https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Monday 27 December 2021

والد کو غلط کام سے روکنے کاحکم

  والد  قابلِ احترام اور  معظم ہستی ہیں، اسی وجہ سے اولاد  پر ان تمام امور میں والد کی  اطاعت فرض ہے جن کی اطاعت میں شریعت کے کسی حکم سے ٹکراؤ  لازم نہ آئے، جائز امور میں ان کی نافرمانی اور ان کی ایذا  رسانی  سخت حرام اورکبیرہ گناہ  ہے، قرآنِ کریم اور متعدد احادیثِ نبویہ  میں والدین کی فرمان برداری اور ان کے  ساتھ حسنِ سلوک و خدمت کی بڑی تاکید آئی ہے،  والدین میں سے کسی کی بھی نافرمانی یا ان کی ایذا رسانی  پر  بہت وعیدیں آئی  ہیں،  جیسے کہ قرآن مجید میں ہے:

{وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا ً وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَارَبَّيَانِي صَغِيرًا} [الإسراء: 23، 24]

 ترجمہ: اور تیرے رب  نے حکم دیا ہے کہ بجز اس کے کسی کی  عبادت مت کرو، اور تم (اپنے)  ماں  باپ کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرو،  اگر  تیرے پاس ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جاویں، سو ان کو کبھی (ہاں سے) ہوں  بھی مت کرنا اور نہ ان کو جھڑکنا ، اور ان سے خوب اَدب سے بات کرنا، اور ان کے سامنے شفقت سے، انکساری کے ساتھ جھکے رہنا اور یوں دعا کرتے رہنا  کہ اے  پروردگار ان دونوں پر رحمت فرمائیں جیساکہ انہوں  نےمجھ کو بچپن میں پالا پرورش کیا ہے۔

(سورۃ الاسراء، رقم الآیۃ:23،24، ترجمہ:بیان القرآن)

حدیث شریف میں ہے:

"عن ابن عباس قال: قال رسول الله ﷺ: من أصبح مطیعاً لله في والدیه أصبح له بابان مفتوحان من الجنة وإن کان واحداً فواحداً، ومن أصبح عاصیاً لله في والدیه أصبح له بابان مفتوحان من النار، إن کان واحداً فواحداً، قال رجل: وإن ظلماه؟ قال: وإن ظلماه وإن ظلماه وإن ظلماه. رواه البیهقي في شعب الإیمان".

(مشکاة المصابیح، کتاب الآداب، باب البر والصلة، رقم الحديث:4943، ج:3، ص:1382، ط:المكتب الاسلامى)

ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ  نے ارشاد فرمایا: جو شخص اس حال میں صبح کرے کہ وہ اپنے والدین کا مطیع وفرماں بردار ہو تو اس کے لیے جنت کے دو دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اور اگر والدین میں سے کوئی ایک (حیات) ہو  (اور وہ اس کا مطیع ہو) تو ایک دروازہ کھول دیا جاتاہے۔ اور جو شخص اس حال میں صبح کرے کہ وہ اپنے والدین کا نافرمان ہو تو اس کے لیے صبح کے وقت جہنم کے دو دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اور اگر والدین میں سے کسی ایک کا نافرمان ہو تو ایک دروازہ جہنم کا کھول دیا جاتاہے۔ ایک شخص نے سوال کیا: اگرچہ والدین ظلم کریں؟ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگرچہ وہ دونوں اس پر ظلم کریں، اگرچہ وہ اس پر ظلم کریں، اگرچہ وہ اس پر ظلم کریں۔ 

حدیث شریف میں ہے:

 " عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، أَنَّ رَجُلًا قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا حَقُّ الْوَالِدَيْنِ عَلَى وَلَدِهِمَا؟ قَالَ: «هُمَا جَنَّتُكَ وَنَارُكَ»".

(مشکوٰۃ المصابيح، باب البر والصلة، رقم الحديث:4941، ج:3، ص:1382، ط:المكتب الاسلامى)

         ترجمہ:  حضرت ابو  امامہ رضی  اللہ  تعالی عنہ سے روایت ہے ، فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے پوچھا ،  اے  اللہ کے رسول! والدین کا اولاد کے ذمہ کیا حق ہے؟ فرمایا : وہ تیری جنت یا دوزخ ہیں ، (یعنی ان کی خدمت کروگے تو  جنت میں جاؤ گے ،  ان نافرمانی کروگے  تو دوزخ میں جاؤگے)        

 اگر والد کسی بات اورمعاملہ میں غلطی پر ہوں تو ان  کو حکمت اور مصلحت سے سمجھائیں، تاہم اس دوران لہجہ سے امتیازی سلوک، یا بدکلامی کا احساس نہ ہو، اور نہ ہی ان کی غلطی ثابت کرنا مقصود ہو، اللہ تعالیٰ سے دعا مانگ کر اخلاص سے ان کو سمجھاجایا جائے تو کوئی گناہ بھی نہ ہوگا، 

تحفة الأحوذي شرح جامع الترمذي میں ہے:

"عن عبد الرحمن بن أبي بكرة عن أبيه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "ألا أحدثكم بأكبر الكبائر؟ قالوا: بلى يا رسول الله، قال: الإشراك بالله، وعقوق الوالدين، قال: وجلس وكان متكئا، قال: وشهادة الزور أو قول الزور، فما زال رسول الله صلى الله عليه وسلم يقولها حتى قلنا ليته سكت".

(وعقوق الوالدين) بضم العين المهملة مشتق من العق وهو القطع والمراد به صدور ما يتأذى به الوالد من ولده من قول أو فعل إلا في شرك أو معصية ما لم يتعنت الوالد، وضبطه ابن عطية بوجوب طاعتهما في المباحات فعلا وتركا، واستحبابها في المندوبات وفروض الكفاية كذلك، ومنه تقديمهما عند تعارض الأمرين، وهو كمن دعته أمه ليمرضها مثلا بحيث يفوت عليه فعل واجب إن أستمر عندها ويفوت ما قصدته من تأنيسه لها وغير ذلك أن لو تركها وفعله وكان مما يمكن تداركه مع فوات الفضيلة كالصلاة أول الوقت أو في الجماعة (قالً وجلس) أي للاهتمام بهذا الأمر وهو يفيد تأكيد تحريمه وعظم قبحه (وكان متكئاً) جملة حالية، وسبب الاهتمام بذلك كون قول الزور أو شهادة الزور، أسهل وقوعاً على الناس والتهاون بها أكثر، فإن الإشراك ينبو عنه قلب المسلم. والعقوق يصرف عنه الطبع، وأما الزور فالحوامل عليه كثيرة كالعداوة والحسد وغيرهما فاحتيج إلى الاهتمام بتعظيمه، وليس ذلك لعظمهما بالنسبة إلى ما ذكر معها من الإشراك قطعاً، بل لكون مفسدة الزور متعدية إلى غير الشاهد بخلاف الشرك فإن مفسدته قاصرة غالباً. وهذا الحديث يأتي أيضاً بسنده ومتنه في الشهادات."

(باب ما جاء في عقوق الوالدين، ج:6، ص:23، ط:دارالكتب العلمية)

No comments:

Post a Comment