https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Friday 12 April 2024

جھینگا کھانے کا حکم

 فقہائے احناف کے یہاں آبی حیوانوں میں صرف مچھلی حلال ہے۔ اس کے علاوہ کسی جانور کا کھانا حلال نہیں ولا یحل حیوان مائي إلا السمک غیر الطافي (الشامي، ط:زکریا: ج۹ ص445) کیکڑا چوں کہ مچھلی سے خارج ہے اس لیے احناف کے نزدیک اس کا کھانا حرام ہے۔ البتہ ?جھینگے? کے سلسلے میں اختلاف ہے او راختلاف کا مدار اس بات پر ہے کہ آیا یہ مچھلی ہے یا نہیں؟ ہمارے اکابر میں مولانا رشید احمد گنگوہی -رحمہ اللہ- اور مولانا خلیل احمد -رحمہ اللہ- سہارنپوری نے جھینگے کو کیڑا شمار کیا ہے اور اس کے کھانے کو ممنوع قرار دیا ہے۔ جب کہ حضرت تھانوی-رحمہ اللہ- نے اسے مچھلی میں شمار کیا ہے اوراس کے حلال ہونے کا فتویٰ دیا ہے۔ دلیل میں مشہور ماہر حیوان علامہ دمیری کا قول پیش کیا ہے الروبیان ھو سمک صغیر جدًا (جھینگا بہت چھوٹی مچھلی ہے)۔ اس قول کی تائید عربی زبان کے مشہور اہل لغات ?ابن درید?، ?فیروزآبادی?، ?زبیدی? وغیرہ کے کلام سے ہوتی ہے قال ابن درید في جمھرة اللغة (3/414) ?وأربیان نوع من السمک? وأقرہ في القاموس وتاج العروس (1/146) ان تصریحات کی وجہ سے علماء نے جواز ہی کے قول کو راجح قرار دیا ہے۔ لہٰذا اگر کوئی شخص جواز کے قول پر عمل کرتے ہوئے کھائے توگنجائش ہے البتہ کھانے سے اجتناب زیادہ مناسب اور زیادہ اولیٰ واحوط ہے۔

کیکڑے کھانے کا حکم

 احناف کے یہاں سمندری جانوروں میں سے صرف مچھلی کھانا حلال ہے۔ کیکڑا چوں کہ مچھلی کی کسی قسم میں شامل نہیں، بلکہ    کیکڑے کا شمار ہ دریائی کیڑوں میں ہوتا ہے،اس لیے  کیکڑا کھانا مکروہِ تحریمی ہے، قرآنِ حکیم میں جہاں اللہ تعالیٰ نے سمندری مخلوق کا ذکر فرمایا ہے وہ آیت یہ ہے: 

أُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ وَطَعَامُهُ مَتَاعًا لَكُمْ وَلِلسَّيَّارَةِ[المائدۃ، 96]

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے سمندر کے شکار کو کھانے کی اجازت دی ہے، لیکن احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں اس آیت میں شکار سے مراد صرف مچھلی ہے، لہذا  کیکڑے کے حلال ہونے کے لیے اس آیت کو پیش کرنا  درست نہیں۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 35):
{ويحرم عليهم الخبائث} [الأعراف: 157] والضفدع والسرطان والحية ونحوها من الخبائث

Wednesday 10 April 2024

عیدین کاطریقہ

 عید الفطر اور عید الاضحیٰ کی نماز کا طریقہ ایک ہی ہے۔عید کی نماز کے لیے اذان اور اقامت نہیں، جب نماز کھڑی کی جائے تو عید کی نماز  چھ زائد تکبیرات کے ساتھ پڑھنے کی نیت کرے، اس کے بعد تکبیر کہہ کر ہاتھ ناف کے نیچے باندھ لے اور ثناء پڑھے، اس کے بعد تین زائد تکبیریں کہے، دو تکبیروں میں ہاتھ کانوں تک اٹھا کر چھوڑ دے اور تیسری تکبیر پر ہاتھ اٹھا کر ناف کے نیچے باندھ لے، اس کے بعد امام اونچی آواز میں قراءت کرے، قراءت مکمل ہونے کے بعد بقیہ رکعت (رکوع اور سجدہ  وغیرہ) دیگر  نمازوں کی طرح ادا کرے۔

