https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Tuesday 7 May 2024

زیادہ مہر رکھنا

 نکاح میں اتنا زیادہ مہر رکھنا کہ دے ہی نہ سکیں، درست طرزِ عمل نہیں، آج کل زیادہ مہر  رکھ  کر پھر بالکل نہ دینے اور رخصتی کے بعد جبری طور پر عورتوں سے معاف کرالینے کا رواج ہوگیا ہے،  اس طرح کی معافی شرعاً معتبر نہیں، اور اس غلط رواج کی اصلاح کی ضرورت ہے۔ مہر درحقیقت عورت کا حق ہے اور مہر اتنا رکھا جائے  جو  بسہولت دیا بھی جا سکے،  جس کی بہتر صورت یہ ہے کہ لڑکی کے باپ کے گھرانے کی دیگر قریبی خواتین(بہن اور پھوپھی وغیرہ)  کاجتنا مہر رکھا گیا ہو ، اتنا مہر اس لڑکی کا بھی رکھ لیا جائے، اس کو مہرِ مثل کا جاتا ہے۔

لیکن مذکورہ صورت میں چوں کہ آپ کے دوست نے نکاح کے وقت اپنی رضامندی سے ایک لاکھ  ریال مہر رکھوایا ہے، اگرچہ اس میں غلط بیانی کا دخل ہی کیوں نہ ہو، اب یہ  مہر  آپ کے دوست پر لازم ہوگیا ہے، البتہ فوری طور پر دینا ممکن نہ ہو تو  بعد میں بھی دیا جاسکتا ہے۔

آپ کے دوست کے ماموں نے اگر واقعتاً غلط بیانی کی ہے تو یہ کبیرہ گناہ ہے، اس کا انہیں گناہ ہوگا۔

قال في الدر:
"(وَ) الْحُرَّةُ (مَهْرُ مِثْلِهَا) الشَّرْعِيُّ (مَهْرُ مِثْلِهَا) اللُّغَوِيُّ: أَيْ مَهْرُ امْرَأَةٍ تُمَاثِلُهَا (مِنْ قَوْمِ أَبِيهَا) لَا أُمِّهَا إنْ لَمْ تَكُنْ مِنْ قَوْمِهِ كَبِنْتِ عَمِّهِ. وَفِي الْخُلَاصَةِ: يُعْتَبَرُ بِأَخَوَاتِهَا وَعَمَّاتِهَا، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فَبِنْتُ الشَّقِيقَةِ وَبِنْتُ الْعَمِّ انْتَهَى وَمَفَادُهُ اعْتِبَارُ التَّرْتِيبِ فَلْيُحْفَظْ. [الدر مع الرد : ٣/ ١٣٧] فقط

No comments:

Post a Comment