https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Monday 25 March 2024

شرکت میں نفع کے حصول کا طریقہ

 جس کاروبار میں شراکت کی گئی ہے اگر وہ جائز اور حلال ہے تو مذکورہ شراکت درست ہے،البتہ یہ شراکت نفع اور نقصان دونوں کی بنیاد پر ہوگی۔

نفع کی تعیین فیصد/حصص کے اعتبار سے کی جائے گی،مثلاً نفع دونوں کے درمیان آدھا آدھا ہوگا، یا کسی ایک فریق کے لیے ساٹھ فیصد اور دوسرے کے لیے چالیس فیصد یادونوں کے سرمایہ کے بقدرنفع تقسیم کیاجائے، یااگر دونوں شریک کام کرتے ہوں اور ایک شریک زیادہ محنت کرتاہے یاکاروبار کوزیادہ وقت دیتاہے تو اس کے لیے نفع کی شرح باہمی رضامندی سے بڑھانادرست ہے، اورنفع کے حصول کےیہ طریقے جائز ہیں۔ اگر دونوں شریک ہیں، لیکن ایک شریک کام کرتاہے دوسرا شریک کام نہیں کرتا تو جو کام کرتاہے اس کے لیے نفع کا تناسب سرمائے کے تناسب سے زیادہ مقرر کرنا درست ہوگا، لیکن جو شریک کام نہیں کرتا اس کے لیے نفع کا تناسب اس کے سرمائے سے زیادہ مقرر کرنا جائز نہیں ہوگا، بلکہ ایسی صورت میں سرمائے کے تناسب سے نفع تقسیم ہوگا۔

البتہ کاروبار میں رقم لگاکر نفع کو متعین کردینامثلاً یہ کہناکہ ہر  مہینے یا اتنی مدت بعد مجھے نفع کے طور پر اتنی رقم دی جائے، یا انویسمنٹ کا اتنا فیصد دیا جائے  یہ طریقہ درست نہیں ہے۔حاصل یہ ہے کہ  متعین نفع مقرر کر کے شراکت داری کرنا شرعاً ممنوع ہے۔

اسی طرح نقصان میں بھی شریک ہوناشرکت کے جواز کے لیے شرط ہے،  یعنی سرمائے کے تناسب سے ہر ایک شریک نقصان میں بھی شریک ہوگا۔ یا اگر مضاربت کی صورت میں عقد ہوا ہو تو اس کا حکم یہ ہے کہ اولاً خسارہ نفع میں سے پورا کیا جائے گا، اگر خسارہ پورا ہونے کے بعد بھی کچھ نفع باقی رہتاہے تو نفع کا جو تناسب باہمی رضامندی سے طے ہوا ہو ، اسی اعتبار سے بقیہ نفع تقسیم کیا جائے گا، اور اگر کل نفع خسارے میں چلا گیا تو مضارب (ورکنگ پارٹنر) کو کچھ نہیں ملے گا، اور سرمایہ دار کو بھی نفع نہیں ملے گا، اور اگر نفع کے ساتھ ساتھ سرمائے میں سے بھی کچھ رقم یا کل رقم ڈوب گئی تو رب المال (سرمایہ دار) کو نقصان برداشت کرنا پڑے گا، بشرطیکہ مضارب کی طرف سے تعدی ثابت نہ ہو۔

نیز دونوں شریکوں میں سے ہر ایک کو شرکت ختم کرنے کا اختیار ہوگا،جب جو فریق چاہے شرکت ختم کرسکتاہے۔اور شرکت ختم کرنے کی صورت میں سرمایہ سے خریداجانے والا جو سامان ہوگا اس مشترکہ سامان کی قیمت لگاکر ہر ایک کا حصہ اور منافع اپنی اپنی سابقہ شرائط کے مطابق تقسیم کرلیں گے، اور چاہے تو ہر ایک شریک اپنے موجود سرمایہ کی رقم کے بقدر سامان لے لے یا دوسرا فریق باہمی رضامندی سے سامان اپنے پاس رکھ کر نقد رقم دے دے دونوں صورتیں درست ہیں۔(امدادالاحکام ص:340)

لیکن یہ شرط رکھ کر شرکت کرنا کہ جب شرکت ختم ہوگی بہرصورت  میں اپنی مکمل رقم واپس لوں گا،  یعنی نقصان میں شریک نہ ہونا، یہ صورت  ناجائز ہے اور اس صورت میں حاصل کیاجانے والانفع بھی حلال نہیں ہے

البحرالرائق میں ہے :

"(قوله: وتصح مع التساوي في المال دون الربح وعكسه ) وهو التفاضل في المال والتساوي في الربح  وقال زفر والشافعي: لايجوز؛ لأن التفاضل فيه يؤدي إلى ربح ما لم يضمن فإن المال إذا كان نصفين والربح أثلاثاً فصاحب الزيادة يستحقها بلا ضمان؛ إذ الضمان بقدر رأس المال؛ لأن الشركة عندهما في الربح كالشركة في الأصل، ولهذا يشترطان الخلط فصار ربح المال بمنزلة نماء الأعيان؛ فيستحق بقدر الملك في الأصل.

ولنا قوله عليه السلام: الربح على ما شرطا، والوضيعة على قدر المالين. ولم يفصل؛ ولأن الربح كما يستحق بالمال يستحق بالعمل كما في المضاربة، وقد يكون أحدهما أحذق وأهدى أو أكثر عملاً فلايرضى بالمساواة؛ فمست الحاجة إلى التفاضل. قيد بالشركة في الربح؛ لأن اشتراط الربح كله لأحدهما غير صحيح؛ لأنه يخرج العقد به من الشركة، ومن المضاربة أيضاً إلى قرض باشتراطه للعامل، أو إلى بضاعة باشتراطه لرب المال، وهذا العقد يشبه المضاربة من حيث أنه يعمل في مال الشريك ويشبه الشركة اسماً وعملاً فإنهما يعملان معاً، فعملنا بشبه المضاربة وقلنا: يصح اشتراط الربح من غير ضمان وبشبه الشركة حتى لاتبطل باشتراط العمل عليهما. وقد أطلق المصنف تبعاً للهداية جواز التفاضل في الربح مع التساوي في المال، وقيده في التبيين وفتح القدير بأن يشترطا الأكثر للعامل منهما أو لأكثرهما عملاً". (5/188)

No comments:

Post a Comment