https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Wednesday 16 June 2021

تفسیر ولاتقف مالیس لک بہ علم ان السمع والبصر والفواد کل اولئک کان عنہ مسئولا

 

وَلَا تَقۡفُ مَا لَـيۡسَ لَـكَ بِهٖ عِلۡمٌ‌ ؕ اِنَّ السَّمۡعَ وَالۡبَصَرَ وَالۡفُؤَادَ كُلُّ اُولٰۤئِكَ كَانَ عَنۡهُ مَسۡئُوۡلًا ۞

ترجمہ:

اور جس چیز کا تمہیں علم نہیں اس کے درپے نہ ہو بیشک کان اور آنکھ اور دل ان سب سے (روز قیامت) سوال کیا جائے گا۔

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور جس چیز کا تمہیں علم نہیں اس کے درپے نہ ہو بیشک کان اور آنکھ اور دل ان سب سے (روز قیامت) سوال کیا جائے گا۔ (بنی اسرائیل : ٣٦)

قفا کا معنی :

علامہ حسین بن محمد راغب اصفہانی متوفی ٥٠٢ ھ لکھتے ہیں :

قفا کا معنی سر کا پچھلا حصہ یعنی گدی ہے اور اس کا معنی کسی کے پیچھے چلنا اور اس کی پیروی کرنا ہے۔

ولا تقف ما لیس لک بہ علم۔ (بنی اسرائیل : ٣٦)

اس کا معنی ہے، ظن اور قیافہ کے ساتھ حکم نہ کرو۔ (المفردات ج ٢ ص ٥٢٩، مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ مکہ مکرمہ (١٤١٨)

بغیرعلم ظن پر عمل کرنے کی ممانعت :

اس کی تفسیر میں مفسرین کے حسب ذیل اقوال ہے :

١۔ مشرکین نے اپنے آبا و اجداد کی تقلید میں مختلف عقائد گھڑ رکھے تھے، وہ بتوں کو اللہ کا شریک کہتے تھے، بتوں کو اللہ کی جناب میں شفاعت کرنے والا مانتے تھے، بتوں کی عبادت کو اللہ تعالیٰ کے تقرب کا ذریعہ قرار دیتے تھے، قیامت کا انکار کرتے تھے، اور بحیرہ، سائبہ وغیرہ کے کھانے کو حرام کہتے تھے، اللہ تعالیٰ نے ان کے رد میں یہ آیات نازل فرمائیں :

ان ھی الا اسماء سمیتموھا انتم وابائکم ما انزل اللہ بھا من سلطان، ان یتبعون الا الظن وما تھوی الانفس، ولقد جائھم من ربھم الھدی۔ (النجم : ٢٣) یہ صرف نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لیے ہیں، اللہ نے ان کی کوئی دلیل نہیں نازل کی یہ لوگ صرف گمان کی اور اپنے نفسوں کی خواہش کی پیروی کر رہے ہیں بیشک ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے ہدایت آچکی ہے۔ 

واذا قیل ان وعد اللہ حق والساعۃ لا ریب فیھا قلتم ما ندری ما الساعۃ ان نظن الا ظنا وما نحن بمستقینین۔ (الجاثیہ : ٣٢) اور جب ان سے کہا جاتا کہ اللہ کا وعدہ برحق ہے اور قیامت کے آنے میں کوئی شک نہیں ہے تو تم کہتے تھے کہ ہم نہیں جانتے کہ قیامت کیا چیز ہے، ہم تو صرف گمان کرتے ہیں اور ہم یقین نہیں کرتے۔ ،۔

قل ھل عندکم من علم فتخرجوہ لنا، ان تتبعون الا الظن وان انتم الا تخرصون۔ (الانعام : ١٤٨) آپ کہے کیا تمہارے پاس کوئی دلیل ہے ؟ تو وہ تم ہم پر پیش کرو، تم صرف ظن اور گمان کی پیروی کرتے ہو اور تم صرف اٹکل پچو سے باتیں کرتے ہو۔

١۔ اسی نہج پر اللہ تعالیٰ نے یہاں فرمایا ہے جس چیز کا تمہیں علم نہیں ہے اس کی پیروی نہ کرو، اور محض ظن اور گمان کے پیچھے نہ چلو۔

