https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Friday 3 January 2020

منصور حلاجMansur Hallaj

حلاج کی وجہ تسمیہ

منصور کالقب حلاج پڑنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک روز کسی رویئ دھننے والے کے پاس  بیٹھے ہو یے اپنے کسی کام کےکرنے کی اس سے کہہ رہے تھےنداف یعنی رویئ دھننے والے نے کہا میں رویئ دھننے میں مصروف ہوں مجھے فرصت نہیں ,آپ نے فرمایا تم میراکام کردو میں تمہارا کام کردیتاہوں چنانچہ وہ راضی ہوگیا.اوروہ شیخ منصور کے کام سے چلاگیا,شیخ روئی دھننے میں مصروف ہوگیے جب وہ لوٹ کر آیا تو اس نے دیکھا جتنی روئی اس کے یہاں موجود تھی وہ سب دھنی ہویئ ہے. حالاں کہ وہ اتنی زیادہ تھی کہ اگر دس آدمی اسے کئ دن تک مل کر دھنتے تب بھی نہ دھن سکتے .اس دن سے شیخ کا لقب حلاج پڑگیا,حلاج کے معنی نداف کے بھی ہیں ,بعض حضرات کہتے ہیں کہ آپ تصوف کے اسرار و رموز بیان کرتے تھے اس لیے لوگ حلاج کہنے لگے,آپ اصلا ایرانی النسل ہیں نام حسین بن منصور تھا
ابن خلکان نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ جس دن آپ قتل کیے گیےاسی دن کسی دوست نے آپ کو خواب میں دیکھا کہ آپ گدھے پر سوار نہروان کی سڑک پر جارہے ہیں جسکی تعبیر انہوں نے اپنے مضروب و مقتول ہونے سے نکالی,

قتل کی وجہ

شیخ منصور کے قتل کی وجہ یہ ہے کہ  عباسی خلیفہ مقتدر باللہ  کے وزیر حامد بن عباس کی مجلس میں انہوں نے اپنی  زبان  سے ایسے الفاظ اداکیےجوبظاہر خلاف شرع تھے,اس دور کے قضاۃ اور مفتیان کرام نے فتوی دیدیاکہ انہیں قتل کردیا جایے,
جن باتوں کی بنا پر وہ واجب القتل گردانے گیے ان میں أنا الحق کہناہے,اس کے  علاوہ وہ  اپنے بارے میں کہتے تھے مافی الجبۃ الااللہ(جبہ میں سوایے اللہ کے کویئ نہیں)اس سے اپنے خدا ہونے کا دعوی ظاہر ہوتاہے,بعض حضرات کہتے ہیں کہ یہ جملے ان سے فرط محبت خداوندی میں سرزد ہویے.ان سے اچھے معانی بھی مراد لیے جاسکتے ہیں, اور ان اقوال کی مثال شاعر کے اس شعر کی سی ہے.
أنا من أهوى و من أهوى أنا
فإذا أبصرته أبصرتنا
میں وہ ہوں جس کو میں چاہتاہوں اور جس کو میں چاہتاہوں وہ میں ہی ہوں اے مخاطب اگر تونے اس کو یعنی میرے محبوب کو دیکھ لیاتو گویا تونےمجھ ہی کو دیکھ لیا,یعنی میں محبوب کی محبت میں اتنا محو ہوگیا ہوں کہ گویا ہم دونوں ایک جان دو قالب بن گیے ہیں .
منصور کے بارے میں علماء ومشائخ کی آراء مخلتف ہیں ,کچھ لوگ انہیں کافر قرار دیتے ہیں اور کچھ حضرات انہیں صاحب عظمت ولی کامل سمجھتے ہیں.

منصور حلاج کا واقعہ

جب شیخ منصور نے مذکورہ کلمات باربار دھرایے توقضاۃ و مفتیان کی ایک بڑی جماعت نے انہیں کافر اور واجب القتل قرار دیدیا لہذا خلیفہ مقتدر باللہ کے حکم پر شہر کوتوال  محمد بن عبد الصمد نے ان کی گرفتاری کا حکم دیدیا,لہذا کوتوال نے اس ڈرسے کہ کہیں لوگ ہنگامہ کرکے شیخ کو زبردستی چھڑانہ لیں رات کےوقت گرفتار کرلیا,منگل کےدن بتاریخ ۲۴ ذوالقعد ٣۰۹ ھ کو باب الطاق لیجایاگیا,ایک جم غفیر  کے سامنے سب سے پہلے جلاد نے ایک ہزار کوڑے لگایے,لیکن آپ نے اف تک نہ کی,پھر چاروں ہاتھ پاؤں کاٹے گیے اس پر بھی وہ خاموش رہے,اس کے بعد آپ کا سر تن سے جدا کردیاگیا,اور لاش کو جلاکر راکھ دریایے دجلہ میں بہادی گئ,آپ کاسر بغداد شہر کی ایک دیوار پر نصب کردیاگیا,پھر اسے شہر کے سبھی گلی کوچوں میں گھمایاگیا.

