https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Tuesday 28 December 2021

عمامہ کی شرعی حیثیت ,کیایہ بدعت ہے.

 (۱)عمامہ پہننا مسنون ہے ؛ لیکن یہ سنن عادیہ میں سے ہے ،یعنی اس کا اختیار کرنا بہتر ہے اور اس کے ترک پر نکیر کرنا صحیح نہیں ہے ؛ لہٰذا اگر کوئی شخص ٹوپی اوڑھتا ہے ، تو اس پر نکیر نہیں کی جاسکتی، ہمارے اَکابر رحمہم اللہ میں سے اکثر حضرات عمامہ کا استعمال فرماتے تھے اور اِس وقت بھی اکثر اکابر عمامہ استعمال فرماتے ہیں، بعض مستقل پہنتے ہیں اور بعض کبھی کبھی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی صرف ٹوپی کا پہننا ثابت ہے اور جو حضرات زیادہ تر ٹوپی استعمال فرماتے ہیں، وہ بھی عمامہ کی مخالفت نہیں فرماتے ، عمامہ کی ترغیب دینے کی اِجازت ہے ؛ لیکن اُسے واجب یا لازمی قرار دینا اور تشدد اختیار کرنااور جو عمامہ نہ پہنے اُس کی تحقیر کرنا صحیح نہیں ہے ۔ (۲)سنت کی دو قسمیں ہیں: (۱) سننِ ہدیٰ (۲) سنن زوائد۔ سننِ ہدیٰ یعنی عبادات وغیرہ سے متعلق موٴکدہ سنتوں کا ترک موجب موٴاخذہ ہے اورسننِ زوائد یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لباس وغیرہ سے متعلق سنتیں استحباب کے درجہ کی ہیں، اُن کو اختیار کرنا بہتر ہے ؛ لیکن اُن کے ترک پر نکیر نہیں کی جائے گی۔

السنة نوعان: سنة الہدیٰ وترکہا یوجب إساء ة وکراہیة کالجماعة والأذان والإقامة ونحوہا وسنة الزوائد وترکہا لا یوجب ذٰلک کسیر النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی لباسہ وقیامہ وقعودہ۔ (شامی، کتاب الطہارة / مطلب فی السنة وتعریفہا:۱/۲۱۸زکریا) وکان یلبسہا ویلبس تحتہا القلنسوة، وکان یلبس القلنسوة بغیر عمامة ویلبس العمامة بغیر قلنسوة۔ (زاد المعاد ۱/۱۳۵)

   آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے فتحِ  مکہ کے علاوہ بھی عمامہ باندھنا ثابت ہے۔  چند روایات ملاحظہ فرمائیے: 

1-   حضرت عمرو بن حُریث  رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ حضورِ  اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے لوگوں کو خطبہ دیا تو آپ کے (سر کے) اوپرکالا عمامہ تھا۔  (صحیحمسلم)
2-   حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضورِ  اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے (مرض الوفات) میں خطبہ دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  (کے سر ) پر کالا عمامہ تھا۔  (صحیح بخاری وشمائل ترمذی)

3-   حضرت ابو سعید الخدری  رضی اللہ عنہ کی روایت ہے  کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  جب نیا کپڑا پہنتے تو اس کا نام عمامہ یا قمیص یا چادر رکھتے،  پھر یہ دعا پڑھتے: اے میرے اللہ! تیرا شکر ہے کہ تو نے مجھے یہ پہنایا، میں اس کپڑے کی خیر اور جس کے لیے یہ بنایا گیا ہے اس کی خیر مانگتا ہوں اور اس کی اور جس کے  لیے یہ بنایا گیا ہے اس کے شر سے پناہ مانگتا ہوں۔ (سنن ترمذی) 
4-   حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو وضو کرتے دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  پر قطری عمامہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے عمامہ کے نیچے اپنا ہاتھ داخل فرمایا اور سر کے اگلے حصہ کا مسح فرمایا اور عمامہ کو نہیں کھولا۔ (سنن ابو داؤد) 
5-   حضرت عبد اللہ بن عمر  رضی اللہ عنہما کی روایت ہے کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: محرم (یعنی حج یا عمرہ کا احرام باندھنے والا) کرتا، عمامہ، پائجامہ اور ٹوپی نہیں پہن سکتا ۔  (صحیح بخاری وصحیح مسلم)

محرم کے لیے عمامہ کی ممانعت سے معلوم ہوتا ہے کہ عمامہ باندھنا اس زمانے کا عام رواج تھا۔

6- حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ جب عمامہ باندھتے تھے تو اسے (یعنی شملہ کو) دونوں کاندھوں کے درمیان لٹکا (چھوڑ) دیتے تھے۔ (ترمذی)

7- حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے میرے سر پر عمامہ باندھا، اور اس کی ایک جانب میرے سامنے اور ایک پچھلی جانب چھوڑی۔ (ابوداؤد)

8- کتبِ حدیث، سیرت وشمائل میں رسول اللہ ﷺ کے عماموں اور ان کی لمبائی وغیرہ کا بھی ذکر ہے۔

9- صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سیرت کا مطالعہ کیا جائے تو کئی روایات میں ان کے عمامے کا استعمال ملتاہے، بلکہ جنگوں کے دوران بھی عمامہ پہننا بہت سے صحابہ سے ثابت ہے۔ 

 لہذا یہ کہنا کہ عمامہ باندھنا بدعت ہے، درست نہیں۔ 

رہا یہ کہ کہنا کہ عرب میں اب  بالکل رواج نہیں رہا تو عرض ہے کہ اول تو عرب کی موجودہ تہذیب کو دورِ نبوی کا نمونہ قرار نہیں دیا جاسکتا اور نہ ہی اس بدلے ہوئے کلچر کو شرعی دلیل بنایا جاسکتا ہے۔  نیز یہ کہنا بھی درست نہیں کہ اب عرب میں بالکل رواج نہیں،  بلکہ عرب دنیا کے بہت سے قابلِ  قدر  اہلِ علم اور بعض خطوں کے لوگ اب بھی عمامہ باندھنے کا اہتمام کرتے ہیں۔  لہذا عمامہ کو برصغیر کی بدعت شمار کرنا  نااںصافی، اور لاعلمی پر مبنی بات ہے۔ 

No comments:

Post a Comment