پھر دوسری رکعت کے شروع میں امام اونچی آواز میں قراءت کرے، اس کے بعد تین زائد تکبیریں کہے، تینوں تکبیروں میں ہاتھ کانوں تک اٹھا کر چھوڑ دے، پھر ہاتھ اٹھائے بغیر چوتھی تکبیر کہہ کر رکوع میں جائے اور پھر دیگر نمازوں کی طرح دو سجدوں کے بعد التحیات، درود اور دعا پڑھ کر سلام پھیر دے، پھرنماز مکمل کرنے کے بعد امام  دو  خطبے دے، دونوں خطبوں کے درمیان تھوڑی دیر بیٹھے۔ 

سنن نوافل کہاں پڑھنا افضل ہے مسجد یاگھر

 کتبِ فقہ میں لکھا ہےکہ سنتیں ادا کرنے میں بہتر اور افضل یہ ہے کہ آدمی کو جہاں زیادہ خشوع اور خضوع نصیب ہو سکے اور جو زیادہ اخلاص کا سبب ہو وہاں سنتیں ادا کرے، خواہ مسجد میں یا گھر میں۔

تاہم گھر کو بالکل ویران نہیں رکھنا چاہیے، کچھ نہ کچھ نوافل گھر میں ادا کرتے رہنا چاہیے، احادیثِ مبارکہ سے اس کی ترغیب معلوم ہوتی ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 22):
"والأفضل في النفل غير التراويح المنزل، إلا لخوف شغل عنها، والأصح أفضلية ما كان أخشع وأخلص".

العناية شرح الهداية (1/ 441):
"وقال الحلواني: الأفضل في السنن أداؤها في المنزل إلا التراويح؛ لأن فيها إجماع الصحابة.
وقيل: الصحيح أن الكل سواء، ولاتختص الفضيلة بوجه دون وجه، ولكن الأفضل ما يكون أبعد من الرياء وأجمع للإخلاص، ثم ما ذكر في الكتاب واضح

سنت نوافل گھر میں پڑھنا افضل ہے یا مسجد میں

 حضرت اقدس نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے سنن ونوافل گھروں میں پڑھنے کی ترغیب فرمائی ہے اور خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی عام طور پر سنن ونوافل گھر ہی میں ادا فرماتے تھے اور فقہائے کرام نے بھی فرمایا: تراویح، تحیة المسجد ودیگر بعض نوافل کے علاوہ عام نوافل اورپنجوقتہ نمازوں کی سنن ونوافل گھر پر پڑھنا افضل ہے؛ البتہ فقہاء نے یہ بھی فرمایا: اگر گھر پہنچ کر سنتیں چھوٹ جانے کا اندیشہ ہو یا گھر میں خشوع وخضوع کم ہو تو ایسی صورت میں پنج وقتہ نمازوں کی سنن ونوافل مسجد ہی میں پڑھنا افضل ہوگا؛ کیوں کہ خشوع وخضوع اور اخلاص کی رعایت زیادہ اہم ہے۔ اور اب جب کہ غیر مقلدین سنن موٴکدہ کو مانتے ہی نہیں اور نہ ہی ان کا اہتمام کرتے ہیں؛ بلکہ سلام پھیر کر دعا مانگے بغیر اٹھ کر چلے جاتے ہیں؛ اس لیے ان کی ظاہری مشابہت اور تائید وغیرہ سے بچنے کے لیے ہمارے اکابر نے فرمایا: سنن موٴکدہ مسجد ہی میں پڑھنا افضل ہے۔

چناں چہ حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمہ اللہ نے فرمایا:فی نفسہ افضل یہ ہے کہ سنن موٴکدہ گھر میں پڑھی جائیں، لیکن ایک امر عارض کی وجہ سے اب افضل یہ ہے کہ سنن موٴکدہ مسجد ہی میں پڑھی جائیں؛کیوں کہ ایک جماعت سنن موٴکدہ کی منکر پیدا ہوگئی ہے؛اس لیے گھر میں سنتیں پڑھنے سے لوگوں کو ترک سنن کا شبہ ہوگا (ملفوظات حکیم الامت، ۸: ۲۲۷، ملفوظ نمبر: ۲۵۰، مطبوعہ: ادارہ تالیفات اشرفیہ ، ملتان)۔

عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: اجعلوا في بیوتکم من صلا تکم ولا تتخذوہا قبوراً، متفق علیہ (مشکاة المصابیح، کتاب الصلاة، باب المساجد ومواضع الصلاة، الفصل الأول، ص: ۶۹، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)، قولہ: ”من صلا تکم“ قال القرطبي: من للتبعیض، والمراد النوافل بدلیل ما رواہ مسلم من حدیث جابر مرفوعاً إذا قضی أحدکم الصلاة في مسجدہ فلیجعل لبیتہ نصیباً من صلا تہ (فتح الباري،کتاب الصلاة، باب کراہیة الصلاة في المقابر، ۱:۶۸۵، تحت رقم الحدیث: ۴۳۲، ط: دادار السلام الریاض)، والأفضل فی النفل غیر التراویح المنزل إلا لخوف شغل عنھا، والأصح أفضلیة ما کان أخشع وأخلص (الدر المحتار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب الوتر والنوافل، ۲: ۴۶۴، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، قولہ: ”والأفضل في النفل“ شمل مابعد الفریضة، وما قبلہا لحدیث الصحیحین: ”علیکم بالصلاة في بیوتکم؛ فإن خیر صلاة المرء في بیتہ إلا المکتوبة“ وأخرج أبو داود ”صلاة المرء في بیتہ أفضل من صلاتہ في مسجدي ھذا إلا المکتوبة“، وتمامہ في شرح المنیة، وحیث کان ہذا أفضل یراعی ما لم یلزم منہ خوف شغل عنہا لو ذہب لبیتہ، أو کان في بیتہ مایشغل بالہ ویقلل خشوعہ فیصلیہا حینئذٍ في المسجد؛ لأن أعتبار الخشوع أرجح( رد المحتار)۔

تراویح کی شرعی حیثیت

 تراویح  کی نماز مردوں اور عورتوں دونوں کے لیےسنت موکدہ ہے،بلا عذر اس کو چھوڑنے والا نافرمان اور گناہ گار ہے۔خلفاء راشدین،صحابہ کرام،تابعین،تبع تابعین،ائمہ مجتہدین اور سلف صالحین سے پابندی سے تراویح پڑھنا ثابت ہے،  اور مردوں کے لیے تراویح کی نماز جماعت سے پڑھنا سنت کفایہ ہے، یعنی اگر محلہ کے چند افراد اس سنت کو جماعت کے ساتھ ادا کرلیں تو  سب کا ذمہ فارغ، ورنہ سب گناہ گار ہوں گے، جو مرد انفرادی تراویح پڑھے گا تو اس کی تراویح کی سنت تو ادا ہوجائے گی، لیکن جماعت کے ثواب سے  محروم ہے گا،اور عورتوں  کے لیے جماعت  سنتِ مؤکدہ  کفایہ نہیں ہے، بلکہ عورتوں کے لیے گھر میں تنہا  پڑھنے میں زیادہ ثواب ہے۔

''فتاوی شامی'' میں ہے:
''(والجماعة فيها سنة على الكفاية) في الأصح، فلو تركها أهل مسجد أثموا إلا لو ترك بعضهم''۔

(قوله: والجماعة فيها سنة على الكفاية إلخ) أفاد أن أصل التراويح سنة عين، فلو تركها واحد كره، بخلاف صلاتها بالجماعة فإنها سنة كفاية، فلو تركها الكل أساءوا؛ أما لو تخلف عنها رجل من أفراد الناس وصلى في بيته فقد ترك الفضيلة، وإن صلى أحد في البيت بالجماعة لم ينالوا فضل جماعة المسجد، وهكذا في المكتوبات، كما في المنية، وهل المراد أنها سنة كفاية لأهل كل مسجد من البلدة أو مسجد واحد منها أو من المحلة؟ ظاهر كلام الشارح الأول. واستظهر ط الثاني. ويظهر لي الثالث، لقول المنية: حتى لو ترك أهل محلة كلهم الجماعة فقد تركوا السنة وأساءوا. اهـ. (2/ 45، باب الوتر والنوافل، ط: سعید

