https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Tuesday 7 January 2020

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک خاص دعاءAn important Du'aa of the Prophet peace be upon him

اللهم إنك تسمع كلامى و ترى مكانى و تعلم سرى وعلانيتى ولا يخفى عليك شئ من أمرى و أنا البائس الفقير المستغيث المستجير الوجل المشفق المقر المعترف بذنبى أسئلك مسئلة المسكين وابتهل إليك ابتهال المذنب الذليل وأدعوك دعاء الخائف الضرير و دعاء من خضعت له رقبته وفاضت لك عبرته و ذل لك جسمه ورغم لك أنفه اللهم لاتجعلنى بدعائك شقيا وكن لى رؤفا رحيما يا خير المسؤلين وخير المعطين
O my God! You listen to my speech and you see my condition and position,you are aware of that which is concealed of me and that which is evident.None of my matters are hidden from you.I am afflicted with hardship and distress(misery),needy(of your threshold).I lodge my complaints only to you,I seek only your protection,I am over come by your fear,I acknowledge and  accept my sins and shortcomings.I beg of you like that destitute who had no support and is lonely.I plead in your  presence like a disgraced sinner.I pray to you,the prayer of one who is overcome with your fear and is afflicted with pain and  distress,like the prayer of one whose head is hung down before you and whose tearse are flowing in your presence,whose body is humbled before you and rubbing his nose before you.O Allah!Do not reject my prayers and deprive me and be beneficient to me  and have mercy upon me,O He who is the best and the greatest Diety,O He who is the most Generous.

