https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Friday 4 February 2022

اسلام میں اجتماعیت کی اہمیت

 1حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''ایسے تین آدمیوں کیلئے جو کسی بیابان میں ہوں، جائز صرف یہ بات ہے کہ وہ اپنے میں سے ایک کو اپنا امیر بنا کر رہیں'' (منتفی ، ص330)۔ 

یہ ارشاد نبویؐ کہتا ہے کہ اگر تین مسلمان بھی کسی جگہ ہوں حتیٰ کہ اگر وہ کسی الگ تھلگ مقام پر اور سنسان وبیابان ہی میں کیوں نہ آباد ہوں، تو بھی ضروری ہے کہ ان میں سے ایک ان کا امیر ہو اور باقی دو اس کے مامور و ماتحت ہوں۔ اس اجتماعیت اور تنظیم کے بلکہ یوں کہئے کہ اس ننھے سے ''ریاستی نظم'' کے بغیر ان کی زندگی اسلامی زندگی نہ ہوگی۔ 
(2 حضرت ابو سعید خدریؓ بیان کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ''جب تم میں سے تین آدمی (بھی) سفر کیلئے نکلیں تو چاہئے کہ ایک کو اپنا امیر بنالیں'' (ابو داؤد، جلد 1، ص 351)۔ 
یعنی مسلمان کیلئے ہدایت ہے کہ مدتِ سفر جیسا عارضی وقت بھی نظم و امر کے بغیر نہ گزارے۔ اگر تین اشخاص بھی ایک ساتھ سفر کر رہے ہوں تو مزاج اسلامی کے سراسر اخلاف ہوگا اگر انھوں نے اپنے میں سے ایک کو اپنا امیر سفر نہ بنا لیا ہو اور اس کی سرکردگی میں وہ یہ سفر نہ کر رہے ہوں۔ 
(3 حضرت ابو ثعلبہ خشنیؓ کہتے ہیں کہ لوگوں کی عادت تھی کہ سفر کے دوران جب کہیں پڑاؤ ڈالتے تو ادھر ادھر پھیل جاتے اور اپنی اپنی پسند کی مختلف جگہیں ٹھہرنے کیلئے منتخب کرلیتے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار یہ صورتِ حال دیکھی تو سرزنش کرتے ہوئے فرمایا: ''تمہارا اس طرح مختلف گھاٹیوں اور میدانوں میں منتشر ہو رہنا صرف شیطان کی وجہ سے ہے'' (ابو داؤد، جلد اول، ص354)۔ 
اس تنبیہ کا نتیجہ یہ ہوا کہ ''لوگ پھر کبھی اس طرح منتشر نہ ہوئے اور جب کسی جگہ پڑاؤ ڈالتے تو ایک دوسرے سے بالکل لگ کر ٹھہرتے، حتیٰ کہ خیال ہوتا اگر انھیں ڈھکا جائے تو ایک ہی کپڑے کے نیچے سب آجائیں گے۔ 
معلوم ہوا کہ بغیر کسی جماعتی نظم کے پورا سفر کر ڈالنا تو درکنار ، اس کے دوران چند گھنٹوں کا کوئی پڑاؤ بھی اگر اپنے اپنے طور پر کرلیا جائے اور اتنی سی دیر کی بھی زندگی شانِ اجتماعیت سے آراستہ دکھائی نہ دے سکے تو یہ بات بھی اسلام کو قطعی گوارا نہیں اور اسے وہ شیطان کی پیروی قرار دیتا ہے۔ 
(4 ایک صحابیؓ کسی گھاٹی سے گزر رہے تھے، وہاں انھیں میٹھے پانی کا ایک چشمہ نظر آیا جس نے انھیں اپنا گرویدہ بنالیا۔ دل نے کہا کاش میں آبادی چھوڑ کر یہیں آبستا۔ اس خواہش کو لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حضورپہنچے اور اجازت طلب کی تو آپؐ نے فرمایا ''نہیں ایسا نہ کرو، کیونکہ اللہ کی راہ میں تمہارا کھڑا رہنا گھر کے اندر پڑھی جانے والی تمہاری ستر برس کی نمازوں سے بھی افضل ہے''(ترمذی، جلد اول)۔ 
یہ حدیث اس حقیقت کی عکاس ہے کہ اجتماعی زندگی کو چھوڑ کر تنہائی کی زندگی گزارنے میں چاہے جو بھی دینی اور دنیوی فوائد نظر آتے ہوں لیکن اسلام اپنے پیروؤں کو ادھر جانے اور اجتماع سے کٹ کر رہنے کی اجازت نہیں دیتا، کیونکہ یہ دینی اور دنیوی فوائد خواہ کتنے ہی عظیم کیوں نہ ہوں مگر ان فائدوں کے مقابلے میں بالکل ہیچ ہیں جو ایک منظم اسلامی معاشرے کے اندر ایک مسلمان کو حاصل ہوسکتے ہیں۔ 
غور کیجئے ؛ سفر اور حضر سے متعلق یہ مختلف دینی ہدایتیں اسلامی نظام فکر و عمل میں اجتماعیت کی ضرورت و اہمیت کو کہاں سے کہاں پہنچا دیتی ہیں!

No comments:

Post a Comment