https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Sunday 9 January 2022

طلاق کے لیے گواہ ضروری نہیں

 واضح رہے کہ طلاق کے لیے گواہ بنانا مستحب تو ہے؛ تاکہ فریقین بعد میں جھوٹا دعویٰ  نہ کرسکیں، تاہم گواہ بنائے بغیر بھی اگر  کوئی  طلاق دے تو  طلاق واقع ہوجاتی ہے، طلاق واقع هونے كے ليے گواهوں كي موجودگي ضروری نہیں ہے  ؛ حضور ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانے میں طلاق کے کئی واقعات پیش آئے جن میں بغیر گواہی کے طلاق کا اعتبار کیا گیا، اگر طلاق میں گواہی یا دوسروں کا سننا ضروری ہوتا تو گواہ ضرور طلب کیے جاتے، ورنہ کم از کم اعتراف کے موقع پر مکرر اعتراف کروایا جاتا۔ نیز اس طرح کے معاملات میں جہاں گواہی کی ضرورت ہوتی ہے، وہاں دو مردوں یا ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی قبول  کی جاتی ہے، نہ کہ تین گواہ۔

لہذا صورتِ  مسئولہ میں  اگر آپ  کی بہن کے شوہر نے اپنی بیوی کو واقعتًا  تین مرتبہ یہ جملہ کہا ہے کہ  ” میں تجھے طلاق دیتا ہوں“ اور شوہر نے اس کا اعتراف بھی کرتا ہے تو  آپ کی بہن پر تینوں طلاقیں واقع ہوگئی  ہیں،  دونوں کا  نکاح ختم ہوگیا ہے، اب شوہر کے لیے بیوی سے رجوع کرنا اوریا دوبارہ نکاح کرنا جائز نہیں ہے۔

آپ کی بہن عدت (  یعنی تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو، اور حمل ہونے صورت میں بچہ کی ولادت  تک) گزار کر دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوگی۔

تفسیرالقرطبی میں ہے:

"قوله تعالى: {وأشهدوا} أمر بالإشهاد على الطلاق. وقيل: على الرجعة. والظاهر رجوعه إلى الرجعة لا إلى الطلاق. فإن راجع من غير إشهاد ففي صحة الرجعة قولان للفقهاء. وقيل: المعنى وأشهدوا عند الرجعة والفرقة جميعاً. وهذا الإشهاد مندوب إليه عند أبي حنيفة، كقوله تعالى: {وأشهدوا إذا تبايعتم} [البقرة: 282] . وعند الشافعي واجب في الرجعة، مندوب إليه في الفرقة. وفائدة الإشهاد ألايقع بينهما التجاحد، وألايتهم في إمساكها، و لئلايموت أحدهما فيدعي الباقي ثبوت الزوجية". 

(18 / 157، سورۃ الطلاق، ط؛ الھیۃ المصریۃ العامہ لکتاب)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله - عز وجل - {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: 230] ، وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة."

(3/187، فصل في حكم الطلاق البائن، کتاب الطلاق، ط؛ سعید)

No comments:

Post a Comment