https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Monday 1 November 2021

خبرواحد پرعمل کرناواجب ہے

 ارشادِ باری تعالیٰ ہے : ﴿مَنۡ یُّطِعِ الرَّسُوۡلَ فَقَدۡ اَطَاعَ اللّٰہَ ۚ 

          جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی۔ (النسآء: ۸۰)
اس آیتِ کریمہ و دیگر آیات سے رسولِ کریم ﷺ کی اطاعت کا فرض ہونا ثابت ہے ۔
          سیدنا عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ لوگ قُبا (مدینے) میں فجر کی نماز پڑھ رہے تھے کہ ایک شخص نے آکر کہا: رسول اللہ ﷺ پر آج کی رات قرآن نازل ہوا ہے اور کعبہ کی طرف رُخ کرکے نماز پڑھنے کا حکم آگیا ہے ۔ پس سارے نمازی جو شام کی طرف رخ کئے نماز پڑھ رہے تھے، نماز ہی میں کعبہ کی طرف مڑ گئے۔(مؤطا امام مالک روایۃ ابن القاسم بتحقیقی : ۲۷۷ و سندہ صحیح، روایۃ یحییٰ بن یحییٰ ۱۹۵/۱ ح ۴۶۰ ، صحیح البخاری: ۴۰۳ و صحیح مسلم: ۵۲۶)
معلوم ہوا کہ صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین عقیدے میں بھی صحیح خبرواحدکو حجت سمجھتے تھے۔
          نبی کریم ﷺ نے عیسائیوں کے بادشاہ ہرقل کی طرف دعوتِ اسلام کے لئے جو خط بھیجا تھا، اسے سیدنا دحیہ الکلبیؓ کے ہاتھ بھیجا تھا۔ (دیکھئے صحیح بخاری: ۷)
          اس سے معلوم ہوا کہ صحیح خبر واحد ظنی نہیں ہوتی بلکہ یقینی، قطعی اور حجت ہوتی ہے ۔
حافظ ابن الصلاح الشہرزوری لکھتے ہیں:          “صحیحین میں جتنی احادیث (حدثنا کے ساتھ بیان کردہ) ہیں وہ قطعی طور پرصحیح ہیں کیونکہ امت (اجماع کی صورت میں) معصوم عن الخطأ ہے لہٰذا جسے امت نے صحیح سمجھا ہے اس پر عمل (اور ایمان) واجب ہے اور یہ ضروری ہے کہ یہ روایات حقیقت میں بھی صحیح ہی ہیں۔”اس پرمحی الدین نووی کا اختلاف ذکر کرنے کے باوجود حافظ ابن کثیر الدمشقی لکھتے ہیں:          “اور یہ استنباط اچھا ہے ….. میں اس مسئلے میں ابن الصلاح کے ساتھ ہوں، انہوں نے جو کہا اور راہنمائی کی ہے (وہی صحیح ہے)واللہ اعلم ” (اختصار علوم الحدیث مع تحقیق الشیخ الالبانی ج ۱ ص ۱۲۵،۱۲۶)

حافظ ابن کثیرؒ مزید فرماتے ہیں: 

“اس کے بعد مجھے ہمارے استاد علامہ ابن تیمیہ کا کلام ملا جس کا مضمون یہ ہے :جس حدیث کو (ساری ) امت کی (بالاجماع) تلقی بالقبول حاصل ہے ، اس کا قطعی الصحت ہونا ائمہ کرام کی جماعتوں سے منقول ہے ۔ ان میں قاضی عبدالوہاب المالکی، شیخ ابوحامد الاسفرائنی، قاضی ابوالطیب الطہری اور شافعیوں میں سے شیخ ابواسحاق الشیرازی ، حنابلہ میں سے (ابوعبداللہ الحسن) ابن حامد (البغدادی الوراق)، ابویعلیٰ ابن الفراء، ابوالخطاب، ابن الزاغونی اور ان جیسے دوسرے علماء ، حنفیہ میں سے شمس الائمہ السرخسی سے یہی بات منقول ہے ۔ (کہ تلقی بالقبول والی احادیث قطعی الصحت ہیں)ابن تیمیہ (رحمہ اللہ) نے فرمایا : اشاعرہ (اشعری فرقے ) کے جمہور متکلمین مثلاً ابواسحاق الاسفرائنی اور ابن فورک کا یہی قول ہے …. اور یہی تمام اہل حدیث (محدثینِ کرام اور ان کے عوام ) اور عام سلف الصالحین کا مذہب (دین) ہے ۔ یہ بات ابن الصلاح نے بطورِ استنباط کہی تھی جس میں انہوں نے ان اماموں کی موافقت کی ہے ” (اختصار علوم الحدیث ج ۱ص ۱۲۸،۱۲۷)

