https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Tuesday 15 June 2021

رشتہ داروں کے حقوق اورقطع رحمی پروعید

 آیاتِ قرآنی اور احادیث نبوی میں رشتہ ناتا اور قرابت داری کوجوڑنے کی فضیلت اور تاکید وارد ہوئی ہے، نیز اس کے توڑنے سے منع کیا گیا ہے، سورہٴ نساء میں دو جگہ اس سلسلہ میں حکم مذکور ہے۔

(۱) وَاتَّقُوا اللَّہَ الَّذِی تَسَاءَ لُونَ بِہِ وَالْأَرْحَامَ، ترجمہ: اور تم ڈرو اللہ تعالیٰ سے جن کے نام پر تم دوسروں سے اپنے حقوق طلب کرتے ہو اور ڈرو تم قرابت کے حقوق ضائع کرنے سے۔

(۲) وَاعْبُدُوا اللَّہَ وَلَا تُشْرِکُوا بِہِ شَیْئًا وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا وَبِذِی الْقُرْبَی الآیة․ ترجمہ: تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک مت ٹھہراوٴ اوروالدین کے ساتھ حسن سلوک کرو اور قرابت داروں کے ساتھ۔

نیز ایک تیسری آیت ہے إِنَّ اللَّہَ یَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِیتَاءِ ذِی الْقُرْبَی ترجمہ: اور اللہ تعالیٰ حکم فرماتے ہیں انصاف اور حسن سلوک کا اور رشتہ داروں کے حقوق ادا کرنے کا۔

اس میں رشتہ داروں کی حسب استطاعت مالی اور جانی خدمت بھی داخل ہے اور ان سے ملاقات اور خبرگیری بھی۔

احادیث شریف میں بھی صلہ رحمی پر بڑا زور دیا گیا ہے چنانچہ ارشاد نبوی ہے من أحب أن یبسط لہ فی رزقہ وأن ینسأ لہ فی أثرہ فلیصل رحمہ․ یعنی جس شخص کو یہ بات پسند ہو کہ اس کے رزق میں کشادگی پیدا ہو اور اس کی عمر دراز ہو تو اسے چاہیے کہ صلہ رحمی کرے۔

اس حدیث میں دو اہم فائدے معلوم ہوئے کہ آخرت کا ثواب تو ہے ہی دنیا میں بھی صلہ رحمی کا فائدہ یہ ہے کہ رزق کی تنگی دور ہوتی ہے اورعمر میں برکت ہوتی ہے۔

اس کے مقابلے میں قطع رحمی کے حق میں جو شدید ترین وعیدیں روایات حدیث میں مذکور ہیں اس کا اندازہ دو حدیثوں سے بخوبی ہوسکتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے (۱) لا یدخل الجنة قاطع یعنی جو آدمی حقوق قرابت کی رعایت نہیں کرتا وہ جنت میں نہیں جائے گا۔

(۲) لا تنزل الرحمة علی قوم فیہ قاطع رحم یعنی اس قوم پر اللہ تعالیٰ کی رحمت نہیں اترے گی جس میں کوئی قطع رحمی کرنے والا موجود ہو (معارف القرآن: ج۳ص۲۸۰)

حدیث میں عام مسلمان سے بات چیت سلام کلام بند کرنے کی مذمت وارد ہے کہ کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ دوسرے مسلمان سے تین دن سے زیادہ سلام کلام بند کرے

حدیث مبارک میں ہے:

"عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ثَلَاثٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ حَاسَبَهُ اللهُ حِسَابًا يَسِيرًا وَأَدْخَلَهُ الْجَنَّةَ بِرَحْمَتِهِ، قَالُوا: لِمَنْ يَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ: تُعْطِي مَنْ حَرَمَكَ، وَتَعْفُو عَمَّنْ ظَلَمَكَ، وَتَصِلُ مَنْ قَطَعَكَ. قَالَ: فَإِذَا فَعَلْتُ ذَلِكَ، فَمَا لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: أَنْ تُحَاسَبَ حِسَابًا يَسِيرًا وَيُدْخِلَكَ اللهُ الْجَنَّةَ بِرَحْمَتِهِ". (المستدرک علی الصحیحین للحاکم :۳۹۱۲)

ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:تین صفات ایسی ہیں کہ وہ جس شخص میں بھی ہوں اللہ تعالی اس سے آسان حساب لے گا اوراسے اپنی رحمت سے جنت میں داخل فرمائے گا ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! کن(صفات والوں ) کو؟ آپﷺنے فرمایا: جو تجھے محروم کرے تو اسے عطا کر،جو تُجھ پر ظلم کرے تو اسے معاف کر،اور جو تجھ سے (رشتہ داری اور تعلق) توڑے تو اس سے جوڑ۔ صحابی رضی اللہ عنہ نے عرض کی: یا رسول اللہ!اگر میں یہ کام کر لوں تو مجھے کیا ملے گا؟ آپﷺ نے فرمایا: تجھ سے حساب آسان لیا جائے گا اور تجھےا للہ تعالی اپنی رحمت سے جنت میں داخل فرما دے گا۔

اِس کے برخلاف رشتہ ناطہ کو توڑدینا اور رشتہ داری کا پاس ولحاظ نہ کرنا اللہ کے نزدیک حد درجہ مبغوض ہے۔ نبی اکرم ﷺنے اِرشاد فرمایا کہ " میدانِ محشر میں رحم (جو رشتہ داری کی بنیاد ہے) عرشِ خداوندی پکڑکر یہ کہے گا کہ جس نے مجھے (دُنیا میں) جوڑے رکھا آج اللہ تعالیٰ بھی اُسے جوڑے گا (یعنی اُس کے ساتھ انعام وکرم کا معاملہ ہوگا) اور جس نے مجھے (دُنیا میں) کاٹا آج اللہ تعالیٰ بھی اُسے کاٹ کر رکھ دے گا (یعنی اُس کو عذاب ہوگا)"۔ (بخاری ٥٩٨٩، مسلم ٢٥٥٥، الترغیب والترہیب ٣٨٣٢)

نیز احادیث سے یہ بھی ثابت ہے کہ دُنیا میں بالخصوص دو گناہ ایسے شدید تر ہیں جن کی سزا نہ صرف یہ کہ آخرت میں ہوگی، بلکہ دُنیا میں بھی پیشگی سزا کا ہونا بجا ہے: ایک ظلم، دُوسرے قطع رحمی۔ (ابن ماجہ ٤٢١١، ترمذی ٢٥١١، الترغیب ٣٨٤٨)

ہمارے معاشرے میں قطع رحمی بڑھتی جارہی ہے، اچھے دین دار لوگ بھی رشتہ داروں کے حقوق کا خیال نہیں کرتے۔ جب کہ رشتہ داروں کے شریعت میں بہت سے حقوق بتائے گئے ہیں۔