جمعہ کے دن وفات کی فضیلت

 حدیث شریف میں بھی آیا ہے کہ جو مومن رمضان میں یا جمعہ کے دن وفات پائے اس سے عذاب قبر اٹھالیا جاتا ہے، محدثین کے درمیان یہ اختلاف ہے ہ ہمیشہ کے لیے قبر کا عذاب اس سے اٹھالیا جاتا ہے یا صرف رمضان تک یا صرف جمعہ کو۔ کچھ حضرات اسی دوسرے قول کو لیتے ہیں کہ صرف رمضان یا صرف جمعہ کو قبر کا عذاب اٹھایا جاتا ہے اور کچھ محدثین پہلے قول کو لیتے ہیں کہ ہمیشہ کے لیے عذاب قبر اٹھالیا جاتا ہے۔ اللہ کی بے پناہ رحمتوں سے یہی امید رکھنی چاہیے کہ ہمیشہ کے لیے اس سے عذاب قبر اٹھالیا جاتا ہے۔ اسی حدیث کی وجہ سے رمضان یا جمعہ کے دن وفات پانے والے کو مبارک کہا جاتا ہے

مصنف ابن عبدالرزاق میں ہے:

"عن ابن شهاب، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "من مات ليلة الجمعة، أو يوم الجمعة، برئ من فتنة القبر، أو قال: وقي فتنة القبر، وكتب شهيدا".

 عن عبد الله بن عمر وعن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "برئ من فتنة القبر."

(كتاب الجمعة، باب من مات يوم الجمعة، ج:3، ص:550، ط:دارالتاصيل)

قوت المغتدی علی جامع الترمذی للسیوطی میں ہے:

"ما من مسلم يموت يوم الجمعة، أو ليلة الجمعة إلا وقاه الله فتنة القبر".

قال الحكيم الترمذي في نوادر الأصول: " من مات يوم الجمعة فقد انكشف الغطاء عن أعماله عند الله؛ لأن يوم الجمعة لا تسجر فيه جهنم، وتغلق أبوابها، ولا يعمل سلطان النار ما يعمل في سائر الأيام، فإذا قبض الله عبدا من عبيده فوافق قبضه يوم الجمعة كان ذلك دليلا لسعادته، وحسن مآبه، وأنه لم يقبض في هذا اليوم العظيم إلا من كتب الله له السعادة عنده، فلذلك يقيه فتنة القبر لأن سببها إنما هو تمييز المنافق من المؤمن انتهى".قلت: ومن تتمة ذلك: أن من مات يوم الجمعة، أو ليلة الجمعة له أجر شهيد كما وردت به أحاديث، والشهيد، ورد النص بأنه لا يسأل، فكأن الميت يوم الجمعة، أو ليلتها على منواله."

(ابواب الجنائز، ج:1، ص:324، ط:جامعة ام القرى)

وليعلم أن أهل العلم اختلفوا في صحة هذا الحديث أصلا؛ فمنهم من ضعفه للانقطاع في إسناده، وقالوا ربيعة بن سيف لم يسمع من عبد الله بن عمرو، كما أنه والراوي هشام بن سعد ضعيفان.

وممن ضعفه الترمذي حيث قال بعد روايته للحديث: وهذا حديث ليس إسناده بمتصل. اهـ

وضعفه أحمد شاكر، وشعيب الأرناؤوط، وقبلهما الحافظ ابن حجر في فتح الباري، وكذا ضعفه الشيخ ابن باز -رحمه الله تعالى-، فقد سئل: هل من يموت يوم الجمعة يجار من عذاب القبر؟ وهل الجزاء ينطبق على يوم الوفاة، أم على يوم الدفن؟ أفتونا مأجورين. فأجاب بقوله:
الأحاديث في هذا ضعيفة، الأحاديث في موت يوم الجمعة، وأن من مات يوم الجمعة دخل الجنة، ووقي النار كلها ضعيفة غير صحيحة، من مات على الخير والاستقامة دخل الجنة في يوم الجمعة، وغير يوم الجمعة ... وإن مات على الشرك بالله فهو من أهل النار في أي يوم، وفي أي مكان، نسأل الله العافية، وإن مات على المعاصي فهو على خطر تحت مشيئة الله، لكنه في الجنة إذا كان موحدا مسلما منتهاه الجنة، لكن قد يعذب بعض العذاب عن المعاصي التي مات عليها غير تائب.. اهــ.
ومن أهل العلم من حسن الحديث بمجموع طرقه كالشيخ الألباني.