Sunday 5 January 2020

حضرت زین العابدین کی مدح میں قصیدۂ فرزدق اور اس کا پس منظر

فرزدق کانام ہمام بن غالب,فرزدق لقب ہے,لقب نام سے زیادہ مشہور ہوگیا, فرزدق کے لغوی معنی گندھے آٹے کے پیڑے بنانے کے ہیں,اس کا واحد فرزدقۃ ہے,اس لقب سےمشہور ہونے وجہیں مختلف ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ ایک مرتبہ انہیں چیچک نکل آیئ جس سے چہرہ داغدار ہوگیا,مرض تو چلاگیا لیکن چہرہ پر نشان رہ گیے.بعض نے کہا ہےکہ وہ پستہ قدبدخلق,اور گرم مزاج تھااس لیے اس لقب سے مشہور ہوااس سلسلے میں جریروفرزدق کی معرکہ آرائی نے بھی بہت سے لطیف نکات پر مشتمل ایک عظیم ذخیرہ چھوڑاہے.
 خاندان فرزدق کے بعض خصائص:  فرزدق کے آباء واجداد میں محمد بن سفیان نامی ایک شخص گذراہے جو ان تین شخصیتوں میں شامل ہے جن کا زمانہ جاہلیت میں محمد نام رکھاگیا,ورنہ ان تین کے علاوہ نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم سے پہلے کسی کا نام محمد نہیں رکھاگیا. ان تینوں اشخاص کے بھی محمد نام اس لیے رکھے گیے کیونکہ ان کے آباء واجداد میں سے بعض لوگ اپنے زمانے کے کسی ایسے بادشاہ کی خدمت میں چلے گیے تھے جسے قدیم آسمانی کتابوں کا علم تھااس نے آپ کی بعثت اور آپ کے نام کے بارے میں انہیں بتایا,جب یہ لوگ اپنے اپنے وطن پہنچے تو انہوں نےاپنی اپنی حاملہ بیویوں کو دیکھ کر نذرمانی اور وصیت بھی کی کہ اگرفرزند پیداہوتو اس کا نام محمدرکھیں .لہذا ان کی وصیت پوری کی گئ اور ان سب عورتوں نے اپنے اپنے بچوں کا نام محمد رکھا.یہ حسب ذیل افرادتھے.١.محمدبن سفیان بن مجاشع,یہ فرزدق کے دادا ہیں,۲.محمد بن أحیحۃ بن الجلاح,یہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے داد عبد المطلب کے ماں شریک بھائی تھے.محمد بن حمران بن ربیعہ. حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بعض محققین کے) ;نزدیک اٹھارہ لوگوں کا نام محمد رکھنا ثابت ہے.بعض سولہ کہتے ہیں اور کم سے کم تعداد تین ہے. ابن حجرعسقلانی نے ایسے لوگوں کی تعداد اٹھارہ بتائی ہے.
  پس منظر:  ایک بار ہشام بن عبدالملک ,عباسی خلیفۂ وقت حج کرنے گیا,طواف کرتے وقت اس نے چاہا کہ حجر اسود کوبوسہ دے,لیکن بھیڑ کی بناپر ایسا نہ کرسکا جب کہ اس کے ساتھ حشم وخدم کی ایک جماعت موجودتھی جولوگوں کو پرے ہٹاتے اور خلیفہ وقت کے لیے راستہ خالی کراتے چل رہے تھے پھربھی وہ حجراسودکاستلام نہ کرسکا,اوربھیڑکم ہونے کا انتظار کرتا رہا.پھر اس کے لیے کرسی منگوائ گئ اس پر بیٹھ گیااسی دوران حضرت زین العابدین علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب تشریف لائےاور طواف کرکے حجراسودکے استلام کے لئے آگے بڑھے تو بھیڑچھٹتی چلی گئ,یہ ماجرادیکھ کر ہشام حیرت میں پڑگیا.اتنے میں ایک شامی شخص نےجوہشام کادوست تھا دریافت کیاامیرالمؤمنین یہ کون آدمی ہے جس کے احترام میں لوگ غیرمعمولی شغف لے رہے ہیں.؟ہشام نےکہا میں نہیں جانتا!حالاں کہ وہ جانتاتھاتجاہل عارفانہ سے کام لیا,مشہورشاعر فرزدق وہیں موجودیہ گفتگو سن رہاتھا,اس نے ہشام کے اس جواب پرکہا:میں انہیں جانتاہوں یہ کون ہیں,شامی نےکہا بتایئے کون ہیں؟فرزدق نے اسی وقت کھڑے ہوکربرجستہ درج ذیل قصیدہ پڑھا قصیدہ میمیہ هذالذى تعرف البطحاء وطأته والبيت يعرفه والحل والحرم یہ وہ شخص ہے جسے بطحا کی نرم زمین,بیت اللہ, حل و حرم جانتے ہیں هذاعلى رسول الله والده أمست بنورهداة تهتدى الأمم یہ زین العابدین علی, رسول اللہ کے بیٹے (مراد ابن حسین نواسے)ہیں ,ان ہی کے نور عرفان سے قومیں ہدایت پارہی ہیں هذاابن خير عباد الله كلهم هذالتقى النقى الطاهرالعلم یہ اللہ کے نیک بندوں میں سب سے بہتر شخص کے بیٹے ہیں .جوپاکیزہ اور سردار ہیں إذارأته قريش قال قائلها إلى مكارم هذاينتهى الكرم جب قریش نے انہیں دیکھا تو بے ساختہ کہہ اٹھےان کے اخلاق کریمانہ پر بزرگی کی انتہا ہے ينمى إلى ذروة العز التى قصرت عن نيلهاعرب الإسلام والعجم یہ شرف و عزت کے اس مقام پر فائز ہیں جسے حاصل کرنے سے عربی عجمی سب عاجز رہتے ہیں يكاد يمسكه عرفان راحته ركن الحطيم إذاماجاء يستلم ممکن ہے حجر اسود کو بوسے دیتے وقت رکن حطیم انہیں روک لے کیونکہ وہ ان کی ہتھیلی کو پہچانتا ہے فى كفه خيزران ريحه عبق من كف أروع فى عرنينه شمم ان کے ہتھیلی میں عصاء شاہی ہے جس میں حسین ہتھیلی کے مس ہونے کی بنا پرخوشبو پھوٹ رہی ہے اور ان کی ناک حسین و ہموار ہے. يغضى حياء و يغضى من مهابته فما يكلم إلاحين يبتسم یہ شرم و حیاء کی وجہ سے نگاہوں کو نیچی رکھتے ہیں بلکہ ان کی ہیبت سے لوگ نگاہیں نیچی کرلیتے ہیں اور جب وہ مسکراتے ہیں تو لوگوں کو بات کرنے کی ہمت نہیں ہوتی ينشق نورالهدى من غرته كالشمس ينجاب عن إشراقها القتم ان کی روشن پیشانی کی چمک سے ہدایت کانور پھیل رہاہے جس طرح طلوع آفتاب سے صبح ہوجاتی ہے.اور تاریکی ختم ہوجاتی ہے. هذاابن فاطمة إن كنت جاهله بجده أنبياء الله قد ختموا اگر تم ناواقف ہوتوسنو!یہ حضرت فاطمہ کے صاحبزادے ہیں,اور ان کے جدامجد پر انبیاء کاسلسلہ ختم کردیاگیا ہے الله شرفه قدما وعظمه جرى بذالك له فى لوحه القلم اللہ نے ان کووہ شرافت و بزرگی عطا فرمائی ہےجس کے متعلق لوح محفوظ میں قلم جاری ہوچکاہے. كلتايديه غياث غم نفعهما يستوكفان ولا يعروهما عدم ان کے دونوں ہاتھوں سے فیض جار ی ہےان سے بخشش طلب کی جاتی اور ان پر کبھی مفلسی نہیں آتی سهل الخليقة لا تغشى بوادره يزينه إثنان حسن الخلق والشيم یہ نرم خو ہیں ان سے بیجا غیظ وغضب کا خطرہ نہیں ان کو بردباری اور بزرگی دوخصلتوں سے زیب وزینت ہے حمال أثقال أقوام إذااقترحوا حلوالشمائل يحلو عنده نعم جب کوئی قوم ان سے قرض مانگتی ہے تو یہ اس بوجھ کو برداشت کرتے ہیں.ان تمام عادات شیریں ہیں ان کے نزدیک بوقت سوال کلمہ نعم ہی اچھاہے ماقال لا قط إلا فى تشهده لولا التشهد كانت لائه نعم انہوں نے تشہد کے علاوہ کبھی لا یعنی نہیں استعمال نہیں کیا.اگر تشہد نہ ہوتا تو ان کے ہاں لا(نہیں) بھی نعم(ہاں) ہی ہوتا عم البرية بالإحسان فانقشعت عنها الغيابة والإملاق والعدم یہ احسان و نوازش کی بناپر تمام مخلوق پر چھاگیے,اور ان کی وجہ سے مخلوق سےاندہیرا,افلاس اور فقروفاقہ دور ہوگیا. من معشر حبهم دين وبغضهمو كفروقربهموا منجى والنعم یہ ایسی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں جن سے محبت رکھنا دین ہے.اور دشنی رکھنا کفر ہےانکی قربت باعث نجات وذریعہ حفاظت ہے يستدفع السوء والبلوى بحبهم ويستزاد به الإحسان والنعم ان کی محبت سے بلائیں اور مصیبتیں دور کی جاتی ہیں اور انہیں کے ذریعےنعمتوں اور احسان میں اضافہ کیاجاتاہے. من جده دان فضل الأنبياء له وفضل أمته دانته له الأمم یہ وہ ہیں جن کے ناناکی وجہ سے نبیوں کی بزرگی عزت یاب ہےاور ان کی امت کی فضیلت ساری امتوں پر ہے مقدم بعدذكرالله ذكرهمو فى كل بدء ومختوم به الكلم ہر چیز میں اللہ کے ذکر کے بعد ان کا ذکرمقدم ہے اور انہی کے ذکرسے کلام کی ابتدا اور انتہاء ہوتی ہے إن عدأهل التقى كانواأئمتهم أوقيل من أهل الأرض قيل هم اگر متقیوں کوشمار کیاجائے تویہ ان کے ہیشواہیں اور اگر یہ ہوچھاجائے کہ روئے زمین میں سب سے بہتر کون ہےتوجواب ہوتاہے کہ یہی ہیں لايستطيع جواد بعد غايتهم ولايداينهوا قوم وإن كرموا کوئی ان کے مرتبہ کو نہیں پہنچ سکتااور نہ کوئی قوم ان کے برابر ہوسکتی ہےخواہ کتنی ہی شریف وکریم الطبع ہو هم الغيوث إذاما أزمة أزمت والأسد أسد الشرى والبأس معتدم جب قحط سالی ہوتی ہے تو یہ ابرباراں کی طرح ہوجاتے ہیں اور خوف و دہشت کے وقت مقام شری کے شیرہوجاتے ہیں لاينقص العسربسطامن أكفهم سيان ذالك إن أثروا وإن عدموا ان کی ہتھیلی کی کشادگی کوفقروفاقہ تنگ نہیں کرسکتا.ان کے ہاں آسودگی وفراخی برابر ہیں يأبى لهم إن يحل الذم ساحتهم خلق كريم وأيد بالندى هضم ان کی مذمت کرنے سے انسان کو ان کے پاکیزہ اخلاق روکتے ہیں أى الخلائق ليست فى رقابهم لأولية هذا أوله نعم مخلوق میں ایسا کون ہے جس کی گردن میں ان کی نوازش وکرم کا طوق نہ ہو من يعرف الله يعرف أولية ذا فالدين من بيت هذا ناله الأمم جوخداکوجانتا ہےوہ ان کی عظمت کو بھی ہہچانتاہے,کیونکہ سبھی نے انہیں کے گھرانے سے دین سیکھا ہے إن كنت لا تعرفه فالله يعرفه والعرش يعرفه واللوح والقلم اگر تم انہیں نہیں ہہچانتے توخدا ان کو پہچانتاہےعرش لوح محفوظ اور قلم بھی ان کو جانتے ہیں وليس قولك هذابضائره العرب تعرف من أنكرت والعجم اور تمہارایہ کہناکہ وہ کون ہے ان کے لیے مضر نہیں اس لیے کہ جس کا تم انکار کرتے ہواسے عرب و عجم سب جانتے ییں قصیدہ سنتے ہی ہشام غضبناک ہوگیا,چنانچہ مکہ و مدینہ کے درمیان واقع مقام عسفان میں فرزدق کو قید کردیاگیا.جب حضرت زین العابدین کواس کاعلم ہواتوانہوں نے فرزدق کو بارہ ہزار درہم بھیجےاور معذرت کرتے ہوئےکہا اگر ہمارے پاس اس سے زیادہ بھی ہوتے تو ضرور پیش کرتے لہذا انہیں قبول کرلیں,فرزدق کہا:فرزند رسول!جوبھی میں نے کہا اس کی وجہ صرف اورصرف یہ تھی کہ اللہ اور اس کے رسول کے لئے مجھے غصہ آگیاتھا اس کے لئے میں نے یہ قصیدہ کہا,کچھ لینے کی غرض سے نہیں,یہ سن کر آپ نے فرمایا:بہت بہت شکریہ,لیکن یہ تو آپ کو قبول کرنا ہی پڑے گا,کیونکہ ہم اہل بیت جب کوئی اقدام کرتے ہیں تو اسےواپس نہیں لیتے,یہ سن کر فرزدق نے آپ کا ہدیہ قبول کرلیا.اور وہ قید خانہ میں ہشام کی ہجو کرتارہا بالآخر ہشام نے اسے رہاکردیا.