”فَاٰتِ ذَا الْقُرْبیٰ حَقَّه وَالْمِسْکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ ذٰلِکَ خَیْرٌ لِّـلَّذِیْنَ یُرِیْدُوْنَ وَجْهَ اللهِ وَاُولٰئِکَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ“. (الروم:۳۵)
ترجمہ:․․․”سو (اے مخاطب) تو قرابت دار کو اس کا حق دیا کر اور (اسی طرح) مسکین اور مسافر کو۔ ان لوگوں کے حق میں بہتر ہے جو اللہ کی رضا کے طالب رہتے ہیں اور یہی لوگ تو فلاح پانے والے ہیں“۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
”خلق الله الخلق، فلما فرغ منه قامت الرحم، فأخذت بحقوي الرحمان، فقال: مه؟ قالت: هذا مقام العائذ بک من القطیعة، قال: ألا ترضین أن أصل من وصلک، وأقطع من قطعک؟ قالت:بلیٰ یا رب! قال فذاک. متفق علیه.“ (مشکوٰة:۴۱۹)
ترجمہ:․․․”اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کو پیدا کیا یعنی اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات کو ان کی پیدائش سے پہلے ہی ان صورتوں کے ساتھ اپنے علم ازلی میں مقدر کردیا جن پر وہ پیدا ہوں گی، جب اس سے فارغ ہوا تو رحم یعنی رشتہ ناتا کھڑا ہوا، پروردگار نے فرمایا: کہہ کیا چاہتا ہے؟ رحم نے عرض کیا:یہ قطع رحمی کے خوف سے تیری پناہ کے طلب گار کے کھڑے ہونے کی جگہ ہے (یعنی کہ میں تیرے رو برو کھڑا ہوں اور تیرے دامنِ عزت وعظمت کی طرف دستِ سوال دراز کیے ہوئے ہوں، تجھ سے اس امر کی پناہ چاہتاہوں کہ کوئی شخص مجھ کو کاٹ دے اور میرے دامن کو جوڑنے کے بجائے اس کو تار تار کردے)پروردگار نے فرمایا: کیا تو اس پر راضی نہیں ہے جو شخص (رشتہ داری اور عزیزوں کے ساتھ حسنِ سلوک کے ذریعہ) تجھ کو قائم وبرقرار رکھے اور اس کو میں بھی اپنے احسان وانعام اور اجر وبخشش کے ذریعہ قائم وبرقرار رکھوں اور جو شخص رشتہ داری اور حقوق کی پامالی کے ذریعہ تجھ کو منقطع کردے، میں بھی (اپنے احسان وانعام) کا تعلق اس سے منقطع کرلوں؟ رحم نے عرض کیا کہ: پروردگار! بے شک میں اس پر راضی ہوں، پرووردگار نے فرمایا: اچھا تو وعدہ تیرے لیے  ثابت وبرقرار ہے“۔
”عن عبد الرحمان بن عوف قال: سمعت رسول الله ﷺ یقول: قال الله تبارک وتعالی: ”أنا الله“ و’’أنا الرحمان‘‘، خلقت الرحم وشققت لها من اسمي، فمن وصلها وصلته ومن قطعها بتته“. (ابوداود‘ مشکوٰة:۴۲۰)
ترجمہ:․․․”حضرت عبد الرحمن بن عوف کہتے ہیں کہ میں نے رسولِ اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ بزرگ وبرتر ارشاد فرماتاہے کہ میں اللہ ہوں ، میں رحمان ہوں (یعنی صفتِ رحمت کے ساتھ متصف ہوں) میں نے رحم یعنی رشتے ناتے کو پیدا کیا ہے اور اس کے نام کو اپنے نام یعنی رحمٰن کے لفظ سے نکالا ہے، لہذا جو شخص رحم کو جوڑے گا یعنی رشتہ ناتاکے حقوق ادا کرے گا تو میں بھی اس کو (اپنی رحمتِ خاص کے ساتھ) جوڑوں گا اور جو شخص رحم کو توڑے گا یعنی رشتے ناتے کے حقوق ادا نہیں کرے گا میں بھی اس کو (اپنی رحمت خاص سے) جدا کردوں گا“۔
حدیث میں ہے:
”عن أنس  قال: قال رسول الله ﷺ من أحب أن یبسط له في رزقه وینسأ له في أثر فلیصل رحمه. متفق علیه.“ (مشکوٰة:۴۱۹)
ترجمہ:․․․”حضرت انس فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا :جو شخص چاہتاہے کہ اس کے رزق میں وسعت وفراخی اور اس کی اجل میں تاخیر کی جائے (یعنی اس کی عمر دراز ہو) تو اس کو چاہیے کہ وہ رشتہ داروں کے ساتھ حسنِ سلوک اور احسان کرے“۔

حدیث شریف کی علمی تحقیق کچھ بھی ہو،  تاہم اتنی بات یقینی ہے کہ وسعتِ رزق اور درازیٔ عمر کے جملہ اسباب میں صلہ رحمی اور رشتے ناتے کے حقوق کی ادائیگی ایک یقینی سبب ہے جس کو ادا کرکے اپنے رزق اور عمر میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔

قطعی رحمی کی سزا دنیا وآخرت میں

حدیث میں ہے:
۱-”عن جبیر بن مطعم قال: قال رسول الله ﷺ لایدخل الجنة قاطع. متفق علیه.“ (مشکوٰة:۴۱۹)
ترجمہ:․․․”حضرت جبیر بن مطعم کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا : قطع رحمی کرنے والا جنت میں داخل نہ ہوگا“۔
۲-”عن أبي بکرة قال: قال رسول الله ﷺ ما من ذنب أحریٰ أن یعجل الله لصاحبه العقوبة في الدنیا مع ما یدخرله في الآخرة من البغي وقطیعة الرحم“. (أبوداود وترمذي ، مشکوٰة:۴۲۰)
ترجمہ:․․․”حضرت ابوبکرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کوئی گناہ اس بات کے زیادہ لائق نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کا ارتکاب کرنے والے کو دنیا میں بھی اس کی سزا دے اور (مرتکب کو) آخرت میں بھی دینے کے لیے (اس سزا) کو اٹھا رکھے، ہاں دوگناہ اس بات کے لائق ہیں: ایک تو  زنا کرنا اور دوسرا ناتا توڑنا“


5 comments:

  1. لیکن میرا اختلاف ہے اس پر میں ضروری نہیں سمجھتا

    ReplyDelete
  2. بات چیت بند کرنا گناہ ہے اختلاف رائے گناہ نہیں حسد بغض. کینہ رکھنا گناہ ہے.

    ReplyDelete
  3. ایسے لوگوں سے بات چیت کرنے کا کیا فائدہ ؟؟

    ReplyDelete
  4. اور کینہ بغض وغیرہ یہ تو بہت بری چیزوں میں سے ہیں

    ReplyDelete