گھرکی حفاظت کے لئے کتا پالنا

 احادیث میں کتا پالنے کی سخت ممانعت آئی ہے، جہاں کتا ہوتا ہے وہاں رحمت کے فرشتے نہیں آتے ۔ اور ایک حدیث میں ہے کہ  بلا ضرورت کتا پالنے والے کے اعمال  میں سے روزانہ ایک قیراط کم کر دیا جاتا ہے۔ لہذا کتوں کو گھر میں رکھنا  خیر  و برکت سے محرومی کا باعث ہے؛ اس لیے کتوں کے پالنے سے اجتناب بہت ضروری ہے، البتہ ضرورت کے لیے( جیسا کہ حفاظت اور شکار وغیرہ  کے لیے) کتا پالنے کی شرعاً اجازت ہے۔

لہذا اگر واقعۃً  چوروں یا کسی اور کا دیوار پھلانگ کرآنے کا اس قدر خوف ہے اور ان کے دفع کرنے کے لیے کوئی اور  ذریعہ ، علاج نہیں ہے تو ایسی مجبوری کی صورت میں بغرض حفاظت    کتا پالنے کی  گنجائش ہے، ورنہ نہیں، البتہ یہ بات درست نہیں ہے کہ  کتا اگر گھر کے صحن یا چھت پر ہو تو  گھر میں شمار نہیں ہوتا، لہذا کتے کو گھر سے باہر رکھا جائے۔

حدیث مبارک میں ہے:

"عن أبي طلحة رضي الله عنهم،عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: لا ‌تدخل ‌الملائكة بيتا فيه كلب ولا صورة."

ترجمہ: ’’رحمت کے فرشتے ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں تصویر ہو یا کتا۔‘‘

(البخاري، كتاب بدء الخلق، باب  إذا وقع الذباب في شراب أحدكم فليغمسه، ج:3، ص:1206، رقم:3144، ط:دار ابن كثير)

 ایک اور حدیثِ پاک میں ہے:

"عن أبي هريرة، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: من ‌اتخذ ‌كلبا إلا كلب ماشية، أو صيد، أو زرع، انتقص من أجره كل يوم قيراط."

ترجمہ: ’’جس شخص نے جانور اور کھیتی وغیرہ کی حفاظت یا شکار کے علاوہ کسی اور مقصد سے کتا پالا، اس کے ثواب میں ہرروز ایک قیراط کم ہوگا۔‘‘

(الترمذي، ‌‌باب ما جاء من أمسك كلبا ما ينقص من أجره، ج:4، ص:80، رقم:1490، طمكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وفي الأجناس ‌لا ‌ينبغي ‌أن ‌يتخذ كلبا إلا أن يخاف من اللصوص أو غيرهم وكذا الأسد والفهد والضبع وجميع السباع وهذا قياس قول أبي يوسف - رحمه الله تعالى - كذا في الخلاصة...ويجب أن يعلم بأن اقتناء الكلب لأجل الحرس جائز شرعا وكذلك اقتناؤه للاصطياد مباح وكذلك اقتناؤه لحفظ الزرع والماشية جائز كذا في الذخيرة."

(كتاب الكراهية، الباب الحادي والعشرون فيما يسع من جراحات بني آدم والحيوانات، ج:5، ص:361، ط:دار الفكر)

البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

"والانتفاع بالكلب للحراسة ‌والاصطياد ‌جائز إجماعا لكن لا ينبغي أن يتخذ في داره إلا إن خاف اللصوص أو عدوا وفي الحديث الصحيح "من اقتنى كلبا إلا كلب صيد أو ماشية نقص من أجره كل يوم قيراطان."

 (كتاب البيع، باب المتفرقات، ج:6، ص:188، ط:دارالفكر

Tuesday 9 April 2024

عذرکی بناپر بیٹھ کر تراویح پڑھنا

 عذر کی بنا پر تراویح کی کچھ رکعات کھڑے ہوکر اور کچھ رکعات بیٹھ کر پڑھنا درست ہے، بلاعذر بیٹھ کر تراویح کی نماز پڑھنا مکروہ ہے۔

الدر المختار مع رد المحتار (2 / 48) ط: سعيد

'' ( وتكره قاعداً )؛ لزيادة تأكدها، حتى قيل: لا تصح ( مع القدرة على القيام )، كما يكره تأخير القيام إلى ركوع الإمام للتشبه بالمنافقين''۔

و في الرد: '' (قوله: وتكره قاعداً ) أي تنزيها لما في الحلية وغيرها من أنهم اتفقوا على أنه لا يستحب ذلك بلا عذر؛ لأنه خلاف المتوارث عن السلف

Saturday 6 April 2024

صدقہ فطر کا مصرف

  صدقہ فطر کس کو دیں :صدقہ فطر کا مصرف وہی ہے جو زکوٰۃ کا مصرف ہے، اور صدقہ فطر اور زکاۃ کے مستحق  وہ افراد ہیں جو  نہ بنی ہاشم (سید وں یا عباسیوں وغیرہ) میں سے ہوں اور نہ ہی ان کے پاس ضرورت و استعمال سے زائد اتنا مال یا سامان موجود ہو جس کی مالیت نصاب (ساڑھے سات تولہ سونا، یاساڑھے باون تولہ چاندی یا ساڑھے باون تولہ چاندی کی موجودہ قیمت)  تک پہنچے۔ ایسے افراد کو زکات  اور صدقہ فطر دیاجاسکتا  ہے ۔

2۔۔ جو شخص زکوٰۃ کا مستحق ہو اس پر صدقہ فطر واجب ہی نہیں ہے، لہٰذا ایسے شخص کو صدقہ فطر دینا جائز ہے۔ اور جس شخص پر صدقہ فطر واجب ہو وہ زکاۃ کا مستحق نہیں ہے

Friday 5 April 2024

صدقہ فطر کی مقدار

 صدقہ فطر  میں چار  اجناس (گندم،جو،کھجور،کشمش)میں سے کسی ایک جنس  کا دینا یا اس کی بازاری قیمت کادینا ضروری ہے، تفصیل مندرجہ ذیل ہے:

1:گندم نصف صاع یعنی پونے دو کلو   تاہم احتیاطًا دو کلو یا اس کی  بازاری قیمت دینی  چاہیے۔

2: جو ایک صاع یعنی تقریبًا ساڑھے تین کلو یا اس کی  بازاری قیمت ہے۔

3:کھجور  ایک صاع یعنی تقریبًا  ساڑھے تین کلو یا اس کی  بازاری قیمت ہے۔

4:کشمش ایک  صاع یعنی تقریبًا  ساڑھے تین کلو یا اس کی  بازاری قیمت ہے،لہذا مذکورہ چار اجناس میں سے کسی ایک کی  بازاری قیمت فقیر کی حاجت پورا کرنے کے  لیے بطورِ صدقہ فطر   دینا زیادہ بہتر  اور  آخرت میں ثواب کا باعث ہے۔

صدقہ فطر کن پر واجب ہے

 جو مسلمان اتنا مال دار ہے کہ اس پر زکاۃ واجب ہے یا اس پر زکاۃ واجب نہیں، لیکن قرض اور ضروری اسباب سے زائد اتنی قیمت کا مال یا اسباب اس کی ملکیت میں موجود ہے جس کی مالیت ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت کے برابر یا اس سے زیادہ ہو تو اس پر عیدالفطر کے دن صدقہ دینا واجب ہے، چاہے وہ تجارت کا مال ہو یا تجارت کا مال نہ ہو، چاہے اس پر سال گزر چکا ہو یا نہ گزرا ہو۔ اس صدقہ کو صدقۂ فطر کہتے ہیں۔

جس طرح مال دار ہونے کی صورت میں مردوں پر صدقۂ فطر ادا کرنا واجب ہے اسی طرح اگر عورت مال دار صاحب نصاب ہے یا اس کی ملکیت میں قرضہ اور ضروری اسباب سے زائد اتنی قیمت کا مال وغیرہ ہے جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہے، مثلاً اس کے پاس زیور ہے جو والدین کی طرف سے ملا ہے یا شوہر نے نصاب کے برابر زیور عورت کو بطور ملکیت دیا ہے، یا مہر میں اتنا زیور ملا جو نصاب کے برابر ہے تو عورت کو بھی اپنی طرف سے صدقۂ فطر ادا کرنا واجب ہے، ہاں اگرشوہر اس کی طرف سے اسے بتاکر ادا کردے تو ادا ہوجائے گا۔