حضرت عمر بن عبد العزیز کی سیرتBiography of Umar bin Abdul_Azeez

مسلمہ بن عبدالملک کہتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ حضرت عمربن عبدالعزیز کے پاس ان کے مر ض الموت میں عیادت کےلیے حاضرہوا,میں نے دیکھا کہ انہوں نے ایک میلاساکرتازیب تن کررکھا ہے,میں نے(اپنی بہن اور) ان کی بیوی سے کہا امیر المومنین کے کرتے کو دھودو,بیوی نے جواب دیا ہاں میں انشاءاللہ دھودوں گی.کچھ دن کے بعد میں پھر عیادت کے لیے حاضرہوا تووہی کرتا پہنے ہوئے تھے,تو میں نے فاطمہ بی بی سے کہاکیا میں نے تم سے امیر المومنین کا کرتا دہونے کے لیے نہیں کہا تھا؟لوگ مزاج پرسی کے لئے آتے ہی رہیں گے.بیوی نے جواب دیاخداکی قسم امیرالمومنین کے پاس اس کے علاوہ کوئی دوسرا کرتا نہیں ہے,
آپ بسااوقات یہ شعر پڑھاکرتے تھے:
نهارك يا مغرورسهو وغفلة
وليلك نوم والردى لك لازم
او مغرور !تیرادن بھول چوک اور غفلت میں گذررہاہے,اور تیری رات نیند میں کٹ رہی ہیں اور بربادی تیرے لئے لازم ہوگئ ہے.
يغرك مايفنى وتفرح بالعنى
كما غر باللذات فىى النوم حالم
فناہونے والی چیزیں تم کو دہوکہ دے رہی ہیں,اور تم آرزوؤں سے اس طرح خوش ہوتے ہو جیسے سونے والانیند کی لذتوں میں دھوکہ کھاجاتاہے.
وشغلك فيما سوف فكرة غبه
كذالك فى الدنيا تعيش البهائم
تمہارے کام جن کا دہوکہ عنقریب ہی تم پر کھل جائے گا دھوکا ہے.اور جلد ہی تم انہیں براسمجھنے لگوگے.
حمص شہر کے دیر سمعان میں آپ بیمار پڑےوفات سے کچھ
 پہلے آ پ نے فرمایا:لوگوبیٹھ جاؤ,سب لوگ بیٹھ گئے تو فرمایا:یاالہ العالمین میں تیرا وہ بندہ ہوں جسے تونے والی بنایا,اس کی انجام دہی میں مجھ سے کوتاہیاں بھی سرزد ہوئیں,تونے مجھے اگر کسی چیز سے روکا تو میں نے نافرمانی کی,اس کے فورا بعد کلمۂ شہادت پڑھا,اور جاں بحق ہوگئے.یہ5,یا6رجب ١۰١ھ کا واقعہ ہے.بعض حضرات ۲۰ رجب لکھتے ہیں.کل مدت خلافت دوسال پانچ ماہ ہے.صرف ٣۹سال چند ماہ عمر پائی,جس پر صدیاں قربان کی جاسکتی ہیں.بعض مؤرخین کل عمر چالیس سال لکھتے ہیں
دیر سمعان ملک شام میں جسےآجکل عرب سوریہ بھی کہتےہیں دفن ہوئے
آپ کے ذریعے تجدید  دین اور امت میں نشأۃ ثانیہ کاکام شروع ہوا.
امام شافعی نے آپ کی دینی خدمات کو پیش نظر رکھتے ہوئے فرمایاتھا:خلفاء راشدین پانچ ہوئے ہیں,ابوبکر صدیق,عمرفاورق,عثمان غنی,علی المرتضی اورعمربن عبدالعزیز 

Saturday 4 January 2020

Text of the Hudaibiyah treaty

In the name of Allah
This is the treaty of peace between Muhammad bin Abdillah and Suhail bin Umr which stipulates:

1.There will be no war between the parties for a period of ten years,Both parties will be in a state of peace during this period and will not disrupt each other's movement either openly or clandestinely in violation of the treaty.This treaty is like a closed box(to shut off all frictions)and will remain between us.
2.Any one of the Quraish going over to Muhammad without the consent of his guardian will have to be returned.In case some one from Muhammad's side comes over to quraish,he will not be handed back to Muhammad.
3.Other tribes or clans will be free to strike alliance either with Muhammad or with Quraish according to their choice.
4.This year Muhammad will take back his companions(without performing umrah)and may return next year and stay in Makkah(for that purpose)on the following terms:
(i)They will carrying only those weapons which a traveller carries with him,which means swords only,which are sheathed.
(ii)They will not stay in Makkah beyond three days.

This treaty is attested as witnesses by Abu Bakr bin Abi Qahafa,Omar bin al Khattab,Abd al_Rahman bin Auf,S'ad bin Abi Waqqas,Usman bin Affan,Abu Ubaidah bin al_Jarrah,Muhammad bin Muslema,Huwaitab bin Abd al Uzza and Maqraz bin Hafs bin al Akheef.
(Battles by the Prophet.By:S.Ameenul Hasan Rizvi,p:151)

