https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Thursday 2 May 2024

عقیقہ کب کرنا سنت ہے

 بچے کی پیدائش پر شکرانہ کے طور پر جو قربانی کی جاتی ہے اسے ’’عقیقہ‘‘ کہتے ہیں،عقیقہ کرنا سنت نہیں، بلکہ مستحب ہے، عقیقہ کا مستحب وقت یہ ہے کہ پیدائش کے ساتویں دن عقیقہ کرے، اگر ساتویں دن عقیقہ نہ کرسکے تو چودھویں (14)  دن ، ورنہ اکیسویں (۲۱) دن کرے،  اس کے بعد عقیقہ کرنا مباح ہے،اگر کرلے تو ادا ہوجاتا ہے،  تاہم جب بھی عقیقہ کرے بہتر یہ ہے کہ پیدائش کے دن  کے حساب سے ساتویں دن کرے۔

المستدرک  میں ہے: 

’’عن عطاء، عن أم كرز، وأبي كرز، قالا: نذرت امرأة من آل عبد الرحمن بن أبي بكر إن ولدت امرأة عبد الرحمن نحرنا جزوراً، فقالت عائشة رضي الله عنها: «لا بل السنة أفضل عن الغلام شاتان مكافئتان، وعن الجارية شاة تقطع جدولاً، ولايكسر لها عظم فيأكل ويطعم ويتصدق، وليكن ذاك يوم السابع، فإن لم يكن ففي أربعة عشر، فإن لم يكن ففي إحدى وعشرين». هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه".  ( المستدرک علی الصحیحین للحاکم(4/ 266) رقم الحدیث: 7595،  کتاب الذبائح، ط: دار الكتب العلمية – بيروت)

اعلاء السنن میں ہے:

’’ أنها إن لم تذبح في السابع ذبحت في الرابع عشر، وإلا ففي الحادي والعشرین، ثم هکذا في الأسابیع‘‘. (17/117، باب العقیقہ، ط: ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ

علامہ نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"کیا ولادت کا دن سات دنوں میں شمار ہو گا؟ تو اس میں دو موقف ہیں، جن میں سے صحیح ترین موقف یہ ہے کہ اس دن کو شمار کیا جائے لہذا ولادت کے بعد چھٹے دن عقیقہ کیا جائے گا۔
دوسرا موقف یہ ہے کہ ولادت والا دن شمار نہیں کیا جائے گا، چنانچہ ولادت کے بعد ساتویں دن عقیقہ کیا جائے گا۔ یہی موقف بویطی میں صراحت کے ساتھ منقول ہے۔ لیکن پہلا موقف احادیث کے قریب تر محسوس ہوتا ہے۔ البتہ اگر بچے کی پیدائش رات کے وقت ہو تو پھر متفقہ طور پر رات آئندہ دن میں شمار ہو گی ، اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔۔۔" ختم شد
ماخوذ از: "المجموع" (8/411)

اسی طرح "الموسوعة الفقهية" (30/279) میں ہے کہ:
"جمہور فقہائے کرام اس بات کے قائل ہیں کہ پیدائش کا دن سات دنوں میں شمار کیا جائے گا، لیکن رات کے وقت پیدائش ہو تو رات شمار نہیں ہو گی، بلکہ آئندہ دن شمار ہو گا۔" ختم شد

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان : (ساتویں دن عقیقہ ذبح کیا جائے گا۔) کا مطلب یہ ہے کہ ساتویں دن عقیقہ کرنا مسنون ہے، چنانچہ اگر بچے کی پیدائش ہفتے کو ہوئی ہے تو جمعہ کے دن عقیقہ کیا جائے یعنی : اصول یہ ہے کہ: جس دن پیدائش ہوئی ہے آئندہ ہفتے میں اس سے ایک دن پہلے ۔ لہذا اگر جمعرات کو پیدائش ہوئی ہے تو بدھ کو عقیقہ ساتویں دن ہو گا۔ اسی طرح دیگر دنوں کا معاملہ ہو گا۔" ختم شد
"الشرح الممتع"(7/493)

اس لیے سنت یہ ہے کہ آپ اپنے بچے کا عقیقہ بدھ کے دن کریں۔

سوم:
یہ بات کہ اگر بچے کی پیدائش زوال کے بعد ہو تو وہ دن شمار نہیں کیا جائے گا۔ یہ کچھ اہل علم رحمہم اللہ سے منقول ہے۔ بلکہ ان کا موقف یہ ہے کہ پیدائش کا دن سرے سے ہی شمار نہیں ہو گا، چاہے بچے کی پیدائش زوال سے پہلے ہو یا بعد میں اس دن کو شمار ہی نہیں کیا جائے گا، یہ مالکی فقہائے کرام کا موقف ہے۔

جیسے کہ "مختصر خلیل" میں ہے کہ: "مستحب ہے کہ قربانی کے لائق ایک جانور دن میں پیدائش ہونے کی صورت میں ساتویں دن ذبح کیا جائے گا۔ اور اگر پیدائش فجر سے پہلے ہو تو وہ دن شمار نہیں ہو گا۔"

علامہ مواق رحمہ اللہ ابن رشد سے بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:
"ابن القاسم نے امام مالک سے روایت کی ہے جو کہ مدونہ وغیرہ میں موجود ہے کہ: اگر بچہ فجر کے بعد پیدا ہو تو یہ دن شمار نہیں ہو گا، آئندہ دن سے سات دن شمار کیے جائیں گے، اور اگر فجر سے پہلے پیدائش رات کے وقت ہو تو پھر دن شمار کیا جائے گا۔" ختم شد
"التاج والإكليل"(4/390)

صحیح موقف جمہور اہل علم کا ہے کہ عقیقہ ولادت سے ساتویں دن ذبح کیا جائے گا اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (ساتویں دن مولود کی طرف سے عقیقہ ذبح کیا جائے گا۔)

الشیخ محمد بن محمد الختار شنقیطی حفظہ اللہ کہتے ہیں:
"[حدیث کے عربی الفاظ "يوم سابعه" میں] مرکب اضافی اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ حکم مضاف الیہ کے ساتھ مقید ہو۔ تو مطلب یہ ہوا کہ: ساتواں دن بچے کی پیدائش کے دن کی طرف مضاف ہے، اس بنا پر ولادت کا دن ساتواں دن ہو گا۔" ختم شد

یہاں مسئلہ صرف استحباب کا ہے، چنانچہ اگر ولادت سے ساتویں دن عقیقہ میسر ہو تو ذبح کر دیا جائے یہ اچھا عمل ہے، اور اگر ساتویں دن کے گزرنے کے بعد ہی میسر ہو تو تب بھی عقیقہ کر دے یہ کافی ہو گا۔


No comments:

Post a Comment