جو حدیث نبی کریم ﷺ سے ثابت ہوجائے ، اس کے بارے میں امام شافعیؒ فرماتے ہیں : اسے ترک کرنا جائز نہیں  ہے۔ (مناقب الشافعی للبیہقی ج۱ ص ۴۸۳ و سندہ صحیح)
امام شافعیؒ فرماتے تھے “متی رویتُ عن رسول اللہ ﷺ حدیثًا صحیحًا فلم آخذ بہ والجماعۃ۔ فأشھد کم أن عقلي قد ذھبجب میرے سامنے رسول اللہ ﷺ کی صحیح حدیث بیان کی جائے اور میں اسے (بطورِ عقیدہ و بطورِ عمل ) نہ لوں تو گواہ رہو کہ میری عقل زائل ہوچکی ہے ۔ (مناقب الشافعی ج ۱ص ۴۷۴ و سندہ صحیح)
          معلوم ہواکہ امام شافعی کے نزدیک، صحیح حدیث پر عمل نہ کرنے والا شخص پاگل ہے ۔

امام شافعی خبر واحد (صحیح) کو قبول کرنا فرض سمجھتے تھے ۔ (دیکھئے جماع العلم للشافعی ص ۸ فقرہ: ۱)

امام شافعیؒ نے امام احمد بن حنبلؒ سے فرمایا: تم ہم سے زیادہ صحیح حدیثوں کو جانتے ہو، پس اگر خبر (حدیث) صحیح ہو تو مجھے بتا دینا تاکہ میں اس پر عمل کروں چاہے (خبر) کوفی، بصری یا شامی ہو۔ (حلیۃ الاولیاء ۱۷۰/۹ ، وسندہ صحیح ، الحدیث : ۲۵ ص ۳۲)

          معلوم ہوا کہ صحیح حدیث چاہے صحیح بخاری و صحیح مسلم میں ہو یا سنن اربعہ و مسند احمد وغیرہ میں ہو یا دنیا کے کسی معتبر و مستند کتاب میں صحیح سند سے موجود ہو تو اس پر ایمان لانا اور عمل کرنا فرض ہے ۔ اسے ظنی ، خبر واحد، مشکوک ، اپنی عقل کے خلاف یا خلافِ قرآن وغیرہ کہہ کر رد کردنیا باطل ، مردود اور گمراہی ہے ۔
امام اہل سنت امام احمد بن حنبلؒ نے فرمایا: جس نے رسول اللہ ﷺ کی (صحیح ) حدیث رد کی تو وہ شخص ہلاکت کے کنارے پر (گمراہ) ہے۔ (مناقب احمد ص ۱۸۲، وسندہ حسن، الحدیث : ۲۶ ص۲۸)
امام مالکؒ کے سامنے ایک حدیث بیان کی گئی تو انہوں نے فرمایا : ” یہ حدیث حسن ہے ، میں نے یہ حدیث اس سے پہلے کبھی نہیں سنی” اس کے بعد امام مالکؒ اسی حدیث کے مطابق فتویٰ دیتے تھے ۔ (تقدمۃ الجرح و التعدیل لابن ابی حاتم ص ۳۱،۳۲ ج۱، وسندہ حسن)

امام ابوحنیفہؒ کے بارے میں حنفی علماء یہ کہتے ہیں کہ صحیح حدیث ان کا مذہب تھا۔
عبدالحئی لکھنوی لکھتے ہیں : “أما بالخبر الواحد فقال بجوازہ الأئمۃ الأربعۃ

          قرآن کی خبر واحد(صحیح) کے ساتھ تخصیص ائمہ اربعہ کے نزدیک جائز ہے ۔ (غیث الغمام ص ۲۷۷)


معلوم ہوا کہ زمانۂ تدوینِ حدیث کے بعد، اصولِ حدیث کی رُو سے صحیح روایت کو ایمان ، عقائد ، صفات اور احکام وغیرہ سب مسائل میں قبول کرنا فرض ہے ۔

2 comments: