https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Thursday 2 January 2020

حضرت سفیان ثوری اور ہارون رشید بادشاہ کے ما بین سبق آموز مراسلتCorrespondence between Caliph Harun Rasheed and Sufyan sauri

ہارون رشید جب خلیفہ بنے تو بہت سے علما ء کرام انہیں مبارکباد دینے پہنچے لیکن حضرت سفیا ثوری نہیں گیے حالاں کہ دونوں میں پہلے دوستی تھی اس سے ہارون رشید کو بہت تکلیف ہویی,چنانچہ انہوں نے حضرت سفیان ثوری کے نام درج ذیل خط لکھا
بسم اللہ الرحمان الرحیم
عبداللہ ہارون امیرالمومنین کی طرف سے اپنے بھایی سفیان ثوری کی طرف
بعد سلام, آپ جانتے ہیں کہ اللہ تعالی نے مومنین کے درمیان ایسی بھایی چارگی اور محبت رکھی ہےجسے میں نہ توڑ سکتاہوں اورنہ اس سے جدا ہوسکتاہوں خلافت کایہ طوق اللہ نے جو میرے گلے میں ڈالاہےاگر یہ میرے گلے میں نہ ہوتاتو میں ضرور آپ کی محبت کی بناپر آپ کے پاس خود آتا.اگر چلنے سے معذور ہوجاتاتو گھسٹ کر آتا.اب جب مجھے خلافت کی ذمہ داری سپرد ہویی تو میرے سبھی دوست احباب مجھے مباکباد دینےکے لیے آیے ہیں میں نے ان کے لیے اپنے خزانے کے منھ کھول دیے,اور نہایت قیمتی چیزوں کا عطیہ دےکراپنے دل اور ان کی آنکھوں کو ٹھنڈاکیا.لیکن آپ تشریف نہیں لایے جب کہ مجھے آپ کا بے صبری سے انتظار تھا,یہ خط آپ کومحبت کی بناپر بڑے ذوق و شوق سے لکھ رہاہوں,ابو عبداللہ! آپ خوب اچھی طرح سے جانتے ہیں مومن سے ملاقات اور مواصلت کی کیا فضیلت ہے.لہذا آپ سے التماس ہے کہ جیسے ہی میرا یہ خط آپ کو ملے تو جتنی جلد ممکن ہو آپ تشریف لایں.
ہارون رشید نے یہ خط عباد طالقانی نام کے ایک شخص کے سپرد کیااور کہایہ خط سفیان ثوری کو پہنچادو,انہیں کے ہاتھ میں دینا کسی اور کے نہیں,اور وہ جو بھی جواب دیں اسے غورسے سننا وہ کہتے ہیں کہ میں یہ خط لےکر کوفہ روانہ ہوا جہاں سفیان ثوری رہتے تھے.آپ مسجد میں تھےآپ مجھے دور سے ہی دیکھ کر کھڑہے ہو گیے  اور کہنے لگے
اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم.واعوذ باللہ من طارق یطرق الابخیر.یعنی میں شیطان مردود سے اللہ کی پناہ چاہتاہوں اور اللہ کی پنا ہ چاہتاہوں اس شخص سے جو رات میں آتاہے سواے اس کے کہ وہ کویی خیر لے کر آیے.