Friday 3 January 2020

حنظلہ عامر کی شہادتMartyrdom of Hanzala Amir

حنظلہ عامر پھلوار شریف  پٹنہ میں سی اے اے این آرسی کے خلاف ہورہے عوامی احتجاج میں شریک تھا پولیس نے مظاہرین پر آنسو گیس اور لاٹھی چارج کیا تاکہ ان سے پر امن احتجاج کرنے کا دستوری حق بھی چھین لے,حنظلہ عامر اپنی جان بچانے کے لیے  پھلواری شریف کی سنگت گلی میں داخل ہوگیا اسے کیامعلوم تھاکہ یہاں بھی اس کی جان کے دشمن انسان نما حیوان رہتے ہیں جنہوں نے بالآخر اسےشہید کردیا میڈیا کے مطابق اس کے جسم پر کوئی جگہ ایسی نہ تھی جہاں زخم نہ ہوں سارا جسم چاقو چھریوں سے گوددیاگیاتھا,انسانیت سے عاری کسی حیوان نےنہ صرف انسانیت کو شرمسار کیا بلکہ ایک غریب گھرکادیاہمیشہ کے لیے بجھادیاجوگھر کاچشم و چراغ تھا,اس کی شہادت نہ صرف ایک خاندان ایک شہر ایک ملک کے لیے عظیم سانحہ ہے بلکہ مسلم امہ کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہے,اس کاجرم بظاہرصرف یہ تھا کہ وہ ایک مسلم تھا,اقتدار کرنے والے ان انسان نما بھیڑیوں کوانسانیت سکھانے کی ضرورت ہے, جو لوگوں کو نفرت کا سبق سکھاتے ہیں ,ہزاروں لوگ ان سیاست دانوں کی نفرت آمیز باتوں سے متأثر ہوکرقاتل,ہتھیارے,تنگ نظر متعصب,بن کر معصوم لوگوں کو آسانی سے قتل کردیتے ہیں اور ان سیاسی قایدین پر جوں تک نہیں رینگتی, قاتل جیل چلے جاتے ہیں مقتول جان سے چلے جاتے ہیں,فائدہ صرف اور صرف ان پیشہ وراساتذۂ نفرت کو ہوتا ہے,جو انسانیت کے خون سے  سیاست کرتے ہیں ,تفریق کے بیج بوتے ہیں,اوراسی نفرت کی سیاست سے ایم ایل اے,ایم پی,سی,ایم,پی,ایم,منسٹر,وغیرہ وغیرہ اور نہ جانے کیاکیابنتے ہیں,کیا بھارت کا قانون نفرت کی سیاست کرنے کی اجازت دیتاہے؟میں پوچھنا چاہتاہوں کیایہی مذہب سکھاتاہے؟معصوم کا قتل!کونسا مذہب ہے وہ! اس طر ح کسی معصوم کو بلاوجہ ماردیاجایے! اقتدار کی کرسیوں پربیٹھنے والےنفرت کےپجاریوں کے پاس اس کا کویئ جواب ہے!کیاحکومت اس کا کوئی جواب دے سکتی  ہے!جومذہب کسی معصوم کے قتل پر ابھارے میں اس کومذہب نہیں مانتا,جو لیڈر نفرت سکھایے وہ لیڈر نہیں حیوا ن ہے اگر کوئی سیاسی لیڈرنفرت کی سیاست سے اقتدار کی کتنی ہی اونچی کرسی پر پہنچ جایے لیکن ہے وہ قاتل ہی.نہ جانے کتنے معصوم اس کی بنا پر قاتل بنے ہوں گے نہ جانے کتنے  بے گناہوں کے قتل اس کی نفرت آمیز تقریروں سے ہوؤے ہوں گے!میں کسی نفرت کی سیاست کرنے والے کو لیڈر نہیں مانتا بلکہ ببانگ دہل کہتاہوں وہ غنڈہ ہے,ایسی سیاست اور ایسے سیاست دانوں سے نالی کے وہ کیڑے اچھے ہیں جو کسی کو تکلیف نہیں پہنچاتے, کسی معصوم کا قتل نہیں کرتے , کسی سے نفرت نہیں کرتے.افسوس اس پر بڑھ جاتاہے جب پتہ چلتا ہے کہ ابھی تک حکومت کے کسی عہدے دار نےان کےغمزدہ پسماندگان سے تعزیت تک نہیں کی .فیاللاسف,اللہ تعالی حنظلہ عامر شہیدکی مغفرت فرمائے,اور پسماندگان کو صبرجمیل سے نوازے,
کرو کج جبیں پہ سر کفن میرے قاتلوں کو گماں نہ ہو
کہ غرورعشق کابانکپن پس مرگ ہم نے بھلادیا

منصور حلاجMansur Hallaj

حلاج کی وجہ تسمیہ

منصور کالقب حلاج پڑنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک روز کسی رویئ دھننے والے کے پاس  بیٹھے ہو یے اپنے کسی کام کےکرنے کی اس سے کہہ رہے تھےنداف یعنی رویئ دھننے والے نے کہا میں رویئ دھننے میں مصروف ہوں مجھے فرصت نہیں ,آپ نے فرمایا تم میراکام کردو میں تمہارا کام کردیتاہوں چنانچہ وہ راضی ہوگیا.اوروہ شیخ منصور کے کام سے چلاگیا,شیخ روئی دھننے میں مصروف ہوگیے جب وہ لوٹ کر آیا تو اس نے دیکھا جتنی روئی اس کے یہاں موجود تھی وہ سب دھنی ہویئ ہے. حالاں کہ وہ اتنی زیادہ تھی کہ اگر دس آدمی اسے کئ دن تک مل کر دھنتے تب بھی نہ دھن سکتے .اس دن سے شیخ کا لقب حلاج پڑگیا,حلاج کے معنی نداف کے بھی ہیں ,بعض حضرات کہتے ہیں کہ آپ تصوف کے اسرار و رموز بیان کرتے تھے اس لیے لوگ حلاج کہنے لگے,آپ اصلا ایرانی النسل ہیں نام حسین بن منصور تھا
ابن خلکان نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ جس دن آپ قتل کیے گیےاسی دن کسی دوست نے آپ کو خواب میں دیکھا کہ آپ گدھے پر سوار نہروان کی سڑک پر جارہے ہیں جسکی تعبیر انہوں نے اپنے مضروب و مقتول ہونے سے نکالی,

قتل کی وجہ

شیخ منصور کے قتل کی وجہ یہ ہے کہ  عباسی خلیفہ مقتدر باللہ  کے وزیر حامد بن عباس کی مجلس میں انہوں نے اپنی  زبان  سے ایسے الفاظ اداکیےجوبظاہر خلاف شرع تھے,اس دور کے قضاۃ اور مفتیان کرام نے فتوی دیدیاکہ انہیں قتل کردیا جایے,
جن باتوں کی بنا پر وہ واجب القتل گردانے گیے ان میں أنا الحق کہناہے,اس کے  علاوہ وہ  اپنے بارے میں کہتے تھے مافی الجبۃ الااللہ(جبہ میں سوایے اللہ کے کویئ نہیں)اس سے اپنے خدا ہونے کا دعوی ظاہر ہوتاہے,بعض حضرات کہتے ہیں کہ یہ جملے ان سے فرط محبت خداوندی میں سرزد ہویے.ان سے اچھے معانی بھی مراد لیے جاسکتے ہیں, اور ان اقوال کی مثال شاعر کے اس شعر کی سی ہے.
أنا من أهوى و من أهوى أنا
فإذا أبصرته أبصرتنا
میں وہ ہوں جس کو میں چاہتاہوں اور جس کو میں چاہتاہوں وہ میں ہی ہوں اے مخاطب اگر تونے اس کو یعنی میرے محبوب کو دیکھ لیاتو گویا تونےمجھ ہی کو دیکھ لیا,یعنی میں محبوب کی محبت میں اتنا محو ہوگیا ہوں کہ گویا ہم دونوں ایک جان دو قالب بن گیے ہیں .
منصور کے بارے میں علماء ومشائخ کی آراء مخلتف ہیں ,کچھ لوگ انہیں کافر قرار دیتے ہیں اور کچھ حضرات انہیں صاحب عظمت ولی کامل سمجھتے ہیں.

منصور حلاج کا واقعہ

جب شیخ منصور نے مذکورہ کلمات باربار دھرایے توقضاۃ و مفتیان کی ایک بڑی جماعت نے انہیں کافر اور واجب القتل قرار دیدیا لہذا خلیفہ مقتدر باللہ کے حکم پر شہر کوتوال  محمد بن عبد الصمد نے ان کی گرفتاری کا حکم دیدیا,لہذا کوتوال نے اس ڈرسے کہ کہیں لوگ ہنگامہ کرکے شیخ کو زبردستی چھڑانہ لیں رات کےوقت گرفتار کرلیا,منگل کےدن بتاریخ ۲۴ ذوالقعد ٣۰۹ ھ کو باب الطاق لیجایاگیا,ایک جم غفیر  کے سامنے سب سے پہلے جلاد نے ایک ہزار کوڑے لگایے,لیکن آپ نے اف تک نہ کی,پھر چاروں ہاتھ پاؤں کاٹے گیے اس پر بھی وہ خاموش رہے,اس کے بعد آپ کا سر تن سے جدا کردیاگیا,اور لاش کو جلاکر راکھ دریایے دجلہ میں بہادی گئ,آپ کاسر بغداد شہر کی ایک دیوار پر نصب کردیاگیا,پھر اسے شہر کے سبھی گلی کوچوں میں گھمایاگیا.

