https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Sunday 9 January 2022

تین طلاق کوایک سمجھنا

 واضح رہے کہ قرآنِ کریم، اَحادیثِ  مبارکہ، اَقوالِ  صحابہ کرام اور  چاروں ائمہ کرام کے نزدیک اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے  یا علیحدہ علیحدہ مجلس میں تین طلاقیں دے، یاتحریر ی طلاقنامے ارسال کردے  بہر صورت تین طلاقیں واقع ہو جاتی ہیں، بیوی اپنے شوہر پر حرمتِ  مغلظہ کے ساتھ حرام ہوجاتی  ہے اور  دوبارہ نکاح کی گنجائش نہیں رہتی ۔ 

لہذا جب کسی  نے تین طلاق والے طلاق نامہ پر دستخط کردیے یاایک ایک ماہ کے فاصلے سے اپنی بیوی کو تین طلاق نامے ارسال کردیئے تو اس سے  اس کی بیوی  حرمت ِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہو گئی  اور نکاح ختم ہو گیا ، اس کے بعد  دوبارہ رجوع کرنا جائز نہیں ہے۔

مطلقہ اپنی عدت (پوری تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو اور اگر حمل ہو تو بچے کی پیدائش تک)گزار کر دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے۔     

            ہاں البتہ عدت گزارنے کے بعد  اگر مطلقہ  کسی دوسرے شخص سے نکاح کرے اور وہ اس سے صحبت (ہم بستری ) کر لے  اس کے بعد وہ دوسرا شخص اس  کو طلاق دے دے یا اس کا انتقال ہو جائے تو اس کی عدت گزار کر اپنے پہلے شوہر(سائل) سے دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"و ذهب جمهور الصحابة والتابعين ومن بعدهم من أئمة المسلمين إلى أنه يقع ثلاث."

(کتاب الطلاق، ص/233، ج/3، ط/سعید)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"و إن کان الطلاق ثلاثًا في الحرۃ و ثنتین في الأمة، لم تحلّ له حتی تنکح زوجًا غیرہ نکاحًا صحیحًا، و یدخل بها، ثمّ یطلّقها أو یموت عنها."

(الباب السادس في الرجعة، فصل فیما تحلّ به المطلقة، کتاب الطلاق، ص:۴۷۳  المجلد الأوّل، مکتبه رشیدیه)

سنن ابي داؤد ميں هے:

"عن ابن شهاب عن سهل بن سعد في هذا الخبر قال: فطلقا ثلاث تطليقات عند رسول الله صلي الله عليه وسلم، فأنفذه رسول الله صلي الله عليه وسلم."

(باب فی اللعان، ص/324، ج/1، ط/رحمانیہ) 

صورتِ  مسئولہ میں مطلقہ یعنی  سائل کی بیوی پر سائل کے گھر میں ہی عدت گزارنا واجب ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وتعتدان) أي معتدة طلاق وموت (في بيت وجبت فيه) ولا يخرجان منه (إلا أن تخرج أو يتهدم المنزل، أو تخاف) انهدامه، أو (تلف مالها، أو لا تجد كراء البيت) ونحو ذلك من الضرورات فتخرج لأقرب موضع إليه."

(فصل فی الحداد، ص/536، 537، ج/3، ط/سعید)

No comments:

Post a Comment