 مال دار عورت پر اپنا صدقۂ فطر ادا کرنا تو واجب ہے، لیکن اس پر کسی اور کی طرف سے ادا کرنا واجب نہیں، نہ بچوں کی طرف سے نہ ماں باپ کی طرف سے، نہ شوہر کی طرف سے۔

البتہ مال دار آدمی کے لیے صدقۂ فطر اپنی طرف سے بھی ادا کرنا واجب ہے، اپنی نابالغ اولاد کی طرف سے بھی، نابالغ اولاد اگر مال دار ہو تو ان کے مال سے ادا کرے اور اگر مال دار نہیں ہے تو اپنے مال سے ادا کرے۔ بالغ اولاد اگر مال دار ہے تو ان کی طرف سے صدقۂ فطر ادا کرنا باپ پر واجب نہیں، ہاں اگر باپ ازخود ادا کردے گا تو صدقۂ فطر ادا ہوجائے گا۔

Sunday 31 March 2024

روزے کی حالت میں جماع

 صورتِ  مسئولہ میں اگر کپڑے کے اوپر سے جماع کیا لیکن مرد کی شرم گاہ عورت کی شرم گاہ میں داخل ہوئی تو میاں بیوی دونوں کا روزہ بھی ٹوٹ گیا اور  دونوں پر روزے کی قضا کے ساتھ کفارہ  (جو مسلسل ساٹھ روزے رکھنا ہے ) بھی لازم ہوگا۔  اگر مسلسل دو ماہ کے روزے رکھنے کی واقعتًا  قدرت نہ ہو (مثلًا بڑھاپے یا مریض ہونے کی وجہ سے) تو  ساٹھ مسکینوں کو صدقہ فطر  کی مقدار غلہ یا اس کی قیمت دینا لازم ہے ،  ایک صدقہ فطر کی مقدار  نصف صاع  (پونے دو کلو ) گندم یا اس کی قیمت  ہے۔

ایک مسکین کو ساٹھ  دن صدقہ فطر  کے برابر غلہ وغیرہ دیتا رہے یا ایک ہی دن ساٹھ مسکینوں میں سے ہر ایک کو صدقہ فطر کی مقدار دےدے ،  دونوں جائز ہے۔

صدقہ فطر کی مقدار غلہ یا قیمت  دینے کے بجائے اگر ساٹھ مسکینوں کو ایک دن صبح وشام، یا ایک مسکین کو ساٹھ دن صبح وشام کھانا کھلادے، تو بھی کفارہ ادا ہوجائےگا۔

اور اگر کپڑے کے اوپر سے جماع کرنے سے مراد شرم گاہ داخل کیے بغیر انزال ہونا ہے تو اگر صرف مرد کو انزال ہوا تو اس کا روزہ فاسد ہوگیا، اور اس صورت میں صرف قضا لازم ہوگی، کفارہ لازم نہیں ہوگا۔ اور اگر بیوی کو بھی انزال ہوگیا یعنی اس کی منی شرم گاہ سے خارج ہوگئی تو اس کا روزہ بھی فاسد ہوگیا، اس صورت میں اس پر بھی قضا لازم ہوگی۔ بہرصورت مذکورہ میاں بیوی کو استغفار بھی کرنا چاہیے؛ کیوں کہ رمضان المبارک میں روزے کی حالت میں جماع کرنا جائز نہیں ہے۔

الفتاوى الهندية (1/ 205):

"من جامع عمداً في أحد السبيلين فعليه القضاء والكفارة، ولايشترط الإنزال في المحلين، كذا في الهداية. وعلى المرأة مثل ما على الرجل إن كانت مطاوعةً، وإن كانت مكرهةً فعليها القضاء دون الكفارة... إذا أكل متعمداً ما يتغذى به أو يتداوى به يلزمه الكفارة، وهذا إذا كان مما يؤكل للغذاء أو للدواء فأما إذا لم يقصد لهما فلا كفارة وعليه القضاء، كذا في خزانة المفتين ... وإذا أصبح غير ناو للصوم ثم نوى قبل الزوال ثم أكل فلا كفارة عليه، كذا في الكشف الكبير".