https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Tuesday 16 April 2024

گونگے کا قبول اسلام

 خرس" یعنی: گونگا پن، ایسی کیفیت کو کہتے ہیں جس میں انسان  بیماری کی وجہ سے  یا پیدائشی طور پر بول نہ سکے، عربی میں گونگے مرد کو "اخرس" اور مؤنث کو: "خرساء" کہتے ہیں"۔

"لسان العرب" (6/ 62)

چنانچہ کلمہ شہادت پڑھنے سے عاجز کسی گونگے شخص پر کلمہ شہادت کی ادائیگی  کرنا اسلام میں داخل ہونے کیلئے ضروری نہیں ہے۔

اسی کے حکم میں عجمی جو عربی کی ادائگی سے قاصر ہو، اور کلمہ شہادت پڑھنے سے عاجز افراد بھی شامل ہونگے، ایسے ہی دیگر زبانی عبادات کا بھی یہی حکم ہوگا، کیونکہ اس قسم کے لوگوں کے پاس زبانی عبادت کی استطاعت نہیں ہے۔

ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"شریعت کے قواعد و کلّیات میں یہ بھی شامل ہے کہ: "عاجز ہونے کی صورت میں کچھ  واجب نہیں ، اور ضرورت  کے وقت کچھ حرام نہیں"" انتہی
"اعلام الموقعین" (2/ 17)

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"زبان سے تلفظ ادا کرنا کسی گونگے شخص  کے ایمان لانے کی شرط نہیں ہے" انتہی
"المسائل والأجوبة" (صفحہ: 131)

قاضی عیاض رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اہل السنہ کا یہ موقف ہے کہ: معرفت الہی  کلمہ شہادت کے ساتھ منسلک ہے، دونوں ایک دوسرے کیلئے لازمی ہیں، کوئی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتا، الّا کہ جس شخص کی زبان کٹی ہوئی ہو، یا اسے کلمہ شہادت پڑھنے کی  مہلت ہی نہیں ملی کہ فوت ہو گیا[اس کیلئے کلمہ شہادت کا زبان سے تلفظ لازمی نہیں ہے]" انتہی
"اكمال المعلم بفوائد مسلم"(1/ 253-254)

گونگا شخص  اگر لکھنے کی استطاعت رکھتا ہو تو لکھ کر اسلام قبول کریگا، یا اشاروں کی مدد سے اسلام میں داخل ہونے  پر رضا مندی اور اسلام قبول کرنے کا اظہار کریگا۔

مسند احمد: (7906) اور ابو داود: (3284) میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: "ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک سیاہ لونڈی لیکر آیا جو کہ بول نہیں سکتی تھی، اس شخص نے آ کر کہا: "یا رسول اللہ! میرے ذمہ ایک مؤمن غلام کو آزاد کرنا ہے[اور میں اس لونڈی کو آزاد کرنا چاہتا ہوں]"تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لونڈی سے پوچھا: (اللہ تعالی کہاں ہے؟)تو اس لونڈی نے اپنی شہادت والی انگلی سے آسمان کی طرف اشارہ کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: (میں کون ہوں؟)تو اس لونڈی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اور آسمان کی طرف اشارہ کیا، یعنی: آپ اللہ کے رسول ہیں، تو اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اسے آزاد کر دو)" اس حدیث کو امام ذہبی نے "العلو" (صفحہ:16) میں حسن کہا ہے، اور البانی نے اسے "ضعیف ابو داود "میں  ضعیف قرار دیا ہے۔

صاحب کتاب : "جواهر الإكليل" میں اُبی رحمہ اللہ  (2/ 52) میں لکھتے ہیں:
"۔۔۔کلمہ شہادت کیلئے  زبان سے تلفظ ادا کرنا  لازمی شرط ہے، تاہم گونگے وغیرہ پر شرط نہیں ہے، لیکن  کوئی ایسی بات  یا قرینہ ضرور ہونا چاہیے جس سے قبول اسلام کا اظہار ہو، اس کے بعد اسے مسلمان سمجھا جائے گا، اور اس پر اسلامی احکامات جاری ہونگے" انتہی

مزید تفصیلات کیلئے دیکھیں: "الموسوعة الفقهية" (4/ 278)

No comments:

Post a Comment