورہ لباس (کپڑے) سے مراد سبز عمامہ نہیں ہے، بلکہ سبز چادر ہے، نیز دجال کے مذکورہ پیروکاروں سے مراد یہود ہیں، یہود کے متعصب مذہبی افراد آج بھی بعض جگہوں پر سبز چادر استعمال کرتے ہیں،  لہٰذا  اس حدیث کا مصداق مسلمانوں کے کسی خاص فرقے یا فرد کو قرار دینا درست نہیں۔

یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ سبز عمامہ پہننا رسول اللہ ﷺ کی سنت نہیں ہے۔ البتہ قرونِ ثلاثہ اولیٰ اور بعد کے اولیاء سے اس کا استعمال ثابت ہے۔ ہمارے اکابر نے اس کے التزام و اصرار اور اسے سنت کہنے یا صرف اسے محبتِ رسول ﷺ کی علامت سمجھنے یا کہنے سے منع کیا ہے، اور چوں کہ موجودہ دور میں ایک خاص طبقے نے مذکورہ قیود کے ساتھ اس کا التزام کیا ہے، اس لیے اس سے اجتناب کا کہاجاتاہے۔ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ اگر کسی مسلمان کا عقیدہ یا عمل بدعت کے درجے تک محدود ہے تو اسے بدعت اور بے راہ روی تک ہی محدود رکھا جائے،  اس کی مخالفت میں اسے دجال کے متبعین میں شمار کرنا صریح ناانصافی ہوگا۔

البتہ دجال کا فتنہ سخت ترین فتنہ ہوگا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ہر نبی علیہ السلام نے اپنی امت کو اس فتنے سے ڈرایا ہے، اور بعض روایات میں ہے کہ دجال کا فتنہ قبر کے فتنے کے قریب ہوگا، اس لیے اللہ تبارک وتعالیٰ سے ڈرتے رہنا چاہیے اور خلوص سے دعا کرنی چاہیے کہ اللہ پاک ہمیں ان میں شامل نہ فرمائے اور ہم سب کی حفاطت فرمائے