ارشادِ باری تعالیٰ ہے : ﴿مَنۡ یُّطِعِ الرَّسُوۡلَ فَقَدۡ اَطَاعَ اللّٰہَ ۚ ﴾
سیدنا عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ لوگ قُبا (مدینے) میں فجر کی نماز پڑھ رہے تھے کہ ایک شخص نے آکر کہا: رسول اللہ ﷺ پر آج کی رات قرآن نازل ہوا ہے اور کعبہ کی طرف رُخ کرکے نماز پڑھنے کا حکم آگیا ہے ۔ پس سارے نمازی جو شام کی طرف رخ کئے نماز پڑھ رہے تھے، نماز ہی میں کعبہ کی طرف مڑ گئے۔(مؤطا امام مالک روایۃ ابن القاسم بتحقیقی : ۲۷۷ و سندہ صحیح، روایۃ یحییٰ بن یحییٰ ۱۹۵/۱ ح ۴۶۰ ، صحیح البخاری: ۴۰۳ و صحیح مسلم: ۵۲۶)
نبی کریم ﷺ نے عیسائیوں کے بادشاہ ہرقل کی طرف دعوتِ اسلام کے لئے جو خط بھیجا تھا، اسے سیدنا دحیہ الکلبیؓ کے ہاتھ بھیجا تھا۔ (دیکھئے صحیح بخاری: ۷)
حافظ ابن الصلاح الشہرزوری لکھتے ہیں: “صحیحین میں جتنی احادیث (حدثنا کے ساتھ بیان کردہ) ہیں وہ قطعی طور پرصحیح ہیں کیونکہ امت (اجماع کی صورت میں) معصوم عن الخطأ ہے لہٰذا جسے امت نے صحیح سمجھا ہے اس پر عمل (اور ایمان) واجب ہے اور یہ ضروری ہے کہ یہ روایات حقیقت میں بھی صحیح ہی ہیں۔”اس پرمحی الدین نووی کا اختلاف ذکر کرنے کے باوجود حافظ ابن کثیر الدمشقی لکھتے ہیں: “اور یہ استنباط اچھا ہے ….. میں اس مسئلے میں ابن الصلاح کے ساتھ ہوں، انہوں نے جو کہا اور راہنمائی کی ہے (وہی صحیح ہے)واللہ اعلم ” (اختصار علوم الحدیث مع تحقیق الشیخ الالبانی ج ۱ ص ۱۲۵،۱۲۶)
حافظ ابن کثیرؒ مزید فرماتے ہیں:
“اس کے بعد مجھے ہمارے استاد علامہ ابن تیمیہ کا کلام ملا جس کا مضمون یہ ہے :جس حدیث کو (ساری ) امت کی (بالاجماع) تلقی بالقبول حاصل ہے ، اس کا قطعی الصحت ہونا ائمہ کرام کی جماعتوں سے منقول ہے ۔ ان میں قاضی عبدالوہاب المالکی، شیخ ابوحامد الاسفرائنی، قاضی ابوالطیب الطہری اور شافعیوں میں سے شیخ ابواسحاق الشیرازی ، حنابلہ میں سے (ابوعبداللہ الحسن) ابن حامد (البغدادی الوراق)، ابویعلیٰ ابن الفراء، ابوالخطاب، ابن الزاغونی اور ان جیسے دوسرے علماء ، حنفیہ میں سے شمس الائمہ السرخسی سے یہی بات منقول ہے ۔ (کہ تلقی بالقبول والی احادیث قطعی الصحت ہیں)ابن تیمیہ (رحمہ اللہ) نے فرمایا : اشاعرہ (اشعری فرقے ) کے جمہور متکلمین مثلاً ابواسحاق الاسفرائنی اور ابن فورک کا یہی قول ہے …. اور یہی تمام اہل حدیث (محدثینِ کرام اور ان کے عوام ) اور عام سلف الصالحین کا مذہب (دین) ہے ۔ یہ بات ابن الصلاح نے بطورِ استنباط کہی تھی جس میں انہوں نے ان اماموں کی موافقت کی ہے ” (اختصار علوم الحدیث ج ۱ص ۱۲۸،۱۲۷)
جو حدیث نبی کریم ﷺ سے ثابت ہوجائے ، اس کے بارے میں امام شافعیؒ فرماتے ہیں : اسے ترک کرنا جائز نہیں ہے۔ (مناقب الشافعی للبیہقی ج۱ ص ۴۸۳ و سندہ صحیح)
امام شافعیؒ فرماتے تھے “متی رویتُ عن رسول اللہ ﷺ حدیثًا صحیحًا فلم آخذ بہ والجماعۃ۔ فأشھد کم أن عقلي قد ذھب“جب میرے سامنے رسول اللہ ﷺ کی صحیح حدیث بیان کی جائے اور میں اسے (بطورِ عقیدہ و بطورِ عمل ) نہ لوں تو گواہ رہو کہ میری عقل زائل ہوچکی ہے ۔ (مناقب الشافعی ج ۱ص ۴۷۴ و سندہ صحیح)
امام اہل سنت امام احمد بن حنبلؒ نے فرمایا: جس نے رسول اللہ ﷺ کی (صحیح ) حدیث رد کی تو وہ شخص ہلاکت کے کنارے پر (گمراہ) ہے۔ (مناقب احمد ص ۱۸۲، وسندہ حسن، الحدیث : ۲۶ ص۲۸)
عبدالحئی لکھنوی لکھتے ہیں : “أما بالخبر الواحد فقال بجوازہ الأئمۃ الأربعۃ“قرآن کی خبر واحد(صحیح) کے ساتھ تخصیص ائمہ اربعہ کے نزدیک جائز ہے ۔ (غیث الغمام ص ۲۷۷)
This comment has been removed by the author.
ReplyDeleteجزاکلہ
ReplyDelete