٢۔ محمد بن حنفیہ نے کہا جھوٹی گواہی نہ دو ، حضرت ابن عباس نے فرمایا صرف اس چیز کی گواہی دو جس کو تمہاری آنکھوں نے دیکھا ہو اور تمہارے کانوں نے سنا ہو اور تمہارے دل نے یاد رکھا ہو۔

٣۔ اس سے مراد تہمت لگانے سے منع کرنا ہے، زمانہ جاہلیت میں عربوں کی عادت تھی کہ وہ کسی مذمت میں مبالغہ کرنے کے لیے اس کو بدکاری کی تہمت لگاتے تھے اور اس کی ہجو کرتے تھے۔

٤۔ اس سے مراد ہے جھوٹ مت بولو، قتادہ نے کہا جب تم نے سنا نہ ہو تو یہ مت کہو میں نے سنا ہے اور جب تم نے دیکھا نہ ہو تو یہ مت کہو میں نے دیکھا ہے۔

٥۔ اس سے مراد ہے کسی پر بہتان نہ لگاؤ۔

حضرت عبداللہ بن عمر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص نے اللہ کی حدود میں شفاعت کی وہ اللہ کے حکم کی مخالفت کرنے والا ہے، اور جس شخص نے کسی ناحق جھگڑے میں مدد کی وہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی میں رہے گا جب تک اس کو ترک نہیں کردیتا، اور جس شخص نے کسی مسلمان مرد یا عورت پر بہتان لگایا اس کو اللہ تعالیٰ دوزخیوں کی پیپ میں بند کردے گا، اور جو شخص اس حال میں مرگیا کہ اس کے اوپر کسی کا قرض تھا اس سے اس کی نیکیاں لے لی جائیں گی، اور صبح کی دو رکعتوں کی حفاظت کرو کیونکہ یہ فضائل میں سے ہیں۔ (مسند احمد ج ٢ ص ٨٢، قدیم طبع، مسند احمد رقم الحدیث : ٥٥٤٤، مطبوعہ عالم الکتب بیروت، ١٤١٩ ھ)

وجہ استدلال یہ ہے کہ جو شخص کسی مرد یا عورت پر بہتان لگائے وہ شخص اپنے گمان کی بنا پر لگائے گا اور اس کو عذاب ہوگا، پس ثابت ہوا کہ جس چیز کا انسان کو علم اور یقین نہ ہو وہ اس کی پیروی نہ کرے، اس پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ اس آیت سے یہ معلوم ہوا کہ انسان کے لیے صرف اس چیز پر عمل کرنا جائز ہے جس کا اسے یقینی علم ہو اور ظن پر عمل کرنا جائز نہیں ہے حالانکہ شریعت میں بہت سے امور پر ظن سے عمل کرنا جائز ہے، قیاس بھی ظنی ہے اور بہت سے مسائل قیاس سے ثابت ہوتے ہیں اور ان پر عمل کرنا جائز ہے، خبر واحد بھی ظنی ہے اور اس پر عمل کرنا جائز ہے۔

ہم ذیل میں ایسی تمام مثالیں درج کر رہے ہیں جو ظنی ہیں اور ان پر عمل کرنا جائز ہے۔

ظن پر عمل کرنے کی شرعی نظائر :

١۔ علماء دین کے فتاوی پر عمل کرنا جائز ہے حالانکہ وہ بھی ظنی ہیں۔

(٢) نیک مسلمانوں کی گواہی پر عمل کرنا جائز ہے حالانکہ ان کی گواہی بھی ظنی ہے۔

(٣) جب آدمی کو قبلہ کی سمت معلوم نہ ہو تو وہ غور و فکر کر کے اپنے اجتہاد سے قبلہ کی سمت معلوم کرے اور اس کے مطابق نماز پڑھے گا حالانکہ یہ بھی ظنی عمل ہے۔

(٤) حرم میں شکار کرنے کی جنایت میں اس کی مثل جانور کی قربانی دینی ہوگی اور یہ ممالثلت بھی ظنی ہے۔