مریدین کی حالت

آپ کے رفقاء و مریدین اپنے دل کویہ کہہ کر تسلی دیتے رہے کہ آپ چالیس دن بعد واپس آجائیں گے.جس سال آپ کو بےدردی سے قتل کیاگیا اسی سال دریایے دجلہ میں زبردست طغیانی آیئ,آپ کے مریدین اور چاہنے والوں نے قتل کے بعد راکھ دریایے دجلہ میں بہانے  کو وجہ قرار دیا
آپ کے بعض معتقدین کاخیال تھا کہ آپ کو قتل نہیں کیا گیابلکہ آپ کے کسی دشمن کو
آپ کی صورت میں منتقل کرکےآپ کے بجایے وہ قتل ہوا اور آپ بچ گیے.
شیخ منصور کو جب قتل گاہ کی طرف لیجاگیا تو وہ چلتے چلتے بہ آواز درج ذیل اشعار پڑھ رہے تھے
طلبت  المسقر بكل أرض
فلم أر لى بأرض مستقرا
میں نے زمین کے ہر گوشے میں سکون تلاش کیالیکن کہیں بھی مجھےسکون میسر نہ آیا
أطعت مطامعى فاستبعدتني
ولوإنى قنعت لكنت حرا
میں لالچ میں مبتلا ہوگیا تولالچ میرا حاکم بن گیاکاش میں قناعت اختیار کرتا توبدستور آزاد رہتا
بعض نے لکھاہے کہ منصور حلاج قتل کے وقت یہ اشعار پڑھ رہے تھے
لم أسلم النفس للأسقام تتلفها
إلالعلمي بأن الموت يشفيها
میں اپنے آپ کو ایسی بیماریوں کے سپرد نہیں کرسکتاجو ہلاک کرنے والی ہیں بجز موت کے کیونکہ مجھے معلوم ہے
کہ اب علاج معالجہ کار آمد نہیں ہوسکتاموت میں ہی شفاہے.
ونظرة منك يا سوء لى ويا أملى
أشهى إلي من الدنيا وما فيها
اور اے وہ ذات جو میری حاجت روا ہےاور جس سے کہ میری امیدیں وابستہ ہیں,تیری ایک نظرمیرے نزدیک دنیا ومافیہا سے زیادہ مرغوب ہے.
نفس المحب على الآلام صابرة
لعل متلفيها يوما يداويها
عاشق کی جان تو مصایب پرصبر کرنے والی ہے,اس امید پر کہ شاید اس کوتلف کرنے والا ہی ایک دن اس کا معالج بن جایے.

شیخ منصور حلاج کے اصحاب

شیخ منصور ,شیخ جنید بغدادی کی صحبت میں رہے,شیخ شبلی اور دیگر مشائخ وقت سے بھی آپ نےاستفادہ کیا.

قتل گاہ کے اہم واقعات

جب آپ کو قتل گاہ کی طرف لایاگیااور آپ نے تختہ دار پر چڑھنے سے پہلے تختہ و میخوں کو دیکھا تو آپ قہقہہ لگاکر خوب ہنسے,پھر مجمع پر نظر ڈالی تو شیخ شبلی بھی وہاں موجود تھے,آپ نے ان سے دریافت کیا,ابوبکر !کیا آپ کے پاس جانماز ہے؟شبلی نے کہا ہاں, ہے,تو آپ نے کہا جانماز بچھائیں,چنانچہ شیخ شبلی نے جا نماز بچھادی.,شیخ منصور نے اس پر دورکعت نماز پڑھی,پہلی رکعت میں الحمد شریف اور یہ آیت ولنبلونکم بشئ من الخوف والجوع ونقص من الخ پڑھی دوسری رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعدکل نفس ذائقۃ الموت الخ.پڑھی اس کے بعد ایک طویل وظیفہ پڑھا.نماز سے فراغ ہویے توابوالحرث سیاف نےآپ کے ایک زوردار طمانچہ ماراجس سےناک اور چہرہ دونوں زخمی ہوگیے.یہ دیکھ کر شبلی پر وجد کی کیفیت طار ہوگئ,انہوں نے اپنے کپڑے پھاڑ لیے.اورزورسے چیخنے چلانے لگے,دیگر مشائخ شیخ ابوالحسن واسطی وغیرہ پر بھی غشی طار ہوگئ.قتل سے پہلے آپ نے فرمایا:میراخون تمہارے لیے مباح ہوگیاہے مجھے قتل کرڈالو,میرے قتل سے زیادہ اہم مسلمانوں کےلیے آج کے دن کویئ کام نہیں
,میراقتل حدوداللہ کے قیام اور شریعت کے مطابق ہےجوحدسے تجاوز کرے اس پر حد جاری ہونی چاہئے.
شیخ العارفین شیخ عبدالقادرجیلانی رحمہ اللہ اور امام غزالی نےمنصور کی برأت ظاہر کرتے ہوئے فرمایا,حلاج کو ہلاک کردیاگیا,اور کسی نے ان کی دستگیری نہیں کی,اگرمیں حلاج کے زمانے میں ہوتاتو ضرور اس کی مدد کرتا.
فارسی کادرج ذیل شعر اگرچہ منصور کے نام پر مشتمل ہے مگر ان کی طرح موت سے نڈر,بے باک اور بے خوف  لوگ  آج بہھی جانے انجانے میں پڑھ کر انہیں خراج عقیدت پیش کرتے رہتےہیں
وقتے ایست کہ آوازۂ منصور کہن شد
من ازسر نو جلوہ دہم دارورسن را
(تاریخ بغداد)
WWW.drmuftimohdamir.blogspot.com

Thursday 2 January 2020

اسم اعظمIsmul Aazam

حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ کی ایک خادمہ تھی  وہ روزانہ انہیں چالیس دن تک کھانے میں زہر ملاکر کھلاتی رہی ایک مرتبہ اس نے آپ سے پوچھاآپ کس جنس کے ہیں؟آپ نے فرمایامیں تمہاری ہی طرح ایک انسان ہوں اس نے کہا مجھے تو آپ انسان معلوم نہیں ہوتےکیونکہ میں نے آپ کو چالیس دن تک مسلسل زہر کھلایاہےمگر آپ کا بال تک بیکا نہیں ہواآپ نے فرمایا:کیا تجھے معلوم نہیں کہ جو لوگ اللہ کاذکرکرتے رہتے ہیں ان کوکویئ زہر ضرر نہیں پہنچاسکتا اور میں تو اسم اعظم کے ساتھ اللہ کو یاد کرتاہوں اس نے پوچھا وہ اسم اعظم کیا ہے.
؟آپ نے فرمایایہ ہے:بسم الله الذي لايضر مع اسمه شئ فى الأرض ولافى السماء وهو السميع العليم
(حیاۃ الحیوان جلد اول تحت الحیۃ)
  