مریدین کی حالت

آپ کے رفقاء و مریدین اپنے دل کویہ کہہ کر تسلی دیتے رہے کہ آپ چالیس دن بعد واپس آجائیں گے.جس سال آپ کو بےدردی سے قتل کیاگیا اسی سال دریایے دجلہ میں زبردست طغیانی آیئ,آپ کے مریدین اور چاہنے والوں نے قتل کے بعد راکھ دریایے دجلہ میں بہانے  کو وجہ قرار دیا
آپ کے بعض معتقدین کاخیال تھا کہ آپ کو قتل نہیں کیا گیابلکہ آپ کے کسی دشمن کو
آپ کی صورت میں منتقل کرکےآپ کے بجایے وہ قتل ہوا اور آپ بچ گیے.
شیخ منصور کو جب قتل گاہ کی طرف لیجاگیا تو وہ چلتے چلتے بہ آواز درج ذیل اشعار پڑھ رہے تھے
طلبت  المسقر بكل أرض
فلم أر لى بأرض مستقرا
میں نے زمین کے ہر گوشے میں سکون تلاش کیالیکن کہیں بھی مجھےسکون میسر نہ آیا
أطعت مطامعى فاستبعدتني
ولوإنى قنعت لكنت حرا
میں لالچ میں مبتلا ہوگیا تولالچ میرا حاکم بن گیاکاش میں قناعت اختیار کرتا توبدستور آزاد رہتا
بعض نے لکھاہے کہ منصور حلاج قتل کے وقت یہ اشعار پڑھ رہے تھے
لم أسلم النفس للأسقام تتلفها
إلالعلمي بأن الموت يشفيها
میں اپنے آپ کو ایسی بیماریوں کے سپرد نہیں کرسکتاجو ہلاک کرنے والی ہیں بجز موت کے کیونکہ مجھے معلوم ہے
کہ اب علاج معالجہ کار آمد نہیں ہوسکتاموت میں ہی شفاہے.
ونظرة منك يا سوء لى ويا أملى
أشهى إلي من الدنيا وما فيها
اور اے وہ ذات جو میری حاجت روا ہےاور جس سے کہ میری امیدیں وابستہ ہیں,تیری ایک نظرمیرے نزدیک دنیا ومافیہا سے زیادہ مرغوب ہے.
نفس المحب على الآلام صابرة
لعل متلفيها يوما يداويها
عاشق کی جان تو مصایب پرصبر کرنے والی ہے,اس امید پر کہ شاید اس کوتلف کرنے والا ہی ایک دن اس کا معالج بن جایے.

شیخ منصور حلاج کے اصحاب

شیخ منصور ,شیخ جنید بغدادی کی صحبت میں رہے,شیخ شبلی اور دیگر مشائخ وقت سے بھی آپ نےاستفادہ کیا.

قتل گاہ کے اہم واقعات

جب آپ کو قتل گاہ کی طرف لایاگیااور آپ نے تختہ دار پر چڑھنے سے پہلے تختہ و میخوں کو دیکھا تو آپ قہقہہ لگاکر خوب ہنسے,پھر مجمع پر نظر ڈالی تو شیخ شبلی بھی وہاں موجود تھے,آپ نے ان سے دریافت کیا,ابوبکر !کیا آپ کے پاس جانماز ہے؟شبلی نے کہا ہاں, ہے,تو آپ نے کہا جانماز بچھائیں,چنانچہ شیخ شبلی نے جا نماز بچھادی.,شیخ منصور نے اس پر دورکعت نماز پڑھی,پہلی رکعت میں الحمد شریف اور یہ آیت ولنبلونکم بشئ من الخوف والجوع ونقص من الخ پڑھی دوسری رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعدکل نفس ذائقۃ الموت الخ.پڑھی اس کے بعد ایک طویل وظیفہ پڑھا.نماز سے فراغ ہویے توابوالحرث سیاف نےآپ کے ایک زوردار طمانچہ ماراجس سےناک اور چہرہ دونوں زخمی ہوگیے.یہ دیکھ کر شبلی پر وجد کی کیفیت طار ہوگئ,انہوں نے اپنے کپڑے پھاڑ لیے.اورزورسے چیخنے چلانے لگے,دیگر مشائخ شیخ ابوالحسن واسطی وغیرہ پر بھی غشی طار ہوگئ.قتل سے پہلے آپ نے فرمایا:میراخون تمہارے لیے مباح ہوگیاہے مجھے قتل کرڈالو,میرے قتل سے زیادہ اہم مسلمانوں کےلیے آج کے دن کویئ کام نہیں
,میراقتل حدوداللہ کے قیام اور شریعت کے مطابق ہےجوحدسے تجاوز کرے اس پر حد جاری ہونی چاہئے.
شیخ العارفین شیخ عبدالقادرجیلانی رحمہ اللہ اور امام غزالی نےمنصور کی برأت ظاہر کرتے ہوئے فرمایا,حلاج کو ہلاک کردیاگیا,اور کسی نے ان کی دستگیری نہیں کی,اگرمیں حلاج کے زمانے میں ہوتاتو ضرور اس کی مدد کرتا.
فارسی کادرج ذیل شعر اگرچہ منصور کے نام پر مشتمل ہے مگر ان کی طرح موت سے نڈر,بے باک اور بے خوف  لوگ  آج بہھی جانے انجانے میں پڑھ کر انہیں خراج عقیدت پیش کرتے رہتےہیں
وقتے ایست کہ آوازۂ منصور کہن شد
من ازسر نو جلوہ دہم دارورسن را
(تاریخ بغداد)
WWW.drmuftimohdamir.blogspot.com

No comments:

Post a Comment