(٥) فصد اور علاج معالجہ کی دیگر صورتیں بھی ظنی ہیں اور ان کے مطابق علاج کرنا جائز ہے۔

(٦) ہم بازار سے جو گوشت خرید کر پکاتے ہیں اس کے متعلق یہ کہنا کہ یہ مسلمان صحیح عقیدہ کا ذبیحہ ہے اور صحیح طریقہ سے ذبح کیا گیا ہے یہ بھی ظنی ہے۔

(٧) عدالتوں کے فیصلے بھی ظنی ہوتے ہیں اور ان کے مطابق عمل کیا جاتا ہے۔

(٨) ہم کسی شخص پر اسلام کا حکم لگاتے ہیں اس کو مسلمان کہتے ہیں اس کو سلام کرتے ہیں اس کو مسلمان کے قبرستان میں دفن کرتے ہیں حالانکہ یہ بھی ظنی امر ہے۔

(٩) کاروبار میں ہم لوگوں سے روپے پیسے کا لین دین کرتے ہیں دوستوں کی صداقت اور دشمنوں کی عداوت پر اعتماد کرتے ہیں اور یہ سب ظنی امور ہیں۔

(١٠) موذن کی اذان سے نماز کا وقت ہونے کا یقین کرتے ہیں حالانکہ یہ بھی ظنی امر ہے۔

(١١) افطار اور سحر میں اوقات نماز کے نقشوں، اذانوں اور ریڈیو اور ٹی، وی کے اعلانات پر اعتماد کرتے ہیں۔

(١٢) عید، رمضان، حج اور قربانی میں رویت ہلال کمیٹی کے اعلانات پر اعتماد کرتے ہیں اور یہ اعلانات بھی ظنی ہیں۔

(١٣) حدیث میں ہے ہم ظاہر پر حکم کرتے ہیں اور باطن کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔

لہذا اب یہ اعتراض قوی ہوگیا کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے جس چیز کا تمہیں علم نہیں اس کے درپے نہ ہو اس کا تقاضا یہ ہے کہ ظن اور قیاس پر عمل نہ کرو حالانکہ ایک دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خوشی خوشی گھر آئے اور فرمایا کیا تم کو معلوم نہیں کہ ایک قیافہ شناس نے اسامہ اور زید کے قدموں کے نشانات دیکھ کر فرمایا : یہ اقدام بعض کے بعض سے ہیں، یعنی یہ قدم باپ بیٹوں کے ہیں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٥٥٥ )

ظن پر عمل کرنے کی ممانعت کا محمل :

اس کا جواب یہ ہے کہ ظن پر عمل کرنا اس وقت منع ہے جب ظن علم اور یقین کے معارض ہو، جیسے مشرکین آباو اجداد کی اپنے ظن سے تقلید کرتے تھے اور اپنے ظن سے بتوں کی عبادت کرتے تھے اور ان کو مصائب میں پکارتے تھے اور ان کے حق میں شفاعت کا عقیدہ رکھتے تھے حالانکہ یہ کام تمام نبیوں اور رسولوں اور وحی الہی کے خلاف تھے جو کہ علم اور یقین پر مبنی امور ہیں۔ اس وضاحت سے معلوم ہوا کہ ظن پر عمل کرنا مطلقا منع نہیں ہے اس وقت منع ہے جب ظن پر عمل کرنا کسی دلیل قطعی کے خلاف ہو۔

کان، آنکھ اور دل سے سوال کیے جانے کی توجیہ :

نیز اس آیت میں یہ فرمایا ہے : اور کان اور آنکھ اور دل ان سب سے متعلق (روز قیامت) سوال کیا جائے گا۔ 

اس آیت پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ان اعضا سے سوال کیا جائے گا، اور سوال کرنا اس سے صحیح ہے جو صاحب عقل ہو اور ظاہر ہے یہ اعضا صاحب عقل نہیں ہیں، لہذا ان اعضا سے سوال کرنا بہ ظاہر درست نہیں ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ ان اعضا سے مراد ہے ان اعضا والوں سے سوال کیا جائے گا جیسا کہ قرآن شریف میں ہے :

وسئل القریۃ : (یوسف : ٨٢) بستی سے پوچھو۔

اور اس سے مراد ہے بستی والوں سے پوچھو۔ اسی طرح کان اور آنکھ اور دل ان سب سے سوال کیا جائے گا، اس سے مراد ہے کان، آنکھ اور دل والوں سے سوال کیا جائے گا۔ کیا تم نے اس چیز کو سنا ہے جس کا سننا جائز نہیں تھا، کیا تم نے اس چیز کو دیکھا جس کا دیکھنا جائز نہیں تھا، کیا تم نے اس چیز کا عزم کیا جس کا عزم جائز نہیں تھا۔ 

دوسرا جواب یہ ہے کہ کان، آنکھ اور دل والوں سے یہ سوال کیا جائے گا کہ تم کو کان، آنکھیں اور دل دیئے گئے تھے تم نے ان اعضا کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں استعمال کیا یا اللہ تعالیٰ کی مصیت میں، اسی طرح باقی اعضا کے متعلق سوال کیا جائے گا، کیونکہ حواس روح کے آلات ہیں اور روح ان پر امیر ہے اور روح ہی ان اعضا کو استعمال کرتی ہے اگر روح ان اعضا کو نیک کاموں میں استعمال کرے گی تو وہ ثواب کی مستحق ہوگی اور اگر روح ان کو برے کاموں میں استعمال کرے گی تو عذاب کی مستحق ہوگی۔

اس کا تیسرا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان اعضا میں حیات پیدا فرما دے گا پھر یہ اعضا انسان کے خلاف گواہی دیں گے، قرآن مجید میں ہے :

یوم تشھد علیھم السنتھم وایدیھم وارجلھم بما کانوا یعملون۔ (النور : ٢٤) جس دن ان کے خلاف ان کی زبانیں اور ان کے اہتھ اور ان کے پیر ان کے اعمال کی گواہی دیں گے۔

الیوم نختم علی افواھھم وتکلمنا ایدیھم وتشھد ارجلھم بما کانوا یکسبون۔ (یسین : ٦٥) ہم آج کے دن ان کے مونہوں پر مہر لگا دیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے کلام کریں گے اور ان کے پاؤں ان کاموں کی گواہی دیں گے جو وہ کرتے تھے۔

حتی اذا ما جاء وھا شھد علیھم سمعھم وابصارھم وجلودھم بما کانوا یعملون۔ (حم السجدہ : ٢٠) حتی کہ جب وہ دوزخ تک پہنچ جائیں گے تو ان کے خلاف ان کے کان اور ان کی آنکھیں اور ان کی کھالیں ان کاموں کی گواہی دیں گے جو وہ کرتے تھے۔

لہذا اللہ تعالیٰ کان، آنکھوں اور دلوں میں تعلق پیدا کردے گا اور پھر ان سے سوال کیے جانے پر کوئی اشکال وارد نہیں ہوگا۔

8 comments:

  1. اسی نہج پر اللہ تعالیٰ نے یہاں فرمایا ہے جس چیز کا تمہیں علم نہیں ہے اس کی پیروی نہ کرو، اور محض ظن اور گمان کے پیچھے نہ چلو۔
    اس کے مطابق تو تقلید جائز نہیں ہے پھر ؟؟

    ReplyDelete
  2. کیا ہم عقیدے میں اور حلال اور حرام میں تقلید کرتے ہیں اور کرنا اسمے ضروری ہے

    ReplyDelete
  3. (الف) فَاسْئَلُوْآ اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ اس آیت میں لوگوں کو حکم ہے کہ جو شرعی حکم تم کو معلوم نہ ہو اس کو اہل علم سے معلوم کرکے اس پر عمل کرو۔ اسی کا نام تقلید ہے۔

    (ب) أُوْلَـئِكَ الَّذِينَ هَدَى اللّهُ فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْ اس آیت میں حکم ہے کہ جو لوگ ہدایت پر ہیں (یعنی انبیائے سابقین علیہم الصلاة والتسلیم) ان کی اقتدا اور پیروی کرو۔

    (ج) يااَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ اس آیت میں اہل علم کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے، ان مسائل میں جو قرآن و حدیث میں صراحتاً مذکور نہیں ہیں۔

    (د) وَلَوْ رَدُّوْہُ اِلَی الرَّسُوْلِ وَ اِلَی اُولِی الْاَمْرِ مِنْھُمْ لَعَلِمَہُ الَّذِیْنَ یَسْتَنْبِطُوْنَہ مِنْھُمْ اگر یہ لوگ اس امر کو رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اولو الامر کے حوالہ کرتے تو جو لوگ اہل فقہ اور اہل استنباط ہیں وہ سمجھ کر ان کو بتلادیتے۔ اس آیت سے بھی ائمہ مجتہدین کی اتباع کا ثبوت ملتا ہے۔

    (ھ) وَجَعَلْنَاھُمْ اَئِمَّةً یَّھْدُوْنَ بِاَمْرِنَا ان تمام آیات میں اتباع و تقلید کی تاکید فرمائی گئی ہے اور ان سے تقلید مطلق کا ثبوت ہوتا ہے۔



    اب ایسی چند احادیث لکھی جاتی ہیں جن سے تقلید شخصی کا ثبوت ہوتا ہے۔

    (الف) عن حذیفة -رضي اللہ عنہ- قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: إني لا أدري ما بقائي فیکم فاقتدوا بالذین من بعدي أبي بکر و عمر-رضي اللہ عنھما-

    (ب) قال النبي صلی اللہ علیہ وسلم: أصحابي کالنجوم فبأیھم اقتدیتم اھتدیتم (مشکوٰة: ص554)

    (ج) عن ماذ بن جبل -رضي اللہ عنہ- أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لما بعثہ إلی الیمن قال: کیف تقضي إذا عرض علیک قضاء قال: أقضي بکتاب اللہ، قال: فإن لم تجد في کتاب اللہ؟ قال بسنة رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، فإن لم تجد في سنة رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، قال: أجتھد برأیي ولا آلو، فضرب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی صدرہ وقال: الحمد للہ الذي وفق رسولّ رسولِ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لما یرضی۔ (أبوداوٴد: ص149، مشکوٰة: ص324)

    (د) إن أھل المدینة سألوا ابن عباس -رضي اللہ عنھما- عن امرأة طافت ثم حاضت قال لھم: تنفر قالوا: لا نأخذ بقولک وندع قول زید. (بخاري: ۱/۲۳۷) اس حدیث میں اس بات کی صراحت ہے کہ اہل مدینہ حضرت زید -رضی اللہ عنہ- کی تقلید شخصی کرتے تھے۔

    (ھ) عن عمر بن الخطاب -رضي اللہ عنہ- قال: سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول: سألت ربّي عن اختلاف أصحابي من بعد فأوحی إلي یا محمد إن أصحابک عندي بمنزلة النجوم في السماء بعضھا أقوی من بعض ولکل نور فمن أخذ بشيء مماھم علیہ من اختلافھم فھو عندي علی ہدی. (مشکوٰة: ص554) اس حدیث میں خود اللہ تبارک و تعالیٰ فرمارہے ہیں کہ صحابہ کرام کے اختلافی مسائل میں جو کوئی کسی صحابی کی تقلید کرلے گا وہ میرے نزدیک حق پر ہوگا۔ ان تمام احادیث سے قولی یا فعلی طور پر تقلید شخصی کا وجوب معلوم ہوتا ہے۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. جب اللہ نے بغیر علم یا دلیل کے بات ماننے کو منا کیا ہے تو پھر تقلید سہی کیوں ہے

      Delete
  4. ولاتقف والی آیت میں انسان کوخوداپنی کم علمی پرعمل کرنے سے روکاگیا ہے اہل علم سے پوچھ کر ان کی تقلید کا توحکم جابجاموجود ہے .

    ReplyDelete
  5. اگر اب بھی سمجھ میں نہ آیاہو تو دریافت کرسکتے ہیں

    ReplyDelete
  6. دوسرے سوال کا جواب نہیں دیا آپنے

    ReplyDelete
  7. اس کاجواب بھی وضاحت سے موجود ہے آپ پہلے سوال کے جواب کوغور سے پڑھ لیں

    ReplyDelete