سانپ کے عربی نامSnake's names in Arabic language

سانپ کی مختلف قسمیں ہیں,عربی زبان میں حیۃ کے علاوہ اس کےحسب ذیل نام ہیں
١.العيم٢.العين٣.الصم٤.الأزعرر.الأبتر٦.الناشر٧.الأين٨.الأرقم.٩.الأصلة١٠الجان١١.الثعبان١٢.الشجاع٣١.الأزب١٤.الأرب١٥.العفوان١٦.الأرقش١٧.أرقط١٨..الصل١٩.ذوالطفتين٢٠.عربد
سانپ کی عربی میں درج ذیل کنیتیں استعمال ہوتی ہیں
ابوالبخترى،ابوالربيع،ابوعثمان،ابوالعاصى،ابوندعور،ابودثاب،ابويقضان،أم طبق،أم عثمان،أم الفتح،أم محبوب،أدرحية الصماء،حية الصماء،صمه،اس كی جمع صم آتی ہے,
قالواحبيبك ملسوع فقلت لهم
من عقرب الصلاغ أومن حية الشعر
لوگوں نے مجھ سے کہاکہ تیرے محبوب کو کسی زہریلے کیڑے نے کاٹ لیا ہے یہ سن کر میں نے اس سےپوچھاکہ کیا کنپٹی کےبچھو نے اس کو کاٹا ہے یا اس کی زلفوں کی ناگن نے اس کو ڈس لیا ہے.
قالوابلى من أفاعى الأرض قلت لهم
وكيف تسعى الأرض للقمر
وہ بولے یہ بات نہیں بلکہ زمین کے سانپوں میں سے کسی نے اس کو ڈس لیا ہے.یہ سن کر میں نے تعجب سےکہاکہ یہ بتاؤ کہ زمینی سانپ کی رسایئ چاند تک کیسے ہوسکتی ہے.
جمال الملک بن افلح شاعر نے کہا
وقالوايصيرالشعر فى الماء حية
إذاالشمس حاذته فما خلته صدقا
لوگ کہتے ہیں کہ بال پانی میں سانپ بن جاتے ہیں جبکہ سورج کی روشنی ان پر پڑرہی ہو مجھ کو یہ قول سچا نہیں لگتا
 فلما التوى صدغاه فى ماء وجهه
وقد لسعاقلبى تيقنته حقا
لیکن جب اس نے اپنے چہرے پر پانی ڈالا اور اس کی زلفوں نے سانپ کی طرح بل کھاکر میرے دل کو ڈس لیا تو مجھے یقین آگیاکہ لوگوں کا کہنا بالکل صحیح تھا

سانپ کی شرعی حیثیت

امام ابوحنیفہ,امام شافعی اورامام احمد بن حنبل کے نز دیک سانپ کھاناحرام ہے.امام مالک کے نزدیک ذبح کرنے کے بعد  کھاناجائز ہے.دباغت کے بعد سانپ کی کھال استعمال کرنا جائز ہے. اس کاتیل بھی ناپاک ہونے کی بنا پر استعمال کرنا درست نہیں بلکہ ناپاک ہے.البتہ بطور دوا اگرماہر طبیب نے تجویزکیاہو اور کوئی متبادل نہ ہو تو ضرورتاََ جائزہے.

حضرت سفیان ثوری اور ہارون رشید بادشاہ کے ما بین سبق آموز مراسلتCorrespondence between Caliph Harun Rasheed and Sufyan sauri