عباد طالقانی کہتے ہیں کہ جب میں مسجد کے دروزے پر اپنے گھوڑے سے اتراتو حضرت سفیان ثوری نماز پڑہنے کھڑے ہو گیے.حالاں کہ اس وقت کسی نماز کاوقت نہیں تھا,لہذامیں اس کے بعد ان کی مجلس میں حاضر ہوااور سلام کیا وہاں پر موجود کسی نے بھی میرے سلام کا جواب نہ دیا. نہ مجھ سے بیٹھنے کے لیے کہا.حتی کہ میری طرف نظر اٹھاکر دیکھنے کی زحمت بھی گوارہ نہ کی.اس سے مجھ پر کپکپی طاری ہوگیی.اور بدحواسی کی سی کیفیت میں میں نے وہ خط حضرت سفیان ثوری کی طرف پھینک دیا.آپ کی نظر جیسے ہی اس پرپڑی تو وہ ڈر گیےاور خط سے دور ہٹ گیے.گویاوہ کویی سانپ ہو,پھر کچھ دیر بعدحضرت سفیان ثوری نےاپنی آستین کے کنارے سے وہ خط اٹھایااور پیچھیے بیٹھے ہویے ایک شخص کی طرف پھینکااور کہا تم میں سی کویئ اسے پڑ ھ کر سنائےکیوں کہ میں اللہ سے کسی ایسی چیز کے چھونے سے پناہ مانگتاہوں جسے کسی ظالم نے چھو رکھا ہو.لہذا حاضرین میں سے ایک شخص نےوہ خط کھولا اس طرح کے اس کے ہاتھ کانپ رہے تھےپھر اس نے وہ پڑھ کرسنایااسے سن کرحضرت سفیان ثوری عجیب سے انداز میں مسکرایے اور کہا اس خط کے پیچھے کی طرف ہی اس کا جواب بھی لکھ دوحاضرین میں سے ایک شخص بولا حضرت وہ خلیفہ وقت ہیں کسی صاف  کورے کاغذ پر جواب لکھواکر بھیجنا مناسب تھا,حضرت سفیان ثوری نے فرمایا نہیں اسی کی پشت پر جواب لکھ دو.کیوں اگراس نے یہ کاغذ حلال کمایی سے لیا ہے جس کابدلہ دیاجایے گااور اگر حرام کمایی سے ہے تو عنقریب اس کا بھی بدلہ دیاجایے گا.ہمارے پاس کویی ایسی چیزنہ ہونی چاہیے جسے کسی ظالم نے چھواہوکیونکہ اس سے دین میں خرابی آتی ہے.
پھر سفیان ثوری نے درج ذیل جواب لکھوایا:بسم اللہ الرحمان الرحیم
سفیان کی طرف سے اس شخص کی طرف جس سے ایمان  کی مٹھاس اورقرات قرآن کی دولت کو چھین لیا گیا.بعد سلام مسنون,یہ خط تم کو اس لیے لکھ رہاہوں تاکہ تمہیں معلوم ہوجایےکہ میں نے تم سے اپنا دینی رشتہ بھایی چارگی اور محبت کاتوڑدیاہے.اور تم نے اپنے خط میں اس بات کا خود اقرار کیا ہے کہ آپ نے اپنے دوست احباب پر شاہی خزانےکو خوب لٹایاہے.لہذا میں اس کا گواہ ہوں کہ تم نے مسلمانوں کی بغیر اجازت کے اپنے احباب پر خرچ کیا,اور اس پر طرہ یہ کہ تم اس بات کے آرزومندہوکہ میں تمہارے پاس آوں لیکن یاد رکھو میں اس کے لیے کبھی راضی نہ ہوؤنگا.میں اور میرے اہل مجلس جس نے بھی تمہارے خط کوسناوہ سب تمہارےخلاف گواہی دینے کے لیے ان شاء اللہ کل قیامت دن اللہ کی عدالت میں حاضرہوں گےکہ تم  نے مسلمانوں کے مال کو غیر مستحق لوگوں پر خرچ کیا.
ہارون!ذراتم یہ معلوم کروکہ تمہارےاس فعل پر اہل علم,قرآن کی خدمت کرنے والے,یتیم ,بیوہ ,مجاہدین,عاملین سب راضی تھے کہ نہیں؟کیونکہ میرے نزدیک مستحق اور غیر مستحق سب کی اجازت لینا ضروری تھی.لہذا تم ان سب باتوں کاروزقیامت جواب دینے کے لیے کمر کس لو,کیونکہ عنقریب تمہیں اللہ جل شانہ کے سامنے حاضر ہونا ہے.جو عادل ہے حکمت والاہے.لہذا اپنے نفس کو اللہ سے ڈراؤ,جس نے قرآن کی تلاوت, علم کی مجالس کو چھوڑ کرظلم اور ظالموں کا سردار بننا قبول کیا.