ہارون رشید جب خلیفہ بنے تو بہت سے علما ء کرام انہیں مبارکباد دینے پہنچے لیکن حضرت سفیا ثوری نہیں گیے حالاں کہ دونوں میں پہلے دوستی تھی اس سے ہارون رشید کو بہت تکلیف ہویی,چنانچہ انہوں نے حضرت سفیان ثوری کے نام درج ذیل خط لکھا
بسم اللہ الرحمان الرحیم
عبداللہ ہارون امیرالمومنین کی طرف سے اپنے بھایی سفیان ثوری کی طرف
بعد سلام, آپ جانتے ہیں کہ اللہ تعالی نے مومنین کے درمیان ایسی بھایی چارگی اور محبت رکھی ہےجسے میں نہ توڑ سکتاہوں اورنہ اس سے جدا ہوسکتاہوں خلافت کایہ طوق اللہ نے جو میرے گلے میں ڈالاہےاگر یہ میرے گلے میں نہ ہوتاتو میں ضرور آپ کی محبت کی بناپر آپ کے پاس خود آتا.اگر چلنے سے معذور ہوجاتاتو گھسٹ کر آتا.اب جب مجھے خلافت کی ذمہ داری سپرد ہویی تو میرے سبھی دوست احباب مجھے مباکباد دینےکے لیے آیے ہیں میں نے ان کے لیے اپنے خزانے کے منھ کھول دیے,اور نہایت قیمتی چیزوں کا عطیہ دےکراپنے دل اور ان کی آنکھوں کو ٹھنڈاکیا.لیکن آپ تشریف نہیں لایے جب کہ مجھے آپ کا بے صبری سے انتظار تھا,یہ خط آپ کومحبت کی بناپر بڑے ذوق و شوق سے لکھ رہاہوں,ابو عبداللہ! آپ خوب اچھی طرح سے جانتے ہیں مومن سے ملاقات اور مواصلت کی کیا فضیلت ہے.لہذا آپ سے التماس ہے کہ جیسے ہی میرا یہ خط آپ کو ملے تو جتنی جلد ممکن ہو آپ تشریف لایں.
ہارون رشید نے یہ خط عباد طالقانی نام کے ایک شخص کے سپرد کیااور کہایہ خط سفیان ثوری کو پہنچادو,انہیں کے ہاتھ میں دینا کسی اور کے نہیں,اور وہ جو بھی جواب دیں اسے غورسے سننا وہ کہتے ہیں کہ میں یہ خط لےکر کوفہ روانہ ہوا جہاں سفیان ثوری رہتے تھے.آپ مسجد میں تھےآپ مجھے دور سے ہی دیکھ کر کھڑہے ہو گیے  اور کہنے لگے
اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم.واعوذ باللہ من طارق یطرق الابخیر.یعنی میں شیطان مردود سے اللہ کی پناہ چاہتاہوں اور اللہ کی پنا ہ چاہتاہوں اس شخص سے جو رات میں آتاہے سواے اس کے کہ وہ کویی خیر لے کر آیے.
عباد طالقانی کہتے ہیں کہ جب میں مسجد کے دروزے پر اپنے گھوڑے سے اتراتو حضرت سفیان ثوری نماز پڑہنے کھڑے ہو گیے.حالاں کہ اس وقت کسی نماز کاوقت نہیں تھا,لہذامیں اس کے بعد ان کی مجلس میں حاضر ہوااور سلام کیا وہاں پر موجود کسی نے بھی میرے سلام کا جواب نہ دیا. نہ مجھ سے بیٹھنے کے لیے کہا.حتی کہ میری طرف نظر اٹھاکر دیکھنے کی زحمت بھی گوارہ نہ کی.اس سے مجھ پر کپکپی طاری ہوگیی.اور بدحواسی کی سی کیفیت میں میں نے وہ خط حضرت سفیان ثوری کی طرف پھینک دیا.آپ کی نظر جیسے ہی اس پرپڑی تو وہ ڈر گیےاور خط سے دور ہٹ گیے.گویاوہ کویی سانپ ہو,پھر کچھ دیر بعدحضرت سفیان ثوری نےاپنی آستین کے کنارے سے وہ خط اٹھایااور پیچھیے بیٹھے ہویے ایک شخص کی طرف پھینکااور کہا تم میں سی کویئ اسے پڑ ھ کر سنائےکیوں کہ میں اللہ سے کسی ایسی چیز کے چھونے سے پناہ مانگتاہوں جسے کسی ظالم نے چھو رکھا ہو.لہذا حاضرین میں سے ایک شخص نےوہ خط کھولا اس طرح کے اس کے ہاتھ کانپ رہے تھےپھر اس نے وہ پڑھ کرسنایااسے سن کرحضرت سفیان ثوری عجیب سے انداز میں مسکرایے اور کہا اس خط کے پیچھے کی طرف ہی اس کا جواب بھی لکھ دوحاضرین میں سے ایک شخص بولا حضرت وہ خلیفہ وقت ہیں کسی صاف  کورے کاغذ پر جواب لکھواکر بھیجنا مناسب تھا,حضرت سفیان ثوری نے فرمایا نہیں اسی کی پشت پر جواب لکھ دو.کیوں اگراس نے یہ کاغذ حلال کمایی سے لیا ہے جس کابدلہ دیاجایے گااور اگر حرام کمایی سے ہے تو عنقریب اس کا بھی بدلہ دیاجایے گا.ہمارے پاس کویی ایسی چیزنہ ہونی چاہیے جسے کسی ظالم نے چھواہوکیونکہ اس سے دین میں خرابی آتی ہے.
پھر سفیان ثوری نے درج ذیل جواب لکھوایا:بسم اللہ الرحمان الرحیم
سفیان کی طرف سے اس شخص کی طرف جس سے ایمان  کی مٹھاس اورقرات قرآن کی دولت کو چھین لیا گیا.بعد سلام مسنون,یہ خط تم کو اس لیے لکھ رہاہوں تاکہ تمہیں معلوم ہوجایےکہ میں نے تم سے اپنا دینی رشتہ بھایی چارگی اور محبت کاتوڑدیاہے.اور تم نے اپنے خط میں اس بات کا خود اقرار کیا ہے کہ آپ نے اپنے دوست احباب پر شاہی خزانےکو خوب لٹایاہے.لہذا میں اس کا گواہ ہوں کہ تم نے مسلمانوں کی بغیر اجازت کے اپنے احباب پر خرچ کیا,اور اس پر طرہ یہ کہ تم اس بات کے آرزومندہوکہ میں تمہارے پاس آوں لیکن یاد رکھو میں اس کے لیے کبھی راضی نہ ہوؤنگا.میں اور میرے اہل مجلس جس نے بھی تمہارے خط کوسناوہ سب تمہارےخلاف گواہی دینے کے لیے ان شاء اللہ کل قیامت دن اللہ کی عدالت میں حاضرہوں گےکہ تم  نے مسلمانوں کے مال کو غیر مستحق لوگوں پر خرچ کیا.
ہارون!ذراتم یہ معلوم کروکہ تمہارےاس فعل پر اہل علم,قرآن کی خدمت کرنے والے,یتیم ,بیوہ ,مجاہدین,عاملین سب راضی تھے کہ نہیں؟کیونکہ میرے نزدیک مستحق اور غیر مستحق سب کی اجازت لینا ضروری تھی.لہذا تم ان سب باتوں کاروزقیامت جواب دینے کے لیے کمر کس لو,کیونکہ عنقریب تمہیں اللہ جل شانہ کے سامنے حاضر ہونا ہے.جو عادل ہے حکمت والاہے.لہذا اپنے نفس کو اللہ سے ڈراؤ,جس نے قرآن کی تلاوت, علم کی مجالس کو چھوڑ کرظلم اور ظالموں کا سردار بننا قبول کیا.
ہارون!اب تم سریر پر بیٹھنے لگےاور تمہارالباس حریر ہوگیا.اور تم نے ایسالشکر جمع کرلیا جو لوگوں پر ظلم کرتا ہے.اور تم خود بھی انصاف نہیں کرتے.تمہارے یہ لوگ شراب پیتے ہیں مگر تم حد,دوسروں پر جاری کرتے ہو,تمہارے لشکری چوری کرتے ہیں مگر تم ہاتھ بے قصور دوسرے لوگوں کا کاٹتے ہو.تمہارے افسران قتل عام کرتے ہیں اور تم خاموش تماشایی بنے رہتے ہو.ہارون کل میدان حشرمیں کیا حالت یوگی جب اللہ کی طرف سے پکارنے والاپکارے گاکہ ظالموں کو اور ان کے ساتھیوں کو حاضر کرو,تو تم اس حال میں آگے بڑھو گے کہ تمہارے دونوں ھاتھ گردن سے بندھے ہویے ہوں گے.اورتمیارے اردگرد ظالم اور تمہارے مددگار ہوں گے.انجام کارتم ان ظالموں کے امام بن کر دوزخ میں جاؤگے.اس دن تم اپنی بھلایاں تلاش کروگے تو وہ دوسروں کی میزان میں ہوں گی.اور تمہارے پلڑے میں براییاں ہی براییاں نظر آییں گی.اور تمہیں کچھ نظر نہ آیے گا.ہر طرف اندھیراہی اندھراہوگا,لہذاابھی وقت ہے کہ تم اپنی رعایاکے ساتھ انصاف کرو,اور یہ یاد رکھو یہ بادشاہت تمہارے پاس ہمیشہ نہیں رہےگی.یہ یقینا دوسروں کے پاس چلی جایے گی.اس سے بہت سے لوگ اپنی آخرت برباد کرلیتے ہیں اور بہت سے لوگ دنیاوآخرت سنوار لیتے ہیں اور بعض لوگ دنیا وآخرت دونوں کو برباد کرلیتےہیں.اور یہ بات غور سے سنوآیندہ مجھے کبھی خط مت لکھنااور اگر تم نے کویی خط لکھا بھی تو مجھ سے کسی جواب کی توقع نہ رکھنا.
والسلام
خط مکمل ہونے کے بعد حضرت سفیان ثوری نے وہ خط میری طرف پھنکوایانہ اس پر اپنی مہر لگایی نہ اسے چھواخط کامضمون سن کر میری حالت بدل گیی چنانچہ میں نے کوفے کے بازار میں آوازلگایی کہ کویی ایساشخص کا خریدار ہے جوایسے آدمی کو خرید سکے جواللہ کی طرف جارہاہے.لوگ یہ سن کر میرے پاس دینار ودرہم لے کر آیے.میں نے کہا مجھے ان کی ضرورت نہیں مجھے تو بس ایک جبہ اور عبا چاہییے,لوگوں نے یہ چیزیں مجھے لاکردیدیں. میں نے اپناوہ قیمتی زیوراتاردیاجسے ہارون رشیدکے دربار میں جاتےوقت پہنتاتھا.اور گھوڑابھی ہنکادیا اس کےبعد ننگے سر اور پیدل ہارون رشید کے محل کےدروازےتک پہنچا,لوگوں نے میری جوحالت دیکھی تو میرامذاق اڑایااور اندر جاکر ہارون سے میری حاضری کی اجازت لی.میں اندر گیا ہارون نے جیسے ہی مجھے دیکھا کھڑاہوگیا,اور اپنے سر پر ہاتھ مارتے ہویے کہنے لگا وایے بربادی,وایے خرابی,قاصدآباد ہوگیا,اور بھیجنے والا محروم ہوگیا اب  دنیا کی کیا ضرورت ہے, پھر جلدی سے مجھ سے جواب مانگا,میں نے وہ خط اسی طرح ہارون رشید کی طرف اچھال دیا جیسے سفیان ثوری نے میری طرف پھنکوایاتھا,ہارون نے فوراََجھک کر وہ خط ادب سے اٹھالیااور جواب پڑھنا شروع کیا,پڑھتے پڑھتے آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ گیی حتی کہ ہچکی بند گیی.ہارون کی یہ حالت دیکھ کر کسی نے اہل دربار میں سے کہا,سفیان کی یہ جرات جو امیرالمومنین کو ایسا لکھیں ہارون نے جواب دیا, اے مغرور,دنیا کے غلام,سفیان کو کچھ مت کہو,ان کو ان کی حالت پر رہنے دو,خداکی قسم دنیا نے ہمیں دھوکے میں ڈال رکھاہے اور بدبخت بنادیاہے.تمہارے لیے میرا مشورہ یہ ہے کہ تم سفیان کی مجالس میں جایاکرو کیونکہ اس وقت سفیان ہی حضور کے حقیقی امتی ہیں,عباد طالقانی کہتے ہیں کہ اسکے بعد ہارون رشید کی یہ حالت تھی کہ وہ سفیان کے خط کو ہر وقت اپنے پاس رکھتے اور ہر نماز کے بعد اس کو پڑھتے اور خوب روتے یہاں تک کہ وفات ہوگیی.
حیاۃالحیوان الکبری جلد اول تحت الفرس