ہارون!اب تم سریر پر بیٹھنے لگےاور تمہارالباس حریر ہوگیا.اور تم نے ایسالشکر جمع کرلیا جو لوگوں پر ظلم کرتا ہے.اور تم خود بھی انصاف نہیں کرتے.تمہارے یہ لوگ شراب پیتے ہیں مگر تم حد,دوسروں پر جاری کرتے ہو,تمہارے لشکری چوری کرتے ہیں مگر تم ہاتھ بے قصور دوسرے لوگوں کا کاٹتے ہو.تمہارے افسران قتل عام کرتے ہیں اور تم خاموش تماشایی بنے رہتے ہو.ہارون کل میدان حشرمیں کیا حالت یوگی جب اللہ کی طرف سے پکارنے والاپکارے گاکہ ظالموں کو اور ان کے ساتھیوں کو حاضر کرو,تو تم اس حال میں آگے بڑھو گے کہ تمہارے دونوں ھاتھ گردن سے بندھے ہویے ہوں گے.اورتمیارے اردگرد ظالم اور تمہارے مددگار ہوں گے.انجام کارتم ان ظالموں کے امام بن کر دوزخ میں جاؤگے.اس دن تم اپنی بھلایاں تلاش کروگے تو وہ دوسروں کی میزان میں ہوں گی.اور تمہارے پلڑے میں براییاں ہی براییاں نظر آییں گی.اور تمہیں کچھ نظر نہ آیے گا.ہر طرف اندھیراہی اندھراہوگا,لہذاابھی وقت ہے کہ تم اپنی رعایاکے ساتھ انصاف کرو,اور یہ یاد رکھو یہ بادشاہت تمہارے پاس ہمیشہ نہیں رہےگی.یہ یقینا دوسروں کے پاس چلی جایے گی.اس سے بہت سے لوگ اپنی آخرت برباد کرلیتے ہیں اور بہت سے لوگ دنیاوآخرت سنوار لیتے ہیں اور بعض لوگ دنیا وآخرت دونوں کو برباد کرلیتےہیں.اور یہ بات غور سے سنوآیندہ مجھے کبھی خط مت لکھنااور اگر تم نے کویی خط لکھا بھی تو مجھ سے کسی جواب کی توقع نہ رکھنا.
والسلام
خط مکمل ہونے کے بعد حضرت سفیان ثوری نے وہ خط میری طرف پھنکوایانہ اس پر اپنی مہر لگایی نہ اسے چھواخط کامضمون سن کر میری حالت بدل گیی چنانچہ میں نے کوفے کے بازار میں آوازلگایی کہ کویی ایساشخص کا خریدار ہے جوایسے آدمی کو خرید سکے جواللہ کی طرف جارہاہے.لوگ یہ سن کر میرے پاس دینار ودرہم لے کر آیے.میں نے کہا مجھے ان کی ضرورت نہیں مجھے تو بس ایک جبہ اور عبا چاہییے,لوگوں نے یہ چیزیں مجھے لاکردیدیں. میں نے اپناوہ قیمتی زیوراتاردیاجسے ہارون رشیدکے دربار میں جاتےوقت پہنتاتھا.اور گھوڑابھی ہنکادیا اس کےبعد ننگے سر اور پیدل ہارون رشید کے محل کےدروازےتک پہنچا,لوگوں نے میری جوحالت دیکھی تو میرامذاق اڑایااور اندر جاکر ہارون سے میری حاضری کی اجازت لی.میں اندر گیا ہارون نے جیسے ہی مجھے دیکھا کھڑاہوگیا,اور اپنے سر پر ہاتھ مارتے ہویے کہنے لگا وایے بربادی,وایے خرابی,قاصدآباد ہوگیا,اور بھیجنے والا محروم ہوگیا اب  دنیا کی کیا ضرورت ہے, پھر جلدی سے مجھ سے جواب مانگا,میں نے وہ خط اسی طرح ہارون رشید کی طرف اچھال دیا جیسے سفیان ثوری نے میری طرف پھنکوایاتھا,ہارون نے فوراََجھک کر وہ خط ادب سے اٹھالیااور جواب پڑھنا شروع کیا,پڑھتے پڑھتے آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ گیی حتی کہ ہچکی بند گیی.ہارون کی یہ حالت دیکھ کر کسی نے اہل دربار میں سے کہا,سفیان کی یہ جرات جو امیرالمومنین کو ایسا لکھیں ہارون نے جواب دیا, اے مغرور,دنیا کے غلام,سفیان کو کچھ مت کہو,ان کو ان کی حالت پر رہنے دو,خداکی قسم دنیا نے ہمیں دھوکے میں ڈال رکھاہے اور بدبخت بنادیاہے.تمہارے لیے میرا مشورہ یہ ہے کہ تم سفیان کی مجالس میں جایاکرو کیونکہ اس وقت سفیان ہی حضور کے حقیقی امتی ہیں,عباد طالقانی کہتے ہیں کہ اسکے بعد ہارون رشید کی یہ حالت تھی کہ وہ سفیان کے خط کو ہر وقت اپنے پاس رکھتے اور ہر نماز کے بعد اس کو پڑھتے اور خوب روتے یہاں تک کہ وفات ہوگیی.
حیاۃالحیوان الکبری جلد اول تحت الفرس

No comments:

Post a Comment