Wednesday 1 January 2020

تنگدستی سے بچنے کا عمل

حافظ نسفی نے اپنی تصنیف فضائل الأعمال میں لکھا ہے کہ عاصم بن ابی النجود نے اپنا واقعہ بیان کیا وہ کہتے ہیں کہ مجھے فقروفاقہ اور تنگدستی سے گذرنا پڑامیں نے اپنی  تنگدستی کی شکایت اپنے بعض دوستوں سے بھی کی اور ان سے مدد طلب کی لیکن انھوں نے کویئ توجہ نہ کی جس سے مجھے بہت ملال ہوا میں نے اس کے بعد یہ طے کرلیا کہ آیندہ کسی انسان کے آگے ہاتھ نہ پھیلاوں گا,لہذا میں جنگل میں نکل گیا,اور وہاں میں نے دورکعت صلوۃ الحاجۃ پڑھی, پھر سجدے میں نہایت خشوع وخضوع سے یہ دعاء پڑھی: يا مسبب الأسباب،يا مفتح الأبواب،يا سامع الأصوات،يامجيب الدعوات،ياقاضى الحاجات،اكفنى بحلالك عن حرامك وأغنني بفضلك عمن سواك،
ابھی میں نے سر بھی نہیں اٹھایاتھا کہ کسی چیز کے گرنے کی آوازمحسوس ہویئ,سر اٹھاکر دیکھاتو چیل نے ایک سرخ تھیلی ڈالدی ہے,کھول کے دیکھا تو اس میں اسی (۸۰)دیناراور رویئ میں لپٹاہواقیمتی ہیرا ہے,وہ ہیرا میں نےایک کثیر رقم میں بیچ دیااور سونے کےدینار حفاظت سے رکھ لئےجس سے میں نےگھر کاسازوسامان خریدا.
(حیاۃ الحیوان الکبری,جلد اول ,تحت الحداۃ)

Tuesday 31 December 2019

غموں کا سال

مبارک ہو غموں کا سال یارو ایک اور بیتا
جو یہ بیتے تو ہم سمجھیں کہ جلدی اچھے دن آئے
حکومت جملہ بازان عدو کی ہم سے کہتی ہے
گلہ تم سے ہے ہم کو بس نہ اب مسلم کوئی آئے
تمہیں نے علم وعرفاں سے نوازامانتے ہیں ہم
مگر اک ملک ہم کو چاہئیے ہندو جو بن جائے
شعورعلم وفن سے ہم کونفرت ہے سنومتروں
نہ ڈیزل ان کا ہم لیں گےنہ پیٹروگیس اب آئے
چلیں نہ کار,طیارے اڑیں نہ, میرے بھارت میں
کہ ایندہن ان کا مسلم ہے ہمیں اس کی گھٹن کھائے
کھٹولہ اپنادیسی ہےاڑاؤاس کو اب یارو
پڑے نہ تیل اس میں کچھ نہ شوروشنگ کچھ آئے
غرورو تمکنت سے ہندو بھارت ہم بنائیں گے
سیکولرملک سے یارو تنک ہم کو شرم آئے


سیدنا حسن بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہماکاخطبۂ صلح

امام شعبی کہتے ہیں کہ جس دن سیدنا حسن رضی اللہ عنہ خود بخود معزول ہورہے تھےاور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح کررہے تھےاس وقت میں خود وہاں موجود تھا,آپ نے  اپنے خطبۂ صلح میں حمد وثنا کے بعد فرمایا:سب سے عقلمند صاف گو آدمی ہے,اور سب سےبےوقوف فاجروفاسق انسان ہے,جس چیز کے لیے میں اور معاویہ لڑ رہے تھے اس کے بارے میں میری وضاحت یہ ہے: اگر واقعی وہ اس کے مستحق تھےتو وہی مجھ سے زیادہ مناسب ہیں اور اگر میں اس کا حقدار تھاتو میں اب اپنا حق ان کے سپرد کرتاہوں اور میں اس قسم کا اقدام محض امت میں اتحاد پیدا کرنے کے لیے اور قوم کو خوں ریزی سے بچانے کے لیے کررہاہوں .لیکن مجھے اس کا بھی علم ہےکہ شایدیہ بات تمہارے لیے فتنہ کا باعث بن جائے.لیکن کب تک محض چند دن اشتعال رہے گاپھر اس کے بعد معاملہ دب جاے گا.
اس کے بعد آپ مدینہ میں رہنے لگےتو لوگوں نے آپ  کے اس طرح صلح کرنےپر تنقید کرنا شروع کردی.اس کے جواب میں آپ نے فرمایا:مین نے تین چیزوں میں سے تین چیزیں پسند کیں ہیں یعنی
١.انتشار امت کے مقابلے میں اتحاد ۲.خوں ریزی کے مقابلےمیں امت مسلمہ کے خون کی حفاظت,٣آگ( نار) کے مقابلےمیں عار.
(تاریخ اسلام)

کرامت Karamat

شیخ ابوالقاسم نے رسالہ قشیری کےباب کرامت اولیاء میں  لکھاہے کہ ابوحاتم سجستانی نے ابوالنصر سراج سے اور ابوالنصر نے حسین بن احمد رازی سے اور انہوں نے ابوسلیمان خواص سے سناکہ وہ ایک مرتبہ گدھے پر سوار ہوکر کہیں جارہے تھےاور گدھے کو مکھیاں پریشان کررہی تھیں جس کی بنا پر وہ بار بار اپنے سر کو جھٹکتاتھا میں اس کی اس حرکت پراس کو بار بار لکڑی سے مارتا تھاجب کافی دیر ہوگئ اور میں گدھے کو مارتا رہاتو گدھے نے میری طرف منھ کرکےکہا:مجھے بلا وجہ مارے جارہے ہوتمہارے سرپر بھی اسی طرح مار پڑے گی.حسین کہتے ہیں کہ میں نے خواص سے پوچھا کہ اے ابوسلیمان کیا واقعی گدھے نے تم سے بات کی تھی؟تو انہوں نے کہا:ہاں اور میں نے گدھے کی بات اس طرح سنی تھی جس طر ح تم میری بات سن رہےہو,